محبت کی دکان میں نفرت ۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد( تلنگانہ)
8790193834
……….
ہمارا یہ ملک ایک طرح سے محبت کی دکان ہے جہاں ہر اقسام کے پھول کھلتے ہیں جہاں اسے محبت سے دیکھے جاتے ہیں نہ اسے توڑے جاتے ہیں اور نہ ہی مسلے جاتے ہیں بلکہ انہیں صرف پیار اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے جو اس دکان کی خوبصورتی ، مضبوطی اور اتحاد ہے جسے پوری دنیا میں ایک مثال قائم کرتی ہے لیکن اافسوس ملک میں جس طرح سے ان دنوں نفرت کی ہوا بہہ رہی ہے یا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بہائی جارہی ہے اس سے محبت کی دکان کو ایک بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ ملک کی آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں چلی جارہی ہیں مسلمانوں کو ذہنی زود کوب کیا جا رہا ہے۔ ہر ہفتے اور ہر مہینے کہیں نہ کہیں ملک کے کسی کونے میں فسادات برپا کرکے مسلمانوں کو مالی اور جانی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور یہ سب کانگریس کے دور حکومت میں ہوتا رہا ہے جسے کہنے میں کوئی گریز نہیں لیکن2014 کے بعد سے جس طرح سے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک خاص طبقہ یعنی مسلمانوں کے خلاف ملک میںنفرت کی ہوا بہائی گئی اور بدستور بہائی جارہی ہے وہ ملک کی سالمیت کے لئے نقصان دہ ہی کہی جائے گی۔ مودی حکومت کے ان دس سالوں کے دوران زعفرانی تنظیموں کے حوصلوں میں بے انتہا اضافہ ہوا جس کا نقصان صرف اور صرف مسلمانوں کواٹھاناپڑ رہا ہے۔ مودی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ سیاسی، سماجی، مذہبی اور تعلیمی میدان میں جس طرح تفریق پیدا کرکے دو نمبر کاشہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ کسی سے پوشید ہ نہیں ہے اور اس میں بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے سی ایم بھی پیش پیش ہیں انکا زعفرانی تنظمیوں کو بھر پور تعاون مل رہا ہے۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مودی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا جو ننگا ناچ کھیلا جا رہا ہے اسے کہیں سے بھی جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا وہ یقینا مذمت کے قابل ہے۔ ہر دن کہیں نہ کہیںمساجد اور مقبرے پر زعفرانی تنظمیوں اور بلوائیوں کے ذریعہ حملے کئے جا رہے ہیں۔ کہیں گئو رکشکوں کے ذریعہ مسلمانوں پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کرسرعام قتل کیا جا رہا ہے تو کہیں حجاب اور نقاب پر پابندی لگا کر مسلم بچیوں کو پڑھائی سے روکا جا رہا ہے انہیں ذہنی زود کوب بھی کیا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے وقف املاک کو ان سے چھننے کی ایک منصوبہ بند سازش ہو رہی ہے ،تو کسی ریاست میں نکاح کے رجسٹریشن پر پابندی لگائی جارہی ہے اور نماز کے دو گھنٹے کے وقفے پرقدغن بھی لگایا جا رہا ہے۔ مسلمان اب کیا کھائیں گے اور کیسے رہیں گے اس پر بھی مودی حکومت کے کابینہ میں ایک بل پاس کرانے کا منصوبہ اندر ہی اندر بنایا جارہا ہے یعنی پوری طرح سے ملک کے آئین کو بلائے طاق رکھ کر نریندر مودی ملک میں حکومت چلا رہے ہیں۔ آئین کے خلاف مسلمانوں کے کئی گھروں کو بلڈوز کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے جسکا نوٹش سپریم کورٹ نے لیا۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کا مودی حکومت میں ایک طرح سے سیاسی بائیکاٹ کر دیا گیا ہے۔ مودی حکومت میں ایک بھی مسلم نہ وزیر ہیں اور نہ ہی ایم پی مسلمانوں کو پوری طرح سے سائڈ لائن کرکے انکی سیاسی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ کانگریس نے بھی مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کیا۔انہوں نے بھی مسلمانوں کے معاشی حالات کو کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی انکے دور میں جتنے ملک میں فسادات ہوئے وہ تاریخ کے اوراق میں درج ہیں یہ کہنے اور بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک بار پھر کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں فرقہ وارانہ فساد ات نے اپنی پرانی شکل اختیار کر لی ہے ایک بار پھر مساجد پر حملے ہو رہے ہیں اور انہیں بلڈوز کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ تلنگانہ کے آصف آباد ضلع کا جینور منڈل اور اور ہماچل پردیش کے شملہ کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں دونوں ریاستوں میں کانگریس کی حکومت ہے جہاں مسلمان اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں انکے عبادت گاہوں پر حملے اور گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کیا جا رہا ہے اور حکومت ہے کہ صرف رسم ادائیگی کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ تلنگانہ کے آصف آباد میں جو ہوا اس سے سی ایم ریونت ریڈی کی حکومت پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اچانک2000 کا ہجوم کیسے مسلمانوں کے املاک پر حملہ بول کر انکے دکانوں اور مکانوں کو نذر آتش کر دیتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ بلوائی جب مسلمانوں کے املاک کو نذر آتش کر رہے تھے اور مسجد کو نقصان پہنچا رہے تھے قانون نافذ کرنے والے مقامی اہلکار کا کہیں بھی پتہ نہیں تھا کسی کو بھی پولیس اہلکار نظر نہیں آئے اور بلوائی بے خوف ہو کر کئی گھنٹے تک دکانوں اور املاک کو نذر آتش کرنے کاکھیل کھیلتے رہے۔ آٹو رکشہ ڈرائیور کاقبائلی خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کسی بھی طرح معافی کے قابل نہیں لیکن جس طرح سے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تشدد برپا کرکے دکانوں کو جلایا گیا اور مسجد کو نقصان پہنچایا گیا کیا ریونت ریڈی کے پولیس اہلکاروں کو اس بات کی ذرا بھی بھنک نہیں لگی کہ ایک ہجوم جنیور منڈل پر حملہ کرنے والا ہے ؟ یہ بات بالکل گلے سے نہیں اترتی کہ انہیں اس بات کا علم نہ ہو ابھی تک سی ایم ریونت ریڈی نے اس معاملے میں کتنے پولیس اہلکاروں کو سسپنڈ کیا ہے یا پھر کتنے بلوائیوں کی گرفتاری ہوئی ہے؟ اس کا خلاصہ ہونا شاید ابھی باقی ہے۔
دوسری طرف ہماچل پردیش ہے جہاں کانگریس کی حکومت ہے وہاں ایک مسجد کو مسمار کرنے کی سازش چل رہی ہے جس کے خلاف نعرے بازی اور مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔شملہ کی سنجولی مسجد کے باہر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور مسجد کی مبینہ غیر قانونی تعمیر کیخلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین میں مقامی باشندے، بی جے پی کارکنان اور ہندو تنظیموں کے ارکان شامل تھے۔مظاہرین ہاتھوں میں ترنگا پکڑے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔ مظاہرین میں سے ایکانکش چوہان جو بی جے پی کے کارکن ہے اس نے مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اصل میں سنجولی مسجد تنازعہ لڑائی سے شروع ہوا۔ ملیانہ علاقے میں وکرم سنگھ نامی 37 سالہ شخص کو کل چھ لوگوں نے پیٹا تھا۔ وکرم نے اس حملہ کے سلسلے میں مقدمہ درج کرایا تھا۔ حملہ کے بعد الزام لگایا گیا کہ ملزم جرم کے بعد مسجد میں چھپ گیا ہے۔جس کے بعد ہندو تنظیموں نے سنجولی مسجد کے خلاف مظاہرہ کیا اور مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے منہدم کرنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ ہی دیر میں یہ معاملہ مزید بڑھ گیا۔ دوسری جانب پولیس نے حملہ کیس کے چھ ملزمان گلنواز (32 سال)، سارق (20 سال) سیف علی (23 سال)
، روہت (23 سال) اور دو نابالغوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں حراست میں لے لیا۔ بعد ازاں نابالغوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا۔سنجولی مسجد تنازعہ پر ہنگامہ اتنا بڑھ گیا کہ ایوان میں بھی اس کی آواز گونجنے لگی۔ حیرت کی بات تو تب ہوئی جب کانگریس کے ہی ایک کابینہ وزیر انیرودھ سنگھ نے ایوان میں کہا کہ سنجولی مسجد کے خلاف احتجاج بالکل درست تھا۔ مسجد سرکاری اراضی پر بنائی گئی ہے اور اس کے حوالے سے عدالت میں کیس چل رہا ہے۔انہوں نے اس معاملے میںکہا کہ باہر سے آنے والے لوگ یہاں کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ بنگلہ دیش سے بھی بہت سے لوگ وہاں آئے ہیں۔ کابینہ کے وزیر نے غیر قانونی مسجد کو گرانے کی بھی بات کی۔ اب آپ کانگریس کے ایک وزیر کی اس بات سے سمجھ گئے ہوں گے محبت کی دکان میں کانگریس والے خود نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ وہیں کرناٹک کی کانگریس حکومت ایک ایسے ٹیچر کو یوم اساتذہ کے موقع پر ایوارڈ دینے جا رہی تھی جنہوں نے برقعہ پہننے والی بچیوں کے لئے اسکول کا گیٹ بند کر دیا تھا ۔کرناٹک میں اڈوپی ضلع کا گورنمنٹ پی یو کالج جہاں سے حجاب تنازعہ نے زور پکڑا تھا۔وہاں سابقہ بی جے پی حکومت کے وقت پیدا حجاب تنازعہ میں شامل پی یو کالج کے پرنسپل کا ’ٹیچرس ڈے ایوارڈ‘ ملتوی کر دیا گیا ہے پرنسپل کا نام بی جی رام کرشن ہے جن کی ویڈیو 2022 میں حجاب تنازعہ کے دوران سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی۔ اس ویڈیو میں وہ باحجاب طالبات کو کالج گیٹ سے اندر داخل نہیں ہونے دے رہے تھے۔ جب کچھ اسٹوڈنٹوں نے پرنسل کے ایوارڈ دینے پر احتجاج کیا توکرناٹک حکومت کے وزیر تعلیم نیند سے بیدار ہوئے اور ایوارڈ کو روکے جانے سے متعلق میڈیا کے سامنے آکر صفائی دی اورکہا ہے کہ ایوارڈ دیا جائے گا یا نہیں اس کا فیصلہ جانچ کے بعد ہوگا۔ ریاستی وزیر برائے پرائمری و مڈل ایجوکیشن مدھو بنگرپا نے کہا کہ ایک ضلع کمیٹی اس ایوارڈ کے لیے درخواست دینے والے لوگوں کی فہرست میں سے ایک خاص نام کا انتخاب کرتی ہے۔ کمیٹی نے حجاب تنازعہ کو نظر انداز کر دیا اور جب انھیں چہار شنبہ کو اس معاملے کے بارے میں پتہ چلا تو ایوارڈ کو روکنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر تعلیم نے مزید کہا کہ تفصیلی جانکاری اور وضاحت کے بعد اَپڈیٹ جاری کیا جائے گا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کرناٹک حکومت کو یہ کیسے پتہ نہیں تھا کہ یہ پرنسپل متنازع ہے یہ ایوارڈ کے قابل نہیں ہے۔وہ تو بھلا ہو کچھ طالب علموں کا جنہوں نے پرنسپل کے کارناموں کو بے نقاب کیا ورنہ کانگریس حکومت تو انہیں ایوارڈ دے ہی چکی ہوتی۔
بہر حال! کل ملا کر کہا یہ جائے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں ان دنوں مسلمانوں کے حق میں نہیں ہیں دونوں اس مقابلے میں لگی ہیں کہ کون سب سے بڑا ہندتوا کا جھنڈا بردار ہے کون سب سے زیادہ ہندئووں کو خوش رکھ سکتا ہے دونوں سیاسی پارٹیاں ہندو ووٹ کی سیاست چل رہی ہیں اور ان دونوں کی تخریبی سیاست میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہو رہا ہے چاہے وہ سیاسی ہو، سماجی ، تعلیمی یا پھرمعاشی۔ بہر کیف اب کوئی ابابیل کا لشکر نہیں آئے گا اب مسلمانوں کو خود کوئی مثبت راہ نکالنی ہوگی۔
ختم شد
Comments are closed.