پھلت کا پھول
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے

(ناصرالدین مظاہری)
وہ جب بھی عدالت میں پیشی پر گئے ہمیشہ بوریا بستر اور کپڑے لتے ساتھ لے گئے،لوگوں نے کتنی ہی بار عرض کیا کہ حضرت ! آپ کی پیشی ہے پھر اپنے گھر واپس آنا ہے لیکن وہ اللہ تعالی کا ولی ہمیشہ مسکراتا اور کہتا کہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو پھر واپس گھر آجاؤں گا اور اللہ تعالی کو منظور ہوا تو وہیں رہ جاؤں گا،اسی کی مرضی ہے ،اسی کے فیصلے ہیں،اسی کی رضا میں میری رضا ہے، اور اس طرح ضمانت کے مختصر ترین ایام تیزی کے ساتھ گزرتے رہے یہاں تک کہ آپ کو سنگین دفعات کے تحت جج نے مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنادی اور وہ بے ضرر انسان جس کے دم سے اللہ ہی جانتا ہے کتنے گھروں میں چولھے جلتے تھے ، کتنے خیموں میں مسرتوں کے کنول کھلتے تھے ، کتنے یتیموں کا سہارا اور کتنی بیواؤں کا آسرا بنے ہوئے تھے، کتنے ہی نیک وسعید طلبہ کی کفالت کا ذمہ لیا ہوا تھا، کتنے ہی تاریک گوشوں میں چراغاں آپ کی ذات سے تھا، کتنے ہی چہروں نے آپ کے مسکراتے چہرے سے مسکرانا سیکھا تھا افسوس کہ آپ بھی تعصب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بھینٹ اس لئے کہہ رہاہوں کہ آج کل میں ہی بریلی کے ایک بڑے پجاری نے باقاعدہ میڈیا میں بیان دے کر اقرار کیا ہے کہ اس نے 78 مسلم بچیوں کو غیر مسلم بنایا ہے لیکن کسی منصف کو اس کے خلاف ایکشن لینے کی توفیق نہیں ہوئی، کسی پولیس نے اس کو گرفتار نہیں کیا، کسی سرکاری ودرباری سیاست دان نے اس کے خلاف بیان نہیں دیا، کتنی ہی مرتد بچیاں قتل کردی گئیں، کتنی ہی جلادی گئیں، کتنی ہی بے یار و مدد گار چھوڑی گئیں، سبھی کی عزتیں پامال کی گئیں، سبھی کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا لیکن اتنے بڑے ملک میں ایک بھی خود دار ، غیرت مند سامنے نہیں آیا جس نے ان جرائم اور کشت وخون کو ناجائز ٹھہرایا ہو۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو ببانگ دہل مسلم مخالف بیانات دے رہے ہیں لیکن انتظامیہ چپ ہے، سربراہ مملکت خاموش ہیں، غیر قانونی طور پر مکانات گرانے کا طویل سلسلہ ہے، معیشت کو برباد کرنے کا بڑا منصوبہ ہے، اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا ان کا پختہ ارادہ ہے، اسلامی چراغ کو اپنی پھونکوں سے بجھا دینے پر تلے ہوئے ہیں ، ان ہی زہریلے ارادوں کی تکمیل کے یہ مسلسل واقعات ہیں ، جب عدالتیں انصاف سے خالی ہوجائیں ، پولیس تعصب سے پیش آئے، انتظامیہ مذہب دیکھ کر قانون بنانے اور بگاڑنے لگے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ملک کہاں جاکر کھڑا ہوگا، امن وامان کی کیا صورت اور کیا نوعیت ہوگی۔
ہم جس گھٹے گھٹے ماحول میں سانسیں لے رہے ہیں اس میں انصاف نسیا منسیا ہوچکا یے،حقوق کی پامالی اعلی درجے پر پہنچ چکی ہے،دوغلی پالیسی کا راج ہے،جوجتنا بڑا مجرم ہو اسی کے سر پر تاج ہے، یہاں شرافتیں دم توڑ رہی ہیں ،یہاں اخلاق کا جنازہ نکل چکا ہے،یہاں ہر طرف حسد کی،حقد کی،دشمنی کی لعنت برس رہی ہے،عدالتوں میں انصاف کم پیشیاں زیادہ ملتی ہیں،تعلیم گاہوں میں تعلیم کم تعصب زیادہ پڑھایا جاتاہے، اسمبلی سے پارلیمنٹ تک ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف ہی تانے بانے بنے جارہے ہیں، طاقتور کو کمزور کرنے کے جتن کئے جارہے ہیں،اثرداروں کو بے اثر کیا جارہا یے،زرداروں کو مفلس و کنگال بنایا جارہا ہے ، انارکی کا ماحول ہے، جس کے منہ میں جو آرہا ہے بولے جارہا ہے،ذرا سوچئے جس پیڑ کی ہر شاخ پر الو کی حکمرانی ہے تو پھر گلستاں کے انجام کے بارے میں آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ کیا حال ہوسکتا ہے۔
میری آنکھوں نے بہت کم ایسی ہستیاں دیکھی ہیں جو پھلت والے اس یوسف ثانی جیسی ہوں، میرے کانوں نے بہت کم ایسی آوازیں سنی ہیں جو ہمیشہ رس گھولتی ہوں، لاریب جب بھی ملا، پہلے سے زیادہ حلیم وبردبار پایا،کبھی اشاروں کنایوں میں بھی کسی کی غیبت نہیں سنی، منفی بات نہیں سنی، عجیب دل و جگر اور نہایت حیرت انگیز فکر ونظر پائی ہے کہ آپ کو کبھی بھی کسی کی بھی خامیاں دکھائی ہی نہیں دیتی ہیں، ہمیشہ خوبیوں پر نظر ہوتی ہے۔
آپ عصری علوم کے ماہر بھی ہیں دینی علوم کے حامل بھی ، سلوک واحسان کے شناور بھی ہیں ، علم وعرفان کے بحر بیکراں بھی ، سچ کہتاہوں اور یہ سچ ایسا ہے کہ سبھی گواہی دیں گے کہ آپ کو دنیا اور دنیاداری سے ذرہ برابر تعلق اور انس نہیں رہا، کبھی بھی کہیں بھی ممتاز مقام کی خواہش نہیں رہی، واللہ! آپ حسد سے ایسے ہی پاک و صاف ہیں جیسے دودھ ہر قسم کے کالے پن سے پاک ہوتایے
۔ایسامؤمن میں نے نہیں دیکھا جو آپنے دشمنوں کے حق میں بھی ہمیشہ کلمہ خیر بولتاہو، مجھے یاد ہے ایک معاصر نے آپ کے خلاف ایک کتاب لکھ ماری لیکن حضرت سے جب میں نے اس کتاب کا ذکر کیا تو فرمایا کہ وہ بڑے لوگ ہیں، ان کی نسبتیں بڑی ہیں،ان کا خانوادہ بڑا ہے، وہ اولاد رسول ہیں ، انھیں یقینا میرے اندر کچھ کمیاں کوتاہیاں نظر آئی ہوں گی اس لئے یہ کتاب لکھ دی، میں اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا اللہ مجھے ہدایت دے ، راہ ہدایت پر قائم رکھے اور ایمان کی حالت میں اٹھائے۔
میں نے مولانا کو بہت زیادہ نہیں دیکھا بہت زیادہ نہیں سنا لیکن جتنا سنا جس قدر سنا ہر بار ایسا لگا۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
مولانا بوڑھے ہوچکے ہیں،ان کے اوپر عائد الزامات ایسے نہیں ہیں کہ مولانا کو جیل کی کال کوٹھری میں تاحیات قید کردیا جائے۔ مولانا کے بیک گراؤنڈ کی تحقیق کرلینی چاہئے تھی کہ کتنے بے سہاروں کا سہارا چھین لیا گیا ہے اسی ملک میں کتنے ہی فیصلے میں نے دیکھے ہیں جس میں اقراری مجرموں کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ اس کے چال چلن اچھے ہیں، مجھے کہنے دیجیے کہ آپ جیل کے ہر بندے اور ہر کارندے سے مولانا کے بارے میں تحقیق کرلیجیے ان سب کے بیانات کاخلاصہ ان شاء اللہ یہی ہوگا کہ مولانا بڑے سجن انسان ہیں۔تو کیا ملک کے ایسے عظیم سجن کو پلکوں پہ بٹھانا چاہئے یا کال کوٹھری میں ٹھونس دینا چاہئے اور چلتے چلتے یہ پوچھنے کا حق بھی بنتا ہے کہ بریلی کے اس اقراری پجاری کے حق میں بھی کیا یہی فیصلہ کیا جائے گا؟ کیا اسے بھی یہی سزا دی جائے گی۔کیا عدالتوں کا دھرم اور بھرم ماضی کی طرح قائم ودائم رکھا جائے گا؟۔
ملک زادہ منظور نے عجیب بات کہی ہے:
وہی قاتل، وہی منصف، عدالت اس کی وہ شاہد
*بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے*
Comments are closed.