بلڈوزر جسٹس

از : ناظم الدین فاروقی
سینئر مبصر
دنیا کے کسی ملک میں جب ظالم وجور کی لہریں تیز ہو جاتیں ہیں تو خش و خاشاک سے لے کر بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں گھر بار بھی تباہی کا شکار کر دیئے جاتے ہیں۔ابھی لینچنگ اور بلڈوز کے صبر آزما استبداد سے نبرد آزما ء ہی تھے کہ /5 ستمبر جمعرات کو شملہ میں سنجولی مسجد کے خلاف بڑا زبردست احتجاج بلند کیا ہر روز ایک نئے چیالنج اور ایک نئی مصیبت میں مسلمانوں کو ڈھکیلا جارہا ہے ۔
سپریم کورٹ کے جسٹس بی آر گا وائی B.R.Gavai اور کے وی وشواناتھن کے ڈبل بنچ پر ملک کے مختلف ریاستوں ( خاص کر بی جے پی ریاستوں) میںمسلمانوں کے مکانات اور محلے کے محلے بلڈوز کرنے کا سلسلہ 2017 سے جاری ہے ۔ اس پر روک لگانے کے لئے سینئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ دشینتھ دائے Dushyant Dave) (مقدمہ کی پیروی کر رہے ہیں۔
جسٹس صاحبان نے حکومتوں کے اس ظالمانہ رویہ کے خلاف سخت نوٹ لیتے ہوئے اپنا رد عمل ظاہر کیا۔
گذشتہ چند سالوں میں ملک کے مختلف ریاستوں میں بہانے بہانے سے مسلمانوں کے اور بعض دلتوں کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مکانات بلڈوز کر دیئیگئے ۔ 8لاکھ خاندان بے گھر ہو گئے ۔اگر کوئی معمولی احتجاج بھی کرتا تو اس کا گھر بھی منہدم کر دیا جاتا ۔
پبلک پراسکیوٹر (حکومت کے وکیل) توشھار مہتا نے جسٹس B.R.Gavai اور جسٹس وشواناتھن کے ڈبل بنچ پر ہمیشہ کی طرح ڈٹ کر کہا کہ جو بھی اسٹکیچربلڈوز کئے جاتے ہیں وہ قاعدے و قانون کے مطابق کئے جاتے ہیں ۔ ایک ماہ پہلے نوٹس جاری کی جاتی ہے ۔ یہ کہنا غلط ہے کہ کسی دو سرے جرم کی پاداشت میں ملزم کو فرقہ وارانہ نوعیت کی گھر بلڈوز کر کے سزا دی جارہی ہے ۔ فاضل وکیل دشینتھ دائے نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے توڑ موڑ کر توضیحات پیش کرتے ہوئے عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں وغیرہ ۔۔ دشینتھ دائے نے کہا کہ تمام ریاستوں میں جہاں جہاں گھر وبار بلڈوز کئے گئے ہیں جامع تحقیقات ہونی چاہیے۔ تمام حقائق عدالت کے سامنے ہیں ۔سپریم کورٹ کو ایک واضح حکم نامہ جاری کرنا چاہیے تاکہ شہریوں کے جان و مال ‘ منقولہ وغیر منقولہ جائیدادوں کو تحفظ فراہم ہو سکے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹائون پلاننگ کی اجازت کے بغیر مکانات تعمیر ہوئے ہیں تب بھی اس طرح شہریوں کے گھر بار کو بلڈوز کرنے کا کسی کو کوئی بھی قانونی اختیار نہیں ہے ۔
مقدمہ کی سماعت /16 ستمبر24 کو رکھی گئی ہے دیکھنا ہے کہ بی جے پی حکومت جسٹس صاحبان پر کتنا دبائو ڈال کر مقدمہ کو کمزور کر تے ہوئے اس کا رخ موڑدے گی یا جسٹس صاحبان حقائق کی روشنی میں متاثرین کے حق میں فیصلہ دیے سکیں گے ۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ الہ آباد کے جاوید خان نے گستاخ رسول نپور شرما کے بیان پر شہر کے ایک مقام پر کھڑے ہوکر احتجاج بلندکر رہے تھے ۔ انہیں گرفتار کیا دوسرے دن ہی ان کا بہترین تعمیر کردہ مکان بلڈوز کر دیا گیا ۔ جبکہ یہ مکان ان کے نام پر نہیں تھا ۔ ان کی اہلیہ کا تھا ۔ شمال کی بی جے پی ریاستوں میں کہیں غنڈہ عناصر‘ کہیں دہشت گرد کہیں فساد ‘ کہیں انتہاء پسند ہونے کا الزام لگاتے ہوئے بلا وجہہ مسلمانوں کے محلے کے محلے بلڈوز کر دیئے گئے ۔
پولیس ‘ انتظامیہ ‘RSS مل کر شدید انتقامی کاروائی کے طور پر زندگی بھر بلکہ آباو اجداد سے ہی چھوٹی چھوٹی رقومات بچا کر عورتوں کے زیورات فروخت کر کے اپنی استطاعت کے مطابق چھو ٹے بڑے عارضی اور پختہ تعمیر کردہ مکانات کو بے رحمی سے بلڈوز کیا جاتارہا ہے۔کئی مقامات پر RSS کے کارکنوں کو پولیس کے ساتھ ساتھ پہل کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ ہندوستان میں رہائش کے لئے ذاتی مکان ایک بڑا معاشی و سماجی مسئلہ ہے ۔ مسلمانوں کی آبادیاں بہت چھوٹے چھوٹے مکانات میں زندگی بسر کرتی ہے۔ حکومتی سروے رپورٹ کے مطابق ایک عام مسلمان خاندان اوسطً صرف 150 مربع فٹ کے چھوٹے مکان میں زندگی گذارتے ہیں ۔ اسکولوں ‘ مساجد ‘ گھروں اور محلوں کو مسمار کر نے کا کیا قانونی جواز بی جے پی حکومتوں کے پاس ہے؟ حکومتی سطح پر اس سے بڑھ کر زہر آلود ماحول اور کیا ہو سکتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں ایک مسلمان صاحب کے گنگا جمنا اسکول میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہونے والی مسلمان لڑکیوں کے ساتھ ہند و لڑکی کی ایک فوٹو میں سر پر ڈوپٹہ نظرآگیا ۔پہلے تمام زعفرانی انتہاء پسند گروپوں نے احتجاج بلند کیا اور پھر کلکٹر ‘ پھر وزیر اور پھر چیف منسٹر اس لغو ‘ لا یعنی با ت کو ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ ظاہر کر تے ہوئے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اسکول کے بڑے حصہ کو بلڈوز کر تے ہوئے منہدم کردیا گیا اور پرنسپل ‘ کمیٹی کے صدر و ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کر دیا گیا۔
جھانگر پوری دہلی میں کیا مسئلہ تھا صرف محلے والوں نے جلوس کو گذرنے کی مخالفت کی تھی دوسرے ہی دن اس محلے میں بھاری پولیس جمعیت کے ساتھ بلڈوز کرتے ہوئے مکانات ڈھانا شروع کر دیئے ۔ کمیونسٹ پارٹی کی برانذاکرٹ احتجاج کر تے ہوئے بلڈوز رکے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں ۔ پھر سپریم کورٹ سے ایک عارضی اسٹے آرڈر ملا تب بلڈوز رکے۔
نوح ہریانہ میں شوبایاترا کے موقع پر قرب و جوار کے علاقوں سے اشرار حملہ کرنے آتے تھے مقامی عوام نے ڈٹ کر انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ ایک ہفتہ بھی نہیں گذرا کہ 300 سے زیادہ دوکانات اور کئی سو مکانات کو بی جے پی حکومت نے بلڈوز کر دیا۔ اسی ظلم کے خلاف ملک میں کسی بھی اپوزیشن لیڈر و جماعت نے کھل کر احتجاج نہیں کیا ۔پورا ملک تماشا دیکھتا رہا۔
جمہوری دستوری سیکولر ملک میں تنقید کرنے ‘ احتجاج اور مخالفت کرنے پر گھر بار بلڈوز کر دینے کا وحشی ظالمانہ طریقہ کار مسلمانوں کے خلاف اپنایا جارہا ہے۔ یہ عدل و انصاف نہیں انتقام کا ماڈل اسرائیل سے درآمد کر دہ ہے ۔
سویت یونین اسرائیل ‘ نارتھ کوریا ‘ آفریقی ممالک میں اسی طرح کے ظالمانہ حکومتی اقدامات مخصوص مذہب کے فرقے و طبقے کے خلاف پہلے دیکھے جاتے تھے ۔ اب ہندوستان نے ساری دنیا میں بلڈوز پالیسی میں اپنا نام بلند کیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ چیف منسٹر کا کہنا ہے کہ بلڈوز ہر ایک سے نہیںسنبھالا جاسکتا ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے مجرموں (مسلمانوں) کے خلاف بلڈوز کا استعمال کر کے صحیح سبق سکھا دیا ہے۔
عتیق احمد ان کے بھائی اشرف ہو یا مختار انصاری ہو یہ سب مافیا ڈان کہلائے جاتے تھے ۔ بغیر کسی عدالتی احکامات کے ان کی جائیدادیں بلڈوز کردی گئیں ۔اس کے ساتھ یوپی میں مسلم سیاست دانوں کو بھی انتقام کی شدید آگ میں جلا کر راکھ کر دیا جارہا ہے ۔ اعظم خان کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو وہ ریاستی وزیر رہ چکے ہیں۔ ان کی قائم کردہ محمد علی جوہر یونیورسٹی کو مکمل طور پر بلڈوز کردیا گیا اور حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو لیز پر دی گئی زمینات واپس لے لی گئیں ۔ مظالم تشد د ‘ استبداد کے اتنے نئے نئے ماڈلس اور دم بخود کر دینے والے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں جس سے سیکولر ہندوستان کی جو اہم بنیادی صفات و کردار( کیرکٹر )تھا وہ سب بغیر کسی اعلان کے ختم کر دیا جارہاہے ۔
اصلاحات ‘ فلاح رفاہ کے نا م پر دھوکہ دیتے ہوئے مکذوبہ بیانیہ Falls Perception پر مسلمانوں کے دستوری قانونی تمام تحفظات کوبلڈوز کیا جارہا ہے۔/7 ا گست کو وقف ترمیمی بل 24 پارلیمنٹ میں وقف بورڈ کو بلڈوز کرنے کے لئے پیش کیا گیا۔
تحت یا ملک کی اعلیٰ عدالتیں ہوں بڑی حد تک سیاسی حکمران جماعتوں کے زیر اثر دبائو میں آچکی ہیں جس کی وجہہ سے عدل و انصاف کے پیمانے بدل چکے ہیں ۔ ججس و جسٹس صاحبان کو پارلیمنٹ اور اسمبلی کی ممبر شپ ان کی وفاد اری پر دی جارہی ہے ۔ملک میں عدالتی نظام کیوں قائم ہے ۔ عدالتیں سزاء دینے کی مجاز ہیںآخر کس نے سیاسی جماعت‘ انتظامیہ ‘ پولیس کو یہ اختیار دیا ہے کہ مخصوص مذہب(مسلمان) کے ماننے والوں کے مکانات مسلسل بلا وجہ بلڈوزکردیں۔ شہریوں کے حقوق کی پاسداری کا توازن بگڑ چکا ہے ۔ ابھی تک گذشتہ 10سالوں میں 700سے زیادہ بے قصور معصوم مسلمانوں کی مآب لنچنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا ۔ کئی لاکھ مکانات غیر قانونی طور پر بلڈوز کر دیئے گئے ۔ ملک کے کئی دوسرے معاملات میں سپریم کورٹ سو مو موٹواز خود نوٹ لے کر حکومت کو سخت ہدایتیں جاری کرتا ہے تو پھر مآب لینچنگ اور بلڈوزر جیسی معدانہ پالیسی پر روک لگانے پر غور و خوص کرنے پر آخر اتنے سال کیوں لگ گئے۔ سپریم کورٹ میں قصداً اس مسئلہ کو سرد خانے میں ڈال دیا تھا۔
مآب لنچنگ اور بلڈوزر دونوں غیر قانونی مظالم حکومت کی سرپرستی میں جاری ہیں ۔ گائو رکھشکوں کی جب مرضی ہو جہاں چاہے مسلمان کو بے رحمی سے لنچ کر رہے ہیں۔ /15 ا گست24کے بعد سے اب تک لینچنگ کے ملک میں 25 واقعات ہو چکے ہیں جس میں 4 معصوم مسلمانوں اور ایک برہمن نوجوان کی غلط نشاندہی سے ہلاکت ہو چکی ہے۔
بھارتیہ نیا سنھیتا سرکشا BNS کے نفاذ کے وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ عوامی تشدد کے ذریعہ جو بھی لنچنگ کی جائے گی انہیں سخت سزا ئیں دی جائیں گی ۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ شق بھی اس میں شامل کردی گئی کہ اگر پولیس انسپکٹر مناسب سمجھے گا تو FIR درج رجسٹر کرنے نہ کرنے کا اختیار اس کا پنا ہوگا ۔ پولیس عہدہ داروں کا مزاج خود ایسا بنا دیئے جائے کہ ایک مخصوص طبقے کے خلاف ہی فوجداری مقدمات FIR درج رجسٹر کئے جائیں ۔ اگر ملزمین غیر مسلم ہوںتو ان کے ساتھ رعایت کی جائے۔
ابھی ستمبر 24 کے پہلے ہفتہ میں ملک کے سینئر سیکوریٹی ایڈوائزر کی ایک تقریر سوشل میڈیا پر گذشت کر رہی ہے جس میں انہوں نے صاف صاف الفاظ میں سامعین کو یہ سمجھا دیا کہ اصل یہ فیصلے عدالتوں کے نہیں ہو تے تاریخ کے ہو تے ہیں ۔ جو مضبوط طاقت ور ہو تا ہے۔ دنیا اس کی غلام ہو تی ہے ۔ نہ دنیا کمزور اور کچلے ہوئے نا کام شکست خوردہ فوج و قوم کو یاد کرتی ہے اور نہ ہی اس کا تاریخ کے ابواب میں کوئی ذکر ہو تا ہے۔ انہوں نے کہا کیوں آج دہلی میں بابر نام کی روڈ ہے ۔ بار سنگھا نام کی روڈ کیوں نہیں ہے ۔ ہم افغانستان سے کنیا کماری تک اپنی تہذیب و تمدن مذہب کے ساتھ امن و سکون کے ساتھ حکومت کررہے تھے ۔ ہم نے تاریخ میں کسی پڑوسی ملک پر حملہ کر کے قبضہ نہیں کیا ۔ یہ کون لوگ تھے جو ہمارے ملک پر حملے کر کے 800 سال تک قابض رہے اور ہمیں غلام بنائے رکھا۔ وغیرہ ۔۔ تعلیمی یافتہ غیر مسلموں کی زعفرانی فکر سازی میں نہ صرف ہندوتوا کے لیڈرس بلکہ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدہ دار بھی ذہنی طور پر مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے اور زہر پھیلانے میں کسی سے کم نہیں ۔ یہ سب سن کر بلڈوز کرنے والے عہدہ دار و پولیس پوری جوش و جذبہ کے ساتھ بے قصور وں کے گھروں و محلوں کو نیست و نا بود کر نے میں ایک دوسرے سے مسابقت حاصل کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔
مذکورہ سینئر سیکوریٹی اڈوائزر نے سامعین سے پوچھا بتلائیے ان لوگوں کی ہمارے سامنے کیا حیثیت ہے ۔ ہمارے پیسہ ‘ ہماری آبادی ‘ ہماری ذہانت ‘ ہماری طاقت ‘ ہماری فوج ‘ ہماری معیشت کے مقابلہ میں ایک فیصلہ بھی نہیں ہے ۔ ہم ان سب میدانوں میں ان سے 1000 گناہ زیادہ بڑے طاقتور ہیں کیوں ہم اپنی طاقت کا مناسب بر وقت استعمال کر تے ہوئے غالب رہنا نہیں چاہتے ہیں ۔(ان کی تقریر کا لب لباب ایک عام فہم شخص بھی سمجھ سکتا ہے وہ یہی تھا کہ اٹھو طاقت ور بن کر جو کچھ کرنا ہے ابھی کردو)
یہ بات اچھی طرح یاد رہے کہ ہندوتوا طاقتیں میدان فکری و میدان عمل دونوں میں برابر اپنی برتری اور مضبوط پوزیشن ثابت کر تے ہوئے منصوبہ بند طریقہ پر تسلسل کے ساتھ ظالمانہ پالیسیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
مسلمانوں کاسب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج تک 20 کروڑ مسلمانوں کی متحدہ اجتماعی کوئی مضبوط فکر تشکیل ہی نہیں پا سکی تو پھر کسی بھی میدان عمل میں اعداء اسلام کے خلاف مقابلے میں کس طرح ٹک سکیں گیں۔
مظلومین کی آہ و بکا دنیا میں کوئی نہیں سنتا ۔ دنیا ہمیشہ کمزوروں کو کچل کر آگے بڑھ جاتی ہے ۔ شعور و فکر کی کمی کی وجہہ سے پوری ملت دوراندیشی و بے بصیرتی کا شکار ہے ۔
ذلت بر بادی ‘ تباہی جب آتی ہے تو ہر سمت اور ہر رخ سے گھیرنا شروع کر دیتی ہیں اور آخر کار بر ما کے روہنگیا سے ابتر حشر ہو جاتا ہے ۔
لینچنگ اوربلڈوز کے معدانہ پالیسی کے خلاف تمام ملی قائدین مذہبی پیشوائوں اور جماعتوں کو آواز بلند کرنا چاہیے ورنہ ایسی بری طرح تباہ کر دیئے جائوگے کہ تاریخ میں ہمار ا نام بھی نہ ہو گا۔یہ تحریر کا ہر گز مقصد نہیں کہ قارئین کو حالات سے خائف کیا جائے بلکہ تنذیر و وارننگ اور حالات کی سنگینی سے واقف کرنا مقصد ہے ۔
ملک میں جتنے گھر بار کو بلڈوز کیا گیا ہے حکومت و سپریم کورٹ سے معاوضہ کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔ ہو سکتا ہے کہ متاثرین کو اس معاوضہ سے کچھ مدد ملے۔
Comments are closed.