جمعہ نامہ: یہ پہلا سبق تھا کتا ب ہدیٰ کا،کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے :’’  لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے۰۰۰‘‘۔ یہ ایک  آفاقی حقیقت  ہے کہ سارے انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ۔ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا :  ”مخلوق اللہ کی عیال(زیر کفالت) ہے، اور مخلوق میں سے وہ شخص اللہ کو زیادہ پسند ہے جو اس کی عیال سے اچھا سلوک کرتا ہے“۔ عالمِ انسانیت کو اپنے   خاندان کا فرد سمجھنے  کا تقاضہ ہے کہ   ایک دوسرے سے شفقت کا معاملہ  کیاجائے ۔ سب  کے ساتھ اچھا سلوک  اور کمزور وں اور ناتوانوں کی مدد کی جائے ۔ نبیٔ کریم ﷺکے پاس  جب قبیلہ مضر کے چند لوگ چادریں لپیٹے ہوئے آئے کیونکہ ان کے جسم پر کپڑا تک نہ تھا تو حضورﷺ نے مذکورہ بالا  آیت  کے ساتھ یہ پڑھ  کر لوگوں کو خیرات کرنے کی ترغیب دی  کہ :’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے‘‘۔  چناچہ حاضرین مجلس نے درہم و دینار اور کھجور و گیہوں  سے آنے والوں کا تعاون کیا۔

فرمانِ قرآنی ہے:’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘۔ کائناتِ ہستی میں رنگ و نسل اور قوم و برادی  کاتشخص، تفاوت و رقابت کے لیے نہیں بلکہ   تعارف کے لیے ہے ۔ اس بنیاد پر کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوجاتا ۔ آپ ﷺ کے تشکیل کردہ معاشرے میں ایران کے حضرت سلمان فارسیؓ، روم کے حضرت صہیب رومیؓ اور حبشہ سے تعلق رکھنے والے حضرت بلال حبشیؓ اعلیٰ ترین مقام و مراتب پر فائز ہوئے۔ کم و بیش چھبیس لاکھ مربع میل  کی مملکت کے خلیفۂ وقت حضرت عمرؓ  نے حضرت بلال ؓ کے وصال پر فرمایا’’ آج ہمارا سردار دنیا سے چل بسا‘‘۔ریاست مدینہ میں نبیٔ کریم ﷺ نے  وزارت خزانہ کا قلمدان اسی  آزاد کردہ حبشی نسل  غلام  کے سپرد کیا  تھا۔ مسجد نبوی کے موذن نے فتح مکہ کے موقع پر جب خانہ کعبہ کی چھت پہ چڑھ کے اذان دی  تو مکہ کے سردار سٹپٹاگئے اوربیہودہ باتیں کرنے لگے  لیکن نبیٔ مکرم ﷺ نےان کی پروا کیے بغیر  رنگ و نسل کے امتیازات اور نسلی تعصبات کو قدموں تلے روند دیا۔

فتح مکہ کے کے بعد نبی مکرم ﷺ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا لوگو اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے اسباب اور جاہلیت کے باپ داداپر فخر کرنے کی رسم اب دور کردی ہے پس انسان دو ہی قسم کے ہیں یا تو نیک پرہیزگار جو اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ ہیں یا بدکار غیر متقی جو اللہ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہیں پھر آپﷺ نے مذکورہ بالا  آیت تلاوت فرمائی۔ نبیٔ کریم  نے مزید فرمایا کہ تمہارے نسب نامے دراصل کوئی کام دینے والے نہیں تم سب بالکل برابر کے حضرت آدم کی اولاد ہو، کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہاں فضیلت دین وتقویٰ سے ہے انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ وہ بدگو، بخیل، اور فحش کلام ہو۔ یہ پوچھے جانے پر کہ ’ سب سے بہتر کون ہے ؟ ‘آپ ﷺنے فرمایا جو سب سے زیادہ مہمان نواز، سب سے زیادہ پرہیزگار، سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا، سب سے زیادہ بری بات سے روکنے والا، سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا ہے۔

رنگ و نسل اور قبیلہ و ذات ازخود  غیر اختیاری طور پرمل جاتاہے ۔ اس میں بندے کی خواہش  یا مرضی شامل نہیں  ہوتی  ۔ انصاف کا تقاضا  تو یہ ہے کہ عظمت کی بنیاد برادری، رنگ اور نسل کے بجائے اختیاری معاملات میں ہو ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ، جیسا کہ ارشاد باری تعالىٰ ہے: ”اللہ تعالىٰ کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے“۔ مساوات انسانی کےاس عظیم اصول کو بیان کرنے کے بعد رسول معظم ﷺ نے پوچھا: ’’کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ہے؟‘‘حاضرین نے  کہا:’’ اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں‘‘۔ اس شہادت کے بعد آپ ﷺ نے امت کو نصیحت   فرمائی: ”حاضر لوگ یہ باتیں غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔“

وطن عزیز میں فی الحال مختلف حوالوں سے ذات پات کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ کبھی کاسٹ سینسس یعنی  ذات پات کی بنیاد پر رائے شماری کا مطالبہ ہوتا ہے تو  کبھی ریزرویشن میں کریمی لیئر یا   لیٹرل انٹری پر ہنگامہ ہوجاتا ہے۔ نسلی تفاوت کے حوالے  سے  مرکزی وزیر چراغ پاسوان  کا چشم کشا بیان بتاتا ہے کہ آج بھی  اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز پسماندہ سماج کے افسران کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتاہے۔ ان کو بارات میں گھوڑی پر چڑھنے کے لیے پولیس کے تحفظ کی ضرورت پڑتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  دلتوں کا مونچھ رکھنا یا گوگل پہننا  بھی نام نہاد اعلیٰ ذات کے لوگوں کو گوارہ نہیں ہے۔  صدر مملکت تک کی  مندروں  تذلیل کی جاتی ہے ۔ زندہ رہتے انہیں اپنے کنوئیں سے پانی نہیں لینے دیا جاتااور مرنے کے بعد بھی  اپنے شمشان میں  آخری رسومات  کی اجازت نہیں دی جاتی ۔عدم مساوات کی تباہی وبربادی  سے خبردار کرتے ہوئے نبیٔ مکرم ﷺ نے فرمایا:’’ تم سب اولادِ آدم ہو اور خود حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لوگو اپنے باپ دادا کے نام پر فخر کرنے سے باز آؤ ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادہ ہلکے ہوجاؤ گے‘‘۔  موجودہ حالات میں یہ امت مسلمہ کی  دینی    ذمہ  داری ہے کہ وہ   اپنے قول و عمل سےتمام  عالمِ انسانیت تک  اسلامی مساوات کا پیغام  بلا کم و کاست  پہنچائیں اور  عزت و وقار کی بحالی  کے لیے جاری و ساری جدوجہد میں اپنا تعاون پیش کریں ۔

Comments are closed.