ناموسِ رسالت اور عصمتِ انبیاء: ایمان کا لازمی جزو

مسعود محبوب خان
ممبئی، مہاراشٹر، الہند
’’عصمت رسالت‘‘ سے مراد رسول اللّٰہﷺ اور دیگر انبیاء کرامؑ کی معصومیت ہے، یعنی انبیاء کرامؑ کو اللّٰہ تعالیٰ نے گناہوں سے محفوظ رکھا ہے۔ انبیاء کرامؑ کو غلطیوں اور گناہوں سے پاک اور معصوم سمجھا جاتا ہے تاکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام صحیح اور بے خطا طور پر انسانوں تک پہنچا سکیں۔ اس عقیدے کے مطابق، انبیاء کرامؑ کے کردار، گفتار اور عمل میں کوئی بھی ایسی بات شامل نہیں ہوتی جو اللّٰہ کی مرضی کے خلاف ہو۔
اسلامی تعلیمات میں عصمت رسالت کا تصور انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے بغیر نبی کی تعلیمات اور پیغام پر ایمان لانا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ رسول اللّٰہﷺ کی زندگی ہر قسم کی خطا اور لغزش سے پاک ہے اور آپﷺ کی ذات مبارکہ مکمل طور پر اللّٰہ کے احکامات کے مطابق ہے۔
موجودہ دور میں شاتم رسول (رسول اللّٰہﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے) مختلف افراد اور گروہوں کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ یہ افراد یا گروہ مختلف ذرائع جیسے کہ کتابیں، کارٹونز، تقاریر، یا سوشل میڈیا کے ذریعے رسول اللّٰہﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ ان کے اقدامات مسلمانوں کے دلوں میں شدید غم و غصّہ پیدا کرتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں مسلم دنیا میں احتجاجات اور ردّعمل سامنے آتا ہے۔
’’ناموسِ رسالت‘‘کا مطلب ہے رسول اللّٰہﷺ کی عزت، حرمت، اور عظمت کی حفاظت اور دفاع۔ یہ عقیدہ اور جذبہ مسلمانوں کے دلوں میں بہت گہرا ہے کہ رسول اللّٰہﷺ کی شان میں کوئی گستاخی یا بے ادبی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ اسلامی تاریخ میں، نبی کریمﷺ کی ناموس کے دفاع کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق، رسول اللّٰہﷺ کی ذات پاک پر ایمان اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی عزت اور حرمت کی حفاظت کی جائے اور ہر طرح کی توہین و گستاخی کی سخت مخالفت کی جائے۔
آج کے دور میں بھی ناموسِ رسالت کے حوالے سے بہت حساسیت پائی جاتی ہے، اور جب بھی کوئی اس حوالے سے نازیبا یا گستاخانہ عمل کرتا ہے، تو مسلمان دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور اس کے ردِعمل میں قانونی یا سماجی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ رسول اللّٰہﷺ کی شان رسالت میں جان و مال کی قربانی دینا مسلمانوں کے ایمان کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ عقیدہ اس بات پر مبنی ہے کہ نبی کریمﷺ کی محبت اور عزت ایمان کا تقاضا ہے اور اس محبت میں کسی بھی قسم کی قربانی دینا، چاہے وہ جان کی ہو یا مال کی، باعثِ فخر اور ثواب ہے۔
تاریخ اسلام میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں جہاں صحابۂ کرامؓ نے رسول اللّٰہﷺ کی محبت اور ان کی عزت و حرمت کے لیے اپنی جان و مال قربان کیے۔ غزوات اور جنگوں میں صحابۂ کرامؓ نے اپنی جانیں دے کر رسول اللّٰہﷺ کی حفاظت کی اور آپﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی بے حرمتی کو روکنے کے لیے ہمیشہ تیار رہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللّٰہﷺ کی محبت دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے، اور اس محبت کا تقاضا ہے کہ اگر کبھی ضرورت پیش آئے تو اپنی جان اور مال بھی قربان کر دی جائے۔ اس جذبے کا مقصد صرف رسول اللّٰہﷺ کی ذات کی حفاظت نہیں، بلکہ اسلامی اقدار اور اصولوں کی بقا کے لیے بھی یہ قربانی دی جاتی ہے۔
آج بھی مسلمان رسول اللّٰہﷺ کی شان میں کسی بھی گستاخی کو برداشت نہیں کرتے اور اس کے خلاف ہر ممکن اقدامات اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں، چاہے اس کے لیے جان کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ ناموسِ رسالت پر جان و مال کی قربانی دینے والوں کی اہمیت اور افادیت اسلامی تاریخ اور عقیدے میں انتہائی بلند مقام رکھتی ہے۔ ان لوگوں کو ایمان کی اعلیٰ ترین مثال سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنی جان و مال کی پرواہ کیے بغیر رسول اللّٰہﷺ کی عزت و حرمت کے دفاع کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔
جو لوگ ناموسِ رسالت کے لیے جان و مال کی قربانی دیتے ہیں، ان کا ایمان بہت مضبوط اور پختہ ہوتا ہے۔ یہ افراد اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کو دنیا کی ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں اور اسی محبت کے تحت اپنی جان و مال کو قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ناموسِ رسالت پر قربانی دینے والے افراد کو دینی غیرت و حمیت کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ ان کی قربانیاں اس بات کی گواہ ہوتی ہیں کہ وہ اسلامی اقدار اور نبی کریمﷺ کی عزت و حرمت کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، چاہے اس کے لیے انہیں اپنی جان کی بازی کیوں نہ لگانی پڑے۔
ایسے افراد کو معاشرتی اور دینی حلقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں دنیا اور آخرت میں اللّٰہ کی خوشنودی اور رسول اللّٰہﷺ کی شفاعت کا وعدہ دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ امت مسلمہ کے لیے ایک زندہ مثال ہوتے ہیں۔ ان کی قربانیاں آنے والی نسلوں کے لیے حوصلہ اور جذبہ فراہم کرتی ہیں، اور انہیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ رسول اللّٰہﷺ کی محبت اور عزت کے لیے ہر طرح کی قربانی دینا ایک مسلمان کا فرض ہے۔
ناموس رسالت کے دفاع کے لیے دی جانے والی قربانیاں اسلامی شعائر کی حفاظت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ قربانیاں دشمنان اسلام کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ مسلمان اپنی مقدس ہستیوں کی حرمت کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، جو لوگ اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے اپنی جان و مال قربان کرتے ہیں، انہیں اللّٰہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کو دنیا میں عزت اور آخرت میں جنت کی بشارت دیتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر، ناموسِ رسالت پر جان و مال کی قربانی دینے والوں کو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ عظیم مقام حاصل رہا ہے، اور ان کی افادیت اور اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔
ناموس رسالت کے دفاع میں مکان، سواری، یا دیگر املاک کا نقصان اٹھانا مسلمانوں کے لیے ایک عظیم قربانی اور بلند مقام کی علامت ہے۔ اس قسم کی قربانی کو اسلام میں بہت قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کیونکہ یہ رسول اللّٰہﷺ کی عزت و حرمت کے دفاع میں دی گئی قربانی کا حصّہ ہے۔ جو دنیاوی نقصان کے باوجود آخرت میں بہترین اجر اور اللّٰہ کی رضا کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح کی قربانیوں کی قدر و منزلت اسلامی معاشرت میں ہمیشہ سے رہی ہے اور رہے گی۔
جب کوئی شخص رسول اللّٰہﷺ کی ناموس کی خاطر اپنے مکان، سواری یا دیگر املاک کا نقصان برداشت کرتا ہے، تو یہ اس کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے۔ اس شخص کے لیے یہ نقصان دنیاوی لحاظ سے تکلیف دہ ہو سکتا ہے، لیکن آخرت میں اس کی عظیم جزا کا وعدہ کیا گیا ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے رسول اللّٰہﷺ کی محبت میں اپنے مال و اسباب کو قربان کیا۔ کئی مواقع پر انہوں نے اپنی املاک، تجارت اور وسائل کو رسول اللّٰہﷺ کی خاطر چھوڑ دیا۔ ان کی یہ قربانیاں اسلامی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہیں۔ مکان یا سواری کا نقصان دینا ایک عظیم عزیمت کی مثال ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ دنیاوی چیزیں اور آسائشیں مسلمانوں کے لیے ثانوی ہیں جب بات رسول اللّٰہﷺ کی حرمت کی ہو۔ ایسے افراد کے ایمان کی پختگی اور دینی غیرت کو بہت بلند مقام دیا جاتا ہے۔
ناموس رسالت کے دفاع میں مکان، سواری، یا دیگر املاک کا نقصان اٹھانا اللّٰہ کی رضا کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ اس طرح کی قربانی کو قبول فرماتا ہے اور ایسے افراد کو دنیا اور آخرت میں اجر عطا کرتا ہے۔ ایسے افراد کو معاشرتی سطح پر عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی قربانی کو نہ صرف دینی لحاظ سے سراہا جاتا ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بھی ان کی قدردانی کی جاتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، جو شخص رسول اللّٰہﷺ کی خاطر اپنے املاک کا نقصان برداشت کرتا ہے، اس کے لیے آخرت میں عظیم جزا کا وعدہ ہے۔ قرآن اور احادیث میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے راستے میں دی جانے والی ہر قربانی کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے۔ جب کوئی فرد ناموسِ رسالت کے لیے اپنے مکان یا سواری کی قربانی دیتا ہے، تو یہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی ایک مثال اور حوصلہ بن جاتی ہے۔ اس طرح کی قربانیاں امت مسلمہ کے لیے جذبۂ ایمانی کی تجدید کا باعث بنتی ہیں۔
ناموس رسالت کے دفاع میں اپنے مال و متاع کو قربان کرنے والے افراد اللّٰہ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے مال اور جان کی قربانی دینے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ان کا یہ عمل اللّٰہ کے ہاں مقبول اور باعثِ اجر ہوتا ہے۔ جو لوگ ناموسِ رسالت کی حفاظت کی خاطر اپنے مکان، سواری یا دیگر املاک کا نقصان اٹھاتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں بہترین بدلہ مقرر کیا گیا ہے۔ ان کا یہ نقصان آخرت میں ان کے لیے باعثِ مغفرت اور بلندی درجات بنے گا۔ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی اللّٰہ کے راستے میں مال خرچ کرتا ہے، اللّٰہ اسے سات سو گنا بڑھا کر واپس کرتا ہے۔ ناموسِ رسالت کے لیے مال کی قربانی اس سے بھی بلند مقام رکھتی ہے، جس پر اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے اجر عظیم عطا کیا جاتا ہے۔
ایسے افراد کے لیے جنت میں بلند مقام کی بشارت ہے جو رسول اللّٰہﷺ کی عزت و حرمت کے لیے اپنی دنیاوی املاک قربان کرتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں جنت کی نعمتوں کا وعدہ کیا گیا ہے، جو دنیاوی نقصان کے مقابلے میں بہت بڑا اجر ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے بھی رسول اللّٰہﷺ کی ناموس کی خاطر اپنے مال و املاک قربان کیے اور ان کی قربانیوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے قبول فرمایا۔ آج ان کا ذکر خیر اور ان کی قربانیوں کا اجر مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ایسے افراد کی قربانیاں امت مسلمہ کے لیے ایک سبق اور مثال بنتی ہیں، جس سے ایمان کی تازگی اور تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان کی قربانیوں کو دیکھ کر دیگر مسلمانوں میں بھی جذبۂ ایمانی کی تجدید ہوتی ہے۔
ناموسِ رسالت کے دفاع میں مکان، سواری، یا دیگر املاک کا نقصان اٹھانے والوں کو اسلام میں اجر عظیم کی بشارت اور وعدہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ ایسے افراد جو رسول اللّٰہﷺ کی عزت و حرمت کی خاطر دنیاوی املاک کو قربان کرتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے لیے عظیم انعامات کا وعدہ ہے۔ ان کا یہ عمل دنیا و آخرت میں بلند مقام کا باعث بنتا ہے اور ان کی قربانیاں اللّٰہ کے ہاں مقبول اور محترم ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ایسے افراد کی مدد اور نصرت فرماتا ہے جو اس کے رسول کی ناموس کی حفاظت کے لیے اپنا مال و متاع قربان کرتے ہیں۔ ان کی قربانیاں ان کے لیے دنیا میں بھی خیر و برکت اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتی ہیں۔
مسلم دنیا میں ان شاتم رسول کے خلاف سخت ردِعمل ظاہر کیا جاتا ہے، اور اکثر ممالک میں ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ، عالمی سطح پر مسلمانوں کی جانب سے پر امن احتجاجات، بائیکاٹس، اور دیگر ذرائع سے اپنے غم و غصّے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ان واقعات سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے لیے رسول اللّٰہﷺ کی عزت و حرمت کا معاملہ انتہائی حساس ہے، اور اس میں کسی بھی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ مسلمان ہمیشہ سے ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے۔

Comments are closed.