ایران کو ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے !

 

مولانا محمد قمر الزماں ندوی

 

مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کی مغرب و مشرق پر گہری نظر تھی، تاریخ ان کا موضوع ہی تھا،عالم اسلام اور شرق اوسط کے حالات و واقعات اور خطرات و اندیشے سے خوب واقف تھے ،یورپ و امریکہ اپنا اصل حریف کس کو سمجھتے ہیں، اس پر خوب نظر تھی، وہ دوست اور دشمن سے بھی اچھی طرح واقف تھے ۔ انہیں یہ کہنے کا حق تھا اور وہ بہت اعتماد کیساتھ کہتے بھی تھے ۔ کہ

میرے دیکھے ہوئے ہیں مشرق و مغرب کے میخانے

وہ اپنی مجلس میں فرمایا کرتے تھے کہ اگر امریکہ اپنے جدید اسلحے، توپ اور میزائل ایران کی سرحد پر لگا دے، اپنی فوجیں وہاں اتار دے اور پوری تیاری کرلے اور یہ اعلان بھی کردے کہ کل ہم ایران پر حملہ کرنے والے ہیں ، تب بھی یقین مت کرنا ، کیونکہ امریکہ کا اصل حریف اور مقابل عالم اسلام کے شیعہ مسلمان نہیں ہیں، بلکہ ان کا اصل حریف اور مقابل وہ مسلمان ہیں، جو اہل سنت و الجماعت ہیں ، امریکہ کو خوب معلوم ہے کہ اسلام کا اصل چہرہ کون ہے اور کس اسلام سے ان کو خطرہ ہے ۔ اقبال کی زبان میں جس امت سے اس کو خطرہ ہے، وہ، وہ مسلمان ہیں جو احتساب کائنات کی صفات سے متصف ہیں ۔

ہے اگر مجھ خطر کوئی تو اس امت سے ہے

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

اس لیے امریکہ کے اس طرح کے بیانات اور پروپیگنڈے کو بہت سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا ۔

بہر حال ہم اس تمہید کے بعد اصل موضوع پر آتے ہیں ،ہمارے بہت سے دوست و احباب اور قارئین شہید ڈاکٹر اسماعیل ہانیہ کے اس واقعئہ شہادت میں صرف اسرائیل کو ذمہ دار و قصور وار قرار دیتے ہیں اور اصل مجرم اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کو سمجھتے ہیں ،ایران کو صاف کلین چٹ دیتے ہیں اور اس کو فلسطین کا پوری طرح غم خوار و وفا دار سمجھتے ہیں ۔۔

جس طرح قتل کا یہ واقعہ پیش آیا اور ایران کی خفیہ ایجنسیوں کو اور وہاں کی فوج پاسداران انقلاب کو اس کی بھنک تک نہیں لگی ،یہ سمجھ سے باہر ہے ۔

بہت سے ناقدین ،صحافیوں اور حالات پر نظر رکھنے والوں کی طرف سے سوالات بھی اثھنے لگے ہیں کہ اسمعیل ہانیہ ایران کے نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران آئے تھے ،انہیں ایرانی حکومت نے خود مدعو کیا اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ایران پر تھی ،حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری صرف ایک سیکورٹی گارڈ کو سونپی گئی تھی ،جو اس حملہ میں ہلاک ہوا ہے ۔اسماعیل ہانیہ کو دشمن کی طرف سے جو سخت خطرات درپیش تھے ،جس طرح وہ اسرائیل کے نشانے اور ہیڈ لسٹ پر تھے اور ابھی کچھ ماہ قبل ہی ان کے اہل خانہ میں سے اکثر کو شہید کردیا گیا تھا ان کے پیش نظر ان کی حفاظت کے لیے غیر معمولی حفاظتی بندوبست کیا جانا چاہیے تھا ،لیکن ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا اس کا جواب ایرانی حکومت دے سکتی ہے ؟

ناقدین کی طرف سے جو سوالات اور اٹھ رہے ہیں وہ اس طرح کے ہیں ۔۔۔۔

1/ اس شہادت میں شہید اسماعیل ہانیہ کے ساتھ ان کا باڈی گارڈ بھی شہید ہوا. کیا ایرانی سیکورٹی والے جو ان کے ہوٹل پر سیکورٹی پر معمور تھے کیا کوئی شہید یا زخمی ہوا؟؟

2/ کیا اس بڑے سرکاری ہوٹل مین شیخ اسماعیل ہانیہ اور ان کے باڈی گارڈ ہی قیام پذیر تھے یا اور بھی مہمان؟؟

3/ اسرائیل کو کیسے پتہ چلا کہ فلاں ہوٹل کے فلاں کمرے میں اسمعیل ہانیہ صاحب موجود ہین؟ اس کا جواب تو آسانی سے مل جائے گا کہ کسی اپنے نے غداری اور مخبری کی ہوگی. تو کیا ان تمام سیکورٹی والوں کو سوال و جواب کے لیے تحویل مین لیا گیا؟؟

4/ کہا جارہا ہے کہ میزائل سے حملہ ہوا تھا تو ہوٹل کا کتنا نقصان ہوا، اس کی تفصیلات کہاں دکھائی گئی؟؟

5/ کیا میزائل دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا تھا کہ چپ چاپ اندر جاکر صرف دو کو شہید کیا اور نکل گیا؟؟

6/ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بڑے سرکاری ہوٹل اور آس پاس سی سی ٹی وی کیمرے تو ہونگے، وہ تمام فوٹیج کہان ہے؟؟

یہ کچھ سوالات ہیں جسے دور تک جانا چاہیے اور جواب بھی ملنا چاہیے ۔ جو لوگ صرف اتحاد اسلامی کا دم بھرتے ہیں اور ایرانی حکومت کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں ،ان سب کو بھی جواب دینا چاہیے ،ابھی ماضی میں لبنان بیروت میں بھی حماس لیڈر کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آچکا ہے ، جہاں حماس لیڈر کو بلایا گیا اور ان کی شہادت ہوگئی ۔۔

ہم تو ان کو اہل سنت والجماعت کا خیر خواہ کبھی نہیں سمجھتے، کیونکہ ان کی فطرت میں ہی غدر و فریب ہے،تاریخ اس پر شاہد ہے ،ماضی کے واقعات اس پر گواہ ہیں ،یہ تقیہ و تبرا کے نام سے اہل سنت والجماعت کو زک پہنچاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ،اس لئے شیعوں کی حقیقت اور ایران کی حقیقت سے لوگوں کو واقف ہونا چاہیے ، یہ فلسطین میں اپنے اثر و رسوخ کے لیے اور اپنے مسلک و عقیدہ کو مضبوط کرنے کے لیے حماس سے دوستی کئے ہوئے ہیں، کیونکہ حرمین تک ان کی رسائی نہیں ہوسکتی تو یہ قبلئہ اول پر قابض ہونا چاہتے ہیں ،یہ کبھی اہل سنت کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے ، بلکہ یہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جتنا بھی نعرہ لگائیں ،شور و ہنگامے کریں تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے ، احمدی نژاد امریکہ کو کیسی کیسی دھمکیاں دیتے تھے آپ سب واقف ہیں ،کیا کبھی کوئی اقدام کیا ؟ غزہ پر جو مصبیت آئی ہے اور ابھی جو مشکل حالات ہیں ،اس پر کتنا ایکشن لیا ،صرف زبانی دعوے ، ہنگامے اور الٹی میٹم بس اور اس سے آگے کچھ نہیں ۔

حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ شیخ اسمعیل ہانیہ کی شہادت کے پیچھے بہت کچھ راز ہے، پردہ ہے ،غیروں کی غداری کے ساتھ اپنوں کی عیاری بھی ہے ،اس میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کوئی خفیہ سمجھوتہ ہے ۔ غور کیجئے کہ اسمعیل ہانیہ کو نو منتخب ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں چیف گیسٹ کی حیثیت سے لایا گیا اور بظاہر ایک محفوظ فوجی مکان میں ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا ، وہاں تک اسرائیل کے خفیہ ایجنسی کی رسائی کیسے ہوئی ،کیا بغیر ایران کی مدد کے وہاں تک رسائی حاصل کرنا اور نشانہ بنانا ممکن ہوسکتا ہے ؟ ایک کم پڑھا لکھا آدمی بھی اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا، چہ جائے کہ وہ لوگ جو شیعوں کی تاریخ ان کے کردار ، کارناموں اور ان کی حقیقت سے واقف ہو ۔

Comments are closed.