سوشل میڈیاکامعروف مسیجنگ ایپ ٹيلی گرام متنازعہ کيوں ہے؟

بصیرت نیوزڈیسک
ايران ميں 2017ء اور 2018ء کے دوران بد عنوانی، بد انتظامی اور کھانے پینے کی اشياء کی قیمتوں میں افراط زر کے خلاف مشہد شہر سے مظاہرے شروع ہوئے۔ چند ہی دنوں میں ان مظاہروں نے ملک گير سطح کی ایک تحریک کی شکل اختيار کر لی۔
سن 2020 میں تھائی لينڈ کے وزير اعظم پرايت چن اوچا کی عسکری قوتوں کی حمايت يافتہ حکومت کے خلاف جامعات کی سطح پر احتجاج شروع ہوا، جو آنے والوں دنوں ميں ملک ميں ہنگامی حالت کے نفاذ کا سبب بنا۔ بيلاروس میں 2020ء میں اليگزينڈر لوکاشينکو کی جانب سے صدارتی انتخابات ميں کاميابی کے اعلان کے بعد کئی ماہ تک مظاہرے جاری رہے۔ ان تمام احتجاجی تحريکوں ميں قدر مشترک يہ ہے کہ انہيں اکثريتی طور پر ٹيلی گرام کے ذريعے منعقد کيا گيا۔
ٹيلی گرام کو پاویل دوروف نے سن 2013 ميں شروع کيا۔ يہ ايپ کافی تيزی سے عالمی سطح پر مقبول ہوئی اور اس وقت اس کے صارفين کی تعداد نو سو ملين سے زيادہ ہے۔ ايپ کی خصوصيت يہ ہے کہ يہ اس وقت بھی کام کرتی ہے، جب انٹرنيٹ کی رفتار کافی سست ہو، جيسا کہ تنقيدی آوازيں دبانے کے ليے کئی ممالک ميں دانستہ طور پر کيا جاتا ہے۔ علاوہ ازيں ٹيلی گرام کا کہنا ہے کہ اس ايپ پر ديگر ايپس کے مقابلے ميں ريگوليشن اور سينسرشپ کافی کم ہيں۔ ايک اور پہلو يہ بھی ہے کہ ٹيلی گرام پر بيس ہزار افراد تک کا گروپ بنايا جا سکتا ہے۔ ٹيلی گرام کا يہ بھی دعویٰ ہے کہ صارف کی ذاتی معلومات کافی حد تک محفوظ ہوتی ہيں۔ يہ تمام خصوصيات ٹيلی گرام کو مخصوص گروپوں کے ليے موزوں بناتی ہيں۔
ٹيلی گرام کافی متنوع گروپوں ميں مقبول ہے۔ ايک طرف يہ ان ملکوں ميں اپوزيشن گروپوں ميں تواتر سے استعمال ہوتا ہے، جہاں حکومتيں آمرانہ طرز عمل اپنائے ہوئی ہيں۔ دوسری جانب انتہائی دائيں بازو اور انتہا پسند عواميت پسند گروپ ’آفٹر پارلر‘ کی عارضی بندش کے دوران اس کے حاميوں نے اپنا مواد پھيلانے کے ليے ٹيلی گرام کا سہارا ليا۔ کووڈ انيس کی وبا کے دوران بھی اس ايپ پر کئی ايسے گروپ سرگرم تھے، جو اس عالمی وبا کو ايک سازش کے طور پر ديکھتے تھے۔
واضح رہے کہ پچھلے ہفتے فرانسیسی پولیس نے ٹیلی گرام کے ارب پتی بانی اور سی ای او پاویل دوروف کو پیرس کے ایک مضافاتی ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا۔ ان پر شبہ ہے کہ وہ مجرمانہ مقاصد کے لیے اپنے پلیٹ فارم کے استعمال کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔ امریکی اقتصدی جریدے ‘فوربس‘ کے مطابق ان کی نیٹ ورتھ یا اثاثوں کی کل مالیت 15.5 بلین ڈالر ہے۔
دوروف کے خلاف باقاعدہ طور پر تحقيقات بدھ اٹھائيس اگست سے شروع ہو چکی ہيں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ايک ايسےآن لائن پليٹ فارم کا حصہ ہيں، جہاں غير قانونی سودے ہوتے ہيں، بچوں کی نازيبہ تصاوير شيئر کی جاتی ہيں اور جہاں منشيات کا کاروبار بھی سرگرم ہے۔ دوروف کے وکيل ان الزامات کو مسترد کرتے ہيں۔ چار دن پوليس کی حراست ميں رہنے کے بعد دوروف کو پانچ ملين يورو ضمانت اور ان شرائط پر رہا کيا گيا کہ وہ فرانس نہيں چھوڑيں گے اور ہر ہفتے دو مرتبہ پوليس کے پاس حاضری ديں گے۔
جرمنی ميں آئی ٹی کی خبروں پر مبنی ايک ويب پورٹل ‘ہائزے آن لائن‘ کے سربراہ يرگن اسمٹڈ کے بقول اس بات کی کوئی تکنيکی وضاحت موجود نہيں کہ آمرانہ طرز حکومت والے ملکوں ميں اپوزيشن کے کارکنوں ميں ٹيلی گرام کيوں مقبول ہے۔ انہوں نے بتايا کہ ديگر پليٹ فارمز کی نسبت ٹيلی گرام کا کوئی امریکی پس منظر نہیں۔ کئی لوگوں کا خيال ہے کہ امریکا میں ايسے معاملات میں امریکی قومی سلامتی کی ایجنسی (این ایس اے ملوث ہو سکتی ہے۔
ايک اور دلچسپ معاملہ يہ بھی ہے کہ دوروف کمپنی کا ہيڈ کواٹر منتقل کرتے رہتے ہیں۔ روس چھوڑنے کے بعد انہوں نے ٹیلی گرام کو برلن منتقل کيا۔ پھر لندن، اس کے بعد سنگاپور اور اب وہ دبئی سے ايپ چلا رہے ہيں۔
Comments are closed.