اخلاقی محاسن سے خالی ہوتی جارہی ہے دنیا
انسان کی حقیقی آزادی خواہشات نفس کی غلامی میں نہیں بلکہ اس پر کنٹرول کرنے میں ہے

عبدالغفارصدیقی
9897565066
دنیا میں انسانیت ناپنے کا اگر کوئی پیمانہ ہے تو وہ اخلاق ہے۔جو انسان جس قدر اعلیٰ اخلاقی قدروں کا پاس دار ہے وہ اتنا ہی عظیم انسان ہے اورجوشخص جس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہے وہ اسی قدر انسانیت سے دور ہے۔کون سے اخلاق اچھے ہیں اور کون سی عادتیں بری ہیں؟اس ضمن میں تمام انسانی مذاہب تقریباً یکساں ہیں۔اس کے علاوہ انسان کا اپنا ضمیر بھی خیر و شر کی تمیز رکھتا ہے۔سچ بولنا،دوسروں کی مدد کرنا،کسی ضرورت مند کے کام آنا،دل نہ دکھانا،بڑوں کا احترام کرنا،چھوٹوں سے محبت کرنا،اپنی عزت و عصمت کے ساتھ ساتھ دوسرے کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا،لین دین میں ایمان داری برتنا،عدل و انصاف سے کام لینا وغیرہ وہ افعال و اعمال ہیں جنھیں پوری دنیا اخلاقی محاسن میں شمار کرتی ہے۔اس کے برعکس جھوٹ بولنا،چوری کرنا،کم ناپنا اور کم تولنا،کسی کی ضرورت پوری نہ کرنا بلکہ اس کا مذاق اڑانا،بڑوں کو بے عزت کرنا، خواتین کو بے آبرو کرنا،فریب اور دھوکادہی سے کام لیناوغیرہ کے اخلاقی معائب ہونے پر ساری دنیا کا اتفاق ہے۔اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے دین،ایمان،خدا،رسول،جنت اور دوزخ کو کنارے کردیں تب بھی مذکورہ بالا محاسن و معائب پر متفق ہوں گے۔رہے وہ لوگ جو کسی دین کو مانتے ہیں،جن کے یہاں جزاوسزا کا تصور ہے،جو مذہبی بنیادوں پر ایک معاشرتی نظام کے قائل ہیں،ان کے یہاں اخلاقی محاسن نجات دہندہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اخلاقی اقدار پر انسانیت کے اتفاق کے باوجود موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ ساری دنیا اخلاقی محاسن سے خالی نظر آتی ہے۔عالمی سطح پر قوموں اور ملکوں کا دوہرے انصاف پر مبنی رویہ،خود پرستی اور قومی عصبیت پر مبنی اصول زندگی،طاقت کے زور پر ممالک میں دراندازی،آزادئی نسواں کے عنوان سے نصف انسانیت کا استحصال وغیرہ وہ برائیاں ہیں جو کم و بیش تمام طاقت ور اور نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ایک طرف وہ امن کے داعی ہیں،اظہار رائے کی آزادی کی وکالت کرتے ہیں،خواتین کے لیے مساوی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور دوسری طرف عراق و افغانستان اور فلسطین میں نسل کشی کے مرتکب ہیں۔اقوام متحدہ میں مبنی بر انصاف فیصلوں کو ویٹو کردیتے ہیں۔اپنے جانب داروں کے ناجائز قبضوں کا تحفظ کرتے ہیں،اور اپنے مخالفین پر پابندیاں لگاتے ہیں۔عالمی طاقتوں کی ناانصافیاں اس قدر عام ہیں کہ ہر ذی شعور شخص ان کا گواہ ہے۔
دنیا میں بھارت کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی اعلیٰ تہذیبی اقدار کا حامل ہے۔بھارت کی شناخت ایک ایسے ملک کی ہے جو عدل،مساوات اورمذہبی رواداری کا علم بر دار ہے۔جس نے ساری دنیا کو”وسودیوکٹمبھکم“کا پیغام دیا،جہاں ہر مذہب کے ماننے والے لوگ پیار محبت سے رہتے ہیں۔مگر گزشتہ ایک دہائی سے ہمارا ملک تیزی کے ساتھ اخلاقی پستی کا شکار ہوا ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ لگ بھگ پورا ملک اخلاقی دیوالیہ ہوگیا ہے۔نہ بڑوں کا احترام ہے،نہ بچوں سے محبت،خواتین کا تو کئی پرسان حال نہیں،حکومت قوانین پر قوانین بنا کر انھیں محفوظ اور امپاور کرنا چاہتی ہے مگر اس کے انتظامیہ ان قوانین کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ایک بزرگ کو اس لیے مارا و پیٹاجاتا ہے کہ اس کا کھانا مشکوک ہے،انھیں اس میں بیف کی بو آرہی ہے،اسی بیف کی جو ملک کے کم و بیش دس ریاستوں میں قانوناً جائز ہے اور جہاں کے غیر مسلم بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔انسانوں کی جانیں اس لیے لے لی جاتی ہیں کہ ان پر گاؤ کشی کا الزام ہے۔وہی گائے جس کے تقدس پر پروچن ہوتا ہے،سڑکوں پر آوارہ گھومتی ہیں،ہزاروں کروڑ روپے سے چلنے والے گؤ شالاؤں میں دم توڑ رہی ہیں۔ملک میں امن و قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ایک بھیڑ جے شری رام کے نعروں کی گونج میں انسانوں کا قتل کردیتی ہے اور کسی ایک بھارتی شہری کو بھی اس پر رحم نہیں آتا۔حاملہ خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے اس کے ساتھ گنہہ گاروں کی پشت پناہی کی جاتی ہے،غیر قانونی رہائی پر پھولوں سے ان کا استقبال کیا جاتا ہے۔کسی لڑکی تنہا پاکر اس کی عزت لوٹ لی جاتی ہے۔اس کا قتل کرکے لاش کو مسخ کردیا جاتا ہے۔عزت و آبرو کے یہ لٹیرے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب ثروت ہوتے ہیں۔کتنے سنت اسی جرم میں جیل میں ہیں اور کتنوں پر سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ملک کا مکھیاراج دھرم نبھانے اور مجرمین کو عبرت ناک سزا دلوانے کے بجائے ان کو وزارتوں سے نوازتا ہے۔ذرا آنکھیں بند کرکے اپنے ملک کی اس تصویر کو دیکھیے،اُف!کتنی کریہہ ہے یہ تصویر۔
جب ملک کا حاکم یا اس کے اہل کار شہریوں کے درمیان تفریق کرنے لگیں،اور اسی بنیاد پر عوام کے ایک طبقہ کی انھیں حمایت حاصل ہوتو سمجھ لیجیے کہ اب اس ملک میں اخلاق وکردارنام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔یہ وہ جرم ہے جو قوموں کو تباہ کردیتا ہے،ملکوں کو تقسیم کردیتا ہے،مظلوم کو بغاوت پر اکساتا ہے اور حکومت کا تختہ پلٹ دیتا ہے۔وطن عزیز میں تفریق پر مبنی فیصلے مستقل ہورہے ہیں۔اس کے لیے کسی مثال کی ضرورت نہیں۔
اخلاقی معائب میں فریب و بے ایمانی بھی شامل ہے۔آج ملک کا کونسا شہری ہے جو اس برائی میں ملوث نہیں ہے۔اگر آپ جائزہ لینے بیٹھیں گے تو لاکھوں میں شاید کوئی ایک ایسا نیک دل انسان نظر آئے جو ایمان دار ی سے جملہ امور انجام دے رہا ہو۔اب یہ کہاوت عام ہے کہ ”ایمان دار وہ ہے جسے بے ایمانی کا موقع نہ ملاہو۔“اشیاء میں ملاوٹ بھارتی سماج میں عام ہے۔کسی بھی پروڈکٹ پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ملک میں دھرم گرو اورباباکی بھی ایک کمپنی ہے جو ہزاروں پروڈکٹ سیل کرتی ہے۔بابا مذہبی چولہ پہنتے ہیں۔اپنی چیزوں کے شدھ ہونے کا پرچار کرتے ہیں۔مگر وہ بھی چور ثابت ہوچکے ہیں۔آج سے چالیس سال پہلے سائکل سے مردانہ طاقت کی دوا بیچنے والا بابا آج لاکھوں کروڑ کا مالک ہے۔دواؤں کی نناوے فیصدکمپنیاں لائق اعتبار نہیں۔ ہاسپٹل میں مریض کی جیب ہی نہیں گردن کاٹی جارہی ہے۔مرنے کے بعد لاش سے بھی بل وصول کیا جارہا ہے۔مذہب کے نام پر چلائے جانے والے اداروں میں کھلے عام بے ایمانی کا دور دورہ ہے۔ورنہ مجھے بتائیے ملک میں ہزاروں سماج سیوی تنظیموں کے ہونے اور ان کو اربوں روپے ڈونیشن کے نام ملنے کے باوجود سماج کی غربت و جہالت میں کمی کیوں نہیں ہورہی ہے۔مذہبی اداروں میں عوام کے چندے پر داد عیش دی جارہی ہے۔دنیا کی بے ثباتی پر گھنٹوں تقریر کرنے والوں کے پاس دنیا ہی دنیا ہے۔عوام کو سادگی کا سبق پڑھانے والوں کے یہاں اسی عوام کے پیسوں سے عیاشی کی ہر شئے موجود ہے۔اس حمام میں سب ننگے ہیں۔چاہے وہ کسی بھی دین دھرم کے ماننے والے ہوں۔کھانے پینے کی اشیاء میں زہر ملایا جارہا ہے۔سوشل میڈیا پر گالیاں فروخت ہورہی ہیں۔انٹر نیٹ پر فحش مواد کی کثرت ہے۔پورونو گرافی سب سے زیادہ منافع بخش تجارت بن گئی ہے۔سرکاری محکموں کے کرپشن پر کمیشنوں کی رپورٹیں موجود ہیں۔بہار میں زمین دوز ہونے والے پل اس کے شاہد ہیں۔کسی کے گھر میں آگ لگ جائے تو ایک بڑی تعداد ویڈیو بناتی نظر آئے گی،بجھانے کے لیے کوئی نہیں ہوگا۔ڈوبنے والے کی ویڈیو بنائیں گے لیکن انھیں بچانے کے لیے کوئی ہاتھ نہیں بڑھے گا۔غوطہ خور بھی پہلے پیسہ لیں گے اور بعد میں دریا میں کودیں گے،چاہے اس وقت تک کسی کی جان ہی چلی جائے۔کیا یہ کسی اچھے اخلاق کی علامتیں ہیں؟
اخلاقی بے راہ روی کے نتیجے میں خاندانی نظام تباہ ہوگیا ہے۔بوڑھے والدین کو اولڈیج ہوم بھیجا جارہا ہے۔بعض دفعہ تو چند پیسوں کی خاطر والدین کو جان سے مارنے کی بھی خبریں سننے کو مل جاتی ہیں۔ایک دور تھا جب سماج میں بزرگوں کا احترام تھا۔ان کے سامنے اونچی آواز سے بولنا بھی بد اخلاقی سمجھا جاتا تھا۔ایک آج کا دور ہے جب بوڑھے اپنی عزت بچائے پھرتے ہیں۔کوئی باپ اپنی اولاد کو ڈانٹ نہیں سکتا،کوئی ماں اپنے بچوں کو تنبیہ نہیں کرسکتی،اگر وہ ایسا کریں گے تو اولاد خود کشی کرلے گی یا والدین کو ماردے گی یا ان کے خلاف پولس میں شکایت درج کرائے گی۔
اخلاقی پستی کی اس سے زیادہ کیا انتہا ہوگی کہ کسی جانور کو بھی اتنا بے حیاء اور بدتمیز نہیں دیکھا گیاجتنا آج کے انسانوں کو دیکھا جارہا ہے۔کوئی جانور بے ایمان اور چور نہیں ہوتا،فریب دینا،رشوت لینا اور بے وفائی کرنا وہ جانتے تک نہیں۔ غیر جنس کے ساتھ جنسی تعلقات بناتے ہوئے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو،لیکن انسان جب اپنی انسانیت سے گرجاتا ہے تو جانوروں کو بھی نہیں بخشتا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اس بداخلاقی کو ترقی کے نام پر اختیار کیا جارہا ہے۔شراب پینا مہذب ہونے کی علامت سمجھا جارہا ہے،آسائش دنیا کی فراوانی معیار عزت بن گیا ہے۔مارکیٹ میں سیلز گرل کی موجودگی باعث شرف سمجھا جانے لگا ہے۔دفاتر میں خواتین کی ملازمت کو آزادی نسواں کے نام سے پکارا جانے لگا ہے۔نفس کی غلامی کو حقیقی آزادی تصور کیا جانے لگا ہے۔کیا ایسے معاشرے میں کوئی سکون و اطمینان سے رہ سکتا ہے؟یہی وجہ ہے کہ ملک میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ڈپریشن اور ٹینشن نے وبا کی صورت اختیار کرلی ہے۔
انسان کی حقیقی آزادی خواہشات نفس کی غلامی میں نہیں بلکہ اس پر کنٹرول کرنے میں ہے۔اس لیے کہ بے لگام خواہشات انسان کو گمراہی اور تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ جو چاہیں کریں،بلکہ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہ کریں جو آپ کے اپنے لیے اور آپ کے سماج کے لیے اچھا ہو۔آپ کی آزادی اگر دوسروں کے لیے مصیبت کا باعث ہے تو پھر وہ آزادی نہیں آزار ہے۔میں آپ کو کسی دین اور مذہب کی دہائی دے کر اخلاقی محاسن اختیار کرنے کی دعوت نہیں دے رہا ہوں۔نہ میں اس وقت مذہب کا تقابلی مطالعہ پیش کرکے کسی مذہب کو افضل ثابت کررہا ہوں۔میں تو آپ سے ان اخلاقی محاسن کے اختیار کرنے کی گزارش کررہا ہوں جو آپ کے انسان ہونے کے لیے ضروری ہیں۔اگر آپ کا تعلق جنس انسان سے ہے توسماج میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کو فروغ دیجیے۔خود کا احتساب کیجیے اور اپنے آپ کو اخلاقی کمزوریوں سے پاک کیجیے۔نیکی اورحسن اخلاق کا ایک ہی دیا روشن کردیجیے اور امید رکھیے کہ اس دیے کی روشنی ایک دن بد اخلاقی کے اندھیروں پر غالب آجائے گی۔اس کام میں امت مسلمہ کی ذمہ داری اس لیے زیادہ ہے کہ وہ سچے اور آخری آسمانی دین کے علم بردار ہونے کے دعوے دار ہیں۔
میں پستئی اخلاق بشر دیکھ رہا ہوں
پھر نظم جہاں زیرو زبر دیکھ رہا ہوں
Comments are closed.