اسماعیل ہنیہ: کشادِ در دل ہلاکت نہیں ہے

ڈاکٹر سلیم خان
قائدِ مزاحمت اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یہ سوال ذہن میں ابھرا کہ کیا ’فرشتہ ہلاک ہوتا ہے؟‘پھر خیال آیا کہ فرشتہ صفت انسان تھے اور یہ آیت یاد آئی کہ :’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔ فلسطین سے ہر دن آنے والی شہادت کی خبریں مغموم تو کرتی ہیں مگر ’آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے‘۔ سورۂ رحمٰن میں تو یہ بھی ہے کہ: ’’ اس زمین پر جتنے ہیں سب فانی ہیں صرف رب کا چہرہ باقی ہے جو بزرگی اور انعام والا ہے‘‘۔ یعنی اللہ وحدہ لا شریک کے سوا جو کبھی فنا نہ ہو گا، جن، انسان سب مرنے والے ہیں۔ اسی طرح فرشتے اور حاملان عرش بھی مر جائیں گے ۔ صرف دوام اور بقاء والی اللہ وحدہ لا شریک کی ذاتِ والا صفات باقی رہ جائے گی۔ان فنا ہوجانے والی مخلوقات میں سے سے ایک اسماعیل ہنیہ بھی تھے جو بانیٔ تحریک شیخ یاسینؒ اور ان کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی ؒ کے نقش ِ قدم پر شہادت کی راہ پر جاتے جاتے یہ پیغام دے گئے کہ ؎
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقشِ کُہن ہو کہ نَو، منزِل آخر فنا
شہید اسماعیل ہنیہ کہا کرتے تھے: ’’ہم مسئلہ فلسطین کی ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں۔اس ذمہ داری کی ایک قیمت ہے، اور ہم ہر قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں۔ شہادت،فلسطین کی خاطر ، خدائے بزرگ و برتر کی خاطر اور قومی وقار کے لیے‘‘۔ اسماعیل ہنیہ کے غم میں نڈھال ہم جیسے لوگوں کو سیدنا علیؓ سے منسوب ایک روایت یاد آتی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’ نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعد ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ گویا کوئی آ رہا ہے ہمیں پاؤں کی چاپ سنائی دیتی تھی لیکن کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا تھا اس نے آ کر کہا اے اہل بیت! تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکت، ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے تم سب کو تمہارے اعمال کا بدلہ پورا پورا قیامت کے دن دیا جائے گا۔ ہر مصیبت کی تلافی اللہ کے پاس ہے، ہر مرنے والے کا بدلہ ہے اور ہر فوت ہونے والااپنی گمشدہ چیز کو پا لےگا۔اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اسی سے بھلی امیدیں رکھو سمجھ لو کہ سچ مچ مصیبت زدہ وہ شخص ہےجو ثواب سے محروم رہ جائے تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی ،اس کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہو ں‘‘۔ سیدنا علی ؓ کا خیال ہے کہ یہ خضر ؑ تھےلیکن ہمیں سمجھانے کے لیے تو وہ بھی نہیں آتے ۔خضرؑ کے روحانی دوست علامہ اقبال فرماتے ہیں؎
دم زندگی رَمِ زندگی، غم زندگی سَمِ زندگی غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ يہی ہے شان قلندری
یعنی سانسوں کا آنا اور جانا زندگی کےلمحات کو کم کرتا جاتا ہے۔ شانِ قلندری تو یہ ہے کہ زندگی کاغم کھانے کے بجائے مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیمِ خم کرکے راضی برضا رہا جائے ۔شہید اسماعیل ہنیہ کاا متیاز یہ ہے ان کے سامنے خاندان کے بیشتر افراد کو شہید کیا گیا ۔ان میں پوتے ،نواسے ، بیٹے اور بہن شامل تھے لیکن مرحوم کے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی جنبش نہیں آئی ۔ گزشتہ ماہ الشاطی کیمپ پر اسرائیلی بمباری میں اسماعیل ہنیہ کی بہن سمیت 13 فلسطینیوں نے جامِ شہادت نوش کیا ۔ اس سے قبل اپریل میں ہنیہ کے بیٹے حازم، امیر اور محمد سمیت متعدد پوتے عید الفطر کے دن بم دھماکے میں شہید ہو گئے ۔ پچھلے سال 21نومبر کو ان کے کے بڑے پوتے جمال محمد ہنیہ اسرائیلی بمباری میں شہید ہو ئے اور اس سے دس دن قبل ان کی پوتی، رؤا حمام شہید ہوگئی تھیں۔ شہیداسماعیل ہنیہ نے اپنی ہمشیرہ کی شہادت پر دشمن کو پیغام دیا تھا کہ خاندان کو نشانہ بنانے سے ان کا موقف تبدیل نہیں ہوگا۔
عزم و استقلال کے پیکرِ جمیل اسماعیل ہنیہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ” میری ہمشیرہ کی شہادت ہمارے عظیم لوگوں کے شہداء کے قافلے میں شامل ہونے والا ایک نیا وفد ہے۔ نو ماہ سے غزہ میں اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والے تمام فلسطینی میرے کنبے کا حصہ ہیں۔ اگر قابض دشمن سوچتا ہے کہ وہ طاقت کے اندھا دھند استعمال اور ہمارے خاندان کے قتل عام سے ہماراموقف تبدیل کردے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ غزہ اور فلسطین کا ہر شہید میرے خاندان اور میرے کنبے سے ہے‘‘۔ اس سنگین صورتحال میں حزن و یاس پر قابو پاکر انہوں نے کہا تھا کہ شہداء کا خون ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم سمجھوتہ نہ کریں، مفاہمت نہ کریں، اصولی موقف میں تبدیلی نہ لائیں، کمزوری یا مایوسی کا شکار نہ ہوں، بلکہ پورے عزم کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن رہیں۔ توکل علی اللہ کا مجسم نمونہ آج ہمارے بیچ سے رخصت ہوگیا اس لیے دل غمزدہ ہے۔ شہید اسماعیل ہنیہ اپنی تمام تر بے سروسامانی کے باوجود اس شعر کی مصداق تھے؎
تری خاک ميں ہے اگر شرر تو خيال فقر و غنا نہ کر کہ جہاں ميں نان شعير پر ہے مدارِ قوتِ حيدری
شہید اسماعیل ہنیہ کی خاک میں پوشیدہ زندگی کی چنگاری غربت و تونگری سے بے نیاز تھی ۔ علامہ اقبال اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مثال دیتے ہیں کہ وہ جو کی روٹی کھاتے تھے مگر ان کی قوت کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تھا ۔ یعنی ظاہری اسباب سے محروم ہونے کے باوجود وہ کفر کی آنکھوں کا کانٹا تھے اسی لیے ان کو گھات لگا کر بزدلانہ انداز میں شہید کردیا گیا۔ اس ہفتہ فلسطین کے حوالے ایک بہت بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ چین نے فلسطین کی تقریباً 18جماعتوں کو اپنے یہاں جمع کیا اور انہیں غزہ میں ایک مشترکہ قومی حکومت بنانے کے لیے راضی کرلیا ۔ اس سے اسرائیل اور امریکہ کے لیے بیک وقت دو پریشانیاں پیدا ہوگئیں۔اول تو یہ کہ چین پہلی مرتبہ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں براہِ راست ملوث ہوگیا اور دوسرے اس نے حماس کو بھی مخلوط حکومت میں شامل کرنے پر سب کو رضامند کرلیا۔
اسرائیل بارہا یہ اعلان کرچکا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں غزہ کا انتظام و انصرام حماس کے ہاتھوں میں نہیں جانے نہیں دے گا ۔ ایسے میں 23 جولائی کو ہونے والےمندرجہ بالا فیصلے سے اسرائیل کا بے چین ہوجانا فطری عمل تھا۔ اس کے بعد 25جولائی کو جب نیتن یاہو نے امریکہ دورہ کیا تو اسے بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ کانگریس میں خطاب کے دوران کئی ارکان نے شرکت سے اجتناب کیا مگر وہ وہاں سے حملوں کی اجازت لے کر لوٹا اور واپس آکر جنگ کی توسیع میں جٹ گیا۔ پہلا حملہ بیروت پر ہوا تاکہ حزب ا اللہ کو جنگ میں شامل کیا جائے اور دوسری حرکت اسماعیل ہنیہ پر شب میں دو بجے کیا جانے والا بزدلانہ حملہ تھاتاکہ معاہدۃٔ امن کو سبوتاژ کیا جاسکے ۔ اس میزائل حملے میں اسماعیل ہنیہ تو شہید ہوکر کامیاب ہوگئے کیونکہ ارشادِ ربانی ہے :’’ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو۔ وہ تو زندہ ہیں جو اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں‘‘۔ صابر ظفر نے کیا خوب کہا ہے؎
نہ انتظار کرو ان کا اے عزا دارو شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے
’حماس‘ کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے اسرائیلی سے انتقام کا جواز فراہم کردیا ہےاور اب جنگ نئی جہتوں میں منتقل ہوجائے گی۔ یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا اور ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے پورے خطے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔القسام بریگیڈ کے مطابق ہنیہ کا خون آزادی کے راستے کی شمع ثابت ہوگا۔ یہ حملہ چونکہ تہران میں ہوا اس لیے ایران کے رہبرِ معظم علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کو اس کی "سخت سزا” دے گا۔ان کا کہناہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینا ایران پر فرض ہے کیونکہ یہ شہادت سرزمینِ ایران پر ہوئی ہے۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اسرائیل کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ اسماعیل ہنیہ کے قتل پر اسرائیل پچھتائے گا۔ پاسداران انقلاب نے ایران اور محورِ مزاحمت کے ذریعہ اس جرم کا جواب دینے کی دھمکی دی ہے۔ یہ سب تو خیر ہوتا رہے گا لیکن اس صدمہ کا مداوہ تو بس علامہ اقبال کا وہ اشعار ہیں جن میں حیات انسانی کی ناپائیداری و بے ثباتی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سانس کے آنے جانے کو ہوا کی موج سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مشکل ترین حالات میں شہید اسماعیل ہنیہ کا ہنستا ہوا چہرا شاعر مشرق کی وہ مصرع یاد دلاتا ہے جس میں وہ پھول کے نزدیک زندگی کو مسکرانے کا دوسرا نام بتاتے ہیں لیکن ان داغ مفارقت نے ہم جیسے مداحوں کے عرصۂ حیات کو شمع کی مانند غم و اندوہ کی رات میں بدل دیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں؎
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں دم ہوا کی موج ہے رم کے سوا کچھ بھی نہیں
گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر شمع بولی گریہ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
نوٹ: اللہ تبارک و تعالیٰ شہید اسماعیل ہنیہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور تحریک مزاحمت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین۔
Comments are closed.