جمعہ نامہ: مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’ اللہ میرا رب بھی ہے او ر تمہارا رب بھی، لہٰذا اُسی کی بندگی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے”۔ یہاں اس آفاقی حقیقت کو پیش کیا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ساری عالم انسانیت کا پروردگار ہے اس لیے سارے انسانوں کو اسی کی بندگی اختیار کرنی چاہیے ۔ دنیا کے مختصر سے عرصۂ حیات میں اپنے آپ کو ابدی کامیابی و کامرانی کا حقدار بنانے کی خاطر شرطِ اول یہ اعتراف ہے کہ :’’اللہ کے نزدیک دین (یعنی زندگی گزارنے کا معتبر طریقہ) صرف اسلام ہے۔‘‘یہ یقین اس قدر کامل ہونا چاہیے کہ :’’اگرکوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے طریقے کو اختیار کرے گا تو اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہوگا اور آخرت میں وہ ناکام ہوگا‘‘ کیونکہ فرمانِ خداوندی ہے:’’ میرا راستہ ہی سیدھاراستہ ہے پس تم اسی کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤگے۔‘‘
اس حقیقت کو بسرو چشم تسلیم کرنے والے مومن بندوں کو بندگی کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ :’’ اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ ‘‘۔ اس آیت کریمہ میں مکمل اطاعت و فرمانبرداری کی تاکید کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے کہ : ’’شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ ابلیس لعین چونکہ خدائے برحق کی نافرمانی کے لیے اذنِ الٰہی کو ذمہ دار مانتا تھا اس لیے اول روز عہد کر بیٹھا کہ :’’ اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر اِن انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا، آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے اِن کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا ‘‘۔انسانوں کو اگر فرشتوں کی مانند خلیفہ بناکر آزادی نہیں دی گئی ہوتی تو شیطان کے لیے انہیں بہکا کر حریتِ فکر و عمل کا غلط سمجھا کر دین حق سے بغاوت کروانا غیر ممکن تھا ۔ سچ تویہ ہے کہ انسانوں کی آزادی کا حقیقی سر چشمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی سے پھوٹتا ہے اور اس سےسرمو انحراف اپنے نفس یا دیگر انسانوں کی غلامی پر منتج ہوتا ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں؎
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!
خالقِ کائنات نے جن و انس کی تخلیق کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ:’’ میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے‘‘۔ اس آیت میں فرشتوں کا ذکر نہیں ہے کیونکہ وہ تو بندگی کے لیے مجبور ہیں جبکہ جن و انس کو انحراف و بغاوت کی بھی آزادی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں مقصدِ حیات کے حوالے سے رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس فرضِ منصبی کو ادا کرنے کی خاطر انبیائے کرامؑ مبعوث کیےجاتے ہیں۔قرآنِ حکیم میں اس احسانِ عظیم کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ :’’ ہم نے اسے (انسانوں کو) راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘ ۔ اس کے بعد نعمت آزادی کا درست اور غلط استعمال کرنے والوں کوان کے انجام کار سے بھی نہایت واضح انداز میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ : ’’کفر کرنے والوں کے لیے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے ۔نیک لوگ (جنت میں) شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی ‘‘۔
حریت فکر و عمل دراصل انسانوں کے لیے رضائے الٰہی کا ذریعہ اور اپنے درجات کو بلند کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ فرمانِ ربانی ہے:’’اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حَسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے اور وہ صاحبِ عزّت بھی ہے اور بخشنے والا بھی ہے‘‘ مگر شیطان اسی راستے انسانوں کوبہکاتا ہے۔بنی آدم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی سے بے نیاز کرکے اپنے نفس کا غلام بنا دیتا ہے۔ مغرب کے ملحد دانشوروں نے مذہب کا انکار کرنے کے بعد وحیٔ الٰہی سے بے نیاز ہوکر عقل کی بنیاد پر سچ، حقیقت ، قدر، عدل، علم اور حسن کا معیار متعین کرنے کی کوشش کی ۔ ملحدانہ جدیدیت جب اس مقصد میں ناکام ہوگئی تو اس نے وحیٔ الٰہی کے آغوش رحمت میں پناہ لینے کے بجائے سرکشی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے مابعد جدیدیت کا فلسفہ گھڑ کے سچ، حقیقت ، قدر، عدل، علم اور حسن کے وجودکا ہی ا نکار کردیا ۔ان کے نزدیک یہ بے معنیٰ اضافی تصورات و معیارات ہر فرد کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں اور اسے انفرادی آزادی کی معراج قرار دیا گیا ۔
انسانی معاشرے کااگرکوئی وجود ہی نہ ہوتا اور ہر سیارے پر فقط ایک ہی فرد کی اجارہ داری ہوتی تو مادر پدر آزاد ی کا غلط نظریہ بے ضرر ہوجاتا۔ مہذب معاشرے میں فرد کی آزادی اور عدل اجتماعی کے درمیان توازن لازمی ہے ورنہ کولکاتہ میں جونیر ڈاکٹر کے ساتھ بدترین زیادتی جائز ہوجائے گی اور اس کےمرتکب سنجے رائے کو سزا دینے کا جواز ہی نہیں رہے گا کیونکہ نہ تووہ اپنےجرم کو غلط سمجھتا ہے اور نہ اس پر نادم ہے۔ مابعد جدیدیت کے مطابق اسے اپنی مرضی پر عمل کرنے سے روکنا اس کی آزادی پر قدغن لگانا ہے۔یہ بے مہار آزادی انسانی سماج کو درندوں کا جنگل بنادے گی۔ حکمرانوں کو شیطان بہکاتا ہے کہ انہیں اپنی آزادی کا استعمال کرکے خدا کی بندگی سے نکل جانا چاہیے اور ظلم و جبر کے ذریعہ دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بناکر اپنی مرضی چلانا چاہیے۔ اس کےجھانسے میں آکر کئی حکمراں اپنی دنیا و عاقبت دونوں تباہ کر چکے ہیں ۔ شیخ حسینہ واجد کی تازہ ترین مثال شاہد ہے کہ بندوں میں خدا بننے کی آرزو نے انہیں رنج و الم میں مبتلا کردیا حالانکہ سچی بندگی جھوٹے دعوائے خداوندی سے افضل تر ہے۔ اسی لیے شاعرِ مشرق فرماتے ہیں ؎
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
Comments are closed.