مسلمان کو کیوں مارو گے؟ کیا مسلمان انسان نہیں ہیں؟ہندوماں کاسوال

جاوید جمال الدین
گزشتہ دس پندرہ دنوں میں ملک بھر میں چند ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں سے مسلمان دشمنی کی بُو آتی ہے ،ان واقعات کے بارے میں سن کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایسے واقعات اور بیانات سے روح کانپ جاتی ہے،ان کی وجہ سے محرومی اور عدم تحفظ کا احساس ابھرتا ہے۔کیونکہ کچھ حرکتیں حکمرانوں کی جانب سے ہوتی ہیں ،جو ملک کے دستور اور آئین کے نام پر اور سب سے مساوی سلوک کا حلف اٹھاتے ہیں۔
ابھی دھولیہ سے کلیان جانے والے 72 ،سالہ اشرف علی کو 21-19،سال کی عمر کے نوجوانوں نے بیف کا گوشت لیکر سفر کرنے کے الزام میں بُری طرح سے زدو کوب کرنے کی خبر گرم تھی کہ اترپردیش کے امروہہ میں دوپہر کے ٹفن میں بریانی لانے پر ایک 7،سالہ طالب علم کانام اسکول سے خارج ہی نہیں کیاگیا بلکہ ظالم پرنسپل نے اس کمسن بچے کو کئی گھنٹے اسکول کے اسٹور روم میں بند کرکے رکھا ہے،طرہ یہ کہ انتظامیہ نے 7 سالہ بچے پر فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کاالزام عائد کیاگیا،اُس پر یہ بھی الزام لگایا کہ "وہ ہندو بچوں کومسلمان باننے کی باتیں کرتا ہے ۔
اتر پردیش کے امروہہ کے ایک نجی اسکول کے پرنسپل نے ایسا الزام لگایا ہے کہ اس سے پرنسپل کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ لنچ باکس میں نان ویج ( بریانی ) کھانا لانے کو اتنا بڑا جرم قرار دیاگیا کہ پرنسپل نے اس طالب علم کو اسکول سے نکال دیا۔ اس کے بعد لڑکے کی ماں اور اسکول پرنسپل کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔ ویڈیو میں اسکول کا پرنسپل بچے کی والدہ سے اس انداز میں بحث کرتا ہوا دکھارہے جیسے وہ اسکول کا پرنسپل نہیں بلکہ کوئی سڑک چھاپ شخص ہے۔
پرنسپل نے سخت لہجہ میں کہاکہ ” ہم ان بچوں کو نہیں پڑھانا چاہتے جو نان ویج اسکول لاتے ہیں۔”جبکہ پرنسپل نے یہ بھی الزام لگایا کہ آپ کا بیٹا سب کو نان ویج دینے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں اسلام قبول کرانے کی بات کرتا ہے۔ تاہم، ویڈیو میں بچے کی ماں کو یہ بتاتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ طالب علم اسکول میں نان ویج نہیں لایا تھا۔ ادھر اسکول پر نسپل کی جانب سے لگائے گئے الزام پرلڑکے کی والدہ نے کہا کہ 7 سالہ لڑکا ایسی باتیں نہیں کر سکتا۔ جس پر ہیڈ ماسٹر نے کہا کہ بچوں کو یہ سب ان کے والدین نے سکھایا ہے۔ پرنسپل نے کہا کہ اس کے علاوہ دیگر طلباء کے والدین کی شکایات کی وجہ سے طالب علم کا نام اسکول کے رجسٹر سے ہنادیا گیا ہے۔ ویڈیو میں بچے کی ماں اسکول کے ایک دوسرے لڑکے پر اپنے بچے کو مارنے اور اسے بار بار ہراساں کرنے کا الزام لگارہی ہے۔ اور بچے کو دن بھر اسٹور روم میں بند رکھنے کا الزام بھی عائد کیاگیا ہے۔ وائرل ویڈیو میں سب کچھ صاف صاف نظر آنے کے بعد بھی امروہہ پولیس نے پورے معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے۔جبکہ پرنسپل کے خلاف معمولی سی شکایت بھی درج نہیں کی ہے۔یہ سب کچھ ایک فلم کے ٹریلر کی طرح چل رہا ہے،ہریانہ کے چرخی دادری میں محض گائے کا گوشت کھانے کی شک کی وجہ سے مغربی بنگال کے دو مزدوروں کو بے رحمی سے پیٹ پیٹ کرہلاک کرنے کے دلدوزواقعہ نے ہوش اڑادئیے تھے کہ اسی دن مہاراشٹر کے دھولیہ سےکلیان جا رہے ایک 72 سالہ شخص کو نوجوانوں نے بڑے کا گوشت لے جانے کے الزام میں زدو کوب کیا،جس کاذکر اوپر کیاگیا ہے،سخت دباؤ کے بعد اُن کی گرفتاری ضرور عمل میں آئی ،لیکن ہلکی پھلکی دفعات کے تحت گرفتاری کی گئی ۔دوبارہ جب اعلی حکام نے سخت دفعات کا حکم دیا تو یہ شرپسند فرار بتائے جارہے ہیں،سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ مذکورہ نوجوان ریلوے پولیس میں بھرتی کا امتحان دینے جارہے تھے۔اندازہ یہی ہے کہ انہیں پولیس نے مبینہنطورپر فرار ہونے کا۔موقعہ دیا ہے۔
گزشتہ دس سال میں اترپردیش،ہریانہ اور راجستھان ،ایسے واقعات کے ‘ایپی سینٹرز’ بن چکے ہیں،اور اب مہاراشٹر میں بھی نومبر میں اسمبلی الیکشن سے قبل فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ارباب اقتدار،’اقتدار’کے نشے میں چور ہیں،بنگالی مسلمان مزدوروں کی موت پر متنازع بیان پرہریانہ کے وزیراعلی نائب سنگھ کے اُس وقت ہوش اڑ گئے جب ہریانہ میں ہی
19 سالہ آرین مشرا کو ہندو توا گروپ بجرنگ دل سے وابستہ افراد نے گائے کا اسمگر ” اور مسلمان ہونے کے شبہ میں گولی مار کر قتل کر دیا۔ آرین کو 23 اگست کو ہریانہ کے پلول ضلع میں قومی شاہراہ 19پر گڑھ پوری ٹول پلازہ کے قریب سر اور دائیں کندھے میں گولی مار دی گئی۔ نام نہاد گئو رکشک(گائے کے محافظ) اور بجرنگ دل کا کارکن انیل کوشک نے تقریبا 30 کلو میٹر تک پیچھا کیا اور آرین مشرا کے کندھے اور سینے میں گولی مار دی۔ ملک میں نام نہاد گؤ رکھشکوں کی غنڈہ گردی کے ایک لمبے عرصے سے جاری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ غنڈے غنڈے اس لئے لکھنا پڑ رہا ہے کہ یہ اپنے کرموں سے کہیں سے بھی رکھشک نہیں لگتے ، 2014 کے بعد اچانک اگ آئےہیں بلکہ یہ سلسلہ پہلے سے ہی جاری تھا مگر ہاں مرکز میں بی جے پی کی حکومت کی آمد کے بعد ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور پولیس انتظامیہ کی کھلی چھوٹ نے لاٹھی ڈنڈوں کے علاوہ اب بندوق اور گولی چلانے کا حوصلہ فراہم کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں مسلسل متعدد واقعات پیش آئے ہیں ،جس نے ان نام نہاد گئو رکھشکوں کی غنڈہ گردی کو اجاگر کیا.بزرگ شخص کو کچھ غنڈوں نے گائے کا گوشت لے جانے کے شک میں مارا پیٹا گیا، وہیں فرید آباد میں ہی نام نہاد گئو رکشکوں کا یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا جو سب سے زیادہ موضوع بحث رہا اور اب تک اس پر بات چیت جاری ہے۔ وہ ہے گئو رکشکوں کے ذریعہ گائے اسمگلر کے شبہ میں آرین مشرا نامی ایک بارہویں کے طالب علم کا قتل ۔ اس واقعہ کے بعد سماج کا ایک طبقہ بولنے لگا ہے، ورنہ اسے مذہبی جذبات سے جوڑا جاتاہے۔
مہاراشٹر میں سابق وزیراعلی اور مرکزی وزیر نارائن رانے کے بگڑے ایم ایل اے بیٹےنتیش رانے نے احمد نگر میں ایک ریلی کے دوران مسلمانوں کو مسجد میں گھس کر چن چن کرمارنے کی دھمکی دی ،لیکن یہ اکلوتا متنازع اور اشتعال انگیز بیان نہیں ہے۔ وہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ اشتعال انگیزی کر چکے ہیں لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ اب تک نہ پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے اور نہ ریاستی حکومت کی جانب سے ان کی مذمت یا سرزنش میں کوئی بیان آیا ہے۔ اسی وجہ سے نتیش رانے کے حوصلے بلند ہیں اور وہ مسلسل اشتعال انگیزی کر رہے ہیں۔ حالانکہ نتیش کے متنازع بلکہ دل آزاری والے بیانات کے خلاف ریاست کے کئی حصوں میں ایف آئی آرتک درج ہو چکی ہے اور ریاست کے مسلمانوں میں شدید غم وغصہ بھی پایا جا رہا ہے لیکن مجال ہے کہ اب تک پولیس نے انہیں ہاتھ بھی لگایا ہو۔ گزشتہ کچھ برس کے دوران نتیش رانے کی اشتعال انگیزی کی بات کریں توخبروں اور سوشل میڈیا کے ویڈیوز کی جانچ پڑتال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نتیش رانے کو بد زبانی کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال جولائی میں مالیگاؤں میں سکل ہندو سماج کی ریلی میں شرکت کرتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ مسلمان ملک کا آئین ختم کر دینا چاہتے ہیں تا کہ یہاں پر شریعت نافذ کی جاسکے۔ انہوں نے مالیگاؤں کو منی پاکستان بھی قرار دیا تھا۔ اُسی مہینے انہوں نے شولا پور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو وارننگ دی تھی کہ وہ اور نگ زیب کی تعریفیں کرنا بند کریں ورنہ انہیں قبرستان میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔گزشتہ سال ستمبر میں نتیش رانے نے پونے کے پونیشور مندر کے قریب رہائش پذیر مسلمانوں کو دھمکیاں دی تھیں اور کہا تھا کہ اگر انہوں نے علاقہ خالی نہیں کیا تو جس طرح سے بابری مسجد شہید کی گئی تھی ویسے ہی علاقے کے مسلمانوں کے گھر منہدم کر دیئے جائیں گے ۔ اکتوبر میں انہوں نے نیوز ایجنسی اے این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے نوراتری کے تعلق سے یہ دھمکی دی تھی کہ یہاں مسلمانوں کو داخلہ نہیں ملنا چاہئے کیوں کہ وہ لو جہاد کرتے ہیں۔رانے کی بد زبانی کا سلسلہ جاری رہا ۔ شولا پور میں پھر ایک ریلی کی اور میرا روڈ میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد نتیش رانے نے ہنگامہ کھڑا کرتے ہوئے میرا بھائندر پولیس کمشنر کے دفتر میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کی تھی اور مسلمانوں کو کھلی دھمکیاں دی تھیں۔ انہوں نے پولیس کو ناکارہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پولیس جہادیوں کو قابو نہیں کر سکتی تو ہم ہندو تو اوادی اس قابل ہیں کہ جہادیوں کو ٹھکانے لگا دیں ہمیں بس موقع دیا جائے۔ ان کے اس بیان اور حرکت پر شدید تنقید میں ہوئی تھیں۔انہیں حوصلہ کہاں سے ملتا ہے،یہ ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے تو واضح نظر آتا ہے کہ آسام اور اتر پردیش کے وزرائے اعلیٰ صبح جاگنے کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف بیان دے کر ناشتہ کرتے ہیں۔پھر سونے سے پہلے "بلڈوزر” کی کارروائیوں کی رپورٹ طلب کرتے ہیں۔ملک کے وزیراعظم نریندر مودی بیرون۔ملک مساجد میں جاکر جانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ویس خود ان کے بیانات بھی ان کی حامی تنظیموں اورشرپسندوں کی خوراک ہے اور حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ "انہیں کپڑوں سے پہچانا جاسکتا ہے،زیادہ بچے پیدا کرنے واے اور گھس پیٹھیے ۔” ان بیانات سے حوصلہ پاکر وہ شرپسندی کرتے ہیں۔
ہریانہ میں نام نہاد گئورکھشکو ں کی گولی سے ہندو نوجوان کی موت پر سنگھ حامی کوی کمار وشواس بھی میمنہ لگے ہیں۔ورنہ ان کی مجرمانہ خاموشی کے سب گواہ ہیں،بلکہ درپردہ حمایت بھی کرتے ہیں۔
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ اب وطن عزیز میں مسلمانوں کو مارنے پیٹنے ہی نہیں جان سے مارنے کے لیے کھلی چھوٹ یا لائسنس دے دیاگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آرین مشرا کے والد جیل میں ملزمین سے ملنے گئے اور انہوں نے پوچھا کہ تم نے آرین مشرا کو کیوں مارا تو ان کا ایک ہی جواب تھا کہ” ہم نے سمجھا وہ مسلمان ہے۔ "
آرین مشرا کی غمزدہ ماں نے روتے ہوئے پوچھا کہ” انہوں نے میرے بیٹے کو یہ سوچ کر گولی مار دی کہ وہ مسلمان ہے۔ کیا مسلمان انسان نہیں کیا ہمارے بھائی نہیں ؟ تم مسلمان کو کیوں مارو گے؟ مسلمان ہماری حفاظت کرتے ہیں ، ہمارے دکھ، دردو مصیبت میں ہماری مدد کرتے ہیں ، ہمارے پڑوس میں مقیم ہیں اور معاشرے میں ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔” یہ سوال مشرا کی ماں نے کیا ،لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہر ایک ہندو پڑوسی کو کھڑے ہونا ہوگا اور ہمیں اُس کے لیے بیداری پیدا کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرناہوگی۔
[email protected]
9867647741
Comments are closed.