منی پورآڈیو: بم مارو بم، مٹ جائے غم

ڈاکٹر سلیم خان
امیت شاہ جب یہاں آئے ،تو انہوں نے پوچھا:’ بیرین جی!‘۰۰۰’ہاں سر‘۰۰۰ارے! تم بم مارتا ہے؟ (پیچھے سے ہنسی کی آواز) ۔ یہ گبرّ سنگھ کی نہیں بیرین سنگھ کی سفاکانہ ہنسی تھی ۔ گبرّ تو بیچارے کیمرے کے سامنے اداکاری کرکے بدنام ہوگیا مگر یہ حقیقی زندگی کا ولن تو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہے۔ وہ اپنے ہی صوبے کے بے قصور عوام پر گولیاں چلوا کر قہقہہ لگاتا ہے۔ بیرین سنگھ کو افسوس ہے کہ اپنے صوبے کے لوگوں پر کیوں بم برسا نہیں سکا ۔ وہ اپنی شیخی بگھاتے ہوئے کہتا ہے ۰۰۰سب نے سنا! ’بم مارتا ہے؟‘ مطلب اس دن سے ہی انہوں نے (مجھے) بموں کا استعمال بند کرنے کی ہدایت دی۔ مت مارنا، (تم بم کااستعمال کر رہے ہو؟ ان کااستعمال مت کرو) انہوں نے ڈی جی پی اور تمام لوگوں کو بلاکر(ہمیں) ہدایت دی، ’بم کا استعمال مت کرنا۔‘ اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزیر ہیم وتی نندن بہوگنا کہا کرتے تھے گھنٹی بجتی نہیں ہے بجائی جاتی ہے ۔ بیرین سنگھ نے پھر ایک باریہ ثابت کردیا کہ فساد ہوتا نہیں ہے کروایا جاتا ہے اور اس کے لیے سرکاری تحفظ میں بم چلوائے جاتے ہیں ۔ بیرین سنگھ نے دیو آنند کی یاد تازہ کردی جو اگرحیات ہوتے تو گاتے ؎
بم مارو بم ، مٹ جائے غم بولو صبح شام ، ہرے کرشنا ہرے رام
سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی پر اسی فلم کا ایک اور نغمہ بھی ہو بہو صادق آتا ہے’دیکھو اے دیوانو تم یہ کام نہ کرو ، رام کا نام بدنام نہ کرو‘۔منی پور فائلس کے اس سین میں امیت شاہ جیسا سفاک سیاستداں بھی رحمدل نظر آتا ہے کیونکہ ان کے مقابلے بیرین سنگھ کہتا ہے۰۰۰ان (امیت شاہ) کے جانے کے بعد، میں نے ان سے کہا ‘ہوئے! چپکے سے کرنا ہے۔اوپن ( کھلے عام) نہیں کرنا ہے۔ اگر آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہے، تو فرنٹ لائن کمانڈوز سے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔‘بیرین سنگھ کی ویڈیو میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے تئیں جو ناراضی ہے اس کاایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں ۔ وہ اظہار افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’ آج کل، میرے خلاف ایک الزام لگایا جا رہا ہے ۔ مجھ پر یہ الزام ہے کہ میں بڑی تعداد میں پوری طرح سے ہتھیار سے لیس گاڑیوں کو اِدھر اُدھر جانے کی اجازت دے رہا ہوں۔ کیا آپ اسے چاروں طرف نہیں دیکھتے؟ پھر سرکارکہاں ہے؟ کیا سرکار کا وجود ہے؟
بیرین سنگھ آگے چل کر یہ بھی کہتا ہے’جنگ کے میدان میں، فرنٹ لائن پر ایسا کرنا الگ بات ہے… آج وہاں پہاڑیوں میں ایک گولہ باری ہوئی… کوئی ایک لفظ نہیں بولتا۰۰۰لیکن ٹھیک یہاں اگر ایسی چیزیں …(مبہم)۰۰۰رکو… اے جی کو آنے دو (مبہم)… اسمبلی سے… دیکھتے ہیں کہ ہم انہیں کیسے دے سکتے ہیں… ہم وقت (گزاری)کے لیے یہ سب کر رہے ہیں… اگر ہم ابھی ایسا نہیں کرتے ہیں ، تو وہ کہیں گے کہ بیرین نے کمانڈوز کوں واپس لانے کی اجازت دی ہے …اس لیے انہوں نےاختیارات چھین لیے ہیں۔ انہوں نے مجھے یونیفائیڈ چیئر کمانڈ سے ہٹا دیا ہے((ہنسی کی آواز))۔ وہ ہتھیار دے رہا ہے… وہ کمانڈو اور دوسرے لوگوں کی صف بندی کر رہا ہے (مبہم)۰۰۰پولیس کی گرفتاری ٹھیک ہے… میں اسے دیکھ لوں گا۔‘وزیر اعلیٰ کی یہ ساری گفتگو امیت شاہ کے حوالے سے ہے لیکن یہاں وزیر داخلہ کو دیکھ لینے کی بات نہیں کی جارہی ہے بلکہ ان ہتھیار بند غنڈوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی ہورہی ہے جن کے لیے سرکاری اسلحہ خانے کا دروازہ کھول دیا گیا تاکہ وہ ہتھیار لوٹ کر قتل و غارتگری کرسکیں ۔
بیرین سنگھ اس آڈیو میں شیخی بگھارتے ہوئے سوال کیا:’’چار ہزار/پانچ ہزار بندوقیں… کون گرفتار ہوا ہے؟ اب تک 4 سے 5 ہزار کے قریب بندوقیں چھینی جا چکی ہیں، لیکن آخر کس کی گرفتاری ہوئی ہے؟ انہوں نے وزیراعلیٰ کو گرفتار نہیں کیاہے… اگر وہ گرفتار کرتے ہیں، توسب سے پہلے گرفتار ہونے والا سی ایم ہی ہوگا۔ 4000-5000 بندوقیں چھیننے کے الزام میں مجھےہی گرفتار کیا جائے گا۔‘یہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ کہہ رہا ہے جو وزیر داخلہ ہونے کے سبب ریاستی پولیس کے سربراہ بھی ہے۔ اس کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے کہ اگر کسی کو (مرکزی فورسز کے ذریعے) گرفتار کیا جاتا ہے، تو وہ’ حالات معمول پر آتے ہی ان کی رہائی کے لیے ’سفارش‘کریں گے‘۔بیرین سنگھ کا یہ اعتماد قابلِ تعریف ہے کہ :’ کچھ بھی ہو، ہم اپنی طرف سے دیکھیں گے اور آپ بھی اپنے تئیں اپنا کام کریں۔ خود کو گرفتار نہ ہونے دیں۔ مطلب جب سمن بھیجا جائے، تونہ جائیں۔ کچھ وقت لیں۔ جب حالات پرسکون ہوں گے تو میں آپ کا ساتھ دوں گا‘۰۰۰یہ ڈبل انجن سرکار کا کمال ہے۔
بیرین سنگھ نے بالکل نریندر مودی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فسادیوں کو اکسایا اور انہیں تحفظ فراہم کیا ورنہ ان بزدلوں میں سرکاری حفاظت کے بغیر لڑنے بھڑنے کی ہمت کہاں ہے؟ خواتین کو برہنہ گھمائے جانے کا بھی بیرین کو کوئی افسوس نہیں ہے وہ الٹا سوال کرتے ہیں کہ ثبوت دو عصمت دری کہاں ہوئی؟ یعنی اگر خواتین کے ساتھ ایسا برا سلوک تو ہو مگر آبرو ریزی نہ ہو تو یہ کوئی بڑا جرم نہیں ہے۔ اس جملے سے سابق وزیر اعلیٰ گجرات کا وہ جملہ یاد آتا ہے کہ ریلیف کیمپ بچہ پیدا کرنے والی مشین بن گئے ہیں۔ کل جس وزیر اعلیٰ نے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری سے راج دھرم نہیں سیکھا وہ اب کس منہ سے اپنے وزیر اعلیٰ کو انصاف کی تلقین کر سکتا ہے اور جو وزیر داخلہ گجرات فساد پر سبق سکھانے کی بات کہہ کرڈینگ مارتا ہو وہ بیرین سنگھ کو سبق سکھانے سے کیسے روک سکتا ہے۔ یہ سب ایک ہی تھیلی چٹے پٹے ہیں۔
دی وائر کے ذریعہ منی پور ٹیپس انکشافات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ریاستی حکومت نے اس پر قوم دشمنی تک کا الزام لگا دیا مگر اس کا کیا جائے خود بی جے پی سمیت تمام کوکی برادری کے دس ارکان اسمبلی نے مطالبہ کردیا کہ 2023 سے جاری نسلی تنازعہ کی جانچ کے لیے مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے تشکیل دیئے گئے انکوائری کمیشن کو’اپنے تحقیقاتی عمل میں تیزی لانی چاہیے اور وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کو فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا جانا چاہیے تاکہ وہ خود اپنے خلاف تحقیقات میں مداخلت نہ کرسکیں ۔ان دس ارکان اسمبلی نے ایک مشترکہ پریس نوٹ میں کہا ہے کہ سرکاری سرپرستی میں نسل کشی کے اندر وزیراعلیٰ کی ملی بھگت، اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔‘ نسلی تشدد کے بعد، یہ ایم ایل اے مرکز سے کوکی برادری کے لیے ‘علیحدہ انتظامیہ’ کے مطالبے پر زور دینے کے لیے ریاستی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ ان لوگوں نے مرکزی ایجنسیوں کودوسروں سے پہلےبیرین سنگھ کو گرفتار کرنا کا مطالبہ کیا ۔
دی وائر کے انکشافات کسی اسٹنگ آپریشن کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ انہیں ثبوت کے طور پر گوہاٹی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس (ریٹائرڈ) اجئے لامبا کی سربراہی میں کام کرنے والے کمیشن کی خدمت میں حلف نامہ کے ساتھ جمع کرایا جاچکا ہے۔ گواہوں نے کمیشن کے سامنے اپنی شناخت ظاہر کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال امپھال میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ہونے والی میٹنگ میں ٹیپ ریکارڈ کیے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹیپ میں سنائی دینے والی آواز وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی ہے۔کمیشن نے گواہوں کے تحفظ کو مدنظر انہیں رازداری فراہم کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دی وائر نے اپنی رپورٹ میں نشست کی تمام تفصیلات نہیں بتائیں۔مذکورہ بالا آڈیو نے تین ایسے سوالات کا جواب دے دیا کہ جس کی بابت بڑے بڑے سیاسی مبصر ناکام ہوگئے تھے ۔ پہلا سوال وزیر داخلہ نے ایک ماہ کے اندر منی پور کا دورہ کیا اورپندرہ دن بعد آنے کا وعدہ کرکے لوٹ آئے لیکن پندرہ ماہ بعد بھی وہاں کیوں نہیں پھٹکے؟ اس دوران قومی انتخابی مہم میں انہوں نے ملک چپہ چپہ چھان مارا۔
منی پور کے حوالے سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم ساری دنیا کی سیر کرتے رہے مگر وہ منی پور جانے جرأت کیوں نہیں کرسکے ؟ تیسرا سوال ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بیرین سنگھ کو کیوں ہٹایا نہیں گیا ؟ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو اگر معلوم ہو کہ ان کا اپنا وزیر اعلیٰ حملہ آوروں کو نہ صرف اسلحہ بانٹ رہا ہے بلکہ تحفظ بھی فراہم کررہا تو وہ ایسے صوبے کا دورہ کرنے کا خطرہ کیونکر مول لے سکتے ہیں ۔ بیرین سنگھ کو کانگریس سے نکل کر بی جے پی میں آنے کے ایک سال میں جن لوگوں نے وزیر اعلیٰ بنا دیا اورپھر ایک برس بعد نائب صدر کے ہاتھوں تبدیلی کا بادشاہ(چمپین آف چینج)کے اعزاز سے نوازہ ہو اس کا بھلا بال بیکا کیسے ہوسکتا ہے؟ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بیرین سنگھ منی پور کے لوگوں کا رکشک (محافظ) تھا لیکن اپنے اقتدار کی خاطر بھکشک (قاتل) بن گیا ایسے درندے پرمہاتب رائے تاباں کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(۰۰۰۰۰جاری)
Comments are closed.