ہریانہ میں طوطا، مینا ، گِدھ اور کبوتر کی کہانی

 

ڈاکٹر سلیم خان

الیکشن کمیشن کے پنجرے کا طوطا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ اس کے ارکان کا تقرر وزیر اعظم اور ان کی اپنی پارٹی کا ایک رکن کرتا ہے۔ اس کباب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ہڈی  بھی گوارہ نہیں کی جاتی ۔ وہاں حزب اختلاف کا فرد رسماً  بلایا جاتا ہے لیکن اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہوتا ہے۔ ای سی کا طوطا اپنے آقا کی مرضی کے خلاف چونچ کھولنے اور کچھ بولنے کا مجاز نہیں ہے ۔ یہی وجہ  ہے کہ فی الحال الیکشن کمیشن کے زبان سے  مرکزی سرکار بولتی ہے۔   جموں کشمیر کے ساتھ ہریانہ کا صوبائی  انتخاب  منعقد کرنے کا فیصلہ مرکزی حکومت کرتی   نیز مہاراشٹر میں  اس سے اعراض برتنے کا کام بھی اسی کا ہے مگر  احمقانہ دلائل پیش کرنے کی خدمت الیکشن کمیشن سے لی جاتی ہے۔ وہ بیچارہ رٹائے جملے  من و عن دوہرا کر ’حقِ امرود‘ ادا کردیتا تاکہ  اسے صبح شام آب و دانہ ملتار ہے۔  

مغربی جمہوریت میں حزب اختلاف کا فرضِ منصبی  حکومت کے ہر فیصلے کی مخالفت  کرنا ہے اس لیے وہ وقتاً فوقتاً الیکشن کمیشن خط لکھتا رہتا ہے اور کبھی کبھار ملاقات کرکے بھی اپنی شکایت درج کرواتا ہے۔ اس کے جواب میں ذرائع ابلاغ کے اندر خبر بنانے کی خاطر حزب اقتدار  کا وفد بھی ملاقات کرکے مخالفین کی شکایت کر آتا ہے حالانکہ انتظامیہ کے ہوتے  اس کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی ۔ عوام اس نوٹنکی کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے مگر  امسال 22 اگست کو  ہریانہ بی جے پی کے صدر موہن لال بڈولی نے انتخابی کمیشن کے نام کا ایک خط لکھ کر سبھی کو چونکا دیا۔   سرکاری طوطےکے خلاف حزب اختلاف کی بلی  کا جھپٹنا تو قابل فہم ہے لیکن بی جے پی کی مینا کا آنکھیں دکھانا حیرت انگیز تھا ۔ اس طرح طوطا مینا کی کہانی میں ایک نیا ٹوِ سٹ آگیا۔  اس شکوہ شکایت کو دیکھ کر دہلی  کا گِدھ پریشان ہے کہ کرے تو کیا کرے ؟  طوطے کو مینا کی بات ماننے کے لیے مجبور کرے یا مینا کو گستاخی کی سزا دے ؟  اس آپسی چپقلش نے کانگریسی کبوتر کواتنا  خوش کیا کہ  وہ جھوم کر  غٹر غوں کرنے  لگا ۔ 

  ہریانہ کی مینا  سرکاری طوطے کے آگے فریاد کناں ہے کہ  اسمبلی انتخاب ملتوی کردیا جائے۔ اس کی  کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں جو ایک سے بڑھ کر ہیں ۔ ان میں   انتخاب کی تاریخ یعنی یکم اکتوبر سے عین قبل اور بعد میں دو دو  چھٹیوں کا حوالہ دے کر کہا گیا  کہ اس سے ووٹنگ میں کمی ہو سکتی ہے کیونکہ لوگ باگ گھومنے کے لیے باہر چلے جائیں گے۔ اس دلیل  میں ہریانہ کے لوگوں کی یہ کہہ کر توہین کی گئی ہے کہ وہ  انتخاب پر سیر و تفریح کو ترجیح دیتے ہیں ۔  اس بات کو اگر سچ مان لیا جائے تو بی جے پی کو بتاناچاہیے کہ پچھلے  دس سالہ ڈبل انجن  دورِ اقتدار میں آخر عوام کی سیاست سے دلچسپی  کیوں ختم  ہو گئی؟ کیا یہ اس لیے ہوا کہ بی جے پی نے عوام کے مسائل کو حل نہیں کیا اور اس کی وجہ سے لوگ  سیاستدانوں سے مایوس ہوکر سیر و تفریح کی جانب متوجہ ہوگئے؟   ہریانہ کی اکثریت دراصل  دیہات میں رہتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو نہ تو گھومنے گھامنے میں دلچسپی ہے اور نہ فضول خرچی کے لیے وقت و سرمایہ ہے۔  شہر کے گھومنے نکل  جانے والے  باہری لوگ  ہریانہ کی ووٹر نہیں ہیں ۔

بی جے پی کے صدر موہن لال بڈولی کے لیے مذہبی جواز نکالنا  سیاسی مجبوری ہے۔  اس لیے انہوں نے پڑوسی ریاست راجستھان میں منعقد ہونے والے ایک سالانہ میلے کا حوالہ دے کر کہا کہ وہ  تو دو اکتوبر کو ہےاس لیے بشنوئی سماج کے  لوگ یکم کو ہی نکل جائیں گے۔ یہ نہایت  بودی دلیل ہے۔  اول تو ہریانہ میں بشنوئی سماج کی آبادی بہت کم ہے اور ان میں سے بہت کم  میلے میں جاتے ہیں ۔ ان  جانے والوں کو کون سا ٹمبکٹو جانا ہے۔ وہ یکم کو ووٹ دینے کے بعد بلکہ دو اکتوبر کی صبح بھی  جاسکتے ہیں۔  یہ مطالبہ اگر بشنوئی سماج کی جانب سے آتا تب بھی قابلِ فہم تھا لیکن وہ بگلا بھگت  تو خاموش ہے بی جے پی کی مینا بلاوجہ    اس کی فریاد رسی میں ٹسوے بہارہی ہےیعنی یہ  مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ  ہے۔  اس خط کو لکھنے میں بی جے پی نے ایک ہفتہ کا وقت لگایا حالانکہ تاریخ کا تعین کرنے سے قبل الیکشن کمیشن جملہ سیاسی جماعتوں سے رائے لیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ   اس وقت بی جے پی والوں کو یہ خیال کیوں نہیں آیا ؟

  مثل مشہور ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ پاؤں ہی کیا  ؟ ڈھٹائی اور بے حیائی سے چلنے والی  زبان کے سوا اورکچھ نہیں  ہوتا  ورنہ بی جے پی والے اس انتخاب کو ملتوی کرنے کے بجائے پہلے کرنے کا مطالبہ کردیتے ۔جموں کشمیر میں  18، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو پولنگ ہورہی ہے۔ ہریانہ بی جے پی کے صدر یہ کہہ سکتے تھے کہ جس طرح یکم اکتوبر کو کشمیر کے ساتھ وہاں انتخاب ہورہے ہیں اس کے بجائے 18یا 25 ستمبر کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے تاکہ نہ چھٹیاں حائل ہوں اور نہ میلہ  مشکلات کھڑا کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے اندر انتخاب لڑنے ہمت نہیں ہے۔ ابھی تک جتنے بھی جائزے سامنے آئے ان میں سے کوئی بھی اسے ۲۲؍ سے زیادہ نشستیں دینے کی پیشنگوئی نہیں کرپارہا ہے۔ اس مطلب صاف ہے کانگریس کی تمام تر داخلی جھگڑے کے باوجود ہریانہ کے اندر بی جے پی زبردست شکست فاش کا سامنا ہے ۔  اس لیے مہاراشٹر کی تاخیر والے  لولے لنگڑے بہانے بناکر انتخاب سے راہِ فرار  اختیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بی  جے پی کے اس مطالبے نے کانگریس کو اس پر حملہ  کرنے کا نادر موقع فراہم کردیا۔ اس کے مطابق  بی جے پی اپنی شکست کو سامنے  دیکھ کر بچکانہ بہانے بنا رہی ہے اس لیے وہ چاہتی ہے کہ یہ انتخاب کچھ وقت کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔ کانگریس رکن پارلیمان اور سابق وزیر اعلیٰ  دیپندر سنگھ ہڈا نے الزام لگایا  کہ بی جے پی انتخاب میں شکست کے خوف سے گھبرا گئی ہے اور کسی بھی طرح انتخاب ٹالنا چاہتی ہے۔ چھٹیوں کے بہانے  انتخاب ٹالنے کو انہوں نے ایک  سازش قرا ردیا  ہے۔ دیپندر ہڈا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’’ دراصل اس کے پاس نہ کوئی ایشو ہے، نہ عوام کو بتانے لائق کوئی کام یا حصولیابی، اور نہ ہی ٹکٹ دینے لائق 90 امیدوار ہیں‘‘ ۔ ہڈا کا دعویٰ ہے کہ  ہریانہ کے ووٹرس بے حد بیدار ہیں، وہ کہیں چھٹی منانے نہیں جائیں گے، بلکہ بی جے پی کی چھٹی کرنے کے لیے بڑی تعداد میں پولنگ مراکز پر پہنچ کر ووٹ دیں گے۔

پارلیمانی انتخاب کے نتائج کی روشنی میں دیکھیں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہاں  بی جے پی بہ مشکل تمام  میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔     پچھلی مرتبہ کے مقابلے 50 فیصدی کا نقصان اٹھاکر وہ  10سے پانچ پر آگئی اس کے برعکس   کانگریس صفر سے پانچ پر پہنچ گئی۔  یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں  ہے۔  اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کانگریس نے 9 مقامات پر اور بی جے پی نے 10؍ نشستوں پر الیکشن لڑ کر یہ کامیابی حاصل کی اس طرح اسٹرائیک ریٹ کے لحاظ سے کا نگریس کو فوقیت حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کو کانگریس سے ڈھائی فیصد زیادہ ووٹ ملے مگر انڈیا اتحاد میں عام آدمی پارٹی بھی شامل ہے اور اسے تقریباً 4 فیصد ووٹ ملے اسے کانگریس کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو  وہ  47.61 پر پہنچ جاتے ہیں جبکہ این ڈی اے اس سے کم 46.11  فیصدپر ہے۔

ہریانہ کا قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ ایک طرف انڈیا اتحاد کے جملہ ووٹ تناسب میں 18.74کا اضافہ ہوا وہیں این ڈی اے نے پچھلی مرتبہ کے مقابلے 11.91 فیصد ووٹ گنوائے ہیں۔  یہ بات بھی کہی جاتی ہے کانگریس کی 42 تو بی جے پی کو 44؍ اسمبلی حلقوں میں فوقیت حاصل ہے  حاصل ہے لیکن انڈیا اتحاد میں شامل عآپ کے 4 حلقوں کی  برتری کو بھلا دیا جاتا ہے اور اگر اسے جوڑ دیا جائے تو انڈیا اتحاد پھر سے این ڈی اے پر حاوی ہوجاتا ہے اور بازی الٹ جاتی ہے۔ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کااسمبلی کے نتائج سے موازنہ کرتے وقت یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پچھلی مرتبہ دس میں سے دس مقامات پر کامیابی کے باوجود 4؍ ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں بی جے پی 90 میں سے صرف 40  پر آگئی  تھی ۔ یہی کہانی  اگر پھر سے دوہرائی جائے تو وہ کہاں پہنچے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔   اسی لیے کانگریس کے قومی جنرل سکریٹری اور راجیہ سبھا کے رکن رندیپ سرجے والا کا دعویٰ ہے کہ  ووٹنگ کی تاریخ بڑھانے کامطالبہ بی جے پی انتخابات سے خوفزدہ ہونے کی علامت ہے اس لیے کانگریس پارٹی اسمبلی انتخابات میں بڑی  فتح حاصل  کرنے جارہی ہے۔ انتخابی ہارجیت کا فیصلہ تو خیر  ۴؍ اکتوبر کو ہوگا مگر الیکشن کمیشن کے طوطے  کو خط لکھ کر بی جے پی کی مینا نے کانگریس کے کبوتر سے قبل از وقت اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔

Comments are closed.