مسلم شادی کا رجسٹریشن اب زعفرانی حکومت کرے گی۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد ( تلنگانہ)
8790193834
……
ایک پرانی لیکن بہت مشہور کہاوت ہے ’’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ‘‘ یہ کہاوت آسام کے سی ایم ہمنتا بسوا سرما پر صادق آتا ہے۔ سی ایم ہمنتا بسوا سرما ان دنوں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور مسلمانوں کے بنیاد حقوق چھینے کا کھیل بڑے بے باکی سے کھیل رہے ہیں۔ کون بنے گا سب سے بڑا ہندوتوا کا پوسٹر بوائے کے اس دوڑ میں سب سے آگے نکلنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمنتا بسوا سرما مسلمانوں کو براہ راست ٹارگیٹ کر رہے ہیں انکے بنیادی حقوق چھننے میں اپنا زیادہ وقت دے رہے ہیں تاکہ وہ بڑے میاں یعنی پی ایم مودی کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور پی ایم مودی بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ اتر پردیش کے سی ایم یو گی آدتیہ ناتھ اور آسام کے سی ایم ہمنتا دونوں میں سے کون سب سے زیادہ مسلمانوں کے سیاسی معاشی اور تعلیمی حالات کو کمزور کر سکتا ہے انہیں ہی وہ اپنے ساتھ والی کرسی میں بٹھائیں گے یہی وجہ ہے کہ دونوں سی ایم نے زبردست طور سے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کا کھیل شروع کر دیا ہے ۔ ایک جانب جہاں سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کا بولڈوزر مسلمانوں کے گھر منہدم اور مسمار کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں رکھ رہا ہے تو وہیں آسام کے سی ایم ہمنتانے ایک بار پھر مسلمانوں کی بنیادی حقوق چھیننے اور انہیں ذہنی طور سے پریشان کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہیمنا اپنے زعفرانی تیور دیکھاتے ہوئے مسلمانوں کی دشمنی میں نمبر ون بننے کے لئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہو ں نے مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اب مسلمانوں کی شادیوں اور طلاقوں کی لازمی سرکاری رجسٹریشن کا اسمبلی میں بل پیش کیا جس کا مقصد مسلمانوں کی شادیوں اور طلاقوں کو رجسٹر ڈکرنے والے قانون کو منسوخ کرتا ہے۔ یہ کہہ کر کہ اس قانون میں نابالغوں کی شادیوں کی اجازت کا امکان موجود تھا حکومت نے اسمبلی میں آسام منسوخی بل 2024 پیش کیا تاکہ آسام میں مسلم شادیوں اور طلاقوں کے رجسٹریشن ایکٹ 1935 اور آسام منسوخی آرڈیننس2024 کو ختم کیا جا سکے۔ زعفرانی سی ایم ہمنتا کی مسلمانوں کے تئیں ہمدردی کتنی پروان چڑھ رہی ہے انکی ان باتوں سے اندازہ آپ لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ پہلے قاضیوں کے ذریعہ مسلم شادیوں کا رجسٹر کیا جاتا تھا لیکن یہ نیا بل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مسلم کمیونیٹی میں ہونے والی تمام شادیوں کو حکومت کے پاس رجسٹرڈ کرنا ہوگا۔ بنا جانچ پڑتال کئے ہوئے انہوںنے یہ بھی دعویٰ کر دیا کہ پہلے نابالغوں کی شادیاں بھی قاضیوں کے ذریعہ رجسٹرڈ کی جاتی تھیں لیکن مجوزہ بل ایسے کسی بھی اقدام پر پابندی لگائے گا۔ شادی تقریبات کے دوران مسلمانوں کی جانب سے پیروی کی جانے والی رسومات پر کوئی پابندی نہیں ہوگی لیکن قاضیوں کے ذریعہ رجسٹریشن پر پوری طرح پابندی ہوگی۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ سی ایم ہمنتا کو اتنے سالوں کے بعد مسلمانوں کے حقوق ختم کرنے کی یاد کیوںآ رہی ہے کیا انہیں بھی سی ایم کی کرسی جانے کا خطرہ بن گیا ہے ؟ جس طرح سے سی ایم یوگی اور پی ایم مو دی کو اپنی اپنی کرسی جانے خطرہ بنا ہوا ہے یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے تو مسلمانوں کے معاشی حالات کو ختم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ان کا بلڈوزر مسلمانوں کے خلاف فراٹے دار نکلتا ہے تو وہیں پی ایم مودی370 تین طلاق اور اب وقف ترمیمی بل لا کر مسلمانوں کا ذہنی سکون ہی نہیں بلکہ انکی بنیادی حقوق چھننے اور وقف کی زمین پر قبضہ کرکے اپنے پیارے دوستوں کے حوالے کرنے کا ناپاک منصوبہ بنا رہے ہیں۔ جس کی چہار سمت سے مذمت ہو رہی ہے۔ وقف (ترمیمی) بل 2024کو غیر دستوری غیر جمہوری، غیر منصفانہ اور شریعت مخالف قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ یہ بل اوقاف کے مفاد کے خلاف ہے اس لیے ہم اسے مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ اس پورے بل کو واپس لیا جائے۔ بصورت دیگر ملک گیر سطح پر اس کے خلاف مہم چلائی جائے گی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ جمعیت علماء ہند، جماعت اسلامی ہند نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وقف ایکٹ 1995 میں تبدیلیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس سے وقف کو نقصان پہنچے گا اور وقف جس کمیٹی کی املاک ہے اس سے یہ جائیداد چھین لی جائے گی۔ اب پی ایم مودی اس بل کو واپس کریں گے یا نہیں یہ توآنے والا وقت بتائے گا۔ جہاں تک آسام کے سی ایم ہمنتا کا سوال ہے تو یہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم کرکے سب سے بڑے ہندوتوا کی فہرست میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں ۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ ہمنتا کا ہندوتوا کا پوسٹر بوائے بننا آج کا رجحان نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے کٹر ہندوتوا کا راستہ اختیار کیا۔ مسلم آبادی کے حوالے سے ان کے مسلسل متنازعہ بیانات ہیں۔ نابالغ کی شادی کے نام پر مسلم شادیوں کو روکنے کی کوششیں ہوں یا سی اے اے اور این آر سی کی بات ہو ہمنتا مسلم کمیونٹی کے خلاف اس طرح زہر اگلتے ہیں کہ بی جے پی کا کٹر ہندوتوا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ ہندوتوا کے پوسٹر بوائے یوگی آدتیہ ناتھ کو پیچھے چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہمنتا ہر دن کوئی نہ کوئی بیان ایسا دیتے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ اب انہوں نے نجی ملکیت والی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میگھالیہ پر اپنا حملہ تیز کر دیا ہے۔ ہمنتاسرما نے کہا کہ ان کی حکومت اس امکان پر غور کر رہی ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء آسام حکومت کی طرف سے مشتہر کردہ پوسٹوں کے لیے مقابلہ کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔سرما کا ہدف بنگالی مسلمانوں کا تعلیمی ادارہ ہے۔ سرما نے کہا ہے کہ اس انسٹی ٹیوٹ میں پڑھنے والے طلباء کو آسام کی سرکاری ملازمتوں میں جگہ نہیں مل سکے گی۔ ہمانتا جلد ہی اس کے لیے قانون لا سکتے ہیں۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما کا شمار بی جے پی کے فائربرانڈ لیڈروں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان کا ہندوتوا دن بہ دن جارحانہ ہوتا جا رہا ہے ہندوتوا کے نام پر وہ آسام میں طرح طرح کے تجربات کر رہے ہیں۔ ہر ماہ وہ مختلف قسم کے جہاد کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ ملک کے اقتدار اعلیٰ پر بیٹھا آدمی صرف الیکشن کے لیے نفرت کے اسباب پیدا کرے یہ کسی بھی ملک کے لئے خطرناک ہے۔
بہر حال ! دوسری طرف آسام حکومت نے کم عمر میں شادی کرنے والوںپر اپنی زعفرانی تیور دکھانے شروع کر دئے ہیں۔ زیادہ تر شوہروں کو کم عمر میں شادی کے الزام میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اگر شوہر نہ ہو تو لڑکی کا باپ۔ جن لڑکیوں کی شادی نابالغ ہونے پر ہوئی تھی انہیں سسرال
والوں سے چھڑایا جا رہا ہے۔ اس لیے آسام حکومت کے اس فیصلے کے خلاف خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ان گرفتاریوں کے خلاف ہزاروں خواتین مختلف تھانوں کا گھیراؤ کر رہی ہیں۔ احتجاج کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت جس طرح مہم چلا رہی ہے وہ سراسرغلط ہے۔ اس کا شوہر اور اس کے گھر والے بے قصور ہیں۔ خواتین کا مطالبہ ہے کہ تمام ملزمان کو رہا کیا جائے لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ سی ایم ہمنتا نے ہٹلر والی شکل اختیار کر لی ہے وہ مسلمانوں پر ظلم بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں لیکن وہاں کے مسلمانوں کی آواز کسی بھی سیکولر جماعتوں کے کانوں تک نہیں جا رہی ہے کہ آسام کے سی ایم پر مسلمانوں کے حقوق چھننے سے روکے اور ان پر پر دباو بنایا جائے ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ قاضیوں کے حقوق پر جس طرح سے حملہ کیا گیا ہے وہ پھر سے بحال ہو گا یا نہیں اس پر سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔
Comments are closed.