اس سازش کو سمجھئے !!

 

عمر فراہی

ہمارے علاقے کا ایک نوجوان اس نے جب تھوڑا پیسہ کما لیا تو اسے نیتا گری کا بھوت سوار ہونے لگا ۔اس نے مجھ سے کہا کہ بھائی میں اس پار کارپوریشن کے الیکشن لڑنے جارہا ہوں آپ لوگ کی کیا راۓ ہے ۔میں نے کہا اگر تم اس علاقے میں غریب مسلمانوں کے فلاح وبہبود کے یہ کچھ کام کرنے کا وعدہ کرو تو ہم لوگ تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ میں اور میرے کچھ صحافی دوست اور علاقے کے جانے پہچانے مسلم چہروں نے کھل کر اس کی حمایت کی ۔وہ جیت بھی جاتا مگر کانگریس کے امیدوار نے جو مسلم ووٹ کاٹے اس کی وجہ سے یہ نوجوان شیوسینا کے امیدوار سے بہت تھوڑے ووٹ سے ہار گیا ۔بدقسمتی سے اس الیکشن کے بعد وہ علاقے قے ایم ایل اے کی نظر میں چڑھ گیا کیوں کہ اس کی وجہ سے کانگریس کے امیدوار کے ہار جانے کی وجہ سے ایل ایل اے صاحب نے اپنی بے عزتی محسوس کی ۔نئے نیتا جی کو چونکہ سیاست کا نشہ سوار ہو چکا تھا اس لئے وہ اپنے سیاسی مخالفین کے تیور کو سمجھ نہیں سکے اور وہ علاقے میں اپنی نیتا گری کو چمکانے میں لگے رہے تاکہ دوسرے الیکشن تک ان کی شہرت برقرار رہے ۔
اتفاق سے نئے نیتا جی کو کسی مسلم کاریگر نے بتایا کہ بھائی میں فلاں غیر مسلم کے کارخانے پر کام کرنے گیا تو دیکھا کہ کارخانے کامالک قرآن پر بیٹھ کر کچھ کام کر رہا ہے ۔میں نے اس کو منع کیا تو اس نے مجھے گالی دے کر بھگا دیا ۔نئے نیتا جی نے اپنے کچھ ساتھیوں کو لیا اور پولیس میں شکایت کرنے پہنچ گئے ۔پولیس نے جب ایف آئی آر لینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے محلے کے مسلم نوجوانوں کو اشتعال دلایا اور پولیس چوکی کے سامنے احتجاج کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔کہتے ہیں کہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ ان کے سیاسی مخالفین نے بھی اس احتجاجی بھیڑ میں اپنے نوجوانوں کو اس منصوبے کے ساتھ شامل کروا دیا کہ وہ مناسب وقت پر اللہ أکبر کا نعرہ لگا کر پولیس چوکی پر پتھراؤ کر دیں ۔انہوں نے ایسا ہی کیا ۔
اس کے بعد پولیس نے نوجوانوں کو گھروں سے گرفتار کیا ان کی پٹائی ہوئی ۔نئے نیتا جی کچھ دن تک چھپے رہے بعد میں انہوں نے مقامی ایم ایل اے کے آگے ہاتھ پیر جوڑ کر خود کو پولیس کیس سے بچا تو لیا لیکن ان کا نیتا گری کا سارا بھوت اتر گیا ۔
مدھیہ پردیش میں مہاراشٹر کے ایک بآبا رام گیری کی گستاخانہ تقریر کے خلاف پولیس چوکی کے گھیراؤ میں بھی تقریبا یہی سیاست کام کر رہی تھی اور بلڈر شہزاد علی کو اس کی سزا بھگتنی پڑی ۔
بھارت کے مسلمانوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اس وقت بھارت میں تاریخ کے بہت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے بلکہ یوں کہیں کہ سیاسی طور پر ان کی بے وزنی کا دور مسلم سلطنتوں کے زوال سے شروع ہو چکا ہے جس کا رونا آزاد سرسید مودودی اقبال اور مولانا حالی جیسی جہاں دیدہ شخصیات نے بھی اپنی تصنیفات میں رویا ہے اور ہم مسلسل رونے والی ہی صورتحال سے گزر رہے ہیں ۔خاص طور سے 1947کے نئے جمہوری آئین کی تخلیق کے بعد تو مسلمان اور بھی تنزلی کا شکار ہوا ہے ۔فرق اتنا ہے کہ 1947 کے بعد کچھ دنوں تک مسلمانوں کے احتجاج اور مظاہروں کو اگر سرکاریں کچھ اہمیت بھی دیتی تھیں تو اس وقت کے سیاست دانوں میں تھوڑی غیرت بچی تھی یا عرب ممالک کے غیرت مند حکمرانوں سے ہمارے ملک کے علماء دین کے براہ راست تعلق کی وجہ سے ان کا نفسیاتی دباؤ کا بھی کچھ اثر رہا ہے لیکن اب معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے ۔نہ علی میاں ندوی اور سید عبداللہ بخاری اور اسد مدنی صاحب جیسے علماء ہیں اور نہ ہی عرب حکمراں ہی اتنے غیرت مند رہے ۔کسی زمانے میں ہماری حکومتیں مسلم ممالک میں اپنے سیاسی معاملات کے لئے بھی مسلمان سفیر کو بھیجا کرتی تھیں یا ملک کا سربراہ کسی مسلم ملک کا دورھ کرتا تو اس کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی معروف چہرہ بھی ضرور دکھائی دیتا تھا ۔اب نئے وزیراعظم کے دور میں اس کی کوئی ضرورت نہیں رہی ۔مودی جی جب خود حرمین شریفین کو بھی اپنے بل پر رام کر لیتے ہیں اور انہیں وہاں کے امتیازی اعزاز سے بھی نوازا دیا جاتا ہے تو کسی مسلم چہرے کی سفارش کی ضرورت بھی کیا ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے بدلے ہوئے فسطائی اور بلڈوزر والی سیاسی کیفیت کے ماحول میں جبکہ احتجاجی ریلیوں میں فسطائی طاقتیں خود اپنے بندوں کو داخل کرکے پرامن احتجاج کو پرتشدد احتجاج میں تبدیل کردینے کی سازش میں مصروف ہیں اور مسلم تنظیموں کے پاس اس بھیڑ پر قابو پانے کا کوئی نظم بھی نہیں ہوتا تو ایسے میں مسلمانوں کو سڑکوں پر احتجاج اور مظاہروں کے برعکس قانونی طریقے سے ہی اپنا احتجاج درج کرنا چاہئے یا کسی بھی گستاخانہ معاملے میں سفارتی سطح پر مسلم ممالک کے حکمرانوں کی توجہ مبذول کروائی جاۓ ۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور یہ ایک فطری اور قدرتی اصول بھی ہے کہ جب کوئی قوم کسی مخالف حریف کے حصار میں ہوتی ہے تو کسی بھی طرح کی مزاحمت بھی ہلاکت سے کم نہیں ہوتی ۔ایسے میں حکمت اور دانائی کا تقاضہ یہ ہے کہ غیروں میں جو انصاف پسند لوگ بچے ہیں ان کی غیرت کو اس ناانصافی اور ظلم کے خلاف توجہ دلائی جاۓ ۔
یاد رہے دلدل میں پھنسے ہوۓ شخص کی اپنی ساری کوشش اور مزاحمت کبھی کام نہیں آتی جب تک کہ اسے باہر سے بچانے والوں کی مدد نہ حاصل ہو ۔
اگر ہم ملک کے موجودہ ناکام سیاسی ماحول میں اپنی حیثیت کا اندازہ لگاتے ہوۓ حکمت اور دانشمندی کی بجاۓ صرف جذبات سے کام لیتے رہے تو ممکن ہے ہم اپنا بچا ہوا حوصلہ بھی کھو بیٹھیں ۔یاد رہے اب بھارت میں مسلمانوں کی کوئی قیادت نہیں رہی یا جو نام نہاد قیادتیں ہیں وہ خود بھی بدعنوانی کے دلدل میں قید ہیں ۔مسلمانون کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کا سیاسی مقتدرہ خود ملک کو صحیح سمت دینے سے قاصر ہے جیسا کہ ہم اس سے پہلے والے مضمون میں ان کی نااہلی کے بارے میں لکھ چکے ہیں یہ لوگ اپنی اسی کمزوری کو چھپانے کے لئے رام گری جیسے غیر معروف باباؤں کو خود آگے بڑھاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو مشتعل کرکے اپنا الو سیدھا کیا جاۓ اور پھر اس کے رد عمل میں سیمی اور پوپولر فرنٹ جیسی تنظیمیں سامنے آئیں تو ان کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاۓ یا کوئی ازہری جیسا مولوی اور شرجیل اور عمر خالد جیسے نوجوان اپنی زبان کھولیں تو ان پر ملک کی سلامتی کے خلاف متحرک ہونے کا الزام لگا کر جیل بھیج دیا جاۓ یا اس کی کوئی غیر قانونی تعمیرات ہے تو اسے بلڈوزر سے زمین بوس کرکے لوگوں میں شور مچایا جاۓ کہ قانون کام کر رہا ہے ۔ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ سنجیو بھٹ جیسا مخلص اور ایماندار افسر بھی عمر قید کی سزا کیوں کاٹ رہا ہے اور ایک زمانے میں بین الاقوامی سطح پر مشہور تہلکہ میگزین کے ایڈیٹر ترون تیجپال کو جس طرح ایک سازش کے تحت پھنسایا گیا ترون تیجپال کا آپ کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے ۔مسلمان اس وقت جس سیاسی بے وزنی کے دور سے گزر رہے ہیں اور معاشرتی طور پر خود ان کے اندر مسلکی انتشار اور منافقت کا جو ماحول ہے ملک کا یہ سیاسی ماحول بھی ایک دن ضرور بدلے گا کیوں کہ ہر اچھے اور برے وقت کا بھی ایک عروج اور زوال ہوتا ہے لیکن اس وقت تک وقت کا تقاضہ اور مطالبہ یہ ہے کہ آپ بہت ہی خاموشی سے اپنے بچے ہوئے ہر طرح کے سرمائے کو کیسے بچا سکتے ہیں۔

Comments are closed.