صحرا میں اذان

ڈاکٹرسید ابوذرکمال الدین
سابق وائس چیئرمین بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
انگریزی راج کا قصہ مختصر یہ ہے کہ انگریز وں نے ہندؤ وں کو ہندو بنایا اور مسلمانوں کو مسلمان۔اصلی والا نہیں نقلی والا۔ پھر دونوں کو ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر دیا اور ایک دن یہ فتویٰ سنایا کہ تم دونوں ایک سا تھ نہیں رہ سکتے ہو۔ مسلمانوں سے کہا تم مسلم حکومت بنا لو اور ہندووں سے کہا تم ہندو راشٹر قایم کر لو۔لیکن یہ تقسیم کے بغیر ممکن نہیں تھا۔تو انہوں نے کہا ہم تمہیں دو ملکوں میں بانث دیتے ہیں۔ ایک ہندو ملک بن جائیگا اور دوسرا مسلم ملک۔۔ یہیں سے کہانی شروع ہوتی ہے
یہ فیصلہ عوام کی مرضی یا کسی ریفرنڈم سے نہیں لیا گیا تھا بلکہ اس کو عوام پر تھوپ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ کسی ہارر فلم سے کم نہیں تھا۔جو ہندو پاکستان میں تھے انہیں راتوں رات گھر چھوڑنا پڑا اور جو مسلمان ہندوستان میں تھے خاص طور پر پنجاب،دہلی،اتر پردیس،بہار،بنگال،حیدراباد اسام اور ملک کے مختلف علا قوں کے ان کو بھارت چھوڑنا پڑا۔خوب مار کاٹ ہوی۔کسی نے کسی کو نہیں بخشا۔ایسا لگا پورا ملک درندوں کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ایک طرف آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا اور دوسری طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ بھارت کی ازا دی تاریخ میں ایک غیر خونی انقلاب ما نا جا تا ہے کیونکہ حکمرانوں کو کھر ونچ تک نہیں لگی جبکہ دس لا کھ انسانوں کا قتل ہوا ایک کڑور سے ذیادہ لوگ بے خانماں وبر باد ہوے۔ بھارت کی تقسیم دنیا کی تاریخ میں دس بڑے المیوں میں شمار کیا جاتاہے
آزادی کیا تھی ایک داغ داغ اجا لا،ایک شب گزیدہ سحر کی خون میں نہای دلہن تھی جو خوشی اور غم میں فرق کرنا بھول گئی تھی۔ زخم چاہیے جنتا گہرا ہو وقت کے سا تھ مند مل ہوہی جا تا ہے۔
سنتے ہیں کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے۔ مگر وہاں کے حا لا ت سے معلوم ہو تا ہے کہ نہ تو وہاں اسلام۔ ہے اور نہ جمہوریت ہے۔ اس کا شمار دنیا کے ناکام ملکوں میں ہوتا ہے۔ میں کبھی وہاں گیا نہیں ہوں اس لیے مجھے کوی براہ راست علم نہیں ہے
بھارت کی قیادت بالغ نظر تھی اور اس کا تاریخی شعور کچھ پختہ تھا۔ اس نے اپنے اندرونی تضادات کو مینج کرنے کے لیے۔ جو سیا سی حکمت عملی اپنائی اس کو مذہب سے دور رکھا اور سیکولر زم کو اسٹیٹ پالیسی کے طور پر اپنایا۔بعض نادان لوگ سمجہتے ہیں کہ یہ پالیسی مسلمانوں کی منہ بھرای اور ان کو خوش کرنے کے لیے اپنای گیی تھی۔ جس دن بھارت میں ہندو دھرم اسٹیٹ پالیسی بنا یا جائے گا اور منو اسمرتی کو دیس کے دستور کے طورپر اپنا یا جائے گا بھا رت ٹوٹ جائے گا اور بھارت نیشن اسٹیٹ کے بجائے اسٹیٹ نیشن بن جائیگا ۔منو اسمرتی کی مخالفت کرنے والے اور جلانے والے مسلمان نہیں ہیں۔اس لیے ہندو راشٹر کا مطلب ہندو قوم کا راج ہے جس میں اور قوموں کی بھاگی داری نہیں ہوگی۔ اس کی ابتدا مسلمانوں سے کی جائے گی اور پھر دیگر قومیں اس کی زد میں آینگی کیونکہ دگر قومیں اس درجہ اس ملک کی وفا دار نہیں ہو سکتی ہیں جیسا کہ ساورکر اور گروگولوارکر نے بتا یا جتنے ہندو ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ بھارت ان کی جنم بھومی ہو سکتی ہے مگر پونیہ بھومی نہیں ہے۔صرف جنم بھومی سے ان کی وفاداری ثابت نہیں ہوتی ہے۔اس وقت ہندوستانی ڈایس پورا پوری دنیامیں میں پھیلا ہو ا ہے اور انہوں نے با ضابطہ وہاں کی شہریت لے رکھی ہے اور انکی اولاد یں وہاں کی پیدائشی شہری ہیں۔اب تو ان میں سے دنیا کے بڑے ملکوں کے وزیراعظم اور صدر بن رہے ہیں۔ اس تعریف سے تو وہ ان ملکوں کے ایمان دار اور وفادار شہری نہیں بن سکتے ہیں۔پھر ان کو وہاں کا صدر اور وزیر اعظم بنانا کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے مگر انگلینڈ اور امریکہ کے لوگ ایسا نہیں سوچتے۔
نریندر مودی کی حکومت جو الٹرا ہندو فکر کی جماعت بی جے پی اور ار اس اس کے بینر تلے چل رہی ہے اس نے مسلمانوں کو سیا سی قیادت سے بے دخل کر دیا ہے۔ اور جن جن ریاستوں میں۔ ان کی حکومت قایم ہے انہوں نے سسٹمیٹک طور پر اور شعبوں سے بھی ان کو بے دخل کر نے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس کے علاوہ پوری اسٹیٹ مشینری اکسٹرا کنسٹیچیوشنل اور اکسٹرا جو ڈیشیل طریقہ سے اور قانون کی حکمرانی کو بالائے طاق رکتھے ہوے ظلم کی تمام سابقہ روایات کو توڑ تے ہونے نے ریکارڈ بنا رہی ہے۔افسوس ہے عدالت بھی انصاف کے تقاضے پورا کرنے میں ناکام ہے اور پریس نے تو اپنے اپ کو بیچ ہی دیا ہے۔ ہندو انٹیلیجنسیا اور ہندو مڈل کلاس بڑی حد تک اس پالیسی کی حمایت کرتی ہے۔اس نے یا تو بھگوا چولا پہن لیا ہے یا اس نازمزم اور فاشزم کی خاموش حمایت کرتی ہے جو ان کے و ٹننگ پیٹرن سے ثابت ہو تا ہے۔
بھارت میں امریت اور فسطائیت نے ایک ناپاک گٹھ جوڑ بنا لیا ہیاور جس طرح انگریزی حکومت کے زمانے میں دیسی راجاؤں نے کچھ مراعات کی خاطر اپنی آزادی گروی رکھ دی تھی ریجنل پارٹیوں نے اقتدار میں رہنے کے جو ما لی فایدے ہیں اور اپنے سا مراج کو مضبوط کرنے کے مواقع ہیں اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہر غلط بات پر سمجھوتا کر لیا ہے۔ ان کو ملک اور عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔کوی چاہیے ظلم کی چکی میں جتنا پیسا جاے وہ بالکل زبان نہیں کھولیں گے۔ہاں جیسے ہی ان کے اقتدار اور مفاد پر خطرہ ہو گا ان کو ساری بات یاد اجاے گی۔
ایک بات میں مسلمانان ہند کو باور کرا نا چا ہتا ہوں کہ بھارت کی کوی سیاسی پارٹی چاہے وہ الٹرا سیکولر ہو،سیکولر ہو، سیوڈو سیکولر ہو۔ نشنل اور ریجنل اور ذا ت، زبان اور دلت پارٹیاں ہوں کوی اپ کا بھلا نہیں چاہتی ہیں۔ اور اپ کو حاشیہ پر رکھنا اور ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنے پر تمام سیاسی پارٹیوں کا ایکا ہے۔اس وقت مسلمان یا تو بیوہ کی باڑھ ہیں یا سیاسی یتیم جس کو لوگوں نے بے رحم ہاتھوں میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ خود مسلمانون کی جماعت میں گلیم بوذرو دلق ادریس اور چادر زہرہ بیچنے والے لوگ مو جود ہیں جو بنی اسرائیل کے علماء اور دانشور وں کی طرح کسی چھوٹے سے عہد ے اور چند پیسوں کے لیے اپنا دین وایمان ہی نہیں اپنے گھر کی ناموس بھی نیلام کر نے کو تیار ہیں۔ بھارت تو ازاد ہو گیا لیکن مسلمان آزادی کی نعمت سے محروم ہیں۔ان سے بات بات پر وفا داری طلب کی جاتی ہے اور کہا جاتاہے کہ بھارت میں رہنا ہے تو یہ کہنا ہوگا یہ کرنا ہوگا۔متعدد ریاستوں کے چیف منسٹر س کھلے عام مسلمانوں کو دھمکی دے رہے ہیں۔ شب وروز ان کو ڈرانا اور مسلمانوں کو مسلسل خوف کے ما حول میں رکھنا اور انہیں پڑتاڑت کونا اسٹیٹ پالیسی بنا لیا ہے اور بلڈوزر چلا کر یہ وارننگ دے دیا ہے کہ اگر مسلمانوں نے ان کے ظلم کے خلاف چوں بھی کی تو ان کا گھر انکی دوکانیں ا ن کا،کاروبار ان کے مساجد اور مدارس سب بلڈوزر سے ڈ ھا دیے جاینگے۔ لوگوں کو ڈرانا اور دہشت زدہ رگھنا ایک ایسی سیاست ہے جو خوب پھل پھول رہی ہے۔ کبھی مسلم پرسنل لاء نشا نے پر ہوتی ہے،تو کبھی ان کی شہریت پر شب خوں مارنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی وقف جایدادیں چھیننے کی قواعد تیز کی جاتی ہے۔مسلمانوں کو دینا کچھ نہیں ہے لیکن ان سے سب کچھ چھین لینا ہے۔ اتراکھنڈ،یو پی،راجستھان، مدھیہ پردیش،مہا راشٹر، ہریانہ گوا،اور اسام میں جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ہمیں روز کوی نہ کوی تماشا دیکھنے کو ملتا ہے۔
اس چو طرفہ حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنا رشتہ اپنے رب اور ?اپنے نبی سے مضبوط کرنا ہوگا اور صبر اور عزیمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
یہ چو طرفہ جنگ ہے۔سیا سی جنگ سیاسی میدان میں سیاسی انداز میں لڑ نی ہوگی۔ہمیں نہ علیحدہ انتخاب کی سہولت حاصل ہے۔نہ متناسب نمایندگی دی گیی ہے اور نہ ریزرویشن کی سہولت حاصل ہے۔رہی سہی کسر ڈی لی می ثیشن اور محفوظ کنسٹی چوینسی نے نکال دی ہے۔ان سب کا ایک ہی مقصد ہے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی براہ راست نمایندگی کم کر کے ان کو سیاسی طور پر کمزور کرنا تاکہ مسلمان ہمیشہ کے لیے ان سیاسی پارٹیوں کے دست نگر بن کے رہیں۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور ہمیں اس کا توڑ ڈھونڈ نا ہے۔
دوسرا قانونی محاذ ہے۔ روز نت نیے قانون لاے جا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں میں خوف و حراس عام ہو اور وہ رات دن انفرادی اور اجتماعی طور پر کورٹ کچہری کے چکر لگاتے رہیں۔ ہمیں اس محاذ پر پوری تیاری کے ساتھ اگے بڑھنا ہے ۔
تیسرا محاذ سماجی طور پر ان کو الگ تھلگ رکھنا ہے اور پرو پیگنڈہ کے ذریعہ سماج میں ان کی شبیہ اتنی بگاڑ دینی ہے کہ ان کے خلاف بڑا سے بڑا ظلم ہو اور عوام میں کوی رد عمل اور بے چینی پیدا نہ ہو بلکہ لوگ یہ مان لیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ کیا جارہاہے وہ سہی ہے۔ سماج سے ہی سیاست متاثر ہوتی ہے۔لہذا یہ ہمارے کام کا وسیع میدان ہے اور یہ اولین توجہ کا مستحق ہے۔
چوتھا دینی مذ ہبی اور ثقافتی محاذ ہے۔ سرکار کی پالیسی مسلمانوں کو ڈی اسلاما یز کرنا ہے اس طرح انہیں اکثریت کے رنگ میں پوری طرح رنگ دینا ہے۔حکومت نے نماز اذان قربانی اور جس طرح آئے دن مسلم پر سنل لا پر حملے کیے جارہے ہیں وہ سب مسلمانوں کو جبراً اسلام چھوڑ نے پر مجبور کر نے کی سازش کاحصہ ہے۔ لہہذا یہ ہمارے کام کا بڑا محاذ ہے۔
میں یہ کہنے کی ہمت نہں جٹا پا رہا ہوں کہ وقت اگیا ہے کہ سب لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں اوران مہماتی مسایل کا حل نکالیں۔لیکن صحرا میں میری اذان کون سنے گا۔ مسلمان قیادت کو جوتیو ں میں دال بانٹنے سے فرصت ملے تب تو وہ ان امور پر توجہ دے پاییں گے۔ہر کوی اپنا مسلک،ا پنی ذات،اپنی جماعت اور اپنی شخصیت کا جھنڈا بلند کرنے میں لگا ہے۔ بقول اکبر الہ بادی رنج لیڈر کو بہت ہے مگر ارام کے ساتھ۔قوم کے غم میں ڈنر لکھاتے ہیں حکام کے ساتھ۔ میں چاہوں گآ کہ زعمائے ملت ایک بار سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملت کو اس اندھیرے سے نکال کر اجا لیلانے کا اہتمام کریں۔ ہے کوی جو لببیک کہے۔
Comments are closed.