اوقاف کی شرعی حیثیت اورجدید وقف بل
مولانا انیس الرحمن قاسمی
قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل،چیئرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن،پٹنہ
اسلام کے امتیازات وخصوصیات میں سے ایک وقف بھی ہے۔ وقف کا مطلب ہے کہ کسی جائیداد کو اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کے نفع کی غرض سے خاص کردینا؛یعنی یہ اعلان کردینا کہ یہ جائیداد عام لوگوں کے نفع کے لیے ہے اوراس سے فلاں فلاں کام لیا جاسکتا ہے یا فلاں فلاں قسم کے لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں،اس جائیداد پر اب میرا کوئی حق نہیں رہا؛ بلکہ اللہ کا ہے اوراللہ کے بندوں پر خرچ کیا جائے گا۔
وقف کی تاریخ بڑی پرانی ہے،عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورمتعدد صحابہ کرام نے اللہ کے لیے اپنی جائیدادیں وقف کیں،جب قرآن کریم کی یہ آیت:
(لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ)(سورۃ آلِ عِمْرَانَ: 92)
یعنی ”تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچوگے جب تک ان چیزوں میں سے(اللہ کے لیے)خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں“۔
(وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ)(سورۃ البقرۃ:272)
”اور تم جو کچھ بھی خرچ کروگے، وہ خود تمہارے فائدے کے لیے ہوتا ہے“۔
تو حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنا بیرحاباغ جو اُنہیں بہت ہی پسند تھا،اللہ کے راہ میں وقف کیا۔وقف مزروعہ اورغیرمزروعہ زمینیں،مکانات،دُکانیں،گاڑیاں یعنی ہرقابل انتفاع چیز جس میں دوام کی صفت پائی جاتی ہو،وقف کی جاسکتی ہے۔وقف انسان کو خیر کے کاموں میں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے اوردراصل یہ انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کا ایک دوامی طریقہ ہے، جو انسان کے لیے تسلسل کے ساتھ ذخیرہئ آخرت بنتا رہتا ہے اوراس سے انسان کی مال وعزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں:
(الشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَغْفِرَۃً مِنْہُ وَفَضْلًا وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ)(سورۃ البقرۃ: 268)
”شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اورتمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اورفضل کا وعدہ کرتا ہے،اللہ بڑی وسعت والا،ہربات جاننے والا ہے“۔
اسلام چاہتا ہے کہ ہر انسان خیر،نیکی اور بھلائی کاکام کرے خواہ وہ فقیر ہو یا غنی، عام مزدور ہو یاتاجر، استاذ ہو یا شاگرد، مردو ہویاعورت، کمزور ہو یا طاقت ور، نوجوان ہو یا بوڑھا، ہرشخص نیکی اور بھلائی کا کام کرے؛ اس لیے کہ خیر کے دروازے تمام لوگوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں،چاہے خیر کا یہ کام اپنے گاؤں،یا محلہ کے بسنے والوں کے لیے ہو، یاخاندان کے لیے،یاتمام انسانی برادری کے لیے۔ اگرچہ ان کا مذہب، ان کی زبان، انسانوں کا ملک اور ان کی قومیت ایک دوسرے سے مختلف ہوں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”الْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ، فَأَحَبُّہُمْ إِلَی اللّٰہِ أَنْفَعُہُمْ لِعِیَالِہِ“۔(مسند أبی یعلی الموصلي، ثابت البناني عن أنس،رقم الحدیث:3315)
”اللہ کے نزدیک محبوب وہ ہے،جواس کے عیال کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع بخش ہو“۔
غرضیکہ بھلائی کا کام ہر شخص کرسکتاہے،مال والے اپنی دولت اوراپنے مرتبہ کے ذریعہ اور فقیر بھلائی کا کام اپنے ہاتھ، اپنے دل اوراپنی زبان سے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ نیک کام کا ذریعہ صرف مال ہی نہیں ہے؛بلکہ ہر وہ کام نیک اور بہتر ہے،جس سے انسانوں کو فائدہ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”کُلُّ سُلاَمٰی مِنَ النَّاسِ عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ، کُلَّ یَوْمٍ تَطْلُعُ فِیہِ الشَّمْسُ، یَعْدِلُ بَیْنَ الإِثْنَیْنِ صَدَقَۃٌ، وَیُعِینُ الرَّجُلَ عَلٰی دَابَّتِہِ فَیَحْمِلُ عَلَیْہَا، أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْہَا مَتَاعَہُ صَدَقَۃٌ، وَالکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَۃٌ، وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَخْطُوہَا إِلَی الصَّلاَۃِ صَدَقَۃٌ، وَیُمِیطُ الأَذٰی عَنِ الطَّرِیقِ صَدَقَۃٌ“۔(صحیح البخاری، باب من أخذ بالرکاب ونحوہ،رقم الحدیث:2989)
”لوگوں کی مدد کرناصدقہ ہے،دوافراد کے درمیان صلح کرادینا بھی صدقہ ہے،سواری پر چڑھانے، یاسامان لاد دینا بھی صدقہ ہے،اچھی بات کا کہنا بھی صدقہ ہے،نماز کے لیے جانے پر ہر قدم صدقہ ہے اورراستہ سے اذیت دینے والی چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے“۔
مگر سب سے بہتر صدقہ وہ ہے،جس میں دوام ہو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”خَیْرُ مَا یُخَلِّفُ الرَّجُلُ مِنْ بَعْدِہِ ثَلَاثٌ: وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُو لَہُ، وَصَدَقَۃٌ تَجْرِي یَبْلُغُہُ أَجْرُہَا، وَعِلْمٌ یُعْمَلُ بِہِ مِنْ بَعْدِہِ“۔(سنن ابن ماجۃ،فضل العلماء والحث علی طلب العلم،رقم الحدیث:241)
”تین چیزیں چھوڑکر مرناسب سے بہترین اورخوش نصیبی کی بات ہے: (۱)نیک لڑکا جو اس کے لیے دست بدعا رہے،(۲)ایسا صدقہ جس کا ثواب اسے مسلسل پہونچتا رہے،(۳)اورایسا علم (کتابیں،تحقیقات وغیرہ)جس پر اس کی وفات کے بعد عمل کیا جائے“۔
اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے اعلی مثال قائم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ وقف فرمایا، جس کے بارے میں کسی فوجی نے وصیت کی تھی کہ اس کا اختیار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں جس طرح چاہیں، تصرف کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فقراء ومساکین، ضرورت مندغازی اور دوسرے محتاجوں کے لیے وقف فرمادیا۔
اسی طرح تمام بڑے صحابہ حضرت ابوبکر صدیق،حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت معاذ وغیرہم رضی اللہ عنہم نے اپنی جائدادیں وقف کیں۔
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے جس شخص کو میں جانتاہوں،اس نے اپنی جائداد کا کوئی نہ کوئی حصہ اللہ کے راستہ میں دیاتھا،جسے نہ خریدا جاسکتاہے،نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے، نہ وراثت میں منتقل ہوسکتی ہے۔
صحابہ کے بعد بھی نسلا بعد نسل مسلمانوں نے وقف کے سلسلہ کو جاری رکھا،وہ اراضی، باغات، مکانات اور غلہ کی پیداواررفاہ عام کے کاموں کے لیے وقف کرتے رہے۔خاص طور پر مساجد کے قیام میں رضائے الٰہی کے خاطر مسلمان ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس کے بعد رفاہ عامہ کے دیگر اداروں میں اہم ترین ادارے مدارس اور شفاخانے ہیں جو پہلے مساجد کے ساتھ منسلک رہتے تھے؛بلکہ مسجد ہی وہ ابتدائی حلقہ تھا جس میں مسلمان نہ صرف عبادت کرتے تھے؛بلکہ صحن مسجد میں مسلم بچے قرأت، کتابت، علوم قرآن، فقہ وشریعت، لغت وادب اور دوسرے علوم بھی حاصل کرتے تھے، پھر بعد میں مدارس کی مستقل عمارتیں قائم ہونے لگیں، جہاں طلبہ کے لیے مفت رہائش، کھانا، پینا اور تعلیم کی ضرورتوں کے لیے کمرے، کتب خانے، مطبخ، حمام ضرور ہوا کرتے تھے؛بلکہ بعض مدارس میں کھیل کے میدان بھی تھے،جہاں طلبہ جسمانی ریاضت کرتے اور فوجی تربیت حاصل کرتے،یہی حال شفاخانوں کاتھا بڑے بڑے شفاخانے قائم ہوتے تھے،جس میں مریضوں کی ضروریات کے لیے کھانا پینا، دوا،کپڑے، ڈاکٹر، دواساز سب موجود ہوتے تھے، بعض دفعہ گشتی شفاخانے (موبائل سروس) قائم ہوتے،جو ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں منتقل ہوتے رہتے تھے،جن کے دروازے عوام وخواص ہرشخص کے لیے کھلے رہتے تھے، اسی طرح مسافروں کے لیے سرائے اور ہوٹل بنائے جاتے تھے۔ راستوں میں عام لوگوں کو پانی پلانے کے لیے کنویں بنائے جاتے اور سبیلیں لگاکر وقف کیا جاتا۔ بعض دفعہ ایسے فقرااور مساکین کے لیے مکانات تعمیر کرا دئیے جاتے،جواپنے لیے گھرتعمیر نہیں کرسکتے،یاکرایہ پرنہیں لے سکتے، بعض افراد بے روزگاروں کے لیے طعام گاہیں بنواتے،جس میں روٹی، سالن وغیرہ تقسیم کرائے جاتے تھے۔
کچھ اوقاف ایسے بھی ہوتے تھے،جن کی آمدنی مجاہدین کے اوپرخرچ ہوتی، یاراستوں، پلوں، گزرگاہوں کی حفاظت اور تعمیر ومرمت کے لیے وقف ہوتی،بعض اوقاف مقبروں کے لیے ہوتے اور لوگ اپنی وسیع جگہ کو قبرستان کے لیے وقف کرتے،اسی طرح کچھ اوقاف اجتماعی کفالت کے کاموں کے لیے ہوتے،جیسے لاوارث بچوں، یتیموں، ناکارہ، عاجز اور اندھوں کی نگہداشت اوران کی ضروریات پوری کی جاتی،جیسے خوراک، لباس، بعض دفعہ قیدیوں کی حالت بہتر بنانے اوران کی زندگی کی سطح بلند کرنے،ان کے لیے غذا فراہم کرنے،یا فقراء کی تجہیز وتکفین کے اخراجات کے لیے ہوتے،بعض دفعہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کے بندوبست کے لیے وقف کئے جاتے،جس سے شادی کے ا خراجات پورے کئے جاتے اور مہر کی ادائیگی کی جاتی۔
بعض اوقاف ایسے بھی ہوتے جو حیوانات کے چارہ، ا ن کے علاج، بچوں والی ماں کے دودھ اورغذا کے لیے ہوتے۔اگرآج کے دور میں دیکھیں توانسانی ضرورت کے جو بھی تقاضے ہیں،ان کے لیے وقف کرنا اوراوقاف کی آمدنی کوبہتر بنانا اللہ کی رضا کا بڑا ذریعہ ہے،لہذاصحابہ کرام ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے ہرشخص کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی زمین وجائداد کا کچھ حصہ کسی نہ کسی نیک کام کے لیے وقف کرے، خاص طور پر اس زمانہ میں بیماروں کے علاج، لڑکیوں کی شادی،اولاد کی تعلیم، دعوت وتبلیغ اور دینی کتابوں کی اشاعت کے لیے وقف کرنا کارخیر میں وقف کرناہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”وَاللّٰہُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِیہِ“۔(سنن الترمذي، باب ما جاء في الستر علی المسلمین،رقم الحدیث:1425)
”اللہ اس بندے کی مدد میں رہتاہے جو بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتاہے“۔
اس لیے عام انسانی ضروریات کی تکمیل کی کوشش، اس کے لیے اوقاف قائم کرنا اور کرانا، اس کی دیکھ بھال، حفاظت اور اس کو ترقی دینا اس دور کی بڑی دینی ضرورت ہے اوریہ عبادت ہے۔ یہ سب اجتماعی کفالت کے طریقے ہیں جن میں مسلمانوں کو آگے آناچاہیے اور اوقاف کرکے اس کو ترقی دینااوراس کے مصارف میں خرچ کرناہمارا شیوہ ہونا چاہیے۔
اوقاف کے صحیح ہونے کے لیے شریعت نے چند شرطیں عائد کی ہیں، ان کے بغیر وقف صحیح نہیں ہوسکتا۔
(۱) جو زمینیں اورجائیداد وقف کی جائیں،اس پر کسی کا دعویٰ نہ ہو؛بلکہ وہ واقف کی ملکیت میں ہو اوروہ وقف بالآخر فقرااورمساکین کے لیے ہو۔
(۲) واضح لفظ میں وقف کیا جائے،ایسے الفاظ میں وقف نہ ہو،جس میں وعدے کا شبہ ہو اورنہ اس طرح وقف کیا جائے کہ مستقبل میں اس وقف کے ختم ہونے کا اندیشہ ہو۔
(۳) یہ وقف اللہ کی رضا اورخوشنودی کے لیے کیا جائے اوریہ بھی ضروری ہے کہ وقف کرنے والا عاقل وبالغ ہو۔
(۴) وہ وقف مرض الموت میں نہ کیا گیا ہو،اسی طرح وقف کا مقصد کسی وارث کو محروم کرنا نہ ہو،اگر کسی وارث کو محروم کرنے کے لیے وقف کیا گیا ہو تو وہ وقف صحیح نہ ہوگا۔
(۵) وقف نیکی کے کاموں کے لیے کیا گیا ہو،جو جائیداد وقف کی جارہی ہو وہ موجود بھی ہو۔
() اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وقف ہمیشہ کے لیے کیا گیا ہو،اگر کسی نے چند سال یا چند مہینوں کے لیے کوئی چیز وقف کی تو یہ وقف صحیح نہ ہوگا۔
() وقف کی جائیداد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وقف کرنے والے کی منشا کے مطابق اس کا استعمال کیا جائے۔
() اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جس شخص کو متولی بنایا جائے،وہ وقف کی جائیداد کا محافظ ہو،اس پر خیانت یا ایسا کوئی الزام نہ ہو،جس سے وقف کی جائیداد اس کے ہاتھوں میں برباد ہوجانے کا اندیشہ ہو،اگر متولی دیانت دار ثابت نہ ہو اوروقف کی جائیداد کو اپنی جائیداد کی طرح استعمال کرنے لگے تو وہ شرعاً معزول کیا جاسکتا ہے۔
وقف کے سلسلہ میں ان اسلامی اصولوں کے تناظر میں ہمیں جدید وقف ترمیمی بل۴۲۰۲ء کا جائزہ لینا چاہیے اوراس میں جو مفید باتیں ہیں،اسے قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے؛لیکن جو باتیں شرعی قوانین سے متصادم ہیں،یا جس سے وقف کا مقصد ہی فوت ہوجائے،اس کے خلاف عوامی اورقانونی سطح پر احتجاج کرنا ہمارا قانونی اورجمہوری حق ہے اورہمیں بڑھ چڑھ کر اس کی مخالفت کرنی چاہیے،اس سلسلہ میں ملی جماعتوں کو سڑک سے لے کر سنسد تک اپنا احتجاج درج کرانا چاہیے۔
پارلیمنٹ میں عنقریب پیش ہونے والے”مسلم وقف ترمیمی بل۴۲۰۲ء“کی بعض شقیں قابل اعتراض ہیں جوقانون شریعت سے متصادم بھی ہیں اوروقف املاک کے لیے خطرناک بھی۔یہ بات واضح ہے کہ مرکزی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، وہ مسلمانوں کی جائیداد پر اپنا تسلط چاہتی ہے اورسرمایہ داروں کے لیے چور دروازہ کھولنا چاہتی ہے جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی موقوفہ جائیداد کو ہڑپ لیں گے،نیز اگر یہ بل قانون بنتا ہے تو ان لوگوں کو بھی موقوفہ جائیدادوں پر قبضہ جمانے کا بھرپور موقع ملے گا جو وقف کی جائیدادوں پر قابض ہیں۔اس میں بعض ریاستی حکومت بھی ہیں اوربعض کمپنیاں بھی،جب کہ بعض شخصیات بھی۔
اس نئے بل میں سب سے قابل اعتراض بات واقف کاوقف کے وقت کم سے کم پانچ سال پرانا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ بہت سارے ایسے لوگ ہوں گے،جنہوں نے ایمان لانے کی خوشی میں اپنی بعض جائیدادیں وقف کی ہوں گی،گوکہ آج کی تاریخ میں وہ وقف سینکڑوں سال پرانا ہو؛لیکن جب اس چھان بین میں حکومت پڑے گی،مثلا مغلیہ دور میں جس شخص نے وقف کیا ہے،وقف کے وقت اس کے ایمان لانے کی مدت کیا تھی،اس طرح حکومت سینکڑوں ایسے اوقاف کو رد کردے گی،جس کے واقف نے ایمان لانے کے سال،دو سال،تین سال بعد اپنی جائیداد وقف کی ہویا آئندہ جو نومسلم وقف کریں گے،جب کہ قانوناً اورشرعاً یہ واضح ہے کہ خیر کے کاموں کے لیے غیرمسلم بھی وقف کرسکتے ہیں اوران کے وقف کی بھی قانونی حیثیت وہی ہے،جو مسلمانوں کے وقف کی ہے۔
اسی طرح اس بل میں یہ بات کہی گئی ہے کہ زبانی وقف کا اعتبار نہیں ہوگا،جب کہ شریعت میں زبانی وقف بھی معتبر ہے۔ اب حکومت ایسی تمام موقوفہ جائیدادوں پر قبضہ کرسکتی ہے،جس کے وقف کا کوئی دستاویز نہیں ہے اورواقف نے اسے زبانی طور پر وقف کیا ہو،جب کہ1995کے وقف ایکٹ میں زبانی وقف کو معتبر مانا گیا ہے۔
اسی طرح ایک شق یہ ہے کہ زبانی طور پربنایا گیامتولی متولی نہیں سمجھا جائے گا، جب کہ شریعت میں زبانی طور پر مقرر کئے گئے متولی کا اعتبار کیا ہے۔ایک قابل اعتراض پہلو یہ بھی ہے کہ وقف کی آمدنی کو مرکزی حکومت کے مصلحت کے تحت بیواؤں،یتیموں اورناداروں پر خرچ کیا جائے گا، جب 1995کا وقف ایکٹ واقف کے منشا کے مطابق جائیداد کی آمدنی کارِ خیر میں خرچ کرنے کی وکالت کرتا ہے،جو کہ شریعت کے مطابق ہے۔ 1995کے وقف ایکٹ میں یہ وضاحت ہے کہ رفاہی کاموں میں وقف کی آمدنی اسلامی قانون کے مطابق خرچ کی جائے گی۔موجودہ بل میں اسے بدل کر مرکزی حکومت کردیا گیا ہے،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ واقف کے منشاکے بجائے مزکری حکومت کی منشا اورحکم کی پابندی خرچ کرنے میں کرنی ہوگی،جو اوقاف کے منشا اورغرض وغایت کے خلاف ہے۔
غرض کہ ایسی تمام چیزیں اس بل میں شامل ہیں،جن سے وقف کا مقصد فوت ہوجائے گا اورحکومت بہانے بہانے سے مسلمانوں کی موقوفہ جائیدادوں پر قابض ہوجائے گی،یا دوسروں کو قابض ہونے کا موقع دے گی۔یہ بل درحقیقت مسلمانوں کو دینی ومعاشی طور پر تہی دست بنانے اوران کی موقوفہ جائیدادوں کی حفاظت کے بجائے ان پر ناجائز قبضہ کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔
اسی طرح اس بل میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ وقف جائیدادوں کے لیے جو کمیٹیاں بنیں گی،اس کے ممبران میں دو غیر مسلموں کا ہونا لازمی ہے۔ وقف ایکٹ1995میں ایسی کوئی شق نہیں ہے،جس سے یہ بات سمجھ میں آئے کہ غیر مسلم وقف کمیٹی کاممبر نہیں بن سکتا،تاہم اس کو لازمی قراردینا مناسب نہیں ہے۔جب کہ ہندوؤں کے مندر کی جائیدادوں کے سلسلہ میں یہ قانون ہے کہ اس کی کمیٹی کا ممبر کوئی ہندو ہی ہوگا،غیر ہندو نہیں ہوسکتا تو پھر مسلمانوں کو اپنی موقوفہ جائیداد کی دیکھ ریکھ کے لیے کسی غیر مسلم کو ممبر بنانے پر مجبور کیاجانا انصاف کے خلاف ہے۔
اس بل میں ایک خطرناک چیز وقف ٹریبونل(waqf tribunal) کے اختیارات کو سلب کرنا ہے، پہلے اگر سروے میں کسی موقوفہ جائیداد کی حیثیت ختم کی جاتی تھی تو اسے وقف ٹریبونل میں چیلنج کیا جانا ممکن تھا اوراس کا فیصلہ ہی حتمی اورآخری فیصلہ ہوتا تھا،ہاں اس فیصلے کے تجزیہ کا اختیار ہائی کورٹ کو ہوتا تھا؛ لیکن اب اس بل میں ٹریبونل کی حیثیت ختم کردی گئی ہے اورکلکٹر کو اختیار دے دیا گیا ہے؛یعنی کلکٹر جس جائیداد کو وقف کی جائیداد نہیں سمجھے گا،وہ وقف نہیں رہے گی اوراس کے خلاف کوئی اپیل ٹریبونل میں نہیں کی جاسکتی ہے۔گویا حصول انصاف کی راہ پیچیدہ کردی گئی ہے۔
غرض کہ یہ بل اوقاف کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا بہانہ ہے اوریہ بل سراسر شریعت اسلامی کے وقف قانون اورخود ہندوستان کے بنیادی حقوق سے متعلق قوانین کے خلاف ہے،جس کی پُرزور مخالفت ہونی چاہیے اوراحتجاج اس پیمانے پر ہوکہ مرکزی حکومت اس بل کو پاس نہ کراسکے اورواپس لینے پر مجبور ہوجائے۔
Comments are closed.