ذات پات کی مردم شماری  اور آر ایس ایس کی قلابازی

 

ڈاکٹر سلیم خان

پانچ ماہ کے اندر پانچ بڑی قلابازیاں کھانے  والی بی جے پی کی مادرِ تنظیم آر ایس ایس  نے بھی بالآخر ایک زبردست قلابازی کھاکر  سب کو چونکا دیا۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی حمایت کرنا سنگھ پریوار کے لیے ایک زہر کا پیالہ پینے سے کم نہیں ہے مگر کیا کریں  سرکاربچانے کے لیے وہ سب بھی کرنا پڑتا ہے جو اقتدار میں آنے کے لیے نہیں کیا جاتا ۔   ایک ماہ قبل  راہل گاندھی نے ایوانِ پارلیمان کی اپنی تقریر میں پسماندہ ذاتوں کی عدم نمائندگی کے لیے جس چکرویوہ کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا  اس کے چلانے والے ۶؍ افراد میں مودی، شاہ، امبانی ،اڈانی ا ور اجیت ڈوول کے ساتھ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کا نام بھی شامل  تھا۔  اس بات سے آر ایس ایس کو جو مرچی لگی اس کا اظہار ہفت روزہ ترجمان  پانچ جنیہ کے اداریہ  میں ہوا۔     اس داریہ سے پتہ چلا کہ پانچ جنیہ کے مدیر ہتیش شنکر اور بی جے پی کے سڑک چھاپ رکن پارلیمان انوراگ ٹھاکر کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

  انوراگ ٹھاکر کو راہل گاندھی کا جواب دینے کے لیے میدان میں اتارا گیا تو ’گولی مارو سالوں کو‘  والے ڈائیلاگ کے خالق نے حزب اختلاف کے رہنما پر بھدیّ تنقید کرتے  ہوئے کہا کہ جن کو اپنی ذات کا پتہ نہیں وہ ذات پات کی بنیاد پرمردم شماری  کی بات کرتے ہیں۔ انوراگ ٹھاکر کے اس بے تکے بیان پر بی جے پی والوں نے خوب تالیاں بجائیں مگر اکھلیش  یادو اپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے ۔ انہوں نے ناراض ہوکر  صدرِ اجلاس اوم برلا سے اعتراض جتایا کہ  کوئی  کسی کی ذات کیسے پوچھ سکتاہے ؟  اکھلیش کے مطابق ایسی حرکت نہ صرف اہانت بلکہ آئین مخالف بھی تھی لیکن  اس کے فوراً  بعد پانچ جنیہ اپنے ادایہ کا عنوان لگایا ’اے نیتا جی کون جات ہو؟‘  یعنی وہی توہین آمیز لب و لہجہ اختیار کیا گیا کیونکہ  ایک دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھنے کے سبب دونوں  حضرات  یکساں کرب کا شکار تھے ۔  

مذکورہ   اداریہ میں ذات پات کو عظیم نعمت بتاتے ہوئے الزام لگایا  گیا کہ    یہ نظام ہمیشہ حملہ آوروں کے نشانے پر تھا ۔ اس طرح راہل اور اکھلیش کو غیر ملکی حملہ آوروں کا ہم پلہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔  اداریہ لکھتا ہے کہ  مغلوں نے تلوار کے بل پر اور مشنریوں ’خدمت و اصلاح ‘ کی آڑ میں اسے اپنا نشانہ بنایا ۔ یہاں قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ ہتیش شنکر کوانگریزوں کا نام لیتے ہوئے شرم آگئی  کیونکہ سرکار کا نمک کھایا تھا نا۔  اداریہ میں یہ الزام لگایا گیا کہ ایک نے یعنی مغلوں نے سر پر میلا رکھوایا  تو دوسرے نے اسے عدم مساوات  اور تعذیب کا منبع بتایا۔ یہ تو ایسا جھوٹ ہے کہ گویا  مغلوں سے قبل برہمن سماج شودروں کو سر پر بیٹھا کر رکھتا تھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ  ان لوگوں نے برہمنوں کے سوا ہر کسی کو علم سے دور کردیا تھا ۔ اشلوک برہمن پڑھتا مگر کسی شودر کے کان میں پڑ جائے تو اس میں سیسہ پلاکر ڈال دیا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے  ملک کے طول و عرض میں  مقامی زبانوں کے اندر تعلیم  رائج کردی ۔ اس  کا سب سے بڑا ثبوت عظیم اصلاحی  بھکتی تحریک  ہے جو مسلم دورِ  حکومت  میں چلی ۔ اس سے سماج میں  زبردست بیداری آئی لیکن چونکہ برہمنوں کی مونوپولی ختم ہوگئی اس لیے یہ لوگ اب بھی پیچ و تاب کھاتے ہیں ۔

  پانچ جنیہ کے اداریہ میں لکھا ہے کہ  سچائی یہ تھی کہ ذات کی بنیاد پر قوم کے ساتھ متحد سماج سیدھی سچی بات سمجھتا تھا ۔ یہ کیسی سیدھی بات تھی  کہ جس میں شودر کے گلے میں لوٹا باندھ دیا جاتا تھا تاکہ اس کے تھوک سے زمین ناپاک نہ ہو اور پیٹھ پر جھاڑو بندھا رہتا تھا جس سے  وہ اپنے پیروں کے نشان مٹاتا جاتا تھا۔ ہتیش شنکر جس اتحاد کی بات کرتے ہیں اس میں شودروں کو نام نہاد اونچی ذات کے کنووں سے پانی لینے کی اجازت نہیں تھی اور ان کی لاشوں کو بھی الگ سے جلایا جاتا تھا۔ عبادتگاہوں تک میں تفریق و امتیاز تھا اور اب بھی ہے اس لیے ایسے جھوٹ پر بھلا کون یقین کرے گا ؟ ذات پات کے ظالمانہ نظام کی حمایت میں صاف طور پر لکھا گیا کہ ذات سے دغا یعنی قوم سے غداری   ہے۔ آر ایس ایس میں اگر ہمت ہے تو مثال دے کر کہے کہ مغلوں اور انگریزوں کی مانند ڈاکٹر بابا صاحب مبیڈکر نے بھی قوم سے غداری کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کا نعرہ دیا  تھا۔  منو سرتی کو کھلے عام نذرِ آتش کیا اور ذات پات کی بنیاد پر قائم و دائم ہندو مذہب کو چھوڑ کر بودھ مت اختیار کیا۔  ان کے دل میں تو یہی بات ہے لیکن دلت ووٹرس کی لالچ انہیں ایسا کہنے سے روک رہی ہے۔

  اداریہ کے مطابق  ذات پات کے نظام کی تعریف سیاست نے اپنے انداز میں کرنی چا ہی مگر ہندوستانی سماج مختلف روایات کو ساتھ رکھنے کے اتحاد کی حیثیت سے سماج  ذات پات کے رویہ کو  محرک کے طور پراپنائے رہا یہ سراسر جھوٹ ہے سچائی تو یہ ہے کہ اسے  بزور قوت نافذ کیا گیا تھا کیونکہ انسانی فطرت  اونچ نیچ اور ظلم و جبر  کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ  کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔  اداریہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے یہ بھی لکھتا ہے کہ  ذات پات کا نظام ایسا نہیں تھا کہ  جہاں لوگ ایک دوسرے کے دشمن اور خون کے پیاسے ہوں بلکہ مختلف طبقات  کے کام اور روایات کو منقسم کرتے ہوئے انہیں ایک رکھنے کی ذات ایک کڑی تھی حالانکہ  اس کی بنیاد پر شودروں کو اس لیے ساتھ رکھا جاتا تھا تاکہ انہیں ذلیل و رسوا کرکے ان سے اپنی خدمت کرائی جاسکے اور یہ اب بھی ہورہا ہے۔

 ہتیش شنکر یہ بھول گئے کہ پاکھنڈ کے لیے سہی پچھلے کئی سالوں سے سرسنگھ چالک  موہن بھاگوت ذات پات کے حوالے سے مدافعانہ بیانات دیتے رہے ہیں مثلاً انہوں نے تو یہاں تک  کہہ دیا تھا کہ  ہندو دھرم میں ذات پات  ہے ہی نہیں بلکہ یہ براہمنوں کی اختراع ہے۔بھاگوت نے سوال کیا تھا کہ کوئی کام چھوٹا یا بڑا کیسے ہوسکتا ہے؟ اپنے خالق کی نظر میں ہم سب مساوی ہیں، کوئی ذات یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ اختلافات ہمارے پنڈتوں نے پیدا کیے ہیں، جو غلط ہے۔ پانچ جنیہ نے  تو اپنے اداریہ میں سرسنگھ چالک کے نفاق کو بے نقاب کردیا حالانکہ اس بیان کے سبب موصوف کو برہمنوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے بیان کی مخالفت کرتے ہوئے متعدد سادھو سنتوں   نے انہیں زبان پر لگام لگانے کی تلقین کی تھی۔موہن   بھاگوت نے   جب ذات برادری اور فرقوں کا نظام کے متعلق کہا کہ  مذہبی کتابوں سے اسے جوڑنا جھوٹ ہے تو ان سے  اس کا حوالہ دینے  یا معافی  مانگنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے خلاف بعض مقامات نہ صرف  مظاہرے  ہو ئے بلکہ  مظفر پور میں ان کے خلاف مقدمہ بھی قائم کیا گیا ۔

 موہن بھاگوت کی حمایت  میں وشو ہندو پریشد کے قومی ترجمان ونود بنسل نے نئی دہلی میں کہا تھا  کہ ذات برادری کا نظام بہت قدیم ہے۔ پیشے کی بنیاد پر برادریاں بنی ہیں۔ یہ ہندو مذہب کی کتابوں کی بنیاد پر نہیں بنی ہیں  اس کے برخلاف ہندو مہا سبھا کے قومی صدر سوامی چکرپانی مہاراج نے ان کے بیان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے موہن بھاگوت کی مذمت کی تھی ۔سوامی چکرپانی مہاراج نے کہا  تھا کہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا میں شری کرشن نے کہا ہے کہ اپنے کام یا پیشے کی بنیاد پر ذات برادری کا نظام بنا ہے۔انہوں نے  موہن بھاگوت کے بیان کو  سماج  میں انتشار پیدا کرنے والا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ  اس سے ان کا قد بہت چھوٹا ہو گیا ہے۔ ان سے ایسے بیان کی توقع نہیں تھی۔ ان کو اپنا بیان واپس لے لینا چاہیے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر معاملے میں برہمنوں کو ذمہ دار قرار دینا ایک فیشن بن گیا ہے۔ اگر کوئی سیاست دان ایسی بات کرے تو وہ کر سکتا ہے لیکن موہن بھاگوت کو ان باتوں سے بچنا چاہیے اور برہمنوں کے خلاف ایسا بیان نہیں دینا چاہیے۔

چہار جانب سے مخالفت کے بعد آر ایس ایس رہنما سنیل امبیکر نے وضاحت کی  کہ موہن بھاگوت کے پنڈت کہنے کا مطلب عالم اور دانشور تھا نہ کہ برہمن لیکن  کیا یہ بات درست نہیں ہے منو نوازوں نے علم اور دانشوری تو برہمنوں تک ہی محدود کردیا گیا تھا۔ پانچ جنیہ کے ذریعہ ذات پات کے نظام پر دنیا بھر کی وکالت کے بعد ایک ماہ کے اندر  میں آر ایس ایس کی  آل انڈیا کوآرڈینیشن میٹنگ کے آخرمیں  میڈیا  سے بات کرتے ہوئے پبلسٹی کے سربراہ سنیل امبیکر  نے ذات پات کی مردم شماری پر مثبت موقف اختیار کرکے اس کی  حمایت کردی۔حزب اختلاف نے چونکہ   یہ معاملہ اٹھا رکھا ہے اس لیے  یہ بھی کہا  گیاکہ اسے سیاسی یا انتخابی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ آر ایس ایس کے مطابق  درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی ذیلی زمرہ بندی کی طرف کوئی قدم متعلقہ برادریوں کی رضامندی کے بغیر نہیں اٹھایا جانا چاہئے۔  یہ دراصل سنگھ کی بہت بڑی قلابازی ہے لیکن جس کشادگی کا مظاہرہ اس نے  شیڈول کاسٹ اور ٹرائب سے کرکے ان کی رضامندی سے فیصلے کرنے کا مشورہ دیا اگر مسلمانوں کی بابت بھی یہی رویہ اختیار کیا جاتا تو وقف بل پر سرکار  رسوا ہونے سے بچ سکتی تھی لیکن جہاں عقل سلب کرنے سارا اہتمام موجود وہاں عقلمندی کی توقع کرنا ہی فضول ہے۔

(۰۰۰۰۰۰جاری)

Comments are closed.