فتنئہ ارتداد کا مقابلہ کیسے کریں ؟

قسط اول

تحریر/ مولانا انیس الرحمن قاسمی

نائب صدر/ آل انڈیا ملی کونسل

 

ترتیب/ محمد قمر الزماں ندوی

استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725

 

گزشتہ سے پیوستہ کل(یعنی 21/ اگست2024ء) کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور جامعتہ الھدایہ جئے پور کے امیر جامعہ جناب حضرت مولانا فضل الرحیم صاحب مجددی ندوی مدظلہ العالی کا فون آیا،( حضرت گاہے گاہے فون کے ذریعہ رہنمائی فرماتے ہیں اور مہمیز لگاتے رہتے ہیں اور میری قلمی کاوشوں پر دیگر اکابر کی طرح پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں) علیک سلیک اور اور طرفین کی طرف سے خیر و عافیت معلوم کرنے کے بعد مولانا محترم کا حکم ہوا کہ اس وقت سب سے سنگین مسائل میں سے ایک مسئلہ فتنئہ ارتداد کا ہے ، امت کی بیٹیاں غیروں کے ہاتھ میں جارہی ہیں ، روزانہ خبریں آرہی ہیں ، دل و دماغ زخمی ہیں ،امت کے جیالوں خصوصا علماء، اصحاب دین و دانش اور امت کے باشعور نوجوانوں کو اس کی سرکوبی کے لیے سامنے آنا ہوگا اور اس کے لیے منصوبہ بند کوشش کرنی ہوگی ورنہ حالات اور خراب ہوں گے اور صورت حال مزید بگڑ جائے گی ۔۔

عزیزم ! ،، تمہاری ذات سے بھی امت کو بہت توقع ہے ،،

آپ جمعہ کے خطاب کے لیے ائمہ و خطباء حضرات کے لئے آسان اور سہل زبان میں فتنئہ ارتداد کی سرکوبی کیسے ہو؟ موجودہ ارتداد کے لہر کو کیسے روکا جائے ؟ اس عنوان پر جمعہ سے قبل خطاب کے لیے مواد تیار کریں اور تمام ائمہ اور خطباء حضرات کی خدمت میں سوشل میڈیا کے توسط سے بھجیں ۔۔۔

حکم کی تعمیل میں متعینہ موضوع پر پہلے خطاب جمعہ ترتیب دے کر ائمہ و خطباء کی خدمت میں پیش کر دیا ۔ فللہ الحمد

اس موضوع پر مزید لکھنے اور مواد فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن راقم الحروف کی طبیعت ابھی بہت سازگار نہیں ہے، دل کے آپریشن کے بعد بھی مستقل پرہیز اور دوائی چل رہی ہے، اور بہت زیادہ ذہنی اور دماغی کام سے ڈاکٹروں نے منع بھی کیا ہے ، آرام کا مشورہ دیا ہے۔ اس لیے میں اپنی طرف سے مزید کچھ نہ لکھ کر مفکر ملت جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کل ہند نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل انڈیا کی معروف و مشہور کتاب

،،خطباتِ جمعہ ،، سے اس موضوع سے متعلق پوری تحریر کو دو قسطوں میں لاحقہ سابقہ کے ساتھ پیش کر رہا ہوں ۔ موصوف جناب مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کے شکریہ کے ساتھ ۔ میں نے کل مولانا موصوف سے رابطہ کیا کہ پیشگی اجازت لے لوں ،لیکن مولانا سے رابطہ نہیں ہوسکا ۔ بہر حال یہ دین و ملت کی خدمت کی غرض سے ہے اور یہ تحریر اپنے موضوع پر ایک مکمل تحریر ہے ،جس میں موجودہ فتنئہ ارتداد سے کیسے بچا جائے اور اس کے سد باب کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کیا جائے ، بہت جامعیت کے ساتھ موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے اور اس فتنہ کے سد باب کی صورتیں بیان کی گئی ہیں اور لائحہ عمل بتایا گیا ہے، اس لیے اجازت بہت ضروری نہیں سمجھا۔ تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اس تحریر کو ضرور پڑھیں اور اس کی روشنی میں لائحہ عمل مرتب کریں ،جمعہ میں اس کو موضوع بنائیں اور امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائیں اور اس تحریر کو اہل علم، ائمہ و خطباء کی خدمت میں بھی بھیجں ۔امید کہ آپ تمام حضرات اس پر توجہ فرمائیں گے ۔

م۔ ق ۔ ن

 

اللہ جل شانہ نے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر نبوت کا اختتام فرما دیا ہے، اب کوئی دوسرا نبی آپ کے بعد نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی دوسرا دین اللہ کے نزدیک قابل قبول ہوگا۔ اللہ جل شانہ نے فرمایاہے۔ *ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ* (اور جو شخص اسلام کے علاوہ دین اختیار کرے گا ، وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔)

اس لیے ایمان لانے کے بعد اس کو چھوڑ دینا اور کفر کو اختیار کر لینا اور مرتد ہو جانا عظیم ترین گناہ و بدبختی ہے، مرتد ہونے والا اپنے تمام اعمال اور نیکی کو غارت کر دیتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے:- *ومن یکفر بالایمان فقد حبط عمله وھو فی الآخرۃ من الخاسرین*

( جو شخص ایمان کا انکار کرے، پس یقینا اس کا عمل رائیگاں گیا اور وہ آ خرت میں

نقصان اٹھانے والوں میں ہو گا)

مرتد کے سارے اعمال دین اور دنیا کےضائع ہو جاتے ہیں اور وہ آخرت میں ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا۔

اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:*ومن يرتدد منكم عن دينه فيمت وهوكافر فأولئك حبطت اعمالهم في الدنياولآخرة واولئك اصحاب النار ه‍م فيها خالدون*(اورجو کوئی پھرے تم میں سے اپنے دین سے پھر مر جائے حالت کفر ہی میں تو ایسوں کے ضائع ہوئے عمل دنیا اور آخرت میں اور وہ لوگ رہنے والے ہیں دوزخ میں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔)

اس آیت میں ارتداد اور اس پر موت واقع ہونے پر دوسزاؤں کا ذکر کیا گیا: اعمال کا حبط ہوتا ، دوزخ میں ہمیشہ رہنا۔ فقہاء کرام نے کہا کہ ہے کہ اعمال کے ثواب کا ختم ہونا ارتداد کی سزا ہے اور اسی پر موت واقع ہونے سے دوزخ میں ہمیشہ کے لیے رہے گا ، اگر مرتد دوبارہ اسلام قبول کرلے تو اس کو اسلام کی طرف رجوع ہونے کا ثواب تو ملے گا لیکن ارتداد کی وجہ سے جو اعمال وطاعات ضائع ہوئے ہیں ، وہ لوٹ کر نہیں آئیں گے اللہ ہماری اور آپ کی حفاظت فرمائے۔

لہذا جو مرتد ہو کر کفر و شرک کا مذہب اختیار کرلے یا قادیانی بن جائے تو اس کے اعمال غارت ہو جائیں گے اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا، البتہ اگر توبہ کرلے اور دوبارہ ایمان لے آئے تو اس کا ایمان قابل قبول ہو گا اور اگر ایمان نہ لائے تو اسلامی حکومت میں بغاوت الہی کی بنا پر واجب القتل ہوگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:- *لايحل دم رجل مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأنى رسول الله إلا بإحدى ثلاث:الشيب الزاني،والنفس بالنفس، والتارك الدينه المفارق للجماعة*

( جو مسلمان کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دے، اس کا خون بہاناجائز نہیں سوائے ان تین آدمیوں کے؛ایک وہ جو شادی شدہ ہو کر زنا کرے، دوسرا وہ جو کسی کو ناحق قتل کر دے،تیسرا وہ جو اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہو جائے )

ایمان والے جب اپنے ایمان و عمل میں کمزور ہو جاتے ہیں تو انہیں باطل قوتیں مختلف طریقوں سے دین سے پھیرنے کی کوشش کرتی ہیں ، یہ کوششیں مختلف طرح کی ہوتی ہیں جیسےبد اعتقادی کے ذریعہ ارتداد،اور فکری ارتداد یامذہب کی تبدیلی۔

(١)کبھی تو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر بد اعتقادی کے فتنے پیدا کئے جاتے ہیں، جیسے مرزاغلام احمد قادیانی کے مانے والے ختم نبوت کا انکار کرکے دین اسلام کی بنیاد کو منہدم کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مالی تحریص(لالچ) کے ذریعہ قادیانی بنا کر مرتد کرتے ہیں ، یا جیسے موجودہ دور میں شکیل بن حنیف نے ہندوستان میں اپنے آپ کو مسیح موعود، یا مہدی موعود بنا کر پیش کیا ہے اور وہ دین کے لبادہ میں مسلم نو جوانوں کو گمراہ کر کے مرید بناتا ہے۔

(۲) اسی طرح فکری ارتداد جیسے کمیونزم، نیچریت ، یا انکار حدیث ، یا انکار رسالت وغیرہ۔

(۳) اور کبھی براہ راست دین اسلام سے ہٹا کر ایمان والوں کو ہندو، عیسائی وغیر ہ بنا کر مر تذ کرتے ہیں۔

یہ فتنے ہر زمانہ میں ہوتے رہتے ہیں مگر اس وقت کئی طبقے متاثر ہیں، جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ دین کی تعلیمات سے نا واقف ہے، یا غربت و افلاس میں مبتلا طبقہ جو کئی نسلوں سے دینی تعلیم سے محروم ہے، جیسے جھگی جھونپڑی میں رہنے والے، یا مختلف کمزور برادریوں کے افراد، مردوخواتین ، اسی طرح وہ بچے جو شرک و بت پرستی کے ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور دینی تعلیم سے محروم ہیں، اسی طرح مسلمان نوجوانوں خاص طور پر مسلم لڑکیوں کو ہندؤ تنظیموں سے وابستہ افراد ورغلا کر ہندو لڑکوں سے شادی کراکر مرتد کر رہے ہیں غور کرنے پراس کے مندرجہ ذیل وجوہ و اسباب سامنے آتے ہیں، جیسے:

» ملک کی فرقه پرست تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس کی طرف سے منظم سازش کے ذریعہ غیرمسلم لڑکوں کا مسلم لڑکیوں سے رابطہ کرانے کی تحریک چلانا اور ترغیب دے کر ان سے شادی کرلینا۔

» مسلم لڑکیوں کا دین وشریعت سے نا واقفیت کی بنیاد پر ارتداد کی راہ اختیار کر لینا

» مسلم لڑکے اور ان کے والدین کی طرف سے تلک و جہیز کا مطالبہ کرنا اور مسلم لڑکیوں کے سرپرستوں کا اپنی غربت کی وجہ سے بے دست و پا ہونا۔

» مسلم لڑکیوں اور لڑکوں کا تاخیر سے شادی ہونا۔

» ہاسٹلوں میں لڑکیوں کا آزادانہ طریقے پر زندگی گزارنا۔

» اسکول، کالج اور کو چنگ سنٹر میں مخلوط تعلیم کی وجہ سےلڑکے اور لڑکیوں کے درمیان راه ور سم کا بڑھ جانا۔

» والدین کا اولاد کی دینی تعلیم و تربیت سے بے تو جہی برتنا۔

» لڑکے اور لڑکیوں کا موبائل،ٹی وی اور انٹرنیٹ پر عریاں تصاویر کو دیکھنا۔

» سماجی طور پر بے حیائی اور عریانیت کا پھیلاؤ اور لڑ کے ولڑکیوں کا غیر شرعی لباس پہننا۔

موجودہ ملکی قانون سے سہارا پا کر ارتداد کی راہ اختیار کرنا،یا باہمی رضامندی سے نا جائز رشتوں کو اختیار کرنا۔

» مسلم مردوں کا ایک لمبے عرصہ تک ملازمت کے لیے گھر اور وطن سے دور رہنا اور ان کی بیویوں کا شہروں، یا قصبوں میں علاحدہ مکان لے کر رہنا۔

» مسلم لڑکیوں کا مردوں کے ساتھ مخلوط جگہوں پر ملازمت اور نوکری کرنا

*اس فتنہ پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جائیں*:

(*الف*) غیر مسلم لڑکوں کا مسلم لڑکیوں سے رابطہ ختم ، یا کم کرنے کی کوشش۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جائیں:-

(۱)گاؤں اور محلہ کے مسلم و غیر مسلم دانشور حضرات مل بیٹھ کر

سماجی طور پر دباؤ بنائیں کہ اس طرح کے عمل سے سماج تناؤ کا شکار ہوتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ختم ہوتی ہے۔

(۲)ہر پندرہ دن پر خواتین بالخصوص اسکول اور کالج میں پڑھنے والی لڑکیوں کا دینی اجتماع کسی محفوظ مقام پر کیا جائے اور اس میں پردہ و حیا کے شرعی احکام، ایمان و عمل صالح اور دین کی باتیں بتائی جائیں۔

(۳) آر ایس ایس کی ترغیبی مہم کے فتنہ سے عام لوگوں کو واقف کرایا جائے اور اس سے بچنے کی ترغیب دیجائے۔

(۴)اور خواص کو بھی اس تحریک سے جوڑا جائے اور ان سےان کے اپنے حلقہ اثر میں اس کام کو مہم کے طور پر کرنے کی ضرورت بتلائی جائے۔

(٥)مسلم گھرانے کے اندرونی حالات کی اصلاح پر توجہ دی جائے

(٦)ان کاموں کے لئے محلہ کی سطح پر نگراں کمیٹی بنائی جائے، جو گاؤں اور محلہ میں غیر مسلم لڑکوں کی آمد و رفت ، تعلقات وغیرہ پر نگاہ رکھیں۔

(٧)غیر مسلم لڑکوں کی کو چنگ سے جہاں مخلوط تعلیم ہوتی ہو حتیٰ المقدور بچنے کی کوشش کی جائے۔

 

(*ب*) *دین وشریعت سے نا واقفیت دور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کئے جائیں*

(١) بچیوں کی ابتدائی دینی تعلیم وتربیت کو فوقیت دی جائے۔

نیز گھر میں اسلامی ماحول کو بنانے کے لئے نماز کا قیام روزانہ تلاوت کلام پاک کامعمول اور ۱۰ ، ۱۵ منٹ کوئی دینی کتاب پڑھی جائے۔

(٢)اسکول وکالج میں ماہانہ دینی وتربیتی پروگرام کا نظام بنایا

جائے اور تمام اقلیتی اسکول کے نصاب تعلیم میں دینیات کو بھی داخل درس کرانے کی کوشش کی جائے۔

علماء مدارس ذمہ داران اور ائمہ کرام کے نام خطوط ارسال کئے جائیں اور انہیں اس پر متوجہ کیا جائے،تا کہ عوام و خواص کو بچے بچیوں کی دینی تعلیم دینے کی ترغیب دینے پر آمادہ کریں-

(٤)اسلام کا تعارف آسان کتابوں کے ذریعہ بھی کیا جائے ۔وہ اگر اردو پڑھنا نہیں جانتی ہیں تو ہندی زبان کی مفید کتابیں انہیں فراہم کی جائیں۔

(٥) سیرت نبی صل اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کے لیے ماہ ربیع الاول یا دیگر مہینوں میں مرد و خواتین کے الگ الگ سیرت کے جلسے منعقد کئے جائیں۔

(ج) *تلک و جہیز کو روکنے کے لے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرنی چاہئے* (١) تلک وجہیز کی قباحت پر ائمہ کرام جمعہ کے خطبات میں تقریرکریں اور سال میں کم سے کم تین چار مرتبہ اس کو موضوع سخن بنائیں اور قوم کو سمجھائیں کہ تلک وجہیز کی رسم حرام ہے ، اس سے بچنے میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

(٢) بلاک کی سطح سے کام کو شروع کیا جائے اور پہلے مرحلہ میں کسی ایک بلاک کو مثالی بنا کر شادی وںیاہ میں ہونے والے بے جا رسومات،فضول

خرچی، ریا و نمائش وغیرہ سے پر ہیز کرنے کی تلقین کی جائے۔

(٣) نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد کرنے کی تحریک چلائی جائے،اس کے لیے لوگوں کا مزاج بنایا جائے ۔

(٤) بارات کی رسم کو بھی ختم کیا جائے۔

(*٥*) لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کا شرعی طریقہ بتلایا جائے اور نص قطعی سے اس کو مستدل کیا جائے۔

(ه) *تاخیر سے شادی نہ کی جائے*

(١) شرعی اعتبار سے جب لڑکے و لڑکیاں جوان ہو جائیں تومناسب رشته تلاش کر کے ان کی شادی کردی جائے ، اس میں بے جا تاخیر نہ کی جائے اور اس کے لئے لوگوں میں بیداری مہم چلائی جائے۔

(*د*) *مخلوط تعلیم کے نقصانات سے بچا جائے*

مسلم اسکولوں کے ذمہ داروں سے گزارش کی جائے کہ چوتھے کلاس سے بچوں کے سیکشن علاحدہ کردیں ۔ (کمپوزر حافظ آفاق عادل)

نوٹ / مضمون کا اگلا حصہ کل ملاحظہ کریں ۔۔۔ نیز اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں ۔

Comments are closed.