ون نیشن ون الیکشن کی یلغار مگرمہاراشٹر سے راہِ فرار

 

ڈاکٹر سلیم خان

مودی جی نے یوم آزادی کے دن جو بڑے بڑےخواب بیچے  ان میں سے ایک ’ون نیشن ون الیکشن ‘ کا سپنا  تھا ۔  انہیں   یہ خوش فہمی  رہی  ہوگی کہ  لال قلعہ کی شاندار تقریر کے بعد ہریانہ اور مہاراشٹر کے لوگ ان پر مر مٹیں گے اور وہ بڑے آرام سے ان دونوں  ریاستوں میں  انتخاب جیت  جائیں گے۔ اسی لیے وہ بھول گئے کہ یہ جشن آزادی کا موقع ہے اور اس لیے  ان کو پرچار منتری کے بجائے پردھان منتری کی حیثیت سے خطاب کرنا چاہیے۔ سال بھر تو  وہ انتخابی تقاریرمیں  قومی رہنما کے بجائے پارٹی کے لیڈر دکھائی دیتے ہیں۔  یوم جمہوریہ کے موقع پر پریڈ تو ہوتی ہے تقریر  نہیں ہوتی اس لیے پندرہ اگست ہی وہ واحد موقع تھا جبکہ وہ وزیر اعظم کی  نظر آسکتے تھے مگر  اسے بھی انہوں نے گنوا دیا   اور حزب اختلاف پر اوچھے الزامات اور رکیک حملے کرنے میں لگ  گئے۔ آئی ٹی سیل نے بھی وزیر اعظم سے ترغیب لے کرایک  پوسٹر نکالا جس میں تین تصاویر تھیں ۔ اس میں راہل گاندھی کے ایک طرف اندرا گاندھی اور دوسری جانب پنڈت نہرو  کی تصویر تھی۔ نیچے جلی حرفوں میں لکھا تھا ’لٹیرے‘۔  کیا کوئی  سرکاری جماعت یوم آزادی کے موقع پر سابق وزرائے اعظم کو اس طرح خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے؟ یا حزب اختلاف کے رہنما کو ایسے القاب سے یاد کرتی ہے؟ لیکن بی جے پی جیسی بدقماش پارٹی جس سطح تک بھی گر جائے کم ہے؟

’ون نیشن ون الیکشن ‘ کا نعرہ لگانے والے وزیر اعظم ریاستِ جموں کشمیر میں پچھلے دس سالوں کے اندر ایک  الیکشن  بھی نہیں کراسکے ۔ جموں کشمیر کی عوام کے لیے یہ ’اے نیشن وتھاوٹ الیکشن ‘ کا زمانہ تھااسے  ’ون نیشن  نو الیکشن‘ بھی کہا جاسکتا  ہے ۔عدالتِ عظمیٰ نے پچھلے سال   دفع 370   کی منسوخی کو حق بجانب ٹھہراتے ہوئے مرکزی حکومت سے ریاستی انتخابات سے متعلق سوال کیا تو اس  کا جواب تھا کہ الیکشن کمیشن جب بھی انتخابات کرنے کے لیے تیار ہو منعقد  کرے اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اس گول مول جواب کے جھانسے کو سمجھ گیا اور ستمبر 2024تک کی مہلت دے ڈالی ۔  اس لیے اب وہاں انتخاب کروانا سرکار کی  مجبوری  بن گئی ورنہ کوئی سپریم کورٹ میں چلا جاتا تو خوب جوتے پڑتے۔  اس  لیے دو سے بھلے تین ہوگئے ۔ اس کے ڈیڑھ ماہ بعد جھارکھنڈ کا الیکشن ہونا ضروری  ہے اس لیے  مودی جی کی رائے کے مطابق پیسہ بچانے کے لیے وہاں بھی الیکشن کوایک ماہ قبل کروانے پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا ۔

دہلی کی صورتحال بھی بڑی دلچسپ ہے۔  وہاں کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال فی الحال  جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ ابھی حال میں نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیہ کو ایک طویل عرصے کے بعد ضمانت مل گئی ہے۔ سنجے سنگھ پہلے ہی جیل سے رہا ہوچکے ہیں۔ ویسےبھی اروند کیجریوال  کا جیل میں ہونا عآپ کے حق میں ہمدردی کی لہر بن سکتا  ہے۔  اس لیے اگر مرکزی حکومت دہلی کے انتخابات میں  بھی  تعجیل کرتی تو اس کا ایسا کرنا ’ون نیشن ون الیکشن ‘  کی راہ میں ایک قدم قرار دیا جاتا اور عام آدمی پارٹی بھی گوناگوں وجوہات کی بنا ء پر اس کا خیر مقدم ہی کرتی ۔ بہار میں تقریباً 6؍ ماہ قبل ریاستی  انتخاب  کروا کر نتیش کمار پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنا بھی بی جے پی کی ایک سیاسی ضرورت ہے ۔  اس کے لیے نتیش کمار بھی  ایک پیر پر تیار  کھڑے ہیں ۔ اس لیے ’ون نیشن ون الیکشن‘ کے پیش نظر 6؍صوبوں میں انتخاب ہونے کے امکانات پرغور ہوسکتا  تھا مگر الیکشن کمیشن کے اعلان سے ایسا لگا گویا ’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘  اور بیساختہ ہندی زبان کی  یہ کہاوت  یاد آگئی۔ ’چوبے چلے  تھے چھبے ّ بننے ، دوبے بن کر لوٹ آئے‘ یعنی  تین ، چار یا چھ کے بجائے صرف دوریاستوں  پراکتفاء کرلیا گیا ۔     

2009 سےمہاراشٹر اور ہریانہ کے انتخابات ایک ساتھ منعقد ہو رہے ہیں۔    2014 میں ہریانہ کے اندر بی جے پی  نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ 2019 میں وہ اپنے بل بوتے پر تو حکومت نہیں بناسکی مگر پھر بھی جے جے پی کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے حکومت سازی میں کامیاب ہوگئی۔ اس بار جموں کشمیر کے ساتھ ہریانہ کے انتخابات کا اعلان تو ہوگیا مگر مہاراشٹر  کے اندر بی جے پی  انتخاب کروانے کی ہمت نہیں دکھا سکی۔ اس کی وجہ پارلیمانی الیکشن کے چونکانے والے نتائج ہیں جس نے زعفرانیوں کے ہوش اڑا دئیے۔  2019 میں ہریانہ کے برعکس مہاراشٹر میں  بی جے پی کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے اپنے قدیم حلیف شیوسینا کا ساتھ چھوڑ کر اجیت پوار کے ساتھ حکومت سازی کی کوشش کی اور اس حماقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب سے بڑی پارٹی کا رہنما ہونے کے باوجود وہ  ڈھائی سال تک حزب اختلاف  میں رہےاور باقی ڈھائی سال میں اپنی سرکار کے باوجود نائب وزارت اعلیٰ بننے پر مجبور کردئیے گئے  ۔ حالیہ پارلیمانی انتخاب میں دونوں ریاستوں کے اندر بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگا ۔ ہریانہ کے اندر وہ دس سے گھٹ کر 5 پر آگئی اور مہاراشٹر میں اسے صرف 9؍ مقامات پر کامیابی ملی ۔

مہاراشٹر کے پارلیمانی انتخاب میں  بی جے پی نے سبھی جماعتوں  سے زیادہ  28 مقامات پر قسمت آزمائی کی اس  کے باوجود دہائی پار نہیں کرسکی  کیونکہ  اس کا اسٹرائیک ریٹ صرف 32 فیصد تھا ۔ بی جے پی  ارکان پارلیمان کی تعداد میں 13 ؍ کی زبردست کمی نے مرکز میں حزب اقتدار کو رُلا دیا   ۔ بی جے پی کی  حلیف شیوسینا15سیٹوں پر الیکشن لڑی  اور  7؍ پر کامیابی درج کرائی یعنی  ایکناتھ شندے جیسے کمزور رہنما  کا اسٹرائیک ریٹ   بھی دیویندر فڈنویس  سے بہت   بہتر تھا۔ پچھلے انتخاب میں سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے شرد پوار کے بھتیجے  کو  4؍مقامات پر لڑنے کا موقع دیا گیا ا وربیچارے  اجیت پوار کو صرف  ایک نشست  پر کامیابی ملی ۔ ان کا   اسٹرائیک ریٹ سب سے خراب یعنی صرف  25 فیصد تھا۔  خلاصہ یہ ہے کہ جس این ڈی اے  نے اس بار  45؍ سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا تھا  اور اسے یقین تھا کہ کم ازکم  35 ؍ تو آہی جائیں گی نصف  پر بھی نہیں پہنچ سکی اوراسے   جملہ 17؍ نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا۔

کانگریس  نے ا س کے برعکس  ایک مقام سے چھلانگ لگا کر 13 ؍مقامات پر زبردست  کامیابی درج کروائی اور اس کا ایک آزاد امیدوار بھی  ایک لاکھ سے زیادہ کے فرق سے کامیاب ہوکر پارٹی میں لوٹ آیا۔ انڈیا محاذ میں  شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) نے 21؍ مقامات پر الیکشن لڑا اور43 فیصد اسٹرائیک ریٹ  کے ساتھ    9 ؍ پر کامیاب ہوئے پھر بھی  4کا اضافہ ہی ہوا  ۔  این سی پی نے صرف 10مقامات پر الیکشن لڑا اور 80 فیصد کے اسٹرائیک ریٹ سے   8؍پر کامیابی درج کروا لی اوراس کے پہلے کے مقابلے ۵ ؍ ارکان پارلیمان  بڑھ گئے تھے ۔   اس طرح  جملہ 31 مقامات پر انڈیا کا پرچم لہرا یا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ  کے ساتھ مہاراشٹر کے انتخابات کا اعلان نہیں ہوا۔  الیکشن کمیشن کے مطابق اس کی ایک وجہ تو برسات کا موسم  ہے جو ہر سال آتا  ہے۔ انہوں تہواروں کا حوالہ دیا حالانکہ گنیش چترتھی کے علاوہ پتر پکش اور دیوالی تو ہریانہ اور جموں میں بھی زور شور سے منائی جاتی ہے۔  نوراتری کا تھوڑا بہت اثر ممبئی جیسے شہروں میں ہوتا ہے مگر بنیادی طور پر وہ گجرات کا بڑا تہوار ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی  کے پنجرے میں بند الیکشن کمیشن کا طوطا لولے لنگڑے بہانے بنارہا ہے۔

لوک سبھا الیکشن میں مہا وکاس اگھاڑی کے فتح یاب رہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ این ڈی ا ے کو ووٹرس نے بالکل  ہی مسترد کردیا۔ ووٹ شیئر کے لحاظ سے دیکھیں تو مہا وکاس اگھاڑی کو 43.71 فیصد ووٹ ملے جبکہ این ڈی اے کو 43.55 فیصد ووٹ ملے۔ یعنی دونوں اتحاد میں ووٹوں کی اصل تعداد کا فرق صرف 7؍ سے 8؍ لاکھ کے درمیان ہے۔ اس  کی روشنی میں اسمبلی الیکشن کے اندر دونوں اتحاد کے درمیان سخت مقابلہ متوقع تھا لیکن اگر لوک سبھا الیکشن کے نتائج کو اسمبلی سیٹوں پر پھیلا دیا جائے تو  مہاوکاس اگھاڑی کو  288؍ اسمبلی سیٹوں میں سے 157؍ سیٹوں پر آگے تھی یعنی وہ اکثریت کے جادوئی عدد 145؍ سے چند زائد سیٹوں پر سبقت لے گئی  تھی۔  بی جے پی کے اندر اگر حوصلہ ہوتا  ذرا سی کوشش سے وہ بازی پلٹ سکتی تھی مگر اب مودی اور شاہ پر مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کا طلسم ٹوٹ چکا ہے ۔  مہا وکاس اگھاڑی میں کمال کا اتحاد ہے ۔  ادھو ٹھاکرے نے تو کانگریس سے یہاں تک   کہہ دیا ہے  کہ کسی کو بھی  وزیر اعلیٰ کا چہرا بنادیا جائے۔ وہ جو بھی ہو  یعنی ان کا یا کسی اور کا اسے لے کر  بی جے پی کو زندہ دفن کردیا جائے گا ۔  انڈیا اتحاد کی اس قوت سے بی جے پی ڈر گئی اورعارضی طور پر انتخابی میدان سے راہِ فرار اختیار  کرلی لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی آخر ایک نہ ایک دن تو چھری کے نیچے آئے گی۔

Comments are closed.