Baseerat Online News Portal

گناہ اوراس کے مضر اثرات

 

 

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

 

اللہ ورسول کے احکام پر عمل نہ کرنا اورجن کاموں کے کرنے سے منع کیا گیا ہے اس سے نہ رکنا، گناہ ہے، اسی طرح اللہ کے حکم کی تعمیل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے خلاف کرنا گناہ ہو سکتا ہے، مثلا: اللہ رب العزت نے نماز پڑھنے کا حکم دیا اگر کوئی نہ پڑھے تو یہ گناہ کا باعث ہے، لیکن پڑھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ اور اوقات پر نہ پڑھے تو وہ تارک صلاۃ کے حکم میں ہو کر گناہگار ہوگا، مثلا: نماز میں دو سجدہ کرنا ہے، ایک ہی کرے، یا سورج اُگتے ڈوبتے اور عین دو پہر (زوال) میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، اب اگر کوئی قصداً ایسا کرے تو گناہگار ہوگا،کیونکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اوقات کی خلاف ورزی کی، بندہ گناہ کرتا ہے، اللہ معاف کرتا رہتا ہے، بڑا سے بڑاگناہ توبہ کرنے سے معاف ہو جاتا ہے، بلکہ اللہ کی نوازش یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ گناہوں کو عمل صالح میں بدل دیتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے توبہ کر لیا وہ ایسا ہوجاتا ہے، جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں ہے، لیکن بندہ جب گناہ پر ڈِھٹ ہوجاتا ہے، بار بار گناہ کرتا ہے اور اس پر اسے کوئی ندامت نہیں ہوتی تو پھر اللہ رب العزت اس کے دل پر مہر لگا دیتے ہیں، اس کے قلب میں جو مرض ہوتا ہے اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے، پھر اس کے پاس دل تو ہوتا ہے، سمجھتا نہیں، کان ہوتا ہے، سنتا نہیں، آنکھیں ہوتی ہیں، دیکھتا نہیں اور وہ چوپائے کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہوجاتا ہے، اور تب وہ منزل آتی ہے جہاں سے لوٹنا ممکن نہیں ہوتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مومن بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، پھر اگر توبہ کر لیتا ہے تو وہ صاف ہوجاتا ہے، لیکن جب وہ توبہ نہیں کرتا تو سیاہی بڑھتی چلی جاتی ہے، اور پورے قلب پر چھا جاتی ہے، یہی وہ مرحلہ ہے جسے قرآن کریم نے ”ران“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ”کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون“ (المتطففین:14) جو وہ کیا کرتے تھے، اس کی وجہ سے ان کا قلب زنگ آلود ہو گیا ہے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، اللہ تعالیٰ ان کے قلوب، ان کی سماعت اور ان کی بصارت پر پردہ ڈال دیتا ہے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔(البقرۃ) پھر اس کے بعد ان کے قلوب سخت ہوجاتے ہیں، پتھر کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت، کیوں کہ پتھر سے تو کبھی نہریں پھوٹتی ہیں، کبھی پتھر پھٹ کر پانی نکل آتا ہے اور کبھی وہ خوف الٰہی سے گر پڑتے ہیں۔

اللہ چاہتے ہیں کہ بندہ گناہوں کو چھوڑ دے اور دار السلام کی طرف لوٹ جائے۔ حضرت ام سُلیم رضی اللہ عنہااور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ گناہوں کو چھوڑ دینا افضل ترین جہاد ہے، اسی لیے صحابہ کرام ؓ حقیقی جہاد سے لوٹے تو انہیں بتایا گیا کہ ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹے ہیں، یعنی تیر تبر اور بھالے کے مقابلے گناہوں سے رُکنا اور خواہشات نفسانی کا گلہ گھوٹنا، اپنی مرغوبات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات پر قربان کرنا یہ اس جہاد سے بڑا جہاد ہے۔

بنو اسرائیل کے واقعات پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں نے اپنے دین سے قطع تعلق نہیں کر لیا تھا، بلکہ ان کی حالت یہ ہو گئی تھی، جب کوئی کام کرنے کو کہا جاتا تو اس سے دور ہو جاتے، جب کسی کام سے روکا جاتا تو اس کو شوق کے ساتھ کیا کرتے، چنانچہ ان کی اس قسم کی حرکت کی وجہ سے اللہ نے انہیں دردناک عذاب دیا اور ان کو بندروں اور خنزیروں میں تبدیل کرکے عبرت کا سامان کر دیا، پھر انہیں اجتماعی طور پر موت کی نیند سلا دیا۔

سورہ اعراف: 166/ میں ہے کہ جب وہ اس کام میں بڑھنے لگے جس سے ان کو روکا گیا تھا، تو ہم نے حکم دیا بندر ذلیل ہوجاؤ، چنانچہ وہ ایسے ہی ہو گیے، بنو اسرائیل ہی کیا، جس نبی کی امت نے سر کشی اختیار کی اور نا فرمانی کیا، تو اللہ رب العزت نے اسے سخت سزا دیا۔ سورۃ زخرف آیت ۵۵ میں ہے کہ جب انہوں نے ہم کو غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا، اور پھر سب کو ڈبودیا۔

اللہ رب العزت نے گناہوں کے بارے میں یہ اصول بھی قرآن کریم میں ذکر کیا ہے کہ جو کوئی بھی برا کام کرے گا، اس کی وہ سزا پائے گا، اور اس سزا کے خلاف اللہ کے سوا کسی کو حمایتی اور مدد گار نہیں پائے گا۔ سورۃ زلزال میں ہے کہ ہرآدمی جو اچھائی کرے گا وہ اچھائی کو دیکھے گا اور جو برائی کرے گا وہ برائی کو دیکھے گا، مسند امام احمد میں ایک روایت یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ ”جب بندہ اللہ کی نا فرمانی اور حکم عدولی کرتا ہے تو اللہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں، اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور اس لعنت کے اثرات اس کی سات پشتوں تک چلے جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس گناہ کی سزا اس شخص کو تو ملے گی ہی، اس کی اولاد کو بھی اس لعنت کی نحوست سے گذرنا ہوگا“، مسند احمدمیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ ”جب بندہ اللہ کی نا فرمانی کرتا ہے تو اس کے مداح لوگ ہی اس کی برائیاں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس سے زیادہ عبرت ناک منظر وہ ہوگا، جب اللہ تمام مخلوق کے سامنے اس گناہ کا اعلان کریں گے، تو سب ہنسیں گے، اس وقت کیسی ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لئے حتی الامکان گناہوں سے بچنا چاہیے اور کسی گناہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے، کیوں کہ چھوٹے گناہ کی لت بڑے گناہ تک پہونچا دیا کرتی ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے لکھا ہے کہ:

ہر گناہ (گو وہ صغیرہ ہو)اپنی حقیقت کے اعتبار سے عظیم ہے؛ کیوں کہ گناہ کی حقیقت ہے، حق تعالیٰ شانہ کی نا فرمانی اور نا فرمانی خواہ چھوٹی ہو، بڑی ہے، باقی گناہ صغیرہ وکبیرہ کا تفاوت ایک امر اضافی ہے ورنہ اصل حقیقت کے اعتبار سے سب گناہ بڑے ہی ہیں، کسی کو ہلکا نہ سمجھنا چاہیے، جیسے آسمان دنیا عرش سے چھوٹا ہے مگر حقیقت میں کوئی چھوٹی چیز نہیں۔ (استخفاف المعاصی: 5)

ایک دوسری جگہ حضرت نے لکھا ہے کہ ”گناہ صغیرہ (چنگاری کی طرح ہے) چھوٹا سا گناہ بھی تمام نیکیوں کو برباد کر سکتا ہے، جس طرح چھوٹی سی چنگاری سارے گھر کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ (تذکیر الآخرۃ: 25)

واقعہ یہ ہے کہ روئے زمین پر جو کچھ فساد اور بگاڑ ہے وہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ روئے زمین،خشکی اور تری میں جو کچھ فساد ہے وہ لوگوں کی کمائیوں (بداعمالیوں) کی وجہ سے ہے، تاکہ وہ اپنے بعض کرتوتوں کا مزہ چکھ لیں، ممکن ہے کہ وہ اس کے بعد اللہ کی طرف لوٹ جائیں۔ ایک دوسری آیت میں ہے۔ جو مصیبتیں آتی ہیں، وہ تمہاری کمائیاں ہیں، اور یہ اس صورت میں ہے، جب اللہ بہت سارے گناہ کو معاف کر دیتا ہے۔

گناہوں کی علماء نے دو قسمیں، صغیرہ اور کبیرہ ذکر کیا ہے، پھر ان کی تفصیلات بیان کی ہیں،

گناہ کبیرہ سے مراد یہاں ہر وہ گناہ ہے جس کے کرنے والے پر قرآن واحادیث میں سخت وعید آئی ہے، اور جس کے کرنے پر حد واجب ہوتی ہے، سب گناہ کبیرہ کے ذیل میں آتے ہیں، علماء کے نزدیک گناہ کبیرہ کی تعداد میں اختلاف ہے، بعض نے پندرہ، بعض نے چار اور بعضوں نے ان کی تعداد پچیس بتائی ہے، ابو طالب مکی کے نزدیک یہ تعداد سترہ ہے۔ تعداد کچھ بھی ہو، گناہ، گناہ ہے اور اس کا ترک لازم ہے، اس کے لیے قرآن کریم کی آیات اور ان احادیث کا مطالعہ انتہائی مفید ہے، جن میں گناہوں پر وعید یں آئی ہیں، اس سلسلہ میں گناہگاروں پر مسلط عذاب سے عبرت پکڑنا اور مراقبہ ما بعد الموت کو علماء نے مفید قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ گناہوں کی اپنے صفات کے اعتبار سے تین قسمیں اور بیان کی ہیں۔ ذنوب ملکیہ،یعنی ایسے صفات کو اپنی طرف منسوب کرنا جو صرف خدا کو زیب دیتے، جیسے عظمت وکبریائی اور خلق خدا کو بندہ بنانا، اور دوسری قسم ذنوب شیطانیہ ہے اس میں حسد، سرکشی، بغض وعناد، دغا بازی، کینہ پروری، مکر وفریب، گناہ پر اکسانا، اللہ کی اطاعت سے روکنا، کسی کو کمتر سمجھنا شامل ہے۔ تیسری قسم ذنوب بہیمیہ ہے، ان میں پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات پوری کرنا، بخل، حرص، بزدلی، مصیبت کے وقت صبر نہ کرنا، زنا کا ارتکاب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

گناہ کی جو بھی قسم ہے، اللہ رب العزت سے دعا کرنا چاہیے، وہ تمام گناہوں سے ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

Comments are closed.