عبد الرشید اگوان رحمہ اللہ :صلاحیت اور صالحیت سے بھرپور شخصیت

 

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

 

میرے چھوٹے بھائی مصعب! ابھی تم اپنے ابا کو منوں مٹی دفن کرکے لوٹے ہو۔میں تم سے تعزیت کرتا ہوں کہ تم عظیم باپ کے سپوت ہو جس نے اپنی پوری زندگی خیر کے کاموں میں وقف کردی تھی۔تم اس منبع علم کے بیٹے ہو جس نے سیکڑوں عاشقانِ علم کو تعلیم کی روشنی سے منور کررکھا ہے۔تم اس نڈر باپ کے بیٹے ہو جس نے مشکل حالات کاپامردی سے مقابلہ کیا اور اپنی ذات پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔

میرے بھائی تم نویں جماعت(عربی اول) کے طالب علم تھے جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا آج بھی تمہارا وہی معصوم چہرہ میری نظروں کے سامنے ہے ۔جتنے معصوم تم تھے تمہارے ابا نے اسی معصومیت کے ساتھ بڑی پاکباز زندگی گذار ی ہے۔ مجھ جیسے سیکڑوں تشنگان علم ہیں جنہوں نے تمہارے ابا کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے۔

مصعب،میرے بھائی! علم و فکر کو جلا بخشنے کے لئے جب میں نے پہلا تحریکی سفر کیا اور آبو کی پہاڑیوں پر جسے ’’مائونٹ آبو‘‘کہتے ہیں خیمہ زن ہونے کا موقع ملا تو وہاں جن لوگوں کے’’ گیان‘‘ سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ان میں تمہارے والد عبد الرشید اگوان بھی تھے۔جن کی علمی و فکری باتوں نے زندگی کو رخ دینے کا حوصلہ عطا کیا اور پھر میں بھی اسی راستےکا مسافر بن گیا۔پہلی ہی ملاقات میں مجھے جس چیز نے ان کا گرویدہ کیا وہ ان کی سادگی ہی تھی۔

یہ کسی ذکر و فکرکے محفل کی بات ہے کہ تشنگان تحریک کسی کمرے میں جمع تھے ،میں جب داخل ہوا تو وہاں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی، آپ کے والد محترم اٹھے اور انہوں نے اپنی جگہ مجھے بٹھادیا، میں نے جب یہ کہا کہ مجھے کیوں گناہگار کرتے ہیں ؟تو بڑی محبت سے گویا ہوئے کہ’’ یہی تو کارثواب ہے‘‘۔ایک نوخیزاور نو وارد کے لئے اپنے بڑے کی طرف سے یہ محبت ہی تھی جو قافلے کو بہت دور تک لے گئی۔

آخر کتنے لوگ ہیں جویہ جانتے ہیں کہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (دہلی)کے قیام میں ڈاکٹر منظور عالم صاحب حفظہ اللہ کے ساتھ جن لوگوں نے قدم بہ قدم ساتھ دیا اور اسے فکری بنیادوں پر کھڑا کیا اس میں عبد الرشید اگوان بھی تھے۔لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ بہت دیر تک اور بہت دور تک اس ادارے کے ساتھ نہیں چلا جاسکتا تو پھر اپنی راہ الگ اختیار کی اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی (IPSA)قائم کی جس کےوہ صدر رہےاسی طرح آل انڈیا ایجوکیشنل موؤمنٹ نے اپنی خدمات کا آغاز کیا تو ملت کو تعلیم یافتہ بنانے کےسفر میں اگوان صاحب پیش پیش رہے حتی کہ سکریٹری شپ کی ذمہ داری بھی قبول کرلی اور کماحقہ اس کا حق اداکرنے کی کوشش کرتے رہے ۔

میرے بھائی ! تمہارے ابا جس طرح پاک طینت و شریف النفس تھے وہ دوسروں کو بھی ایسا ہی سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ ان کی پاکدامنی میں اپنا منھ چھپانا کار سعادت سمجھتے تھے۔ایک بار جب میں نے مسلم مجلس مشاورت میں ایجنسیز کے تربیت یافتہ افراد کے در آنے کی خبر دی تو کہنے لگے’’آخر آپ اس نازک دور میں کن کن سے پنجہ آزمائی کریں گے ،انہیں کے بیچ کام کرنا ہے ،بہت سارے لوگ دشمن کا آلہ کار بن کرچھوٹے مقاصد کے تحت کسی تنظیم و جماعت سے منسلک ہوتے ہیں لیکن ہمارا مقصد تو اعلیٰ و ارفع ہونا چاہئے اور اس کے لئے ان قبیل کے لوگوں سے الجھنا نہیں چاہئے‘‘۔

برادر عزیز شہاب الدین یعقوب نے جب ان کی کتاب Islam in 21st Century : The Dynamics of Change and Future-making شائع کی تو وہ بہت دنوں تک دہلی کے مختلف کتب فروشوں کے پاس پڑی رہی ۔ایک روز جب انہیں خبر ہوئی کہ میں نے ان کی تمام کتابیں لے لی ہیں اور اسے جنوبی ہند میں متعارف کرارہا ہوں تو بڑے خوش ہوئے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ بنگلور کے ایک شیعہ ادارہ نے 80 نسخے یہ کہتے ہوئے خریدلئے کہ تمام ٹرسٹیز کو کتاب بہت پسند آئی ہے اور وہ اپنے طلبہ کے مابین اسے تقسیم کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوسناک پہلو یہ رہا کہ سنی اداروں نے اپنی لائبریری یا آفس کے لئے کتاب تو تحفتاً لی لیکن کسی طرح کے Bulkآرڈر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا۔

ہندوستان کے بدلتے منظرنامے پر اگوان صاحب کی بڑی گہری نظر تھی ۔بدلتے ہوئے حالات میں ملت کے فکری سرمائے کو کیسے بچاکر رکھا جائے یہ فکر دامن گیر رہتی تھی ،وہ ہمیشہ تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل خاکہ پیش کرتے تھے۔ کسر نفسی اس درجہ کی تھی کہ جب ان کی گفتگو پر کوئی گفتگو کی جاتی تو بہت خاموشی سے سنتے اور پھر کہتے ’’ میں نے جو سمجھا تھا وہ آپ کو بتایا ویسے آپ کی بات بھی معقول ہے ‘‘۔

میرے عزیز بھائی ! آل انڈیا ایجوکیشنل موؤمنٹ جے پور اجلاس کے موقع پر میری شدید خواہش تھی کہ میں تمہارے گائوں کا سفر کروں اور کچھ روزتمہارے ابا کے ساتھ رہوں ۔میں نے پروگرام کےدوران ایک روز ان سے پوچھ لیا کہ آپ نے دہلی کیوں چھوڑ دیا، کہنے لگے ’’گائوں کی فضا اچھی ہے ،کھلا کھلا علاقہ ہے ،پالوشن میں کمی ہے لہذا دہلی کے پالوشن سے بچنے کے لئے راجستھان منتقل ہوا ہوں تاکہ تھوڑی زندگی اور لمبی ہوجائے ‘‘۔آخری جملہ جس مسکراہٹ کے ساتھ ادا کیا تھا وہ چہرہ آج بھی نظروں کے سامنے ہے۔یقیناً انسان کی سانس جتنی مقدر ہے اتنی ہی آتی اور جاتی ہے ۔دنیا میں بس ان کی اتنی ہی زندگی تھی لیکن جتنی زندگی انہوں نے گذاری اور جس انداز میں گذاری ،میرے بھائی!! مجھے امید ہے کہ وہ آخرت میں اس کا بہترین بدلہ پائیں گے ۔یقیناً قبر میں جنت کے دروازے کھل گئے ہوں گےاور انہیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہوں گی ،ایسی ہوائیں جو پالوشن سے بالکل پاک، صاف و شفاف ہوں گی،جس کی تلاش میں وہ گائوں کی طرف آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین یا رب العالمین۔

Comments are closed.