حسن مدنی ندوی

جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ایك خوبصورت اسلامی ملك ملیشیا كا یہ سفر محض ایك سیاحتی سفر نہیں بلكہ علمی وتجارتی سفر رہا جس كے تجربات و مشاہدات سے براہ راست نونہالان ملت استفادہ كرسكتے ہیں اورمستقبل قریب كے لئے ایك دستاویز ہے جس ميں خذ ما صفی ودع ماكدر كے اصول پر چلتے ہوئے بہت سی خوبیاں اور خامیاں ہیں اور راہی كو چاہئے كہ وہ جتجو میں رہے منزل كا طلبگار نہ ہو رستے كا مزہ لے.
ملیشیا كی مختصر اسلامی تاریخ
اسلام 15ویں صدی میں ملائشیا آیا، جب عرب سلطنت اور ہندوستانی تاجر تجارتی راستوں کے ذریعے ان علاقوں میں آئے۔ ابتدائی طور پر اسلام ملائشیا میں مالائی حکمرانوں کے ذریعے آیا، جن میں برطانوی کالونائزیشن کے زمانے کے مقامی لوگ بھی شامل تھے ، جیسے سلطان مظفر شاہ، انہوں نے اسلام کو اپنے ملک میں فروغ دیا اور اس کی تعلیمات کو مقامی لوگوں میں متعارف کرایا۔ یہ دور اسلامی ثقافت اور روایات کے لیے ایک اہم مرحلہ تھا۔
اسلامی ریاستوں کی تشکیل: 16ویں صدی کے بعد، ملائشیا میں اسلامی ریاستیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں جنہوں نے اسلامی قوانین اور اصولوں کو اپنے نظام زندگی میں شامل کیا۔ ان ریاستوں میں ملایا، جوہر، کداح، اور پرک کے علاقے شامل تھے۔
سفارتی اور تجارتی روابط: ملائشیا کے ساتھ اسلامی ممالک کے روابط نے بھی اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ عرب اور ہندوستانی تاجروں نے نہ صرف تجارت کی بلکہ اسلامی ثقافت اور تعلیمات کو بھی پھیلایا۔
سائمن کی آمد اور نوآبادیاتی دور: 18ویں صدی کے آخر اور 19ویں صدی کے آغاز میں یورپی طاقتوں، خاص طور پر برطانویوں، نے ملائشیا پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران، اسلام کو بعض چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود اسلامی تعلیمات اور ثقافت برقرار رہی۔
آزاد ملائشیا: 1957 میں ملائشیا نے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی حاصل کی۔ آزادی کے بعد، ملائشیا نے اسلام کو اپنے قومی تشخص کا اہم حصہ قرار دیا اور اسے ملک کے سرکاری مذہب کے طور پر تسلیم کیا۔ ملائشیا میں اسلام کی تاریخ اس بات کی عکاس ہے کہ کیسے اسلامی ثقافت اور اصول ملائشیا کے معاشرتی اور قانونی نظام کا حصہ بنے، اور ملک کی ترقی اور شناخت میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔
سرکاری مذہب: ملائشیا کا مذہب اسلام ہے، اور اس وجہ سے ملک اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ اس ملک کے تمام رہائشیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسلام کی ثقافت اور عملی طریقوں پر عمل کریں، حالانکہ یہاں مختلف مذاہب کے پیروکار بھی موجود ہیں۔
اسلامی قوانین: ملائشیا میں شریعت صرف ذاتی نوعیت کے معاملات جیسے شادی، طلاق، اور وراثت تک محدود ہے۔ عدالتیں صرف مخصوص مسائل پر اسلامی قانون کا نفاذ کرتی ہیں، اور ملک میں دو سطحی قانونی نظام موجود ہے، جو شہری قوانین اور اسلامی قوانین پر مشتمل ہے۔
تعلیم اور مذہبی سرگرمیاں: ملائشیا میں اسلام کی ترویج کے لیے بہت سے تعلیمی ادارے، مساجد، اور مذہبی تنظیمیں قائم کی گئی ہیں۔ ریاست اور مختلف تنظیمیں اسلامی اصولوں کو فروغ دینے کے لیے بڑی کوششیں کر رہی ہیں۔
ثقافتی اثرات: اسلامی روایات اور عادات ملائشیا کی ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اسلامی تہوار جیسے عیدالفطر اور عیدالاضحی یہاں بڑے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں، اور اسلامی رہنمائی کے تحت سماجی اقدار کو فردی مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے۔
سماجی اصول: معاشرت میں اسلام کے اصول انصاف، برابری، ایمانداری، اور شفقت پر زور دیتے ہیں، جو ملائشیا کی سماجی زندگی میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ سماجی سرگرمیاں اسلامی اخلاقیات اور روایات کے مطابق انجام دی جاتی ہیں۔ سفرنامہ
سفر كی ابتداء كوالالومپورسے ہوئی جو كہ ملیشیا كی دار الحكومت ہے اور ٹوكیو كے بعد مشرقی ایشیا كا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے،قیام ابتدائی ایام میں یو ٹی ایم یونیورسٹی كے ہوٹل میں رہا جہاں كاماحول كافی خوشگوار تھا مگر اشیائے خوردونوشت كو لیكر كافی دشواری كا سامنا كرنا پڑا چونكہ سمندری غذائیں ہمارے لئے بدھضمی سے كم نہ تھیں ،بہر حال یہاں كا موسم اور آب وہوا سال كے بارہ ماہ تقریبا یكساں ہیں،ہلكی بوندا باندی میں شام كے وقت چہل قدمی كے لئے نكل جاتے تو چوطرفہ خوبصورت كیمپس اور سرسبزی وشادبی كا نظارہ ہوتا،كیمپس كے سامنے ایك عظیم الشان مسجد تھی جس كی تعمیر قدیم اور جدید كے سنگم سے ہوئی تھی اور مسجد میں ہی دیگر شعبے جیسے حفظ اور اسلامیات اور علوم كے شعبے قائم تھے جن میں طلباء كے ساتھ ساتھ زائرین بھی مستفید ہوسكتے ہیں، شہر كے دورے پر نكلا تو پتہ پوچھتے عرب روڈ پہونچ گئے جہاں كچھ جدت نظر آئی، آگے ایك ہجوم كا عالم برپا تھا اور نعرے بازی ہورہی تھی قریب پہونچنے پر معلوم ہوا كہ شہید ملت اسماعیل ہانیہ كی شہادت پر یہ انقلابی احتجاج كیا جارہا ہے جس میں ہر رنگ ونسل كے مرد وزن شامل ہیں ، رگوں میں ایك حنبنش سی ہوئی اور رونگھٹے كھڑے ہوگئے كہ ملت میں ابھی بھی زندہ دل قومیں ہیں جو حق كی اَواز بلند كرتی ہیں اور ظاہر ہے كہ سركاری اجازت بھی ہے، اور یہ انقلابی آوازیں اسرائیلی ریستوراں كے باہر پر جوش انداز میں لگائی جارہی تھیں چونكہ ہمارے ممالك میں یہ سب ایك خواب کے مانند ہے كہ حق كے لئے آواز بلند كرنے والے اكثر غداركہلائے جاتے ہیں ، یہ علاقہ تقریبا مركز ہے جہاں عرب وعجم یكساں طور پر آباد ہیں اور كافی وسیع پیمانہ پر ماركیٹ اور شوپنگ سنٹرز ہیں، چائے پینے كے لئے ایك بنگالی ہوٹل میں پہونچے تو ایك یمنی عرب(علی ) سے ملاقات ہوئی جو كہ سیاح تھے اور مختلف ممالك كا سفر كرتے ہوئے ملیشیا پہونچے تھے ، چونكہ آنجناب نے كافی عرصہ سعودی عرب میں گزارا تو كافی مانوس ہوئے اور شام كے عربی دسترخوان پر ہمیں مدعو كیا، وہیں ان كے ساتھ ایك مغربی سیاح (عبدالقدیر) بھی حاضر تھے جو ہم دونوں سے عمر اور تجربہ دونوں میں سینئر تھے اور بیتے دو ما ہ سے وہ صرف مشرقی ایشیائی ممالك میں سفر كر رہے تھے جس میں كوریا سے لیكر فلپین اور تھائلانڈ و انڈونیشیا شامل ہیں ، انہوں نے ان تمام ملكوں كے درمیان ہوئے واقعات اور متفرقات كا ذكر كیا جس سے خطہء ارض كے اس نقشے كےبارے میں مفید معلومات فراہم ہوئی، انوكھے قوانین كے ساتھ ان ملكوں میں كچھ ممنوعات ہیں تو كچھ آسائیشیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں ، بہرحال ٹیكسی كر كے ہم تینوں افراد شہر كا جائزہ لیتے ہوئے پٹروانس ٹاور پہونچے جو ٹوین ٹاورز كے نام سے معروف ہے اور جدید دور كی بے مثال تعمیر ہے، چوطرفہ فلك بوس عمارتیں اور مصنوعی آبشاروں كے رقص كے درمیان ایك دنیا وہاں موجود تھی جس میں تقریبا ہر نسل ورنگت كا انسان تصویر كشی میں منہمك تھا، بہركیف یہاں مقصد محض ایك وہ ترقی دیكھنی اور دكھانی ملحوظ تھی جس كو كسی حد تك عربوں نے تو حاصل كیا لیكن دیگر مسلم ممالك میں بہت نادر ہے ، لیكن جہاں معلوم ہوا كہ یہاں كی معیشت كا 90 فیصد كنٹرول چینیوں كے ہاتھ میں ہے جو ڈاینصور كی پرستش كرتے ہیں اور ہر بہترین سوسائٹی میں ان كے بڑے اور وسیع معبدے قائم ہیں تو افسوس ہوا كہ اپنی قوم یہاں اكثریت میں ہونے كے باوجود اور حكومت میں ہونے كے بعد بھی وہ كامیابی نہ حاصل كرسكی جو یہاں كی اقلیت نے حاصل كی، وجوہات تو بہت ہونگی لیكن جو ہندوستان میں جین اور پارسی قوم كا حال ہے تقریبا وہی حال یہاں چینیوں كا ہے، اگلے روز جامعہ اسلامیہ ملیشیا جانا ہوا، جہاں ندوی و قاسمی حضرات سے ملاقات رہی جو جامعہ میں زیر تعلیم ہیں اور فقہ و حدیث کے شعبے سے منسلک ہیں، جن میں ساجد ندوی اور مفتی عمیر قاسمی قابل ذکر طلباء ہیں، جہاں ان حضرات نے جامعہ کے خوبصورت کیمپس کا مشاہدہ کرایا، وہیں جناب عمیر صاحب نے تفصیلی طور پر یہاں کے درس و تدریسی نظام سےمتعارف کرایا اور دیگر ممالک کے جن میں افریقہ اور فلسطین اور عرب طلباء تھے ملاقات کروائی اور ادارہ کے حالات اور سرگرمیوں کے بارے میں اطلاع دی، چونکہ فکر اسلامی کے تعلق سے ہم ندوہ کے زمانے سے ہی کوشش کرتے آئے ہیں کہ ہم عصر طلباء اور اساتذہ کے تجربات سے مستفید ہوں اور ملی و دینی سرگرمیوں میں کہیں نہ کہیں حاضری دیں، اتفاق سے اسی روز ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا رحمت عالم کانفرنس میں خطاب تھا تو اردو داں طلباء وہاں شریک تھے اور چہل پہل کم تھی، اگلے روز کچھ تجارتی سرگرمیوں کے سلسلہ میں کلانگ پورٹ جانا ہوا جہاں سمندری جہازوں کے قطاروں کے درمیان واقع سی ایف ایس میں بحری ملاحوں اور درآمد برآمد کے معتبر ذرائع سے معلومات حاصل کی گئیں، ملیشیا واقعی میں ایک پر امن اور سرسبز و شاداب جگہ ہےاور بے نظیر پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان اس کا یہ شہر کوالا لومپور شامل ہے، باتو کی غاروں سے گزرتے ہوئے ایک مجسمہ دیکھا جہاں ہندومت کے دیوتا کی پرستش کی جاتی ہے، یہ دلیل ہے کہ یہاں مذہبی آزادی ابتدائی دور سے ہی رہی ہے، شام ڈھلتے ہماری ملاقات ڈاکٹر زہیر سے ہوئی جو ایک مؤقر عالم کے فرزند بھی ہیں اور ملیشیا میں علمی و علومی میدان میں کامیاب شخصیت مانے جاتے ہیں، ان کے یہاں عشائیہ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جس کولونی میں مقیم ہیں وہ قادیانیت زدہ علاقہ ہے، اور وہ اپنی تعلیمات خفیہ طور سے عام کرتے رہتے ہیں، وہیں اگلے دو دنوں میں عالمی تبلیغی اجتماع بھی تھا تو آپس میں ہم طلباء علوم اسلامیہ نے اس بات پر تبصرہ کیا کہ کاش ملی مفاد میں یہ جماعت اپنے دائرے سے باہر آکر بھی ملت کو فائدہ پہونچاتی، الغرض جمعہ کا دن آگیا اور ہم و عزیز رہبر مسجد سلطان صلاح الدین عزیز شاہ عالم میں نماز جمعہ ادا کرنے پہونچے، مسجد کی خوبصورتی اور تعمیری سٹرکچر کو دیکھنے میں منہمک ہوگیا جو واقعی اپنے آپ میں بے مثال تھی، نیلا گنبد اور چار مینار پر بنی یہ مسجد کئی ایکڑ میں پھیلی ہوئی تھی، اور اسی میں مدرسہ اور ادارہ فلاح قائم تھا، مسجد میں خطبہ جمعہ ملائے زبان میں ہوا جس میں قرآنی آیات کے سوا شاید ہی کوئی لفظ سمجھ آیا ہو، تعجب بھی ہوا کہ ہندوستان کی طرح یہاں عربی میں دو منٹ کا بھی خطبہ نہیں دیا گیا، اور عام زبان میں ہی پورا خطبہ پڑھا گیا، ملیشیا کا سرکاری مذہب شافعی مسلک سے ہے مگر ماقبل ذکر گیا کہ ہر فرد کو مذہبی آزادی ہے اور ملحد ہونے کا بھی اختیار ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے جہاں آزادی اظہار رائے ہے وہیں ان کے لئے بغیر سود کے بینکنگ کی اور فائنانس کی سہولیات موجود ہیں، اور ایک ادارہ ہے شاہ عالم میں جو بینک میں کی گئی جمع رقم پر زکاة ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اوسط نکال کر فرد کو حج کا فریضہ بھی پورا کرادیتا ہے، بہرحال دو دن مزید جامعہ میں قیام کرنے کے بعد اور اس سے متصل وادیوں میں سیر کرنے کے بعد ہم نے واپسی کا رخت سفر باندھا کہ اب وقت آگیا تھا کہ کوچۂ جاناں کا رخ کیا جائے۔

Comments are closed.