توہین رسالت: ناقابل برداشت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
محمدؐ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
فرقہ پرستی کے جذبے سے سرشاد مہاراشٹر کے ایک ہندو مذہبی شخص رام گیری مہاراج نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا اور اسلام کو بُرا بھلا کہا، مسلمانوں کے لیے محبت رسول اس کے ایمان وعقیدہ کا حصہ ہے، اس لیے وہ ناموس رسالت پر کسی حملہ کو برداشت نہیں کرسکتا، اس نے اس ملک میں ظلم وجبر کی آندھیاں چلتے دیکھی ہیں، جس میں مسلمانوں کی جان ومال، عزت وآبرو سب کچھ داؤ پر لگ گیا، مسجدوں پر قبضہ کیا گیا، بلڈوزر چلائے گئے، مسلمانوں نے اس کو برداشت کرلیا، لیکن فرقہ پرستوں کی طرف سے جو ناموس رسالت پر حملہ کیا جارہا ہے اور کیا جاتا ہے وہ مسلمانوں کے لیے ہر دور میں ناقابل برداشت رہا ہے اور اس مسئلہ پر کئی مسلمانوں نے اپنی جان کی بازی لگادی ہے، شاعر نے کہا ہے ؎
جو جان مانگو تو جان دیدوں جو مال مانگو تو مال دے دوں
مگر یہ ہم سے نہ ہوسکے گا نبی کا جاہ وجلال دے دوں
چنانچہ رام گیری کی ہرزہ گوئی کے خلاف مسلمان مختلف شہروں میں سڑکوں پر آئے، اسی سلسلے کی ایک کڑی 22/اگست 2024ء بروز جمعرات مدھیہ پردیش کے چھترپور کے پولس اسٹیشن پر سینکڑوں مسلمانوں کا مظاہرہ بھی تھا، مظاہرین رام گیری کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، لیکن ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے انہیں تھانے سے نکال دیا گیا، پولس اہل کار اور مظاہرین کی طرف سے ڈنڈے اور پتھروں کا تبادلہ ہوا، جس میں کئی پولس والوں کو بھی چوٹیں آئیں، احتجاج کرنے والوں کے ساتھ نازیبا سلوک کیا گیا، قابل اعتراض حالت میں انہیں سڑکوں پر گشت کرایا گیا، بعد میں مظاہرین منتشر ہو کر اپنے اپنے گھر چلے گئے، مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی سرکار ہے، وزیر اعلیٰ ڈاکٹر موہن یادو ہیں، انہوں نے حکم دیا اور انجمن اسلامیہ کمیٹی کے سابق صدر اور کانگریس کے ضلعی نائب صدر حاجی شہزاد علی کے پانچ کروڑ روپے سے تعمیر عالی شان عمارت کو بلڈوزر سے منہدم کرا دیا گیا، انہدام کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی، ان کے گھر میں رکھی تین کاروں کو بھی کرین کی مدد سے باہر نکال کر کچل ڈالا گیا، سب کچھ تہس نہس کردیا گیا، لیکن حاجی شہزاد علی کے دل میں جو محبت رسول ہے اسے کون کچل سکتا ہے، حاجی شہزاد نے اپنے سوشل اکاؤنٹ پر لکھا کہ ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے یہ مکان اور گاڑیاں کیا ہیں، جان بھی دینی پڑی تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔چند دنوں کے بعد وہ آٹو سے کہیں جا رہے تھے کہ آٹو والے نے پولیس کے ذریعہ ان کو گرفتار کروادیا، پانچ گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد ان کی صحت کی جانچ کرائی گئی اور پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا، اور کتنے مظالم ان پر ہوں گے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ حاجی شہزاد علی انشاء اللہ ابتلاء وآزمائش کے اس دور سے باہر نکلیں گے، اللہ انہیں حوصلہ اور ہمت دے رہا ہے، کیوں کہ وہ ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے میدان میں آئے ہیں۔
در اصل مسلمانوں کو ہراساں کرنے، فسادات برپا کرکے مار ڈالنے اور جان ومال، عزت وآبرو پر حملے کا بڑے پیمانے پر آغاز گجرات فساد سے ہوا تھا، یہ مسلمانوں کی نسل کشی کی منظم سازش تھی، نریندر مودی اس زمانے میں وہاں کے وزیر اعلیٰ تھے، اس قدم کی وجہ سے ہندو ووٹ ان کی طرف ہوگیے اور گجرات میں برسوں وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد ملک کے اب وہ تیسری بار وزیر اعظم ہیں، اس لیے فرقہ پرست طاقتوں نے اس کام کو اپنا نصب العین بنالیا، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی اور آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسواسرما اسی کلچر کو فروغ دینے میں لگے ہیں اور مسلمانوں پر نفسیاتی حملوں کے ساتھ ان کے دین وایمان پر تیشہ زنی کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے، اب اس صف میں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر موہن یادو بھی شامل ہو گیے ہیں،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہندو رائے دہندگان متحد ہوکر ہمارے اقتدار کو مضبوط کرنے کا کام کریں گے، لیکن ہندوستان کے رائے دہندگان نے اترپردیش اور پورے ملک میں بی جے پی کو اکثریت سے محروم کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایک بڑی تعداد رائے دہندگان کی وہ ہے جو خاموش رہ کر ہندوستانی جمہوریت کے تحفظ کا فریضہ انجام دیتی ہے اور اس نے اس بار کے پارلیمانی انتخاب میں ایسا کرکے دکھا دیا، اس لیے اب نہ تو رام مندر کی تعمیرکام آ رہی ہے اور نہ دوسرے اقدام، بوکھلائے ہوئے فرقہ پرست اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم کسی طرح مسلمانوں کو سڑکوں پر لے آئیں، مسلمان اس بات کو اچھی سمجھ رہا ہے اس لیے وہ بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا ہے۔
ان حالات میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس ظلم کے خلاف خود سے نوٹس لینا چاہئے اور حکومتوں کو بتانا چاہئے کہ کسی بھی جرم کا کیا فیصلہ ہوگا، یہ عدالت کا کام ہے، نہ کہ حکومت کا، اس لیے اس سلسلے کو روکنا چاہئے اور حکومت کو یہ جان لینا چاہئے کہ
کسی دیوار نے سیل جنوں روکا نہیں اب تک کوئی مجنوں یہ مصرعہ لکھ گیا دیوار زنداں پر
اور یہ کہ
پاگل آندھی توڑ کر رکھ دیتی ہے بند دروازوں کو ”اندر آنا منع ہے“ لکھ کر لٹکانے کا حاصل کیا
Comments are closed.