کیا چوتھے گاندھی کے قتل کا جال بچھایا جارہا ہے؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

وطن عزیز کو اپنے جمہوری نظام پر بڑا ناز ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہاں اقتدار کی منتقلی  نہایت پر امن طریقے پر  ہوجاتی ہے حالانکہ انتخابی مہم کے دوران ہونے والے تشدد کا اگر ٹھیک سے حساب رکھا جائے تو شاید یہ دنیا کے سب سے خونی الیکشن قرار پائیں گے ۔ پاکستان کی مثال دے کر  عار دلائی جاتی ہے  کہ وہاں  پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور جنرل ضیاء الحق   کا قتل ہوگیا ۔ اس کے علاوہ  ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی دئ گئی  لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناتھورام  گوڈسے کی مانند کسی نے فخر کے ساتھ لیاقت علی خان کے قتل کی ذمہ داری قبول  نہیں کی ۔  گاندھی جی کے قاتل  کو ہیرو بناکر اس کے نام اپنی سیاست چمکانے والی  کوئی جماعت وہاں موجود نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو  جنرل ضیاء الحق نے  عدالت کے ذریعہ  پھانسی چڑھا دی لیکن آج کے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے اس فعل کی حمایت کوئی نہیں کرتا۔ اس کے برعکس اندرا گاندھی کو ان کے محافظوں نے کھلے عام  قتل کردیا  ۔ اندراگاندھی کے قاتل کا بیٹا  سربجیت  سنگھ پنجاب میں فخر سے الیکشن لڑتا  رہا ہے۔  جنرل ضیاء الحق   کے بارے میں یہ  اتفاق رائے پایا جاتا  ہے کہ وہ عالمی سازش کا شکار ہوئے لیکن  راجیو گاندھی کو سری  لنکا سے آکر قتل کرنے والے اور سارے معاون  دو سال قبل  رہا کردئیے گئے۔ ایسے میں اکبر الہ بادی کی نظم میں مسلمانوں کی بابت فرنگی میم  کا تبصرہ معمولی ترمیم کے بعد  ہندوستانی سیاست  پر صادق آتا ہے   ؎

غیر ممکن ہےکہ ہو انس بھارتیوں سے                    بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے انسانوں سے

امریکی دورے کے بعد راہل گاندھی کو ملنے والی  دھمکی کااگر  مندرجہ  بالا تناظر میں جائزہ لیا  جائے تو معاملہ سنگین  نظر آتا ہے۔ ایسے میں  یہ  گما ن بھی گزرتا ہے کہ کہیں چوتھے گاندھی خلاف  تو کسی خطرناک  سازش کا آغاز تو نہیں ہوگیا ہے ۔ یہ معاملہ  نیا نہیں ہے بلکہ  بھارت جوڑو یاترا کے دوران جب  نومبر 19 ( 2022)  کو  وہ اندور پہنچنے والے تھے تو  انہیں  بم سے اڑا دینے کی دھمکی دی  گئی تھی ۔ یہ خط  جونی اندور تھانہ علاقے میں ایک مٹھائی کی دکان سے بھیجا گیا تھا ۔ اس خط میں اندور کے خالصہ کالج میدان پر بھارت جوڑو یاترا کے تحت راہل گاندھی کی ریلی کو  بم سے اڑانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ ڈی سی پی (انٹلیجنس) رجت سکلیچا نے دھمکی بھرے  خط کی تصدیق کی تھی ۔ ذرائع ابلاغ میں اس کے  اجین سے آنے کی بات کہی گئی تھی اور رکن اسمبلی کا نام کا ذہونا بتایا گیا تھا۔ مقامی پولیس اور کرائم برانچ نے  خط چھوڑنے والے شخص کی تلاش میں آس پاس نصب سی سی ٹی وی فوٹیج کو کھنگال ڈالا  لیکن ملزم کو پکڑنے کی یہ  کوشش کارگر نہیں ہوئی  اور آگے چل کر لوگ اسے بھول بھال گئے۔  اس معاملے میں کسی کی گرفتاری یا سزا کی کوئی خبر میڈیا میں نہیں آئی ۔یہی دھمکی آمیز خط اگر مودی یا یوگی کے خلاف ہوتا تو ا بھی  تک مجرم یا کسی نہ کسی  بے قصور کا انکاونٹر کا ہوچکا ہوتا۔

 بھارتیہ جنتا پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اس کے باوجود  وہ  ایک راہل گاندھی کو قابو میں کرنے کے لیے کتنی جہتوں سے کام کررہی ہے ؟ دھونس اور دھمکی کے علاوہ  عدالت کے ذریعہ  ایوان پارلیمان کی رکنیت سے محروم کرنے کے لیے گجرات کی عدالتوں میں  قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں ۔ ایوان کے صدر اوم برلا نے جس طرح  رکنیت کی معطلی  اورگھر  خالی کروانے میں سرعت دکھائی  اس سے ظاہر ہوگیا کہ  سارا کھیل سرکار کے ایماء پر کھیلا گیا تھا۔  سپریم کورٹ نے اس سازش کو ناکام کردیا مگر بی جے پی والے پھر بھی نہیں مانے اور  رکنیت کی  بحالی   کو چیلنج کرنے کی خاطر  لکھنؤ کے وکیل اشوک پانڈے  نے عدالت سے رجوع کیا  ۔ وہاں سخت پھٹکار کے ساتھ ایک  لاکھ روپیہ  جرمانہ  ہاتھ آیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس بی آر گوائی نے موصوف کی   سرزنش کرکے  کمرۂ عدالت سے دفاع کرتے ہوئے  توہین عدالت کا مقدمہ درج کرنے کی  مارشل کے ذریعے  نکالنے  کی دھمکی بھی دی ۔

زعفرانی ٹولہ جب  چہار جانب سے ناکام ہوجاتا ہے تو اس کی  پناہ گاہ  میڈیا ہوتی ہے۔ راہل گاندھی کے امریکی دورے کو لے کر روہت شرما نامی صحافی کی شکایت فی الحال موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ شرما کے مطابق  سیم پترودا سے انٹرویو میں اس  نےبنگلادیش  کے اندرہندووں پر ہونے والے مظالم سے متعلق سوال کیا کہ کیا راہل گاندھی اس بابت  امریکی ارکان پارلیمان سے بات کریں گے ؟  سیم نے جواب دیا تھا  کہ باہمی رضامندی سے موضوعات طے ہوں گے اس لیے وہ  کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس کے بعد کانگریس کے حامیوں نے شرما سے انٹرویو کا آخری سوال نکالنے کے لیے کہا اور جب وہ راضی نہیں ہوئے تو زبردستی موبائل چھین کر پورا انٹرویو ڈیلیٹ کردیا ۔  اس کے بعد روہت شرما نے سیم پترودا سے رابطہ کیا تو وہ دوبارہ انٹرویو دینے کے لیے تیار ہوگئے۔  اس واقعہ کو نمک مرچ لگا کر وزیر اعظم نے اپنی ڈوڈہ تقریر میں پیش کیا اور صحافیوں کے لیے ٹسوے بہائے ۔ وہ وزیر اعظم یہ  کررہا ہے جس نے ساری عمر میں ایک پریس کانفرنس کی تو لڑکھڑا کر پانی پینے لگےنیزکرن تھاپر کے انٹرویو سے بھاگ کھڑے ہوئے۔  

گودی میڈیا نے راہل گاندھی کے امریکی دورے پر جو  طوفان بدتمیزی  برپا کیا اس کی ایک بنیاد ان کی ایک  ایسے وفد سے ملاقات تھی جس میں الہان عمر شامل تھیں ۔ اس تصویر کے ساتھ بی جے پی آئی ٹی سیل الزمات کا انبار لگادیا۔   ا ن میں سے ایک تھا الہان نے امریکہ میں پی ایم مودی کے خطاب کا بائیکاٹ کیا تھا۔یہ کام تو ہندوستان  کی ایوان پارلیمان میں آئے دن ہوتا ہے تو کیااس کا ارتکاب کرنے والے سارےارکانِ پارلیمان ملک دشمن ہیں۔ الہان کے ہندوستان مخالف بیانات کا حوالہ دینے والے لوگ بھول گئے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی ہندوستانی نژاد امیدوار کمل ہیرس کئی مرتبہ تنقید  کرچکی ہیں۔ ایسے میں اگر وہ صدر منتخب ہوجائیں تو کیا  مودی جی ان سے نہیں ملیں گے؟    الہان عمرکا  پاک مقبوضہ کشمیر  دورہ بھی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے حالانکہ ابھی حال میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اپنا حصہ کر  انہیں سرحد پار ہندوستان میں شامل ہونے کی ترغیب دے چکےہیں۔  اس کے باوجود  راجناتھ ان لوگوں کے پاس نہیں جاسکے ۔ اب اگر کسی اور نے ہمارے اپنے لوگوں سے سرحد پار  ملاقات کرلی تو ناراضی کی کیا  بات ہے؟

بی جے پی کے ان الزامامت کا جواب دیتے ہوئے  کانگریس رہنما دکشت  نے یاد دلایا کہ  وزیر اعظم نریندر مودی تو پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی خاندانی  تقریب میں شرکت کرنے کے لیے بن بلائے پہنچ گئے تھے  اور چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ  اپنے شہر احمد آباد میں جھولے کا مزہ لے چکے ہیں۔یہ کون نہیں جانتا کہ  بھارت میں پاکستان عسکریت پسندی کو فروغ دیتا ہے اور چین نے زبردستی  سرحد پر سیکڑوں مربع میل پر قبضہ کر رکھا ہے۔  راہل کو ملک دشمن قرار دینے والوں کو اس بنیادی سوال کا جواب دینا چاہیے کہ آخر چھپنّ انچ کی چھاتی  رکھنے والا وزیر اعظم یا ان کا دست راست وزیر داخلہ آخر   راہل گاندھی کو گرفتار کیوں نہیں کرتے ؟ یہ لوگ راہل گاندھی  کی روز افزوں  مقبولیت سے خوفزدہ ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ راہل گرفتاری ان کو شہرت کو   آسمان پر نہ  پہنچا دے ۔ بی جے پی کا دھرم سنکٹ یہ ہے کہ راہل کو ’ چھوڑو تو بھاگتا  ہے اور پکڑو تو کاٹتا ہے‘۔ یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی کے غیر ملکی دورے نے مودی و شاہ کے ناک میں دم کردیا ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر کریں تو کریں کیا؟        

ایک زمانے میں وزیر اعظم اپنی مقبولیت بڑھانے کے غیر ملکی دوروں پر جاکر ناچ رنگ کی محفلیں سجاتے تھے  لیکن اب وہ کھیل  تماشا ماند پڑگیا۔ وزیر اعظم یوروپ و امریکہ جانے کے بجائے برونئی اور سنگاپوراکتفاء کرنے لگے ہیں ۔ اس کے برعکس کانگریس کے رکن پارلیمان و لوک سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما  راہل گاندھی کا امریکی  دورہ عالمی میڈیا میں  سرخیوں میں چھا گیا ۔راہل گاندھی نے رقص و سرود کی محفل سجانے  یا اول فول تقاریر کرنے کے بجائے یونیورسٹی میں خطاب کیا، بنیادی مسائل پر لوگوں کے ساتھ گفت و شنید  کی اور پی ایم مودی  سمیت  آر ایس ایس کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی۔ ان اعتراضات پربی جے پی کے پاس  ملک دشمنی کا الزام  لگانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھالیکن اس دوران آئی ٹی سیل کو  ریزرویشن ، انتخابات کی شفافیت اورسکھوں  پر چند ایسے نکات مل گئے کہ جن کی مدد سے راہل گاندھی کے اس کامیاب دورے پر انگشت نمائی کی ناکام کوشش کی مگر ناکام ہوگئے تو مودی جی روہت شرما کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی کے تنکے سے خود ڈوبنے سے بچانے میں لگ گئے  لیکن اب اس جہاز میں اتنا بڑا سوراخ ہوگیا ہے کہ اسے ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا    ۔

 

 

Comments are closed.