پیرس اولمپک کا سبق

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
پیرس اولمپک اختتام پذیر ہوا، ایک ر جت اور پانچ کانسے کے تمغے کے ساتھ ہمارے کھلاڑی ہندوستان لوٹ آئے ہیں، ٹوکیو اولمپک میں ہندوستان نے سات تمغے حاصل کیے تھے،اس میں ایک گولڈ دو ر جت اور چار کانسے کے تمغے تھے، اس بارہماری کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی، اس کی وجہ خاتون پہلوان و ینیش پھوگاٹ کو نااہل قرار دیا جانا بھی تھا، اگر صرف 100 گرام وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں نا اہل نہیں قرار دیا جاتا، تو ہم تعداد کے اعتبار سے ٹوکیو میں حاصل تمغات کی برابری کر لیتے، وینیش پھوگاٹ اس حادثے سے اس قدر ٹوٹ گئیں کہ انہوں نے کشتی سے سنیاس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پہلوان امن سہراوت کے ساتھ بھی یہی ہونے والا تھا، ان کا وزن کھیلنے کے ایک دن پہلے تک چار کیلو زائد تھا، لیکن ان کے کوچ نے ایک دن اور ایک رات اس قدر ورزش کرائی کہ ان کا وزن مقررہ وزن سے 50 گرام مزید کم ہو گیا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پھوگاٹ کے کوچ نے ان کو وہ محنت نہیں کرائی جو امن کے کوچ نے کرا دیا تھا، اس لیے ان کا وزن صرف 100 گرام زائد رہ گیا اور ہندوستان کے آواز اٹھانے کے بعدبھی ان کا کھیل میں شامل کیا جانا ممکن نہیں ہو سکا،پورے ہندوستان نے اس حادثہ کا سوگ منایا، وزیراعظم تک نے پھو گاٹ کی حوصلہ افزائی کی، لیکن ٹوٹا ہوا دل جڑتا نہیں ہے۔
اولمپک نے کھیل کو کھیل کے جذبہ سے کھیلے جانے کی وجہ سے بھی تاریخ رقم کی ہے،ارشد ندیم پاکستان نے بھالا پھینکنے میں گولڈ مڈل حاصل کیا اور ہندوستانی کھلاڑی نیرج چوپڑا نے رجت جیتا، دونوں کی ماں سے مسرت کے ان لمحات کے بارے میں پوچھا گیا، تو دونوں کی ماؤں نے کھیل کے جذبہ کو آگے بڑھانے کا کام کیا، نیرج کی ماں سے پوچھا گیا کہ ندیم نے آپ کے بیٹے کو شکست دی،آپ کا کیا کہنا ہے،اس نے کہا کہ ارشد ندیم بھی میرا بیٹا ہے، میں چاہتی تھی کہ میرا بیٹا گولڈ مڈل حاصل کرے،لیکن مجھے اس کا غم نہیں ہے کہ نیرج کو گولڈ مڈل کیوں نہیں ملا،جب ارشد کی ماں سے پوچھا گیا، کہ ٓاپ کیسا محسوس کرتی ہیں تو ارشد کی ماں نے کہا کہ میرا بیٹا گولڈ مڈل پایا، مجھے خوشی ہے، لیکن میری تمنا ہے کہ خوشی کایہ موقع نیرج کے لیے بھی آئے، آخر وہ بھی تو میرے بیٹے کی طرح ہے،دونوں ماؤں نے میڈیا اور ٹی وی چینلوں کے منہ پر اس قدر زناٹے دار تمانچہ رسید کیا ہے کہ اس کی جلن اور کسک دیر تک اور دور تک وہ سب محسوس کریں گے؛ اس لیے کہ ہمارا میڈیا تو ہندوستان،پاکستان کے درمیان ہونے والے کھیل کو نفرت اور عداوت میں تبدیل کرنے میں دنیا بھرمیں مشہور ہے۔
یہ اولمپک نشانے باز خاتون منوہر بھاکر کے لیے بھی یادگار رہے گا، جس نے دو مڈل حاصل کیے، ایک انفرادی نشانہ بازی میں اور دوسرا سربجوت کے ساتھ۔
اولمپک ختم ہو گیا، جیتنے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی خوب کی جا رہی ہے،کی جانی بھی چاہیے،لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے کھلاڑی چھوٹے چھوٹے ملکوں سے بھی کیوں ہار جاتے ہیں، ہمیں کھلاڑیوں کو تیار کرنے،ان کی کوچنگ اور زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے پر غور کرنا چاہیے؛تاکہ ہمارا مظاہرہ اچھا ہو سکے اور ہم دوسرے بڑی تعداد میں تمغہ جیتنے والے ملکوں کی کے صف میں کھڑے ہو سکیں۔
Comments are closed.