مہاراشٹر میں مسلم سماج کے خلاف بڑھتا سیاسی اور مذہبی تناؤ

تحریر: عبید باحسین ( 7350715191)
مہاراشٹر کی سماجی تاریخ ترقی پسندرہی ہے۔ اس ریاست میں بہادری کی عظیم روایت ہے، یہاں کی جدوجہد ہمیشہ سماجی اتحاد کو لے کر آگے بڑھنے کی رہی ہے۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کے دور میں ریاست کو ہندو مسلم اتحاد کی میراث ملی۔ اگرچہ شیواجی مہاراج کی اصل لڑائی مغلوں کے خلاف تھی لیکن انہوں نے مسلمانوں سے کبھی نفرت نہیں کی۔ ان کے ساتھ کئی سردار مسلمان تھے۔ اس روایت کو شاہو مہاراج نے جاری رکھا۔ سماجی انقلاب کی علامت جیوتی با پھلے اور ساوتری بائی پھلے کے ساتھ فاطمہ شیخ کی جدوجہدسے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
بے شمار ہندوعقیدت مند ممبئی کی حاجی علی درگاہ، ماہیم کے مخدوم محی الدینؒ، ناگپور کے بابا تاج الدین ؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آتے ہیں۔ دیہاتوںمیں محرم اور صندل کا اعزاز ہندوؤں کی جانب سے کیا جاتاہے ، جبکہ مسلم برادری گاؤں کے میلوں ( جترا) کے انعقاد میں پیش پیش رہتی ہے۔ آزادی کے بعد کے دور میں مجاہد آزادی یشونت راؤ چوہان اور ان کے ساتھیوں نے مہاراشٹرکی ترقی کویقینی بنانے کے مقصدکی خاطر ذات پات پر مبنی سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی اور مہاراشٹر کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

٭ لوک سبھا انتخابات کے رحجان اور ہندوتوادی قوتوں کی حکمت عملی
بی جے پی اور شیو سیناایکناتھ شندے کو لوک سبھا انتخابات کے رحجان کا انداز ہ 2022ء میںہوگیا تھا۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، نومبر 2022 ء سے مارچ 2023 ء تک مہاراشٹر کے تقریباً تمام 36 اضلاع میں کم از کم 50 ہندو جن آکروش مورچے منعقد کیے گئے اور ہر ایک مورچے میں ایک منظم طریقہ کار اپنایا گیا ۔ یہ مورچے شہر کے درمیانی علاقوں سے بھگوا جھنڈوں اور زعفرانی ٹوپیوں کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے ایک چھوٹی سی ریلی کے ساتھ اختتام پذیر ہوتے تھے۔ اسٹیج پر سے نتیش رانے اور دیگر ہندوتوا مقررین اقلیتوں کے خلا ف لو جہاد،زمین جہاد،جبری مذہب تبدیلی جیسے مسائل اٹھاکر مسلم سماج کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے تھے۔ ان مورچوں کے ویڈیو کلپس سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل کیے جاتے۔ اس طرح سے مسلم سماج کو مہاراشٹر میں بڑے پیمانے پر بدنام کر مسلمانوں کی سماجی شناخت کو نقصان پہنچایا گیا۔
ملک میں پھوٹ ڈال کر حکومت کرنے کی فرنگی سازش کی طرح کچھ مفاد پرست سیاسی لیڈروں کی طرف سے ذات پات اور مذاہب کے درمیان تنازعات پیدا کر کے ترقی پذیر مہاراشٹر کو نیچے کی طرف لے جانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ برطانوی سلطنت کے حریف اور مجاہد آزادی ٹیپو سلطان اور اس مٹی میں پیدا ہونے والے اورنگزیب عالمگیر کو ہندوئوں کا دشمن بناکر پیش کیا گیا۔ ان کے اسٹیٹس لگانے کے الزام پر مغربی مہاراشٹر کے گاؤںمیں مسلم نوجوانوں کو برہنہ کر ان کی ریلی نکال کر ان کو گائوں میں موجود شیواجی مہاراج کی مورتی کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح مسلم سماج کے حوصلہ پست کر ان پر زہنی دبائو بنانے کا کام کیا گیا۔ جب کسی بھی گروہ یا شخص کو راکشش یعنی شیطان یعنی کے سماج کے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو عام لوگ بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں اس راکشش کو مار کر سماج کو مبینہ خطرہ سے محفوظ کر دینا چاہیے۔ اس طرح نوجوان نسل کے ذہنوں میں مسلم نفرت پھیلاکر ان کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔
10 ستمبر 2023 ء کو ہندو سماج کے نوجوانوں نے پْسیساؤلی، ضلع ستار۱ میں مسجد اور مسلمانوں کی ملکیت والی دکانوں پر حملہ کیا۔ وجہ یہ تھی کہ ایک جعلی فیس بک آئی ڈی سے ہندو دیوی دیوتاؤں کی بے حرمتی کی گئی۔31 سالہ نورالحسن شکلگار جو کہ ایک نوجوان انجینئر تھا، اْس وقت مسجد کے اندر موجود تھا اْس پر حملہ کیا گیا ،سر پر چوٹ لگنے سے اس کی موت ہوگئی۔ دیگر 10 ؍زخمی اور 23 ؍افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ پونے کے محسن شیخ کے قتل معاملہ (2014ء) کے علاوہ مذہبی جنونیوں کے ذریعہ مسلم سماج پر مہلک حملے کرنے کا کوئی دیگر معاملے کا زکرمہاراشٹر کی جدید تاریخ میں نہیں ملتا۔
مہاراشٹر کی سیاست میں مراٹھا برادری کا غلبہ ہے۔ یہاں کے لیڈر شرد پوار مہاراشٹر کی سیاست کی منطق کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ جولائی 2023 ء میں شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار نے این سی پی ممبران اسمبلی کی اکثریت کے ساتھ بی جے پی اور شیوسینا حکومت میں شمولیت اختیار کی اور نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ حاصل کیا۔ اس سے قبل مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے کے ذریعے 30 جون 2022 ء کو شیوسینا کو توڑ کر بغاوت کی گئی تھی۔ اس سے شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے ناراض ہوئے۔ کیونکہ مہاوکاس آگھاڑی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور بی جے پی نے سیاسی حربہ کے تحت برہمن دیوندر فڑنوس کو وزیر اعلی نہ بناتے ہوئے مراٹھاسماج سے تعلق رکھنے والے ایکناتھ شندے کو موقع دیا۔ دوسری طرف ایکناتھ شندے کو وزیر اعلی بنائے جانے کی وجہ سے دیویندر فڑنویس بھی ناراض ہوئے اور انھوں نے اپنے استعفی کی پیش کش کی، پارٹی نے اسے نامنظور کر دیا، دیوندر فڑنوس کو ایکناتھ شند ے کے ماتحت نائب وزیر اعلیٰ بننا پڑا۔اب ایکناتھ شندے کو یہ ثابت کرنا مجبوری بن گئی تھی کہ وہ شرد پوار کے مقابلے میں مراٹھا برادری کے عظیم لیڈر ہیں اور صرف ایک مراٹھا ہی مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ ہو سکتا ہے۔

٭مراٹھا اور (برہمن)ہندوتوادیوںکے درمیان کی سیاسی کشمکش
منوج جرانگے پاٹل نے مراٹھا برادری کے ریزرویشن کے لیے کئی آندولنوںکی قیادت کی، لیکن ضلع جالنہ کے انترولی سراٹی میں ہونے والے احتجاج نے خاص توجہ مبذول کروائی۔ منوج جرانگے پاٹل نے 29 اگست 2023 ء سے انترولی سراٹی میں بھوک ہڑتال شروع کی تھی جس کا بنیادی مطالبہ تھا کہ مراٹھا برادری کو ریزرویشن ملنا چاہیے۔ تین دن تک ان کی بھوک ہڑتال پر ریاستی حکومت کا دھیان نہیں گیا۔ لیکن 1 ستمبر 2023 ء کو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کر کے ان کی بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ اس وقت زبردست ہنگامہ ہوا، کئی لوگ زخمی ہوئے اور اس کے بعد منوج جرانگے پاٹل کی تحریک نے پوری ریاست اور ملک کی توجہ حاصل کرلی۔
اس کے ساتھ ہی مہاراشٹر کے سامنے یہ سوال کھڑا ہوا کہ مراٹھا مظاہرین پر لاٹھی چارج کرنے کا حکم کس نے دیا؟ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ ہونے کے ناطے شک کی پہلی سوئی دیویندر فڑنویس پر پڑی۔ ریاست کے بڑے لیڈران انترولی سراٹی آکر جرانگے پاٹل سے ملاقات کی اور اس تحریک کو مین اسٹریم میں لے آئے۔ خود شرد پوار نے منوج جرانگے پاٹل سے ملاقات کی اور تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس کے بعد 14 ستمبر 2023 ء کو جرانگے پاٹل نے انترولی سراٹی میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا اور پورے سماج کی توجہ مبذول کروائی۔
منوج جرانگے پاٹل کی بھوک ہڑتال اور ممبئی میں ہونے والے آندولن کو وزیر اعلیٰ نے خود نئی ممبئی جا کر روک دیا اور اپنے ہاتھوں سے جرانگے پاٹل کی بھوک ہڑتال کو ختم کرواکر خود کو واحد مراٹھا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف منوج جرانگے نے بھوک ہڑتال ختم کرنے کے بعد ریاست بھر کا دورہ شروع کیا اور بی جے پی بالخصوص دیویندر فڑنویس کو نشانہ بنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برہمن بمقابلہ مراٹھا تنازعہ مہاراشٹر کے لیے نیا نہیں ہے۔ دیویندر فڑنویس برہمن ہونے کے باوجود 2014-19ء تک وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنا 5 سالہ دور مکمل کرنے میں کامیاب رہے۔ جو آج تک شرد پوار، وسنت دادا پاٹل اور یشونت چوہان جیسے مراٹھا لیڈروں کے لیے ممکن نہیں تھا۔ مزید یہ کہ 2019 ء کے انتخابات میں جب شیو سینا اور بی جے پی کو مخلوط حکومت میں اکثریت ملی تودیوندرفڑنویس کو بی جے پی نے وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر دوبارہ فائز کیا۔ لیکن کچھ دن بعد 28 نومبر 2019 ء کو شیوسینا نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد توڑ دیااور این سی پی اور کانگریس کی حمایت سے حکومت بنائی۔ ادھو ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔ ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ بنا کر شرد پوار نے ساری ڈور اپنے پاس رکھی۔ ایک طرح سے یہ مراٹھوں اور برہمنوں کے درمیان سیاسی تنازعہ میں شرد پوار کی جیت تھی۔
٭2024لوک سبھا انتخابات اور ہندوتوادی طاقتوں کی شکست
2024 ء کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے مراٹھا سماج متحد طور پر منوج جرانگے پاٹل کے ساتھ کھڑے تھے۔ جرانگے پاٹل نے مراٹھا سماج کو بی جے پی اور خاص طور پر دیویندر فڈنویس کے خلاف کھڑا کیا۔ دوسری طرف مسلم سماج نے بی جے پی اور ہندوتوا تنظیموں کے احتجاج اور NRC/CAAکے خوف کی وجہ سے مہاوکاس آگھاڑی کو ووٹ دیا۔ بی جے پی نے 400 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا تھا، لیکن دستور و آئین بدل دینے کے خوف سے دلت برادری نے بھی بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا۔ جس کے نتیجہ میںمہا وکاس آگھاڑی نے مہاراشٹر میں 48 میں سے 30 سیٹیں جیت لیںاور بی جے پی کو مہاراشٹر میں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مجموعی طور پر یہ بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کی شکست اور مراٹھا سماج کی کامیابی تھی۔
تاہم ایکناتھ شندے کی پارٹی نے غیر متوقع طور پر 7 نشستیں حاصل کیں اور وہ بی جے پی کے زیر اہتمام اتحادNDA کا اہم جزو بن گئی۔ اس طرح وہ وزارت اعلیٰ کے عہدہ پرقائم رہے۔منوج جرانگے پاٹل نے انتخابات کے نتائج کے بعد دوبارہ تحریک شروع کی اور آنے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کو مکمل طور پرشکست کرنے کا اعلان کیا۔ لوک سبھا انتخابات کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ 48 سیٹوں میں سے 30 سیٹوں پر مراٹھا یا مراٹھا کنبی منتخب ہوئے، جو کہ 2019 ء کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج (22 ارکان پارلیمنٹ ) کی تعداد کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔
سماج کے طور پر اس لوک سبھا الیکشن میں مراٹھا برادری کو فائدہ ہوا، لیکن مسلم سماج کی نمائندگی صفر رہی۔ مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما ء امتیاز جلیل اورنگ آباد لوک سبھا انتخابات میں بری طرح ہار گئے۔ یہاں ایک بات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے، امتیاز جلیل نے جرانگے پاٹل کی ہر تحریک میں اپنی شرکت درج کروائی تھی۔اْن سے ملاقات کی تھی۔ جلیل کے خلاف شیو سینا کے ایکناتھ شندے کے امیدوار سندیپان راؤ بھومرے ایک مراٹھا امیدوار تھے، جبکہ شیو سینا ادھو ٹھاکرے کے امیدوار چندرکانت کھیرے درج فہرست ذات کے امیدوار تھے۔ یہاں جرانگے پاٹل کے حامیوں نے خفیہ طور پر جلیل کے بجائے اپنا ووٹ بی جے پی کے زیر اہتمام شندے شیوسیناگروپ کے مراٹھا امیدوار سندیپان بھومرے کی طرف منتقل کروایا۔ اس کے نتیجے میں بھومرے منتخب ہوئے اور مہاراشٹر کے واحد مسلم ایم پی جلیل کو شکست ہوئی۔اس کے بعد ازاں مہاراشٹر کی قانون ساز کونسل کے انتخابات کے وقت بھی مہاوکاس آگھاڑی نے لوک سبھا کی طرح ودھان پریشد کے انتخابات میں ایک بھی مسلم لیڈر کو امیدواری نہیں دی ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کے 30سال بعد پہلی مرتبہ مہاراشٹر کی قانوں ساز کونسل میں مسلم ارکان کی تعداد صفر ہوگئی۔

٭منڈل(ہندوتوا) بمقابلہ کمنڈل (مراٹھا اوبی سی ریزرویشن )
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعدجرانگے نے اپنا آندولن جاری رکھا اور ایک بار پھر دیویندر فڑنویس اور بی جے پی کو نشانہ بنایا۔ یہیں سے بی جے پی اور اس کی حامی شیوسینا نے جرانگے پاٹل کے (منڈل کمیشن کے او بی سی ضمرے سے) مراٹھوں کو ریزرویشن دینے کے مطالبے کو شہ دینے کے لیے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر مراٹھا اور او بی سی کمیونٹی کو ہندو بنانے (کمنڈل ) کی تحریک کو پھر سے زور دیا۔ انہوں نے یہ ذمہ داری نتیش رانے پر ڈال دی۔ تاہم نتیش رانے نے دیویندر فڑنویس کا دفاع کرتے ہوئے جرانگے پر تنقید کی۔ سپریم کورٹ کے نفرتی بیانات کے احکا مات کے دباؤ میں پولیس کی جانب سے نتیش رانے کو نوٹس جاری کی گئی۔ جس سے انھیں غصہ آگیا اور اْنہوں نے پولیس اور ان کے خاندان کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیئے۔ اس لیے ان کی بیان بازی سے سماج میں کوئی خاص اثرات رونماء نہیں ہوئے ۔ تاہم انہوں نے سکل ہندو سماج کے بینر تلے’’لینڈ جہاد،لو جہاد ‘‘کے نام سے ہندوجن آکروش مورچے جاری رکھے۔
جولائی 2024 ء میںضلع کولہاپور میں واقع وشال گڑھ اور غازہ پور میں ہونے والے واقعات نے مہاراشٹر میں سماجی تناؤ بڑھا دیا۔ وشال گڑھ پر موجود بے جا قبضہ جات کے خلاف سنبھاجی راجے چھترپتی کی قیادت میں ’’چلو وشال گڑھ‘‘ کے نعرے کے ساتھ مارچ نکالا گیا۔ سنبھاجی راجے چھترپتی یہ شیو چھترپتی سنبھاجی مہاراج کے خاندان سے ہیں اور بی جے پی کے سابق راجیہ سبھا ممبر ہیں۔ ان کے والد حال ہی میں کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کے لیے کولہاپورنشست سے منتخب ہوئے تھے۔ تاہم سنبھاجی راجے ‘دیویندر فڑنویس اور بی جے پی کے قریب بتائے جاتے ہیں۔اس مورچے کے دوران حالات قابو سے باہر ہو گئے اور وشال گڑھ کے قریب غازہ پور گاؤں میں بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا۔ اس تشدد میں مسلم سماج کی املاک کو بری طرح نقصان پہنچا، گھروں پر حملے کیے گئے، گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی اور ایک مسجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ فسادات میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے، اور پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے 24 افراد کو گرفتار کر لیا۔اس واقعے کے بعد ونچت بہوجن اگھاڑی کے صدر پرکاش امبیڈکر اور راشٹروادی شرد پوار گروپ کے ایم ایل اے جتیندر آوھاڑنے تشدد کے لیے ہندوتوا لیڈر سنبھاجی بھڑے کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس واقعہ نے ریاست میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ کر دیا۔
ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک مقامی شخص نے کہا کہ غازہ پور میں کچھ سالوں سے ہندوتوا تنظیمیں سمبھاجی بھیڑے کی قیادت میں مسلم مخالف جذبات پھیلا رہی تھیں جس کی وجہ سے گاؤں میںمسلمانوں کی بستی اور مسجد پر حملے کیے گئے۔ مجموعی طور پر وشال گڑھ فسادات ایک بار پھر مراٹھا برادری کو جرانگے پاٹل کے چنگل سے آزاد کراکر ہندو بنانے کی سازش تھی۔ لیکن ہندوتوا کی یہ سازش ناکام ہوگئی کیونکہ کولہاپور اور ریاست کے دیگر حصوں میں مسلمانوں نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی خاص رد عمل نہیں کیا۔
جرانگے پاٹل روزانہ فڑنویس اور بی جے پی کے خلاف اپنے موقف کو تیز کرتے ہوئے مہاراشٹر کے ہر ضلع میں مراٹھا امن مورچے جاری رکھے، اور او بی سی کوٹہ سے مراٹھا برادری کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی لیڈر نتیش رانے اور دیگر نے ہندو آکروش مورچہ کو منظم کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا خاص اثر سماج پر نہیں دکھا۔مسلم برادری کو نشانہ بنا کر ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے بی جے پی لیڈروں نے تقریریں کیں کہ مسلم خواتین کو ’’لاڈلی بہن ‘‘ اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہیے۔ ’’لاڈلی بہن ‘‘ اسکیم میں خواتین کو 1500 روپے مختص کئے جارہے ہیں۔ شندے۔فڑنویس۔پوار نے سوچا کہ وہ اس طرح پیسوں کی بناپر خواتین کے ووٹوں سے فائدہ اٹھائیں گے، لیکن رپورٹوں کے مطابق، 1 کروڑ سے زیادہ خواتین نے اس اسکیم کے لیے درخواست دی، جن میں سے 50 فیصد درخواست دہندگان کا تعلق مسلم اور بودھ سماج سے تھا۔ چنانچہ ایکناتھ شندے کو پھر سے اقتدار کے جانے کا خوف محسوس ہونے لگا۔
٭ہندوتوادی شیوسینا کے لئے کرو یا مرو
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر مہاراشٹر کی موجودہ حکومت کو آنے والے انتخابات میں شکست ہوتی ہے اور وہ اقتدار سے باہر ہوجائے تب بھی دیویندر فڑنویس مرکز میں جا کر سیاست کر سکتے ہیں، جبکہ اجیت پوار ایک بار پھر اپنے چچا شرد پوار کی پارٹی میں شامل ہو کر کچھ اہم عہدے حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم ایکناتھ شندے کے لیے آنے والے مہاراشٹر اسمبی انتخابات ’کرو یا مارو‘ جیسا ہو گئے ہیں۔ لہذا ایکناتھ شندے ہر ممکن طریقہ استعمال کرتے ہوئے کسی بھی حالت میں دوبارہ وزیر اعلی بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب نتیش رانے اور بی جے پی کی ٹولی ناکام ہوئی تو وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے ایک مہاراج کو آگے لے آئے۔ وہ مسلم سماج کو نشانہ بناکر، ہندو مسلم کشیدگی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ بی جے پی اور ہندوتوادی اتحادی جانتے ہیں کہ مسلم کمیونٹی کے لیے سب سے حساس مسئلہ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺکا والہانہ احترام ہے۔ اس سے قبل جب نپور شرما نے بھی پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف ایسی ہی گستاخی کی تھی تو مسلم کمیونٹی نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ بعض مقامات پر احتجاجی مظاہرے پرتشدد ہو گئے تھے۔ بی جے پی نے نپور شرما کو پارٹی سے معطل کر دیا تھا۔
اس تجربے کی بنیاد پر رام گیری مہاراج کو مراٹھواڑہ کے انتہائی حساس علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے لئے استعمال کیا گیا۔ اگست کے مہینے کے آغاز میںرام گیری مہاراج کا کیرتن پروگرام ناسک ضلع کے ایک تعلقہ میں شروع ہوا۔ یہ پہلے ہی طے تھا کہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اس کیرتن میں آئیں گے۔ اسی سے قبل کرتن کے دوران رام گیری مہاراج نے بنگلہ دیش میں ہندو برادری پر ہونے والے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے منصوبہ بند طریقے سے اسلام اور پیغمبر اسلامﷺکے بارے میں گستاخانہ بیان دیا اور اس کا ویڈیو بناکر مہاراج نے اسے یوٹیوب پر نشر کیا۔اس کے رد عمل میں مہاراشٹر کے کئی شہروں میں سماجی تناؤ بڑھ گیا۔ ان متنازعہ بیانات کے بعد رام گیری مہاراج کے خلاف مختلف اضلاع میں کئی ایف آئی آر درج کی گئیں۔ خاص طور پر اورنگ آباد اور احمد نگر میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جمعہ کی نماز کے بعد سڑکوں پر نکل آئی اور رام گیری مہاراج کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ اس واقعہ کے نتیجے میں کچھ بازاربند کئے گئے اور مقامی پولیس نے بھاری سیکوریٹی تعینات کرکے صورتحال کو قابو میں کیا۔ بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات کے خلاف اسی دن ناسک اور دیگر مقامات پر بند کی کال دی گئی تھی جو پرتشدد ہو گئی۔
اگلے دن جب ماحول گرم ہو رہا تھا، رام گیری مہاراج کے پروگرام میں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا آنا ایک آئینی عہدہ پر فائز شخص کے لیے نامناسب تھا۔ تاہم وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے مسلم سماج کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے اس تقریب میں شرکت کی اور کھل کر کہا کہ رام گیری مہاراج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی اور ان کی سیکوریٹی بھی بڑھا دی گئی۔ اس بیان نے رام گیری مہاراج کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے خلاف مسلم سماج کو مشتعل کردیا۔
مجموعی طور پر رام گیری مہاراج کے بیانات سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور اس کے بعد کے ردعمل کا مہاراشٹر میں مذہبی ہم آہنگی پر بڑا اثر پڑا ۔ ناندیڑ ضلع کے قندھار تعلقہ میں مسلم سماج کے کچھ نوجوانوں نے رام گیری مہاراج کی حمایت میں انسٹاگرام پر ریل لگانے کو لے کر ہندو نوجوانوں پر حملہ کیااور کچھ دوسرے اضلاع میں رام گیری مہاراج کے حامیوں کے واٹس ایپ اسٹیٹس کو لے کر پولیس میں شکایت درج کروائی گئی۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مظالم کے نام پر ہر مہاراشٹر کے ہر ضلع میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کی جانب سے بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین پر مختلف مقامات پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔یہ ہندوتوادی قوتوںکے لئے ایک طرح کی وقتی خوشی کا موقع ہے کے انھوں نے مہاراشٹر کے ماحول میں کشیدگی پیداکرنے میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن یہ خوشی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہی اور ممبئی میں معصوم بچیوں کی عصمت دری اور مالون میں شیواجی مہاراج کے پتلے کے گرجانے کے بعد ایک بار پھر مہاراشٹر کا سیاسی ماحول ہندوتوا سیاست کے لئے ساز گار نہیں ہے۔ دوسری جانب مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ ہونے کی وجہہ سے جرانگے پاٹل نے 29 اگست کو اپنے موقف کا اعلان کرنے کی تاریخ کو ملتوی کر دیا ہے۔مجموعی طور پر مراٹھوں اور ہندوتوا کی کشمکش میں مسلم کمیونٹی کا استحصال ہورہا ہے۔ سیاست کے اس کھیل میں مسلم کمیونٹی کو بہت نقصان اْٹھانا پڑرہا ہے۔ ان کی سماجی اور سیاسی پسماندگی بڑھتی جارہی ہے اور مہاراشٹر کا مسلم سماج مرکزی دھارے سے الگ ہونے کے دہانے پر ہے۔

نوٹ: یہ آرٹیکل مختلف مراٹھی اخبارات اور پورٹل پر شائع ہوئے مراٹھی آرٹیکل کا اْردو ترجمہ ہے۔

 

 

Comments are closed.