لٹرل انٹری: باصلاحیت ہندوستانی شہریوں کی تلاش

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
یونین پبلک سروس کمیشن نے چوبیس وزارتوں میں جوائنٹ سکریٹری، ڈائرکٹر اور ڈپٹی سکریٹری درجہ کی ملازمت کے لیے پینتالیس خالی عہدوں پر لٹرل انٹری کے ذریعہ با صلاحیت ہندوستانی شہریوں کی تلاش کی غرض سے اشتہار نکالا تھا، اس پر حزب مخالف نے اس قدر مخالفت کی کہ سرکار کو اس اشتہار کو واپس لینا پڑا، اس مہینہ میں مودی حکومت کا یہ تیسرا یو ٹرن ہے، پہلا وقف ترمیمی بل کو جے پی سی کے حوالہ کرنا، دوسرا براڈ کاسٹنگ بل کو واپس لینا اور تیسرا لٹرل انٹری اشتہار کی واپسی، ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ حزب مخالف گذشتہ انتخاب میں طاقتور بن کر ابھرا ہے،”لٹرل انٹری“ میں نہ تو مقابلہ جاتی امتحانات ہوتے ہیں، اور نہ ہی رزرویشن کا فائدہ ملتا ہے، اسی لیے راہل گاندھی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نریندر مودی یونین پبلک سروس کمیشن کے بجائے راشٹریہ سیوک سنگھ کے ذریعہ بحالی کروانا چاہتے ہیں، سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو اور مایا وتی نے بھی اس کی مخالفت کی تھی، اکھلیش یادو نے تو”لٹرل انٹری“ کے خلاف احتجاج کی بھی دھمکی دے ڈالی تھی، چنانچہ مودی حکومت نے اس بات میں ہی عافیت سمجھی کہ وہ اسے دستور میں درج مساوات، سماجی انصاف اور رزرویشن کے نفاذ نام پر واپس لے لے، سوال یہ بھی ہے کہ لٹرل انٹری کے اشتہار کے قبل بھی تو ان امور پر سوچا جا سکتا تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، اب اپنی خجالت مٹانے کے لیے مرکزی وزیر جتندر سنگھ ان امور کا حوالہ دے رہے ہیں اور مودی جی کے سماجی انصاف کے عہد کا اعادہ کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں۔
سرکاری اعلیٰ عہدوں پر ”لٹرل انٹری“ کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، 2019ء میں مودی حکومت کے ذریعہ پہلے بھی اس قسم کی بھرتیاں کی گئی تھیں، مخالفت اس وقت بھی کی گئی تھی، لیکن حزب مخالف ان دنوں بے اثر تھا، اور اس کی آواز میں نہ تو دم تھا اور نہ ہی وہ سنی جاتی تھی۔
لٹرل انٹری کے ذریعہ بحالی کا آغاز کانگریس کے دور حکومت میں ہوا تھا، البتہ اس وقت اجتماعی طور پر یہ کام نہیں ہوتا تھا، ضرورت کے مطابق کسی ایسے شخص کو بھی بحال کر لیا جاتا تھاجو نہ آئی اے ایس ہوتا اور نہ ہی رزرویشن کے دائرے میں آتا تھا، چنانچہ اس سلسلے کی پہلی بحالی سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کی ہوئی تھی، وہ دہلی اسکول آف اکنامکس میں اکنامکس کے پروفیسر ماہر معاشیات کے اعتبار سے ان کی شہرت تھی، اس لیے بغیر کسی مقابلہ جاتی امتحان کے ان کو 1971ء میں وزارت تجارت وصنعت میں اقتصادی مشیر مقرر کیا گیا، 1972ء میں وزارت خزانہ کا چیف اکنامکس مشیر بنایاگیا، خود من موہن سنگھ نے اپنا چیف اکنامک مشیر رگھورام راجن کو بنایا، وہ یوپی اس سی (UPSC)سے چن کر نہیں آئے تھے،ا نہوں نے جوائنٹ سکریٹری کی سطح تک ترقی کی اور بعد میں رزرو بینک آف انڈیا کے گورنر ہوئے، اسی طرح نند نیلکانی اور بمل جالان کو بھی علی الترتیب آدھار کارڈ جاری کرنے والے ادارہ یو آئی ڈے اے آئی (UIDAI)کا چیرمین اور بمل کو رزرو بینک کا گورنر بنادیا گیا، یہ چند مثالیں ہیں جو بر سبیل تذکرہ سامنے آگئیں، الگ بات ہے کہ بعد کے دنوں میں یہ تمام لوگ ملک کے لیے مفید بھی ثابت ہوئے۔
اس لیے مسئلہ”لٹرل انٹری“ کا نہیں، حکومت کی نیت کا ہے، اگر یہ دروازہ اجتماعی طور پر کھول دیا گیا تو مختلف محکموں میں ماہرین کے نام پر آر ایس ایس کے تھنک ٹینک (نظریہ سازافراد)سے لوگ بھر دیے جائیں گے، جو پہلے ہی کم نہیں ہیں اور اس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا، جو ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا، کیوں کہ بغیر مقابلہ جاتی امتحان کے بلا واسطہ بحالی کا سارا معیار اقتدار کے چشم وابرو کا ہوگا، اور یہ چشم وابرو کس طرح ملک کوفرقہ واریت کی طرف لے جائے گا، اسے پوری دنیا جانتی ہے۔
Comments are closed.