فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی گرتی ہوئی دیواریں

مسعودمحبوب خان (ممبئی)
9422724040
☜ (۱)ہریانہ کے چرکھی دادری میں مغربی بنگال کے ایک مہاجر مزدور کو گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں قتل کرنے کا معاملہ
(۲)ناموسِ رسالت پر ذلیلوں کا حملہ
(۳)گائے کے گوشت کے جھوٹے الزامات لگا کر ٹرین میں عمر دراز شخص کو بے رحمی سے زود کوب کیا جانا۔
(۴)بچّوں کو دینی تعلیم دینے پر ہندوتوا وادی ذہنیت رکھنے والوں کا ہنگامہ
(۵)بجنور میں ایک اسکول معلمہ کو میڈیا کے ذریعے بدنام کرکے اسکول سے نکال دینا
(۶)سنجولی، شملہ، ہماچل پردیش میں زیر تعمیر مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہندو انتہا پسندوں نے پولیس کی موجودگی میں مسجد کے سامنے بھجن گائے اور مسجد کو منہدم کرنے کے نعرے لگائے۔
(۷)مہاراشٹر کے احمد نگر میں بی جے پی کے رکن اسمبلی نتیش رانے پولیس انتظامیہ کے سامنے کھلی دھمکی دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو مسجد میں گھس کر چن چن کر ماریں گے۔ پوری تقریر میں وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔
جن واقعات کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، وہ ہندوستان میں موجودہ نازک حالات کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں فرقہ وارانہ نفرت اور تشدّد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ حالات ہندوستان کی موجودہ صورت حال کی ایک اہم اور تشویشناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ دینی تعلیم دینے پر اعتراضات، گائے کے گوشت کے جھوٹے الزامات، اور مسلمانوں کے خلاف عوامی دھمکیاں جیسے واقعات ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان واقعات کے پس منظر میں ہندوتوا نظریات کی شدّت پسندی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم کو دیکھا جا سکتا ہے، جس سے نہ صرف معاشرتی تانے بانے کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اقلیتوں کے درمیان خوف و ہراس بھی بڑھ رہا ہے۔
ان حالات میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے لیے صورتحال انتہائی حساس اور نازک ہوتی جا رہی ہے۔ دینی تعلیم کے معاملے پر ہنگامہ کرنا، کسی معلمہ کو بدنام کرکے نوکری سے برخاست کرنا، اور بے گناہ لوگوں پر گائے کے گوشت کے جھوٹے الزامات لگا کر ان پر حملہ کرنا اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح نفرت اور تشدّد کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ انسانی حقوق اور انصاف کی فراہمی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔
یہ واقعات نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ جمہوری ملک کے اصولوں کے بھی منافی ہیں، جن کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ ان حالات میں اقلیتوں کے تحفّظ اور انصاف کی فراہمی کے لیے فوری اور مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایسے واقعات کے پس منظر میں ہندوتوا کے نظریات کی شدّت اور اس کی طرف سے نفرت انگیز مہمات کا بڑھتا ہوا اثر واضح ہوتا جارہا ہے۔ گائے کے گوشت کے جھوٹے الزامات اور مسلمانوں کے خلاف کھلے عام نفرت آمیز تقاریر اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کس طرح فرقہ وارانہ تشدّد اور عدم برداشت کو منظم طریقے سے فروغ دیا جا رہا ہے۔
یہ واقعات بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم رواداری اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بعض عناصر اپنے سیاسی اور نظریاتی مفادات کے حصول کے لیے مذہب کا غلط استعمال کر کے ملک میں خوف اور نفرت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ ناموسِ رسالت کے معاملات پر حملے نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہیں بلکہ ملک کی شناخت اور اصولوں پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔ گائے کے گوشت کے جھوٹے الزامات کے تحت بے قصور افراد پر تشدّد اور ان کے قتل کا سلسلہ انتہائی غیر انسانی اور غیر قانونی عمل ہے۔ اس طرح کی سرگرمیاں قانون کے غلط استعمال اور مذہبی جنون کو فروغ دیتی ہیں، جو معاشرتی ہم آہنگی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
ہیٹ سپیچ (نفرت انگیز تقریر) ایک سنگین جرم ہے جو نہ صرف سماجی امن کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ فرقہ وارانہ تشدّد اور نفرت کو بھی بھڑکاتا ہے۔ اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی ناگزیر ہے۔ قانونی طور پر نفرت انگیز تقریر جرم ہے، اور اس میں ملوث ہر فرد کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ عوام کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے کہ اس طرح کے بیانات نہ صرف قانوناً قابل سزا ہیں بلکہ انسانی اقدار کے بھی خلاف ہیں۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز تقاریر کی روک تھام کے لیے سخت نگرانی اور ریگولیٹری اداروں کا فعال کردار ناگزیر ہے۔ ان پلیٹ فارمز کو پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایسے مواد کو ہٹائیں اور ذمّہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔ ان اقدامات سے نہ صرف ہیٹ سپیچ کو روکا جا سکتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔
دینی تعلیم پر اعتراضات اور ہنگامے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہیں، جو بھارت کے آئین کے تحت ہر شہری کا حق ہے۔ ہریانہ میں مہاجر مزدور کے قتل کا واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ نفرت کی آگ بے گناہ انسانوں کی جان لینے پر بھی آمادہ ہے۔ شملہ میں مسجد کو منہدم کرنے کی دھمکی اور اس کے سامنے بھجن گانا مذہبی منافرت کی انتہا ہے۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی کی دھمکیاں واضح کرتی ہیں کہ بعض سیاستدان مذہبی منافرت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے فوری اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
بجنور میں پیش آنے والا واقعہ، جہاں ایک اسکول کی معلمہ کو میڈیا کے ذریعے بدنام کر کے اسکول سے نکال دیا گیا، یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح میڈیا عوامی رائے پر اثر انداز ہو کر کسی شخص یا گروہ کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ خاص طور پر جب مذہبی یا فرقہ وارانہ پہلو شامل ہو، تو ایسے واقعات مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں، جس سے معصوم افراد کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ معلمہ کو بدنام کرنے کے لیے میڈیا کا غلط استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں انہیں اپنے پیشے سے محروم ہونا پڑا۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس میں میڈیا کے غلط استعمال سے کسی کی عزت و وقار کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات معاشرے میں عدم برداشت اور فرقہ وارانہ تفریق کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس سے امن و امان کی فضا متاثر ہوتی ہے۔
بے گناہ ضعیف و مظلوم مسلمانوں کو گائے کے گوشت رکھنے کے شک میں یا گئوکشی کے بے بنیاد الزامات میں بے رحمی سے زدوکوب کرنا غیر انسانی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ ایسے واقعات انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کرتے ہیں اور متاثرہ فرد کے علاؤہ پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ملزمین پولس بھرتی کے امتحانات کے لئے سفر کررہے تھے۔ اگر ایسے افراد پولیس فورس میں بھرتی ہو جائیں، تو ان کے غیر انسانی رویے کے اثرات معاشرے پر منفی پڑ سکتے ہیں۔ پولیس فورس میں ایسے افراد کی موجودگی قانون کی غیر جانبداری اور انصاف پر سوالیہ نشان لگا سکتی ہے، جس سے معاشرتی اعتماد اور امن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پولیس فورس میں ایسے افراد کی بھرتی سے سماجی گروپوں کے درمیان تناؤ اور عدم اعتماد بڑھ سکتا ہے، جو بین مذہبی اور بین نسلی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتا ہے۔ عوام میں پولیس فورس کے بارے میں خوف اور تشویش پیدا ہو سکتی ہے، جو بنیادی حقوق کی حفاظت میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس لئے، پولیس فورس میں بھرتی کے عمل میں ایسے افراد کی نگرانی اور ان کے رویے کا معقول جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ صرف قانون کی پاسداری کرنے والے، اخلاقی طور پر مضبوط اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والے افراد کو ہی بھرتی کیا جائے۔
پولیس فورس میں بھرتی کے عمل کے دوران افراد کی نگرانی اور ان کے رویے کا معقول جائزہ لینے کے لیے چند اہم اقدامات ضروری ہیں۔ اس عمل میں چند اہم اقدامات شامل ہیں۔ خلفی جانچ یعنی امیدواروں کے ماضی اور ان کے طرز عمل کی مکمل جانچ پڑتال کی جانی چاہئے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ قانون اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ امیدواروں کی نفسیاتی حالت اور برتاؤ کا تجزیہ کیا جانا چاہئے۔ اس سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وہ دباؤ، تناؤ، اور دیگر چیلنجز کے دوران کس طرح کے رد عمل ظاہر کرتے ہیں، اور آیا وہ ایسی ذمّہ داریوں کے لیے موزوں ہیں جو انہیں پولیس فورس میں درپیش ہوں گی۔ پولیس فورس کے اراکین کو اخلاقیات، انسانی حقوق، اور قانون کی پاسداری کے بارے میں مناسب تربیت فراہم کی جانی چاہئے۔ یہ تربیت انہیں عوام کے ساتھ بہتر اور منصفانہ رؤیہ اپنانے کے قابل بنائے گی، اور ان کی پیشہ ورانہ ذمّہ داریوں میں قانونی اور اخلاقی معیارات کی پاسداری کو یقینی بنائے گی۔
بھرتی کے بعد بھی پولیس اہلکاروں کے رویے کی مسلسل نگرانی ضروری ہے تاکہ کسی بھی غیر مناسب یا غیر پیشہ ورانہ طرز عمل کو فوری طور پر درست کیا جا سکے۔ انٹرویو اور عملی ٹیسٹ کے ذریعے امیدواروں کی حقیقی زندگی کی صورتحال میں ان کے رویے اور کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ پولیس فورس میں موجود اہلکاروں کے خلاف شکایات کا سنجیدہ اور فوری نوٹس لیا جانا چاہئے اور ان کی تحقیقات کی جانی چاہئے تاکہ بدعنوانی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔ یہ اقدامات پولیس فورس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور قانونی و اخلاقی معیاروں کو برقرار رکھنے کے لئے بہت اہم ہیں، اور یہ سماج میں امن و امان کی فضا کو مضبوط کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ میڈیا اپنے فرائض کو دیانت داری اور غیر جانبداری کے ساتھ انجام دے۔ میڈیا کو سچائی کی بنیاد پر رپورٹنگ کرنی چاہیے اور غیر ضروری سنسنی خیزی یا جھوٹے الزامات سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی، تعلیمی اداروں کو بھی اپنے فیصلے کرتے وقت قانونی اور اخلاقی اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، تاکہ معلمین کے ساتھ انصاف ہو سکے اور ان کی عزت اور حقوق کی حفاظت ہو سکے۔
ایسے حالات میں، یہ ضروری ہے کہ ملک کے عدالتی اور انتظامی ادارے ان واقعات کا سخت نوٹس لیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ اس کے علاؤہ، عوامی سطح پر بھی بیداری کی ضرورت ہے تاکہ نفرت انگیز بیانیے کی مزاحمت کی جا سکے اور سب کے لیے انصاف اور امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایک معاشرے میں، تمام شہریوں کو برابری کے حقوق حاصل ہونا چاہیے، اور یہ حکومت کی ذمّہ داری ہے کہ وہ ان حقوق کی حفاظت کرے۔
ناموسِ رسالت پر ہیں وار کیے جا رہے
گائے کے گوشت کے بہانے، ہم کو مارے جا رہے
سچ کے قاصدوں کو بے رحمی سے زود کوب
مظلوموں پر جھوٹے الزامات دھرے جا رہے
بچوں کو دینی تعلیم دینے کا گناہ ہوا
اب معلمہ کو درسگاہ سے نکالا جا رہا
نہتے مہاجروں کو قتل کر رہے ہیں یہ ظالم
گائے کے گوشت کے شک میں خون بہا جا رہا
مسجدوں کو منہدم کرنے کے یہ بزدل نعرے
بے قصوروں کو مسجدوں میں گھس کر مارا جا رہا
انقلاب کی صدا جو اٹھے گی ہر دل سے
ظلم و ستم کا بازار ہر جگہ لگایا جا رہا
نفرتوں کے اس کھیل میں مر رہے ہیں انسان
عدالتوں میں انصاف کو آج تولہ جا رہا
ایسی بستی میں کیونکر رہیں گے یہ مظلوم
جہاں مسلمانوں کا جینا محال کیا جا رہا
یہ ہریانہ کی سر زمین ہو یا ہو احمد نگر
بے گناہوں کے خون سے ہر گوشہ رنگا جا رہا
اے سرزمیں، یہ تیری کیا حالت ہے
ہر سو ہے اندھیرا، ظلم کا سایہ چھایا جا رہا
یہ حالات ہمیں یاد دلائیں گے ہمیشہ
انسانیت کو نفرت کی آگ میں جلایا جا رہا
Comments are closed.