بنگلا دیش : جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے

از قلم: ڈاکٹر سلیم خان
بنگلا دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اپنے ٹھکانے کی تلاش میں ہاتھ پسار کر برطانیہ سے پناہ مانگ رہی ہے۔ اس نے دو قسطوں میں جملہ بیس سال نو ماہ حکومت کی اور پانچ مرتبہ انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ بنگلا دیش بننے سے قبل مشرقی پاکستان کے آخری انتخاب میں عوامی لیگ کے بعد سب سے مقبول سیاسی پارٹی جماعت اسلامی بنگلادیش تھی اور اس کو 6؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ جنرل ارشاد کی آمریت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں شیخ حسینہ واجدکی عوامی لیگ اور جماعت اسلامی ایک ساتھ تھی؛ لیکن پھر ان کے تعلقات بگڑ گئے؛ کیوں کہ 1996ء میں جماعت نے عوامی لیگ کی آمریت کے خلاف تحریک چلائی اور 2001ء میں بنگلادیش نیشنل پارٹی کے ساتھ الحاق کرکے حسینہ واجد کو اقتدار سے بے دخل کر کے حکومت میں شامل ہوگئی۔ حسینہ واجد نے 2009ء میں پھر سے انتخاب جیت کر دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد جماعت سے خوب انتقام لیا۔
شیخ حسینہ واجد پر دوسری بار سرکار بنانے کے بعد فسطائی آمریت کا سودہ سما گیا تو اس نے نفرت کی بنیاد پر اپنے اقتدار کو مضبوط تر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کی خاطر آر ایس ایس کی مانند تاریخ کو توڑ مروڑ کر بنگلادیش کی جنگ آزادی میں مظالم کے قصے گھڑے گئے اور اس کا محور جماعت اسلامی بنگلا دیش کو بناکر اس کے خلاف زبردست ماحول سازی کی گئی؛ تاکہ ہمدردیاں بٹوری جاسکیں اور جماعت کو معتوب کرکے عوام کو کیش کیا جاسکے۔ ہندستان میں مسلمانوں کے خلاف اسی حکمتِ عملی پر عمل ہورہا ہے۔ اپنے گھناؤنے مقصد کے حصول کی خاطر ایک نام نہاد بین الاقوامی فوجداری عدالت قائم کی گئی جس میں فریبی نام کے سوا کچھ بھی انٹرنیشنل نہیں تھا۔ وہ ایک کنگارو کورٹ تھی جس میں جماعت اسلامی اور حزب اختلاف کے مقبول رہنماؤں پر گھناؤنے اور من گھڑت الزامات لگا کر انہیں کڑی سزائیں دی جاتیں۔
جماعت اسلامی بنگلا دیش کے کئی بے قصور رہنماؤں کو اس عدالت نے تختۂ دار تک پہنچا کر ان کے لہو سے اقتدار کو سینچا گیا۔ شیخ حسینہ واجد کے مظالم کا یہ سلسلہ دراز ہوا تو بنگلا دیش نیشنل پارٹی کے رہنماؤں پر شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کا الزام لگا کر سزائے موت دی گئی۔ اس کے بعد خود حسینہ کے قتل کی سازش رچنے کے الزام میں کئی لوگوں کو پھانسی پر لٹکادیاگیا۔ اس طرح ہر انتخاب سے قبل ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی جاتی اور انتخاب جیت لیا جاتا۔ پچھلے انتخاب سے قبل سارے حزب اختلاف کو بدعنوانی اور دیگر الزامات کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ظالم و جابر حکمران اپنے سائے سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ شیخ حسینہ کو اپنی عدم مقبولیت کا اندازہ ہوا تو اس نے آئین میں تبدیلی کرکے انتخاب سے قبل صدر کو اقتدار سونپنے کا ضابطہ منسوخ کردیا؛ حالاں کہ صدرِ مملکت خود اسی کا پٹھو تھا مگر پھر بھی بھروسہ نہیں کیا گیا۔
بنگلا دیش کے گزشتہ انتخاب میں چوں کہ حزب اختلاف کے رہنما جیل میں تھے؛ اس لیے بائیکاٹ کا اعلان ہوگیا۔ انتخاب کے فوراً بعد الیکشن کمیشن نے 28 فیصد ووٹنگ کی بات کہی، جب کہ دیگر ذرائع کے مطابق صرف 10 فیصد لوگوں نے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اس سے قبل 80 فیصد عوام نے رائے دہندگی کی تھی۔ ویسے اگر الیکشن کمیشن کے ابتدائی اعداد و شمار کو بھی سچ مان لیا جائے تو 72 فیصد لوگوں نے انتخاب کا بائیکاٹ کرکے حزب اختلاف کے اکثریت میں ہونے کا ثبوت دے دیا تھا مگر حسینہ نے الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال کر رائے دہندگان کے فیصد بڑھا دیے۔ اس انتخاب کو دنیا بھر کے مبصرین نے دھوکا قرار دیا۔ ہندستان جیسے حامی ملک کو بھی اسے صاف و شفاف یا غیر جانبدار کہنے کے بجائے پر امن کہنے پر اکتفا کرنا پڑا۔ اس طرح چور دروازے سے 300 میں سے 223 نشست جیت کر حسینہ اقتدار میں آگئی۔ جاتیا پارٹی اور ترنمول بی این پی کے 6, 6 اور عوامی لیگ کے ہی 65 آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے۔ شیخ حسینہ کی اس دھاندلی سے عوام میں غم و غصے کا ایک لاوہ پک رہا تھا جو آتش فشاں بن کر پھٹا اور اسے جھولا اٹھاکر بھاگنا پڑا۔
بنگلا دیش میں انقلابِ اقتدار کی چنگاری ایک معمولی عدالتی سے فیصلے سے لگی۔وہاں مجاہدین آزادی کے نام پر 50 فیصد ریزرویشن دیا جاتا تھا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر عوامی لیگ اپنے لوگوں کو اہم سرکاری عہدوں پر فائز کردیتی تھی۔ 2018ء میں اس پر روک لگا دی گئی مگر امسال جون میں شیخ حسینہ نے عدالت کے ذریعے اس پابندی کو اٹھوا دیا۔ اس فیصلے کے خلاف طلباء اور اساتذہ نے احتجاج شروع کیا تو ان کی شکایت پر توجہ دینے کے بجائے ظلم و جور کا بازار گرم کردیا گیا۔ اس کے ردعمل میں طلباء سے ہمدردی رکھنے والے عوام بھی میدان میں آئے؛ کیوں کہ اس وقت دو سو سے زیادہ طلباء شہید ہوچکے تھے۔ اب سپریم کورٹ نے یہ ریزرویش گھٹا کر 5 فیصد کردیا مگر طلباء کی تحریک آگے بڑھ چکی تھی اور وہ شہدا کا قصاص مانگ رہی تھی۔
طلبہ نے اپنا احتجاج جاری رکھتے ہوئے جو نو نکاتی مطالبہ پیش کیا: اس میں سب سے پہلا یہ تھا کہ وزیراعظم فسادات کی ذمہ داری قبول کرکے ہلاک ہونے والےطلبہ کےپسماندگان سے معافی مانگیں۔ وزیرداخلہ اور وزیر ٹرانسپورٹ مستعفی ہوں۔ گولی باری کرنے والےپولیس اہلکاروں سے استعفیٰ لیا جائے۔ ڈھاکہ، جہانگیر نگر اور راج شاہی یونیورسٹیز کے وائس چانسلر استعفے دیں۔ طلبہ پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے اور زخمی اور مرنے والوں کو معاوضہ ادا کیا جائے۔ عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم ’بنگلہ چھاترو لیگ‘ پر پابندی لگائی جائے۔ تعلیمی ادارے، طلبہ ہوسٹل اور ہال کھولے جائیں۔ طلبہ کو انتقامی کارروائیاں نہ کرنے کی ضمانت دی جائے، تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال کی جائیں۔ ان مطالبات کو قبول کرکے شیخ حسینہ عوام کا غم و غصہ کم کرسکتی تھی مگر جس کے دماغ میں تکبر بھرا ہو وہ کب مانتا ہے۔ شیخ حسینہ نے اسے حکومت کےخلاف ایک سیاسی چال سے تعبیر کیا۔
سرکاری اڑیل پن کے خلاف طلباء نے مرنے والے مظاہرین کو انصاف ملنے تک ملک گیر ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔ اب بھی حکومت نے ہوش کے ناخون نہیں لیے بلکہ مظاہرین کے خلاف کارروائیاں یعنی چھاپے اور گرفتاریاں شروع کردی۔ 10000 سے زیادہ لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا اور 300 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے۔ عوامی لیگ نے اپنی طلبہ تنظیم ’بنگلہ دیش چھاترو لیگ‘ کے ذریعے تشدد بھڑکا کر متعدد لوگوں کو ہلاک کیا۔ اس مرحلے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ بھی بڑھ گیا۔ اس سے گھبرا کر شیخ حسینہ نے پھر سے جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی مگر عوامی لیگ کے رہنما ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ بالآخر فوج نے اپنے عوام کو مارنے سے انکار کیا تو وہ خود بھی ’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘ کی مصداق بھاگ کر دہلی آگئی۔ شیخ حسینہ واجد اب دہلی سے برطانیہ میں سیاسی پناہ لے کر جانا چاہتی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا ’ہم دوست بدل سکتے ہیں مگر پڑوسی نہیں بدل سکتے‘۔ بنگلا دیش ایک پڑوسی ہے؛ اس لیے ہندستان شیخ حسینہ کو اپنے یہاں زیادہ دنوں تک نہیں رکھ سکتا۔
بنگلادیش کے اندر حکومتِ ہند کی خارجہ پالیسی نے ایک بہت بڑی بھول یہ کی کہ وہاں کے عوام جب ظلم و جبر کے خلاف لڑ رہے تھے تو مودی سرکار مظلوم عوام کے بجائے کو ظالم حکمران کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی خود جبر و تشدد کی بنیاد پر آمریت کے قائل ہیں؛ اس لیے انہوں نے اپنے ہی جیسی شیخ حسینہ کی حمایت کی۔ مودی: ۳ کی حلف برداری میں بڑے تزک و احترام سے حسینہ کو بلایا گیا۔ اس طرح مودی سرکار کی کوتاہ نظری نے وہاں کی عوام سمیت حزب اختلاف کو اپنا اور اپنے ملک کا دشمن بنالیا۔ اب جس سے دوستی کی تھی وہ تو بھاگ کھڑی ہوئی اور جسے دشمن بنایا تھا وہ اقتدار سنبھالنے جارہے ہیں۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے حقارت سے جس ملک کے عوام کو دیمک اور بھوکا ننگا کہا تھا ان لوگوں نے ہندستان کی چہیتی حسینہ کو اقتدار سے بے دخل کرکے زعفرانیوں کی نیند اڑا دی ہے۔ شیخ حسینہ کے انجام میں نریندر مودی اور شہباز شریف کے لیے یہ پیغام ہے کہ کاٹھ کی ہانڈی بار بار نہیں چڑھتی اور عوام کے صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ پاکستان اور ہندستان دونوں ممالک میں انتخابی دھاندلی کا الزام لگ رہا ہے۔ بعید نہیں کہ بنگلا دیش سے ترغیب لے کر ان ممالک میں بھی عوام سڑکوں پر آجائیں۔ ایسے میں جو بھی حکمران شیخ حسینہ کی راہ چلے گا وہ اسی کے انجام سے دوچار ہوگا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں یہ دوسرا انقلاب ہے۔ دو سال قبل سری لنکا کے عوام نے خود کو بہت بڑا طاقتور سمجھنے والے گوٹایا راج پکشے کو بھگا دیا اور اب شیخ حسینہ کا بھی بوریا بستر گول کردیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی اور شریف کا کیا ہوتا ہے۔ فیض احمد فیض نے اسی صورتِ حال کے لیے کہا ہے؎
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینو! اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
Comments are closed.