سہیل انجم کی چند کتابوں کا تعارف

عشرت ظہیر
موبائل: 9801527481
معروف و مقبول صحافی سہیل انجم نے اپنی یہ چند کتابیں مرحمت فرمائی ہیں۔ بہت شکریہ!
(i) بازدید حرم (سفرنامہ حج) (ii) زیارت حرمین شریفین (iii) نقش برآب (iv) نقوش انجم
سہیل انجم کی روانیئ قلم اور مشاقیئ فن کا دائرہئ کار محض صحافتی تحریروں، اور کالموں تک ہی محدود نہیں۔ صحافت کی جولانی، کالم نگاری کا حسن اور تجزیہ کاری کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے بطور ادیب سوانح نگاری، سفرنامے اور خاکہ نگاری جیسے سنگلاخ میدانِ ادب میں بھی اپنے تابندہ نقوش مرتسم کیے ہیں۔
بازدید حرم
سفرنامہ ’بازدید حرم‘ کا پہلا صفحہ ہی اس مقدس سفر اور کارعظیم میں عازمین حج کی بیتابیئ قلب اور جذبہئ سپردگی کے اضطراب کو منعکس کرتا ہے:
”دنیا بھر سے حجاج کرام کا قافلہ در قافلہ مدینہ ایئرپورٹ پر اتر رہے ہیں… مدینہ کے ہوٹل میں پہنچتے ہی حجاج کرام کی تڑپ فزوں تر ہوجاتی ہے۔ ان کی خواہشیں پَر لگا کر اڑنے لگتی ہیں…“
اس کیفیتِ بے خود میں حجاج کرام کی سرشاری اور خودسپردگی کے نظارے اس سفرنامے کا روح افزا اور دلکش پہلو ہے، جو پوری کتاب میں جاری و ساری ہے۔ ایک دلپذیر اقتباس ملاحظہ ہو:
”…جب کوئی زائر طواف کرنے پہنچتا ہے، تو اس پر کیا گزرتی ہے۔ دراصل یہاں ہر انسان خود فراموشی کے جام پئے ہوتا ہے۔ خود آگاہی کی کیفیت سے باہر آکر خدا آگاہی کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ وہ صرف اپنے رب کا بندہ رہ جاتا ہے۔ نہ کوئی مرد ہوتا ہے نہ کوئی عورت… سب صرف اور صرف عبد ہوتے ہیں… بس وہ ہوتا ہے اور اس کا رب ہوتا ہے—“
اس سفرنامہ کا اعجاز یہ ہے کہ اس روحانی سفر کی رواد کی قرأت کے درمیان قاری گویا خود محو سفر ہوتا ہے۔
’بازدید حرم‘ میں زائرین کی کیفیات و واردات کے پہلو بہ پہلو ندرت آمیز اور قیمتی، تاریخی و جغرافیائی حقیقتو ں کی حیران کن اور معلومات افزا جھلکیاں، سفرنامے کے انوکھے پن اور افادی پہلو کو بیان کرتی ہیں — یہاں جذبوں کی فراوانی کے بہاؤ میں، کچھ ناپسندیدہ حرکتوں، ناخو شگوار مناظر، سیلفی کے جنون اور موبائل کی تصویرکشی کی صورت حال کا بھی ذکر ہے، لیکن ان چھوٹی چھوٹی انسانی سرشت کی مجبوریوں کے مقابل حرمین میوزیم، کلاک ٹاور جیسی تعمیرات کا تعارفی نظارہ اور حج و عمرہ سے ہونے والی آمدنی سے سعودی معیشت پر اثرات وغیرہ کا ذکر ذخیرہئ معلومات کی صورت اس طور اجاگر ہے، کہ شاید ہی ایسے نکتے اب تک کسی سفرنامہ کا حصہ بنے ہوں۔
مسجد قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد کے تعلق سے یہ عام روایتی خیال ہے کہ اس مسجدمیں دوران نماز تحویل قبلہ کا حکم ہوا تھا اور اللہ کے رسولؐ نے عین نماز میں قبلہ تبدیل کیا تھا اور صورت حال یہ ہوئی کہ مقتدی صحابہئ کرام، آگے ہوگئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عقب سے امامت فرما رہے تھے۔
لیکن سہیل انجم کی تحقیق اس روایتی صورت حال کی نفی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”….. اس بارے میں اختلاف ہے کہ اسی مسجدمیں نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم ہوا تھا اور اللہ کے رسولؐ نے قبلہ تبدیل کیا تھا۔ بعض علما کا خیال ہے کہ اس وقت یہ مسجد تھی ہی نہیں، اللہ کے رسولؐ مدینہ میں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ظہر کے وقت وحی آئی کہ قبلہ تبدیل کردیا گیا ہے۔ اب آپ جو اگلی نماز پڑھیں گے، وہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھیں گے… یہ بنو سلمیٰ کا علاقہ ہے۔ اسی علاقے کے ایک صحابی اللہ کے رسول کے پاس دین سیکھنے گئے ہوئے تھے، وہ ظہر کے بعد وہاں سے نکلے اور جب یہاں پہنچے جہاں مسجد قبلتین ہے تو عصر کا وقت ہورہا تھا۔ انھوں نے جب دیکھا کہ یہاں کے مسلمان اب بھی پرانے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کررہے ہیں تو وہ چلائے کہ قبلہ تبدیل ہوگیا ہے۔ اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لو۔ اس وقت جو لوگ نماز پڑھ رہے تھے انھوں نے اپنا رخ خانہئ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ اللہ کے رسولؐ کے ساتھ نماز کے دوران رخ پھیرنے کا واقعہ پیش نہیں ا ٓیا تھا۔“
حجاز اور اہل حجاز (تب اور اب) کے زیر عنوان کعبہ کی تعمیر، اور فریضہئ حج کی ادائیگی کے لیے اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آواز لگانے اور عازمین حج کے جواب لَبَّیْک اَللّٰہُمَّ لَبَّیْک کے تذکرے میں کہ اللہ نے کعبہ کی تعمیر کے بعد جب ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرے بندوں کو اس کی زیارت کے لیے آواز دو، تو آپ نے فرمایا:
”یا اللہ میری ناتواں آواز کہاں تک پہنچے گی۔ تو اللہ کا ارشاد ہوا کہ آپ آواز لگایئے پہنچانے کاکام ہمارا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے جبل ابو قبیس سے آواز لگائی… پس جن انسانوں کی قسمت میں حج بیت اللہ کی سعادت ازلی لکھی ہوئی تھی انھوں نے اپنے باپوں کی پشت سے اور اپنی ماؤں کے ارحام سے اس مبارک ندا کو سن کر جواب دیا کہ لَبَّیْک، اَللّٰہُمَّ لَبَّیْک۔ یا اللہ ہم حاضر ہیں…“
یہاں یہ لطیف اور حقیقت آمیز پہلو ابھرتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی اس ندا کا جواب عازمین حج ’تب سے اب‘ تک دے رہے ہیں کہ اے اللہ ہم حاضر ہیں اور قیامت تک یہ آواز گونجتی رہے گی—!
’بازدید حرم‘ میں مصنف نے اکثر جگہ اپنی منطقی اور استدلالی فکر کے جوہر کو بروئے کار لاتے ہوئے لطیف اور حسّاس پہلو اجاگر کیے ہیں۔ مثال کے طور پر آبادی میں اضافے کے باعث جدید آبادکاری کے لیے دنیاوی ترقی کی راہ میں سعودی عرب کے گامزن ہونے کی صورت حال سے ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں امکانی نقصان دہ خدشے کا برملا اظہار کیا ہے کہ:
اکثر مقامات پر پہاڑ کاٹ کر فلک بوس عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں۔ بہت سے پہاڑ ناپید ہوچکے ہیں… کیا ان پہاڑوں کا انقطاع فطرت کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔ کیا اس سے زمین کا توازن بگڑنے کا خطرہ نہیں ہے۔“
اس سلسلے میں انھوں نے موثر، مدلل اور دلپذیر انداز بیان میں بہ عنوان ’زمین کی میخیں‘ سورۃ النازعات، سورۃ الکوثر، سورۃ القارعہ سے متعلق مفسرین کرام کی توضیحات پیش کی ہیں:
”… جب زمین پیدا کی گئی تو ابتدا میں لرزتی تھی، ڈولتی تھی، جھولتی تھی اور ادھر ادھر ہچکولے کھاتی تھی۔ ایسی صورت میں انسان کا اس پر زندہ رہنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی پشت پر جابجا پہاڑوں کے طویل سلسلے میخوں کی طرح بنا دئیے اور انھیں ا س تناسب سے جابجا مقامات پر پیدا کیا جس سے زمین کی لرزش بند ہوئی اور وہ اس قابل بنا دی گئی کہ انسان اس پر اطمینان سے چل پھر سکے۔ اس پر مکانات وغیرہ تعمیر کرسکے اور سکون سے پوری زندگی بسر کرسکے۔“
’بازدید حرم‘ کئی معنوں میں دلچسپ، معنی آفریں، ولولہ انگیز، صادق جذبوں کو ابھارنے اور قلب کو منزہ کرنے کی قوت سے متصف سفرنامہ ہے، جس کا مطالعہ نئے تجربے اور روحانی بالیدگی کا وسیلہ ہے۔
زیارت حرمین شریفین
80 صفحات کی یہ مختصر سی کتاب بظاہر مصنف کے بابرکت و باسعادت سفر کے جذب و کیف کا اظہار ہے، لیکن اس مختصر سی کتاب میں سہیل انجم نے جسمانی سفر کی روحانی لذت کو اس طرح محلول کیا ہے کہ اس کی عبارتوں میں راہ نجات، طریقہئ نجات اور حیات فانی سے حصولِ حیاتِ جاودانی کی راہیں روشن دکھتی ہیں۔
زیارتِ حرمین شریفین کے شیدائی اور حج یا عمرہ کا ارادہ رکھنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کارآمد بھی ہوگا اور یہ عمل سفر کی اجنبیت کو زائل کرکے آشنائی کی لذت کا سرور بھی طاری کرے گا۔
نقش برآب
’نقش برآب‘ سہیل انجم کے تیرہ شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔
خاکہ نثری صنف ادب کا ایک مشکل فن ہے۔ اسے انگریزی میں Personal Sketch اور Pen Portaraite کے دلچسپ اور دلنشیں نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ لفظ پن پورٹریٹ کی بازگشت میں ایک انوکھی معنوی کیفیت کا خوش کن احساس ہے اور اس کی تمام تر خصوصیات اور نکات فن گویا پردہئ ذہن پر ابھر آتے ہیں۔
خاکہ نگاری ایسی نثری صنف ہے، جن میں اہم یا غیراہم، ممتاز یا گمنام کسی بھی شخصیت کی باطنی و ظاہری، مثبت و منفی اور منفرد اوصاف اور پہلوؤں کو بصورت الفاظ مجسم کیا جاتا ہے۔ خاکہ نگاری نہ صرف یہ کہ متعلقہ شخص کی خوبیوں اور خامیوں، اس کے عادات و اطوار، حرکات و سکنات اور اس کی فطرت ثانیہ کی باریکیوں کا لطیف پیرایہئ اظہار ہے بلکہ اس میں تاثرات، تصورات اور تخیلات کی پروازوں کا بھی التزام ہوتا ہے۔ اس میں زبان اور اسلوب کی شگفتگی و دلآویزی کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ خاکہ ایسی شخصیت کا بھی احاطہ کرتا ہے جن سے صاحب قلم کی نہ ملاقات رہی ہو اور نہ ہی جنھیں اس نے دیکھا ہو۔ خاکہ نگاری کا دائرہئ کار خودقلم کار کی ذات بھی ممکن ہے۔—
پیش نظر کتاب ’نقش برآب‘ کے ابتدائی پانچ خاکے بالترتیب مصنف کی والدہ، والد، چھوٹے دادا، بھائی اور سسر سے متعلق ہیں۔ ان خاکوں میں مصنف نے غیرجانب دارانہ انداز بیان میں ان کی شخصیتوں کا متوازن مطالعہ اس طرح پیش کیا ہے کہ محبت و احترام کے ساتھ ہی ساتھ بصیرت، بصارت اور مصورانہ ہنرمندی اجاگر اور نمایاں ہوئی ہے۔ سہیل انجم نے اپنے دیگر خاکوں میں بھی متعلقہ شخصیتوں کے خارجی و داخلی اوصاف کو کچھ ایسی مہارت سے قلم بند کیا ہے کہ ان کی مکمل اور موثر شبیہ ابھر آئی ہے۔ ان خاکوں میں شخصیتوں سے متاثر ہونے کا تاثر تو ہے لیکن نہ مرعوبیت ہے نہ غلو— ان خاکوں کا اختصاص یہ ہے کہ قاری جن شخصیتوں سے واقف ہوں، ان میں بھی، اور جن سے واقفیت نہ ہو، ان میں بھی ایک نئے انسان سے ملاقات کے احساس کا انبساط دامن گیر ہوتاہے۔
نقوشِ انجم
’نقوش انجم‘ سہیل انجم کی مرتب کردہ ان کے والد مولانا ڈاکٹر حامدالانصاری انجم کی حیات و خدمات سے متعلق مضامین کا مجموعہ ہے، جن میں منظوم خراج عقیدت بھی شامل اشاعت ہے۔ اپنے والد سے متعلق سہیل انجم نے اپنی کتاب ’بازدید حرم‘ میں لکھا ہے:
”والد گرامی (ڈاکٹر حامدالانصاری انجمؒ) مستند عالم دین، شعلہ بیاں مقرر، قادرالکلام شاعر، صاحب طرز انشا پرداز، ادیب اور صحابی تھے۔“
مولانا ڈاکٹر حامدالانصاری انجم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، وہ شاعر، صحافی، دین کے خدمت گزار، بے لوث اور مثالی شخصیت کے حامل تھے، جنھیں دین کو عوامی زندگی کا حصہ بنانے، سماج کی بہترین تشکیل کی جدوجہد میں بے آرام ہونے میں آسودگی کا احساس ہوتا تھا۔ ایسی شخصیت سے متعلق 26 اہم مضامین، مختلف النوع نکات کو آشکار کرنے والے مقتدر قلم کاروں کا یہ مجموعہ، حوصلہ، امنگ، ولولہ اور زندگی کے نصب العین کو متعین کرنے کی قوت سے متصف ہے۔ یہ نئی نسل کے لیے راہنما اور اصول زندگی کی صورت، ایک تحفہ ہے۔

Comments are closed.