فتنہ ارتداد: اسباب و علاج

فکر جمیل
مولانا جمیل احمد قاسمی
مدھوبنی بہار
ان دنوں ہمارے ملک ہندوستان میں اسلام مخالف آندھی چل رہی ہے، مسلمانوں کو اپنے دینی شعائر ،ملی تشخص ،عقیدہ توحید ورسالت ،یہاں تک کہ انسانی بنیادی حقوق تک سے بھی محروم کر کے، دوسرے درجے کا شہری بنا دینے کی سازش کی جا رہی ہے ،کبھی قرآن پر حملہ ،کبھی آذان اور مسجد مدرسے پر حملہ ،کبھی کبھی نقاب اور حجاب پر حملہ ،کبھی گائے کے نام پر ہجومی تشدد ،کبھی کھان پان کے نام پر لنچنگ ،کبھی لو جہاد کا مفروضہ ،کبھی لینڈ جہاد ،کبھی یو پی ایس سی ،بی پی ایس سی جہاد ،کبھی تبلیغ جہاد ،کبھی تعلیم جہاد نہ جانے کتنے قسم کے جہاد کا مفروضہ کھڑا کر کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، نام نہاد مین اسٹریم میڈیا ،الیکٹرونک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور آئی ٹی سیل کی سوشل میڈیا طرح طرح کا مفروضہ ،طرح طرح کی جھوٹ پروس کر سنسنی خیزی وسراسیمی پیدا کیا جا رہا ہے مسلمانوں کو ہر چہار جانب سے ٹرول کیا جا رہا ہے ، ہر آن ہر لمحہ مسلمانوں کے خلاف میڈیا ٹرائل چلا کر مسلمانوں کی شبیہ بگاڑی جا رہی ہے اور مسلمان اپنا دفاع بھی نہیں کر پا رہے ہیں مسلمانوں کی حیثیت ایک مظلوم قوم کی سی ہوکر رہ گئی ہے، ان حالات میں اگر ہم نے اپنے مسائل خود حل نہیں کئے اور بر وقت صحیح فیصلے لیکر ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت نہیں دیا تو آنے والا وقت اور بھیانک ہو جائے گا اور ہم چاہ کے بھی کچھ نہیں کر پائینگے
مسلمانوں کے خلاف سب سے بڑی سازش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے خلاف ہو رہی سازشوں میں اب تک کی سب سے بڑی سازش ہندتو وادی تنظیموں کے ذریعے یہ کی جارہی ہے کہ انہوں نے کھلم کھلا اعلان کر دیا ہے کہ جو ہندو لڑکا مسلمان لڑکیوں سے شادی کر کے گھر واپسی کرائے گا، انہیں روزگار کے لئے دو لکھ روپے، رہائش کے لئے فلیٹ اور اس کے علاوہ ہر قسم کےتحفظ فراہم کئے جا ئینگے ،جس کے نتیجے میں آج ان کے بھیڑیے پاگل کتے کی طرح مسلم بچیوں کے پیچھے پڑگئے ہیں ،وہ بہلا پھسلاکر ،لالچ دیکر ،پیار محبت کے جال میں پھنسا کر طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنا کر مسلمان بچیوں سے شادی کر رہے ہیں اور اپنے آقاؤں سے داد و تحسین انعام و اکرام حاصل کررہے ہیں ، یوں تو مسلمان عورتوں کا غیر مسلم سے ، ہندو عورتوں کا مسلمان مردوں سے شادی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسا جدید اعلی یافتہ لوگوں،ہیرو ہیروئنوں اور بڑے کاروباریوں میں پہلے سے ہوتا آرہا ہے، جس میں اکثر پیار اور عشق کی کارفرمائی ہوا کرتی تھی، مگر آج جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلاں مسلم لڑکی فلاں ہندو دوست کے ساتھ بھاگ کر شادی کرلی ہے یا فلاں لڑکی اپنے ہندو کلاسمیٹ کے ساتھ کورٹ میرج کر لی،یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے، پھر جو مسلمان لڑکیوں میں ہندؤں سے شادی کرنے کی لہر آئی ہے سن کر دل چھلنی ہوکر رہ جاتا ہے، کیا امیر کیا غریب،کیا پڑھا لکھا کیا گنواڑ،کیا شہری کیا دیہاتی یہ ایسی آندھی آئی ہے جس نے مسلم معاشرے کے ہر طبقہ کو متاثر کر رکھا ہے، یہ خبر جب پرھی یا سنی جاتی ہیں دل چھلنی ہوکر رہ جاتا ہے، آنکھیں برس پڑتی ہیں ،اس کی سنگینی کو دیکھ کر کوئی ایسا مسلمان نہیں جو اپنے پہلو میں دل رکھتا ہو وہ فکر مند نہ ہو ،اور فکر مند کیونکر نہ ہو، ایک مومن کا ان کی آنکھوں کے سامنے کفر و ارتداد تک پہنچ جانا دوسرے مسلمان کیلئے کسی سانحہ و حادثہ سے کم نہیں، اس لیے نہیں کہ دو سماج کے درمیان جنگ و جدل اور خون ریزی کا سبب بھی ہو سکتا ہے بلکہ اس لئے کہ یہ مسلمانوں کی عزت کا سوال اور اسلام کی شوکت کا زوال ہے
مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے ایک بڑے اخبار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں چالیس ہزار مسلم لڑکیوں نے غیر مسلم لڑکوں سے شادی کر لی ہے، ملک نامور خدا ترس بزرگ جہاں دیدہ عالم دین مولانا منظور نعمانی کو ملی رپورٹ اور زیادہ ڈرانے والی ہے، یہ تعداد وہ ہے جو درج کی گئی ہیں’، ہزاروں کی تعداد ایسی بھی ہیں جو درج نہیں ہے، جسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے آر ایس ایس اور ان کی ذیلی تنظیموں کا منصوبہ کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس آندھی کو کیسے روکا جائے، آخر اس مرض کا علاج کیا ہے، اگر مسلمانوں نے اس فتنہ کا سد باب نہیں کیا تو عنقریب ہی اس ملک میں بہت برے دن دیکھنے کو ہمیں تیار رہنا چاہئے، ،جب ہم ارتداد کے اسباب وجوہات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں مندرجہ ذیل وجوہات کا پتہ چلتا ہے ، ہم کچھ بنیادی اسباب اور علاج آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں
دین سے دوری ،جہالت اور ضعف عقیدہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی مسلمان کا دین سے پھر جانے ،احکام اسلام کو نہیں ماننے ،یا کسی حکم شرعی سے انکار کر نے کو شریعت کی اصطلاح میں ارتداد کہا جاتا ہے، کوئی بھی مومن اسی وقت مرتد ہوتا ہے جب اس کے اندر اسلام کی جڑیں مضبوط نہ ہو ، وہ ایمان و یقین سے خالی ہو ،اسلامی تعلیم وتربیت ،عقیدہ توحید کمزور ہو ، اخلاق وکردار کی پاکیزگی کا فقدان ہو ،کفر وشرک کی نحوست سے لا علمی ہو ،جنت و جہنم کا واضح تصور راسخ نہ ہو، یہ وہ اصلی و بنیادی کمزوریاں ہیں جو ایک مومن کو کفر و ارتداد تک پہنچا دیتی ہیں ، انہیں کمزوریوں کے سبب لڑکیاں آسانی سے شیطانی حملے کا شکار بن جاتی ہیں، اور وقتی دوستی معمولی منفعت کے چکر میں آسانی سے مرتد ہو جاتی ہیں ،اسی نکتہ پر پہنچ کر ہم علماء دین کی کارکردگی اور فکر مندی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، اگر ہم نے عام مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کیا ہوتا اور اس فرض منصبی کو کو ایمانداری سے ادا کیا ہوتا جو اللہ نے ہمارے کندھوں پر رکھی ہے تو اتنی آسانی سے دشمنان دین سازش میں کامیاب نہیں ہو جاتے ، ابھی بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لیے تو بہت دیر ہو جائے گی، ہمارے پاس اسلام کی نعمت موجود ہے ہم اسلامی خطوط پر اپنے مرد و خواتین کی تربیت کی فکر کریں
بے پردگی و بے حیائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارتداد کا ایک اہم سبب بے پردگی و بے حیائی بھی ہے، جو ارتداد اور دین سے بے زاری کا موقعہ فراہم کرتی ہے، حیا ایمان کا اہم حصہ ہے، اگر انسان کے اندر حیا کی کارفرمائی نہ ہو پھر وہ جو چاہے کرے ، حیا کے بغیر انسان بے لگام ہو جاتا ہے ، جس طرح بغیر روح کے جسم کھڑا نہیں رہ سکتا اسی طرح بغیر حیا کے ایمان زندہ نہیں رہ سکتا اور حیا کی پہچان پردے سے ہوتی ہے، اس لیے اسلام میں پردے کو بڑی اہمیت دی گئ ہے ، یہاں تک کہ اسلام نے عبادات میں بھی عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، تو بھلا عام حالات میں بے پردگی کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے ، پردے کے اغراض و مقاصد میں حیا کو قائم رکھنا مقصود ہے، عورتوں کا پردہ کرنا فطری عمل بے ، بے پردگی نہ صرف اسلام سے بغاوت ہے بلکہ فطرت کے بھی خلاف ہے ، عورتیں زیب و زینت کی نمائش کرتی ہیں، اپنے جسم کے نشیب و فراز کو نہیں چھپا تی ہیں اس کا مطلب ہے وہ اپنے جنس مخالف کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں، اس کا مخالف جنس مسلم بھی ہوسکتا ہے غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے، یہ بے حیائی بے پردگی کا فتنہ، ارتداد کے فتنے میں بدل سکتا ہے، اس لیئے ہمیں اپنی بہو بیٹیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق پردے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ وہ کسی فتنے کا شکار نہ ہوں
مخلوط نظام تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعلیم خواہ دینی ہو یا عصری اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، ہم لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے مخالف نہیں ہیں، مگر اسلام اس کی اسی حد تک اجازت دیتا ہے جب تک دین و ایمان پر اس کا اثر نہیں پڑتا ہو، ایسے ڈاکٹر انجینئر وکیل اور پروفیسر بننے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا جسس کی قیمت ایمان اسلام ، عزت و آبرو کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہو ، آج ہمارے معاشرے کی لڑکیوں میں جدید اعلی تعلیم کا زور شور چل رہا ہے، اسکول کالج کوچنگ جانے کا ہور مچا ہوا ہے، جسکو دیکھو الگ الگ انسٹیٹیوٹ کی طرف بھاگ رہی ہیں، کیا ماں باپ نہیں جانتے جہاں یہ بچیاں پڑھنے جاتی ہیں اکثر مقامات پر لڑکا لڑکی ہندو مسلمان سب ایک ساتھ پڑھتے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے جلتے ، ہنسی مذاق کرتے ہیں، بے پردگی بے تکلفی کا ماحول ہوتا ہے، عمر کے تقاضے سر چڑھ کر بول رہے ہو تے ہیں، ایسے میں غلطیوں کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جو لڑکے لڑکیاں پڑھائی کے نام پر نکلتی ہیں وہ پارکوں بازاروں اور شاپنگ مولوں میں ، گھومتی پھرتی رنگ رلیاں مناتی دیکھی جا سکتی ہیں، اس وقت ماں باپ کی غیرتِ ایمانی، وقار خاندانی دفن ہوجاتی ہے، اگر یہی لڑکیاں اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ کر اپنی عزت و آبرو گواں بیٹھتی ہیں، تو انکے غیرت ایمانی عزت نفس کو جلال آجاتا ہے، جب تک یہ بچیاں پیار کے نشے میں اس قدر چور ہوبجاتی ہیں کہ وہ اپنے ماں باپ سماج سے نہ صرف بغاوت پر تل جاتی ہیں، بلکہ اپنے دین ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، اس لیئے جو ماں باپ اپنی بچیوں کو مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں ان کی ذمےداری ہے کہ وہ اپنی بچیوں سے پل بھر کیلئے غافل نہ رہے، اس کے آنے جانے لوگوں سے ملنے جلنے دوستی کرنے پر کڑی نگرانی رکھے، اگر ماں باپ نگرانی نہیں رکھ پاتے ہیں تو ہرگز اپنی بچیوں کو باہر نہیں بھیجے ، وہ گھر میں رہ کر پڑھ سکتی ہیں، اب تو اتنی سہولتیں مہیا ہیں کہ بچیاں اپنے گھر میں رہ کر ورچول طور پر یا کورسپنڈنس کے ذریعے گھر بیٹھے اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، سارے کورسز گھر بیٹھے دستیاب ہیں
اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل موبائل فون خرید کر بچے اور بچیوں دینا عام فیشن ہو گیا ہے ، لوگ انجام سے بے خبر اسے شان و شوکت اور فخر کی بات سمجھ رہے ہیں ، جب کہ انہیں معلوم ہونا چاہئے انٹرنیٹ جہاں بچوں کی تعلیم میں معاون ہے وہیں اگر اس کا غلط استعمال ہوا تو زہر قاتل بھی ہے، دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں جو اس موبائل میں جمع نہیں کر دی گئی ہو، اگر ماں باپ نے بچوں کو پڑھنے کے لئے فون دیا ہے تو وہ جان لیں جس طرح مخلوط تعلیم میں بچوں کی نگرانی ضروری ہے، اسی طرح موبائل سے بھی بچوں کی نگرانی ضروری ہے، پڑھنے کے لئے بچوں کو ٹائم ٹیبل کے مطابق موبائل دینا چاہیے ، تخلیہ میں انہیں موبائل پر ہرگز کام کر نے کی اجازت نہیں دی جا نی چاہیے ،سونے جائے تو بچوں سے مبائل جمع کرالیں ،وہ کس سے باتیں کر رہے ہیں، کیا میسیجز آجا رہے ہیں آگاہ رہیں، اسکے فیسبک واٹشاپ اکاؤنٹ کو چیک کرتے رہیں، کسی طرح کا پرسنل لاک ہرگز نہیں لکانے دیں، اگر آپ کو فون کی نگرانی نہیں آتی تو بچیوں کو موبائل ہرگز نہ دیں ، ایسی پڑھائی سے بہتر ہے کہ وہ ان پڑھ رہیں اور کام کاج میں ہاتھ بٹائیں
میلہ ٹھیلہ اور دوستوں کی پارٹیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر دیکھا جا رہا ہے کہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں میلوں ٹھیلوں بازاروں میں گھومتی نظر آجاتی ہیں، خاص کر ہندوؤں کے تہوار درگا پوجا اندر پوجا کے میلوں میں مسلمان لڑکیاں کثیر تعداد میں گھومتی نظر آجاتی ہیں، جبکہ وہاں اکثر بیشتر ان کے ساتھ حادثے بھی ہوتے رہتے ہیں، اس کے باوجود عاقبت نااندیش ماں باپ اپنی بچیوں کو قابو میں نہیں رکھتے بلکہ میلہ کی زینت بننے گپ شپ لڑانے، ہوٹلوں میں جانے کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں، نتیجتاً کئ بار میلوں سے لڑکیاں غائب ہوجاتی ہیں ، کئ بار ہندو مسلمان فسادات تک ہو جاتے ہیں، اگر مسلمان ان میلوں سے کنارہ کش ہو جائے تو یہ کمبخت بھوکے مر جائیں، میلہ کا رنگ پھیکا پڑ جائے، مگر مسلمان بچے بچیوں کو کون کنٹرول کرے، ماں باپ نے تو میلوں بازاروں کی زینت بننے کے لئے انہیں آزاد چھوڑ دیا ہے، آج کل نیا فیشن یہ چلا ہے کہ مسلم لڑکیاں اب بیوٹی جاتی ہیں اور طرح طرح کی نہ صرف پارٹی میں حصہ لے رہی ہیں، بلکہ اپنے دوستوں کے ساتھ ناچتی تھرکتی بھی ہیں، جو سراسر دین کا مذاق ہے ، اسے دھیرے دھیرے غلط صحبت دین سے بے زار کر دیتی ہے
غربت ،مجبوری اور نکاح میں دیری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں ہے کہ ارتداد کے امکانات صرف پڑھے لکھے ماڈرن اور امیر کے بچوں ہی میں پایے جاتے ہیں، بلکہ اس کے امکانات گاؤں دیہات کھیت کھلیانوں اور کوٹھیوں میں جھاڑو پوچھا کرنے مالی بچیوں میں بھی اس کے امکانات موجود ہیں، ایک تو ان کی دینی تعلیم و تربیت نہیں ہوتی اوپر سے غربت انہیں ستا رہی ہوتی ہے، ہوش کے پجاری بھیڑیے اس کی غربت و مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، اور بچیاں آسانی سے غربت کی بھیٹ جڑھ جاتی ہیں ، وہ ایمان و یقین کمزور ہو نے کے سبب آسانی سے لالچ میں آجاتی ہیں اور کوئی درندہ اسانی سے اسکا شکار کر لیتا ہے, بسا اوقات بلوغت کے بعد شادی میں دیری بھی اس کی خاص وجہ بنتی ہے , غربت اور جہیز کی لعنت سے پریشان ماں باپ اپنی بچیوں کا نکاح وقت پر نہیں کر پاتے ہیں, ادھر جسم اور نفس کے تقاضے انہیں غلط قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں, اور یہ آسانی سے کفر ارتداد کا نوالہ بن جاتی ہیں
ہم سب کیلئے کرنے کا کام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے ارتداد کی وبا اس پیمانے پر پھیل چکی ہےکہ اس تیز آندھی کو روکنا کسی ایک فرد یا تنظیم کے بوتے کی بات نہیں ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ علماء ائمہ آگے آئیں اور ہر گاؤں محلہ کی سطح پر علماء کی نمایندگی میں ایک ایسی کمیٹی بنائیں, جو ایک طرف جمعہ کے خطبوں میں, چھوٹے چھوٹے اجتماعات کے ذریعے, انفرادی ملاقاتوں میں, دین سمجھائے عقیدہ کی درستگی، اخلاق کی پاکیزگی، مرد خواتین کو سمجھائے، دوسری طرف معاشرے کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی نقل و حرکت پر نگاہ بھی رکھے، اگر کچھ نظر آئے تو بر وقت اس کا تدارک کرے، ہر گاؤں محلے میں دین سکھانے والے علماء موجود ہوں، مسلم معاشرے کا کوئی بھی بچہ بغیر دین سیکھے اسکولوں میں عصری تعلیم کیلئے نہ جا سکے، بچے بچیاں جب تک منکرات سے بچنے اور معروفات پر چلنے کا عادی نہ بن جائے ہمیں غیروں کی صحبت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ، ہمیں اپنے بچے بچیوں کی ایسی بنیادی تعلیم و تربیت کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ جہاں بھی جائیں، حالات چاہے جیسے بھی ہوں، اپنے ایمان و عقیدہ سے ٹس سے مس نہ ہو سکے.
Comments are closed.