اللہ کے بندوں کے کام آئیں!

محمد کامل رشید نالندہ
یہ دنیا کی زندگی بالکل عارضی ہے، یہاں آنے کی تو ترتیب ہے مگر جانے کی کوئی ترتیب نہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بوڑھے بھی مر رہے ہیں، جوان بھی مر رہے ہیں اور بچے بھی مر رہے ہیں، موت کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ کب بلاوا آ جائے اور انسان اپنے پیاروں کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلا جائے، بلکہ یہی حقیقت بھی ہے اور قانونِ فطرت بھی، اب فرض کریں اگر انسان سو ڈیڑھ سو سال جینے لگے تو ظاہر ہے کہ اسے مختلف قسم کی بیماریاں بھی لگیں گی، اور تیمار داروں کو اس لمبے عرصے تک اس کی تیمار داری بھی کرنی پڑے گی، جس سے اس کی بھی زندگی آزمائشوں میں گھر جائے گی اسی لئے اللہ پاک نے ایسا نظام بنایا ہے کہ انسان کے ناتی نواسہ ہوتے ہوتے یا نانا نانی اور دادا اور دادی بنتے ہی اسے بلاوا بھیج دیتے ہیں اور کبھی تو چلتے پھرتے تو کبھی بستر مرگ پہ ہی عزرائیل علیہ السلام آ کر روح قبض کر لیتے ہیں اور پھر ہر زبان پر انا للّٰہ وانا الیہ راجعون جاری ہو جاتا ہے۔
اب انسان کو غور کرنا چاہیے کہ اس چھوٹی سی زندگی میں وہ کیا کرے؟ اور کیا نہ کرے؟ بڑے بڑے منصوبے بنانے کے بجائے وہ کون سا عمل ہے جو وہ کر گزرے اور ہمیشہ کے لئے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے صدقہ جاریہ بن جائے اور اس کے اس عارضی دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی کام آئے؟ اگر انسان غور کرے تو ایسے بہت سارے چھوٹے چھوٹے اعمال ہیں جو بڑے اجر والے ہیں(حدیث میں ہے کہ وہ عمل اللہ پاک کو زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے جو اگرچہ تھوڑا ہو مگر اس پر دوام ہو)، ان میں سب سے پہلا اور مضبوط عمل کلمہ ’’لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی دل سے گواہی دینا اور زبان سے اقرار کرنا اور بار بار اس کا ورد کرتے رہنا کہ سب سے افضل ذکر لا الہ الااللہ ہی ہے، اور اگر جانے ان جانے میں کسی سے صغیرہ یا کبیرہ گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً اللہ پاک کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگنا اور دل سے سچی توبہ کرنا کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ مومن کی پہچان ہے کہ جب اس سے کسی قسم کی کوئی غلطی یا گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو جب تک وہ خوب رو رو کر گڑگڑا کر اپنے رب سے اپنی بخشش نہیں کروا لیتا اسے چین ہی نہیں آتا ہے۔
جہاں تک ہو سکے نیکی کو ہرگز موخر نہ کرے کہ نہ معلوم کب موت کا فرشتہ دروازے پر دستک دے دے اور پھر ایک لمحہ کے لئے بھی مہلت نہ ہو، عام طور سے ہمارا مزاج یہ ہے کہ ہم اسباب کی کمیوں کو روتے ہیں اور اپنے بہت سے چھوٹے چھوٹے مگر بے حد مفید عزائم کو کل پر ٹال دیتے ہیں، یہ رویہ بالکل بھی درست نہیں ہے ’’آج کا کام کل پر نہ ڈال‘‘ جو ہو سکے، جتنا ہوسکے، اٹھ، کمر کس، اللہ کا نام لے اور آغاز کر دے کہ کرنے والے ہرگز کسی کا انتظار نہیں کرتے۔
سوال یہ ہے کہ کرنا کیا ہے؟ جواب ہے کہ یہ آپ کو طے کرنا ہے کیونکہ آپ کے حالات مواقع اور آپ کی صلاحیت کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
ہرگز کسی بڑے پروجیکٹ کے انتظار میں وقت ضائع نہ کریں، جس کے آپ متحمل بھی نہیں، ہاں یاد رکھئے کہ جو کام آپ کر سکتے ہیں وہ صرف آپ ہی کر سکتے ہیں اور کوئی دوسرا آپ سے بہتر نہیں کر سکتا۔ قدرت نے ہر ایک انسان کو الگ الگ صلاحیتوں کا حامل بنایا ہے۔
کچھ ایسے کام جو ہر انسان بہ آسانی کر سکتا ہے اور اپنے لئے بہترین ذخیرہ آخرت بنا سکتا ہے ان میں سے کچھ یہ ہے کہ سلام میں پہل کرے، بھوکوں کو کھانا کھلا دے، پیاسوں کو پانی پلا دے، چھینک کا جواب دے، بیماروں کی تیمار داری کرے اور جتنا ہو سکے اس کے اضافی اخراجات میں تعاون کرے، جنازے میں شامل ہوا کرے، نابینا کو راہ دکھا دے،راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹا دے، کمزوروں کو سہارا دے، تعلیم سے محروم لوگوں کو اپنی بساط بھر تعلیم سے جوڑنے کا کام کرے،ماں باپ کی خدمت کرے، استاد کا ادب کرے، بڑوں کا لحاظ کرے، چھوٹوں سے شفقت کرے، پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، ظلم کسی پر نہ کرے، سب کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرے، جو خود پسند کرے وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرے، زوجین ایک دوسرے کے حقوق کو پورا کرے، کسی بھی مسلمان سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے، اللہ و رسول کے حقوق کو سب سے پہلے اور سب پر مقدم رکھے، کسی کو کوئی فائدہ اگر نہ پہنچا سکے تو کم از کم کسی کو اپنی ذات سے نقصان تو ہرگز نہ پہنچائے، کسی کو کوئی اچھی نصیحت کر دے یا کوئی ایسے کلمات دعاء و تحسین کے کہہ دے کہ جس سے سامنے والے کا دل خوش ہو جائے، کسی سے محبت کرے تو محض اللہ کے واسطے محبت کرے،کسی سے نفرت بھی کرے تو اللہ ہی کے لئے کرے، کسی کو کچھ دے تو اللہ ہی کے واسطے دے اور کسے سے کوئی چیز روکے رکھے یعنی کسی کو کچھ نہ بھی دے تو اللہ ہی کے واسطے نہ دے۔
جب بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے جھوٹ ہرگز نہ بولے، وعدہ خلافی کبھی نہ کرے اور امانت میں خیانت ہرگز نہ کرے۔
کسی کے درپہ ہمیشہ نہ رہے، کسی کی تجسّس اور ٹوہ میں ہرگز نہ رہے، تمام منفیات کو یعنی نہ کرنے والے کام کو یا ایسے کام کو چھوڑ دے جس کے نتائج آپ کے حق میں منفی ہو، ہمیشہ مثبت سوچیں اور اپنے عزائم کو ہمیشہ بلند رکھے، ایک بھی خیر کی بات اگر جانتا ہو تو اسے دوسروں تک پہنچانا اپنی ذمہ داری جانے، اللہ سے بچھڑے ہوئے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کی بھر کوشش کرے، جب بات کرے تو سیدھی بات ہی کرے ورنہ خاموش رہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ اور اس شخص سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں بھی ایک مسلمان ہوں۔
ہمیشہ اللہ کے بندوں کے کام آئے، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ ’’خير الناس من ينفع الناس‘‘ سب سے بہتر وہ انسان ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہو، اور ظاہر ہے کہ اللہ سے بچھڑے ہوئے بندوں کو اللہ سے جوڑنا اس کے حق میں سب سے بہتر اور خیر خواہی والا کام ہے اور یہ انجام کے اعتبار سے سب سے بہتر فائدہ پہنچانا ہے۔

Comments are closed.