اساتذہ کے تقدس کا خیال ضروری
5؍ ستمبر ، یوم اساتذہ کی مناسبت سے

عبادہ شکیل قاسمی
Mob : 7779835895
بقول ڈاکٹر ذاکر حسین : ’’ پوری دنیا جب کسی بچے سے مایوس ہو جاتی ہے ، اس وقت بھی دو شخصیتیں اس سے پر امید رہتی ہیں، ایک استاذ ، دوسری اس کی ماں‘‘۔ بلاشبہ انسان کی کامیابی و کامرانی میں والدین اور اساتذۃ کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ والدین انسان کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ وہ انسان کو عدم سے وجود میں لانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ پیدائش سے لے کر ایک عمر تک انہیں کے زیر تربیت انسان چھوٹی چھوٹی چیزیں سیکھتا ہے اور اپنے اندر زندگی گزارنے کا سلیقہ پیدا کرتا ہے، لیکن اس کے بعد ایک طویل عرصے تک وہ اساتذہ کے زیر سایہ ہوتا ہے، جو اس کو کامل انسان بنانے کے لیے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات صرف کرتے ہیں اور اس کے ذہنی شعور کو بالیدگی بخشنے کا کام کرتے ہیں، اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو پروان چڑھاتے ہیں، اس کے پڑھنے لکھنے کے مزاج کو مہمیز لگا تے ہیں اور بتدریج اس کو کامل بناتے ہیں کیونکہ علم کے بغیر انسان کی تکمیل ناممکن ہے۔ لیکن جو خود بخود کتابوں سے اخذ کیا ہوا علم ہوتا ہے وہ انسان کو بسا اوقات گمراہ ترین وادیوں میں سرگرداں پھرنے پر مجبور کر دیتا ہے، اس کے بر خلاف وہ علم جو اساتذہ کے زیر سایہ حاصل کیا جاتا ہے، اس کی حیثیت مسلم ہوتی ہے اور وہ انسان کو کامیاب بناتا ہے۔اس اعتبار سے اساتذہ کی اہمیت، ان کی عظمت پورے معاشرے پر واضح ہے۔ اساتذہ معمار قوم ہوتے ہیں ،ان کی تکریم باعث سرخروئی اور قابل نجات ہوتی ہے۔ ان کے بغیر معاشرہ نامکمل اور ادھورا رہتا ہے۔ ایک اچھے معاشرے، ایک بہترین سوسائٹی اور باوقار سماج کے لیے اساتذہ کی موجودگی بہت اہم ہے۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ان کی عظمت اور ان کے تقدس کا خیال رکھا جائے، ان کے احترام کو بجا لایا جائے۔
اساتذہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایا کہ’’ میں بحیثیت معلم اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں‘‘ ، اور قران کریم میں بھی رسول اکرمؐ کو ہدایت دی گئی ہے کہ’’ آپ علم اور تزکیہ نفس کا کام کیجئے‘‘ ، یعنی لوگوں کو سکھائیے کہ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے اور اخروی نجات کیسے حاصل کی جاتی ہے۔ اساتذہ خواہ چھوٹے سے مکتب میں پڑھانے والے ہوں یا بڑی یونیورسٹی میں، وہ سب یکساں لائق احترام اور قابل تکریم ہیں۔معاشرے میں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو شخص اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتا ، وہ ضائع و برباد ہو جاتا ہے، اس کا علم دوسروں کے لیے مفید ثابت نہیں ہوتا ہے، وہ سارے کمالات کے باوجود دنیا میں سرگرداں پھرتا ہے اور پریشان حال زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو اپنے اساتذہ کی تعظیم کرتے ہیں وہ اپنی زندگی کے لمحات بہت سکون و راحت سے گزارتے ہیں اور ان کا علم ان کے حق میں اور دوسروں کے لیے مفید تر ثابت ہوتا ہے۔ اساتذہ کے احترام ہی سے معاشرے میں علم پھیلتا ہے، اگر ان کے تقدس کو پامال کر دیا جائے تو علم سکھانے والے قابل ترین اساتذہ سے معاشرہ محروم ہو جائے گا، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اساتذہ کے احترام کی بہت سی ہدایات ملتی ہیں۔ اساتذہ بنیادی طور پر دو وجوہات کی بنا پر لائق احترام ہوتے ہیں : (1) وہ خود صاحب علم ہوتے ہیں اور صاحب علم کی تکریم انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ (2) اساتذہ ہمیں اہل علم بنانے کا کام کرتے ہیں اور محسنین کا احترام ہم پر ضروری ہے۔ استاد کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ایک مشہور فلسفی بطلیموس نے کہا تھا کہ ’’استاد سے ایک گھنٹے کی گفتگو، دس سال مطالعے سے بہتر ہے۔‘‘ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور واضح ہے کہ اساتذہ معمار قوم ہیں اور ان کا احترام پورے معاشرے کے لیے ناگزیر ہے، اس کے بغیر اچھے سماج اور بہتر معاشرے کو تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔
دست معصوم کو وہ لوہ و قلم دیتا ہے
نو نہالوں کو وہ قندیل حرم دیتا ہے
بانٹتا پھرتا ہے وہ روشنی سورج کی طرح
ڈوبتا ہے تو ستاروں کو جنم دیتا ہے
Comments are closed.