بلڈوزر نا انصافی: لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

 

ڈاکٹر سلیم خان

بلڈوزر کی سیاست چونکہ  سارے حدود و قیود کو پار کررہی ہے اس  لیے اب اس کی نکیل کسنے کا وقت  آگیا ہے ۔ عدالتِ عظمیٰ نے مختلف  ریاستوں میں جاری بلڈوزر کارروائی کی سماعت کے دوران  واضح کیا کہ  نہ صرف ملزم ہونے کی بنیاد پر کسی کے گھر کو گرانا غلط  ہےبلکہ  اگر کوئی مجرم  ہو تب  اس کی جائیداد کو منہدم نہیں کیا جا سکتا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے  اس رائے سے  اتفاق کرتے ہوئے  اعترف  کیا کہ اگر جرم ثابت ہو جائے تب بھی مکان کو گرانے کی کارروائی درست نہیں ہے۔ انکاونٹر کے بعد بلڈوزر کی سیاست کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے اس قدر خوشنما بنا کر پیش کیا کہ گودی  میڈیا نے انہیں بلڈوزر بابا کے لقب سے نواز دیا  ۔ ستمبر 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا  تھاکہ ان کی حکومت خواتین اور معاشرے کے کمزور طبقات کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کی جائیدادوں کو بلڈوز کر دے گی لیکن افسوس  کہ ماورائے عدالت اس ’’بلڈوزر ناانصافی‘‘ کا شکار غیر متناسب طور پر  مسلمانوں کو بنایا گیا۔  

 یوپی کے بابا سے ترغیب لے کر ایم پی کے ماما یعنی  سابق وزیر اعلیٰ  شیوراج چوہان    نے انتخابی فائدے کے لیے کھرگون میں فساد کرواکر بلڈوزر کارروائی کی۔  ریاست کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نےاعلان کیا کہ جن گھروں  سے پتھر آئے انہیں  ڈھا دیا جائے گا ۔  اس چکر میں جائے واردات سے دو کلومیٹر دوری پر واقع ایک گھر کو بھی ڈھا دیا گیا ۔ یہ معاملہ عدالت میں گیا تو بزدل  سرکار نے گرگٹ کی مانند اپنا رنگ بدل کر کہا  انہدامی کارروائی کاپتھر بازی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ انتظامیہ  نے صرف غیر قانونی مکانات ڈھائے ہیں حالانکہ  پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تعمیر شدہ مکان کا بھی    گرایا جانا  بھلا  غیر قانونی کیسے  ہوگیا؟ بلڈوزر کے معاملے میں مشیت نے پارٹی کی  زبردست کا میابی کرنے کے باوجود شیوراج چوہان کو وزیر اعلیٰ بننے نہیں دیا ۔ مرکزمیں وزیر شیوراج کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔   سابق  بڑبولے  وزیر داخلہ نروتم  مشرا خودالیکشن ہار گئے اور ان  کی سیاست پر بلڈوذرچل گیا ۔ ان  پرتو غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ؎

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن                           بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے

کولکاتہ میں عصمت دری  کے واقعہ کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا مگر یہ بلڈوزر ناانصافی اس کو نظر نہیں آئی  یہاں تک کہ  جمعیۃ علماء ہند  اور دیگر لوگوں کو  عدلیہ سے رجوع کرکے عرضی داخل کرنی پڑی تاکہ  حکومتوں  پر ملزمین کے گھروں پر  بلڈوزر چلا نے سے روکا جاسکے۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ریاستی حکومتوں کے ذریعہ  بلڈوزرجسٹس کے نام پر اقلیتی طبقے کونشانہ بنانے کے بعد یہ لازمی ہوگیا ۔ اترپردیشکے اندر 12 سالہ لڑکی کی آبروریزی کے ملزم معید خان کی بیکری کو منہدم کردیا گیا   کیونکہ وہ مسلمان ہونے کے ساتھ  سماجوادی پارٹی کے مقامی صدر بھی   تھے مگر اسی یوپی میں بنارس ہندو یونیور سٹی میں بی ٹیک کی طالبہ کی اجتماعی عصمت دری کرنے کے الزام میں گرفتار  بی جے پی کے سر گرم ارکان   کوسات ماہ بعد  الہ آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملی تو ان کا زبردست  استقبال  کیا گیا۔ بابا جی کے بلڈوزر کو ان کا گھر یا دوکان نظر نہ آئی ۔

 بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ لگا کر  بنگال میں عصمت دری کے ملزم کو پھانسی پر چڑھانے کے لئے ہنگامہ کرنے والوں  نے  الہ آباد ہائی کورٹ میں  ملزم کنال پانڈے اور آنند عرف ابھیشیک چوہان کو مشروط ضمانت دینے  سے روکنے کا کام نہیں کیا حالانکہ ان چارج شیٹ میں انہیں عادی مجرم کہا گیا ہے اور اس بنیاد پر متعدد مرتبہ وارانسی کی سیشن کورٹ نے ان کی ضمانت کی عرضی مسترد کر دی تھی ۔ عدالت نے تیسرے ملزم سکشم پٹیل کی ضمانت کے لیے  16 ستمبر کی تاریخ طے کی ہے اور قوی امکان ہے کہ  اس کی قسمت بھی کھل جائے گی ۔ یہاں بھی حفظِ مراتب  کا لحاظ رکھا گیا یعنی برہمن کی رہائی سب سے  پہلے24 اگست کو عمل میں آئی اور  اس کے پانچ دن  بعد شتری کا نمبر لگا۔ بی جے پی میں رہنے کے باوجود  بیچارے  پسماندہ کو دو ہفتے مزید جیل میں رہنے کی زحمت دی گئی۔

 گینگ ریپ کے یہ تینوں ملزمین وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب میں  بی جے پی آئی ٹی سیل سے وابستہ تھے۔ حکومتی وزراء اور ارکان اسمبلی  سمیت بڑے رہنماوں سے  وہ رابطے میں تھے۔اس کے باوجود انہیں گرفتار کرنے میں یوگی بابا نے پورے دو ماہ لگائے۔  اس دوران وہ مدھیہ پردیش میں پارٹی کی انتخابی مہم چلا تےرہے ۔ جس مدھیہ پردیش میں ان ملزمین کو پناہ دے کر چھپایا گیا وہیں پر  موہن یادو کی حکومت نے چھندواڑہ ضلع میں آبروریزی کے ملزم کے گھرکو سرکاری زمین پرغیرقانونی طریقے سے بنانے کا الزام لگا کر گرا دیا کیونکہ اس  کا نام محمد نفیس تھا۔  یہ دعویٰ اگر درست ہے تب بھی کیا یہ مان لیا جائے کہ  پورے ایم پی میں نفیس کے علاوہ  کوئی گھر سرکاری زمین پر نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش کے چھتر پور میں پولیس تھانے پر پتھراؤ کے بعد حاجی شہزاد کی کوٹھی کو گاڑی سمیت  منہدم کردیا گیا ۔  اس کے بارے میں بھی کہا گیا کہ کوٹھی  غیر قانونی تھی حالانکہ کئی سال سے زیر تعمیر عمارت انتظامیہ کو پہلے نظر نہیں آئی۔حاجی شہزاد کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور مسلمان و  کانگریس پارٹی سے تعلق کی بناء پر معتوب کیا گیا۔  راجستھان میں گزشتہ  ماہ  ایک  نابالغ ملزم کے گھر پر بلڈوزر کارروائی کی گئی کیونکہ وہ مسلمان تھا اور اس کا گھر   جنگل کی زمین پرتھا۔ دوسال قبل الہ آباد میں بے قصورمحمد جاوید کو گرفتار کرنے کے بعد ان کی اہلیہ کا پشتینی مکان  مسمار کر دیا گیا تھا۔

آوٹ لوک کے مطابق  بلڈوزر جسٹس کے نام پر پچھلےدو سالوں میں 150,000 سے زیادہ گھر مسمار کرکے738,000 لوگوں کو بے گھر کیا گیا۔یہ  سرکاری دہشت گردی کی بدترین شکل ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر نےکھلے عام اس طرح کی کارروائی   کوغیر قانونی  قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ  کا اس  طریقہ کی  ہندوستانی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے یعنی یہ پوری طرح   غیر قانونی ہے اور حکومت کونقصان کی بھرپائی   کا معاوضہ دینا ہوگا۔ جسٹس گووند ماتھر کے بعد سپریم کورٹ کے تین سابق ججوں سمیت  9 معروف قانونی ماہرین اسے قانون کا مذاق بتایا تھا۔سپریم کورٹ کے   سابق ججوں میں بی سدرشن ریڈی، وی گوپالا گوڑا اور اے کے گنگولی کے علاوہ ہائی کورٹ کے تین سابق ججوں اور چھ وکلاء کے دستخط  تھےعدالتِ عظمیٰ کو اس بابت خط لکھا گیا مگر وہ دو سال تک کرن کی نیند سوتا رہا  ضیر سے اب بیدار ہوا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ تبصرے کے ساتھ یہ بھی  واضح کیا کہ وہ کسی غیر قانونی ڈھانچے بشمول مندر  کو تحفظ نہیں دے گا جو عوامی سڑکوں میں رکاوٹ ہو۔ عدالت نے متعلقہ فریقوں سے کہا کہ وہ تجاویز دیں تاکہ سپریم کورٹ غیر منقولہ جائیدادوں کو مسمار کرنے سے متعلق معاملے پر پورے ملک کے لیے مناسب رہنما خطوط جاری کر سکے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ  اب بھی سرکار یا انتظامیہ کے لیے ایک  چور دروازہ کھلا رکھا گیاہے۔   ویسےجسٹس وشواناتھن نے پوچھا کہ ایسے معاملات سے بچنے کے لیے ہدایات کیوں نہیں دی جا سکتیں؟ انہوں نے ہدایت دی کہ  پہلے نوٹس جاری کریں، جواب دینے کے لیے وقت دیں، قانونی چارہ جوئی کے لیے وقت دیں اور اس کے بعد ہی  انہدام ہو لیکن اگر یہ سب کرنے میں وقت لگ جائے تو سرکار کو اس کا سیاسی  فائدہ اٹھانے کے لیے موقع نہیں رہے گا۔ سپریم کورٹ کی بینچ  نے انہدام کے لیے رہنما خطوط پر زور دیا۔

راہل گاندھی ماضی میں مسلمانوں کے حوالے بیان دینے میں احتیاط برتا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ انہوں نے اس ڈر پر قابو پالیا ہے۔ انہوں  نے’ایکس‘ پر لکھا کہ ’’بلڈوزر کے نیچے انسانیت اور انصاف کو کچلنے والی بی جے پی کا آئین مخالف چہرہ اب ملک کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ بے لگام اقتدار کی علامت بن چکے بلڈوزر نے شہری حقوق کو کچل کر قانون کے سامنے  رعونت بھراچیلنج پیش کیا ہے۔‘‘حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے بلڈوزر کارروائی پر اپنی  تشویش  ظاہر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ’’فوری انصاف کے پس پشت ’خوف کی حکمرانی‘ قائم کرنے کی منشا سے چلائے جا رہے بلڈوزر کے پہیوں کے نیچے اکثر پسماندہ طبقات  اور غریبوں کی ہی گھر گرہستی آتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس انتہائی حساس موضوع پر واضح رہنمائی  جاری کر کے بی جے پی حکومتوں کے جمہوریت مخالف مہم سے شہریوں کی حفاظت کرے گا۔‘‘

راہل گاندھی نے اپنے پیغام کا خاتمہ اس طرح کیا کہ  ’’ملک بابا صاحب کے آئین سے چلے گا، اقتدار کی چابک سے نہیں۔‘‘ یہ ایک سچائی ہے کہ وطن عزیز میں مسلمانوں کے گھروں کو منظم طریقے سے مسمار کرنا دراصل  شہری منصوبہ بندی یا قانون شکنی  کا معاملہ نہیں بلکہ  ہندو رائے دہندگان کو یہ جتانا ہے کہ ان کی منتخب کردہ حکومت کس طرح مسلمانوں کو سبق سکھاتی ہے۔ بی جے پی ڈبل انجن سرکار  چونکہ ہر محاذ پر ناکام ہے اس لیے اپنے رائے دہندگان کو بیوقوف بنانے کے لیے ایسے گھٹیا  حربے استعمال کرتی ہے اور افسوس  کی بات یہ ہے کہ اس میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی لاقانونیت کا ارتکاب کرنے والے اور اس سے خوش ہونے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ؎

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں                           تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

 

Comments are closed.