مسلمانوں کے مسائل اور ریفرینڈم

مسعود محبوب خان (ممبئی)
09422724040

ریفرینڈم، جسے اُردو میں استصواب رائے کہا جاتا ہے، ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے عوامی سطح پر کسی خاص مسئلے یا پالیسی پر براہ راست رائے شماری کی جاتی ہے۔ خاص طور پر جب کسی معاملے پر عوامی حمایت یا مخالفت کو جانچنا مقصود ہو۔ جہاں تک مسلمانوں کے مسائل کا تعلق ہے، ریفرینڈم بذاتِ خود ان مسائل کا مکمل حل نہیں ہے۔ ریفرینڈم ایک جمہوری آلہ ہوسکتا ہے، لیکن مسلمانوں کے مسائل کا حل صرف اس میں نہیں ہے۔ ان مسائل کا حل معاشرتی شعور، قانونی اور آئینی اصلاحات، تعلیم، اور معاشی ترقی کے ذریعے زیادہ پائیدار اور جامع طریقے سے ہوسکتا ہے۔ جس کی چند وجوہات ہیں۔

عصرِ حاضر کے دشوار مسائل اور حل کی راہیں

مسلمانوں کے مسائل مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، جیسے سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی، اور مذہبی۔ ہر مسئلہ کا حل عوامی ریفرینڈم کے ذریعے ممکن نہیں کیونکہ ان مسائل کے حل کے لیے گہرائی سے تحقیق، قانونی و آئینی اقدامات، اور درست پالیسی سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔

مسلمانوں کے مسائل کی پیچیدگی اور ان کے حل کے لیے ریفرینڈم کو ناکافی سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے مختلف نوعیت کے مسائل کا تفصیلی جائزہ لیں۔ سیاسی میدان میں مسلمانوں کو نمائندگی کی کمی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے؛ کئی ممالک میں مسلمان اپنی تعداد کے مطابق سیاسی نمائندگی حاصل نہیں کر پاتے، جس کے نتیجے میں ان کے مسائل پالیسی سطح پر خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں کر پاتے۔ سیاسی جماعتیں اکثر مسلمانوں کو محض ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ان کا استحصال کرتی ہیں، مگر ان کے حقیقی مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ مزید برآں، مسلمانوں کو بعض اوقات قوانین اور سرکاری پالیسیوں میں امتیازی سلوک اور جانبداری کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، جیسے مذہبی آزادی پر پابندیاں یا سکیورٹی کے نام پر ان کی غیر ضروری نگرانی وغیرہ۔

ان سیاسی مسائل کے حل کے لیے ریفرینڈم کا طریقہ ناکافی ہے، کیونکہ عوامی ریفرینڈم میں اکثریت کی رائے غالب ہوتی ہے اور مسلمان اقلیت ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل پیچھے چلے جاتے ہیں۔ سیاسی مسائل کا حل آئینی اصلاحات، شفاف نمائندگی اور بہتر پالیسی سازی کے ذریعے ممکن ہے، جو عوامی ووٹنگ کے بجائے منتخب نمائندوں اور عدالتوں کے دائرہ کار میں آتا ہے۔

مسلمانوں کو سماجی میدان میں مختلف طرح کے مسائل درپیش ہیں، جیسے بہت سی جگہوں پر مسلمانوں کو ان کے مذہبی تشخص کی وجہ سے امتیازی سلوک و تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تعلیمی اور معاشی میدان میں پسماندہ ہے، جو ان کی سماجی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔
مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان ہم آہنگی کی کمی اور مذہبی اختلافات اکثر تنازعات اور تشدّد کا سبب بنتے ہیں۔ ان مسائل کا حل ریفرینڈم میں نہیں ہے کیونکہ یہ مسائل معاشرتی رویوں اور ادارہ جاتی اصلاحات سے جڑے ہیں۔ اس کے لیے تعلیم، سماجی شعور اور قانونی تحفّظات کی ضرورت ہے، جو ریفرینڈم سے ممکن نہیں۔ سماجی مسائل کے حل کے لیے بین المذاہب مکالمہ، امن کی تعلیم اور سماجی انصاف پر مبنی پالیسیاں درکار ہیں۔

مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال زیادہ تر پسماندہ ہے، جو مختلف وجوہات کی بنا پر ہے، جیسے تعلیمی اداروں تک رسائی میں کمی، مسلمانوں کے بہت سے علاقے معیاری تعلیمی اداروں سے محروم ہیں۔ بعض علاقوں میں مسلمان بچّوں کو امتیازی سلوک اور فرقہ وارانہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے ممالک میں مسلمانوں کے تعلیمی ادارے حکومتی حمایت اور فنڈنگ سے محروم ہیں۔
تعلیمی مسائل کا حل ریفرینڈم نہیں ہو سکتا کیونکہ تعلیمی پالیسی سازی، حکومت کی ذمّہ داری ہوتی ہے اور اسے بہتر بنانے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مسائل تعلیمی نظام میں اصلاحات، اسکالرشپ، سرکاری امداد اور مسلمان بچّوں کے لیے بہتر تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔

مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد معاشی مشکلات کا شکار ہے، مسلمانوں کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہیں، جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو بعض ممالک میں مالیاتی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے مناسب سہولتیں اور مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ بہت سے مسلمان کاروباری مواقع، حکومتی قرضۂ جات، اور معاشی ترقیاتی منصوبوں سے محروم رہتے ہیں۔ ریفرینڈم ان معاشی مسائل کا حل نہیں ہوسکتا کیونکہ معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے پالیسی سازی، بجٹ مختص کرنا، اور مالیاتی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشی ترقی کے لیے مسلمانوں کے لیے کاروباری مواقع پیدا کرنے، ٹریننگ پروگرامز اور روزگار فراہم کرنے کی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کو مذہبی آزادی اور شناخت کے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔ جیسے مذہبی آزادی پر قدغن، کئی ممالک میں مسلمانوں کو مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے اور اپنے مذہبی اداروں کو چلانے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر مسلمانوں کے مذہبی رسومات کو محدود کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر حملے اور ان کی بے حرمتی کے واقعات عام ہیں۔ ان مذہبی مسائل کا حل بھی ریفرینڈم سے ممکن نہیں کیونکہ مذہبی حقوق آئینی اور قانونی تحفّظات کے ذریعے یقینی بنائے جاتے ہیں۔ ریفرینڈم میں اکثریت کی رائے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے خلاف جاسکتی ہے، اس لیے ان مسائل کا حل قانونی اقدامات اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ہے۔

مسلمانوں کے مسائل سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور مذہبی نوعیت کے ہیں، اور ان کا حل گہری تحقیق، آئینی اور قانونی اصلاحات، اور درست پالیسی سازی کے ذریعے ممکن ہے۔ ریفرینڈم ایک عوامی رائے معلوم کرنے کا طریقہ ہے، لیکن یہ مسائل کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا اور اکثریتی رائے کے دباؤ میں اقلیتوں کے حقوق کو نظر انداز کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کا پائیدار حل ادارہ جاتی اصلاحات، حکومتی اقدامات، اور معاشرتی شعور کے فروغ میں مضمر ہے۔

اقلیتی حقوق کا تحفّظ اور ریفرینڈم

مسلمانوں کو اکثر اقلیتی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور ریفرینڈم میں اکثریتی آبادی کی رائے کا غالب اثر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ اکثریت کی رائے اقلیتی حقوق اور مسائل کو نظر انداز کر دے۔ مسلمانوں کی اقلیت ہونے کی حیثیت میں ان کے حقوق اور مسائل کی اہمیت کا احساس اکثر اکثریتی آبادی کو نہیں ہوتا، یا بعض صورتوں میں اکثریتی آبادی اقلیت کے حقوق کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں اکثریت کو عوامی رائے کا اختیار ملتا ہے، اور ریفرینڈم جیسے طریقہ کار میں اکثریتی ووٹ کا غلبہ ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اکثریت کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جب مسائل یا قوانین پر ریفرینڈم کیا جاتا ہے، تو اکثریتی طبقہ اپنے مفادات کو فوقیت دیتا ہے، اور اقلیتی مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے، خاص طور پر اگر ان مسائل کو اکثریتی مفادات سے متضاد تصور کیا جائے۔ اکثریتی آبادی کے پاس اقلیتوں کی ضروریات اور ان کے ثقافتی، مذہبی، یا سماجی مسائل کی مکمل سمجھ نہ ہونے کے فقدان کی وجہ سے وہ ان مسائل کی حساسیت کو صحیح طریقے سے سمجھنے میں ناکام رہتی ہیں۔

ریفرینڈم کا عمل براہ راست جمہوریت کا ایک اہم حربہ ہے، جہاں عوام کی اکثریتی رائے کو قانون یا پالیسی کے فیصلوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن جب کسی ملک یا معاشرے میں اقلیتیں اپنی مخصوص ضروریات اور مسائل کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، تو اکثریتی دباؤ ان کے حقوق کی پامالی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اکثریتی طبقہ بعض اوقات اپنی رائے کے ذریعے ایسے قوانین پاس کرواتا ہے جو اقلیتوں کے لیے نقصان دہ ہوں یا ان کی مذہبی یا ثقافتی آزادیوں کو محدود کریں۔ چونکہ ریفرینڈم میں اکثریتی ووٹ کا اثر زیادہ ہوتا ہے، اس لیے یہ ممکن ہے کہ اکثریت غیر جانبداری کا مظاہرہ نہ کرے اور اپنی ذاتی یا گروہی مفادات کو سامنے رکھ کر رائے دے، جس سے اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔

ریفرینڈم کے ذریعے فیصلے لینے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں عوامی رائے کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں، اور عوامی رائے اکثر جذبات، تعصبات یا مخصوص مفادات سے متاثر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، اقلیتی مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے زیادہ گہرے مطالعے، علمی مباحثے اور قانونی تحفّظات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی ملک میں حجاب پہننے یا مذہبی رسومات پر پابندی جیسے موضوعات پر ریفرینڈم کرایا جا سکتا ہے۔ اکثریت اپنی ثقافتی یا سیکولر اقدار کے مطابق فیصلہ کرے گی، اور ممکن ہے کہ اقلیتی مسلمان عورتوں کے حجاب پہننے کے حق کو محدود کرنے کے حق میں ووٹ دے، جب کہ یہ ان کی مذہبی آزادی کا حصّہ ہے۔ بعض اوقات اکثریتی طبقے کے اندر اقلیتوں کے خلاف تعصب پایا جاتا ہے، اور یہ تعصبات ریفرینڈم کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، جس سے اقلیتوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اقلیتوں کے حقوق کا تحفّظ آئین اور قوانین کے ذریعے کیا جانا چاہیے، نہ کہ عوامی رائے پر چھوڑا جانا چاہیے۔ ریفرینڈم کا عمل، اگرچہ جمہوری اقدار کا حصّہ ہے، لیکن یہ اقلیتوں کے حساس مسائل کو حل کرنے کے لیے مناسب طریقہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اقلیتوں کو اپنی مذہبی آزادی، ثقافتی شناخت، اور تعلیمی حقوق کے لیے آئینی اور قانونی تحفّظات کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے حقوق اکثریتی دباؤ کے تحت پامال نہ ہوں۔ عوامی رائے اکثر وقتی اور حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ ایسی رائے کے ذریعے اقلیتی حقوق کے مستقل اور پائیدار حل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

دنیا کے مختلف ممالک میں ریفرینڈم یا عوامی رائے شماری کے ذریعے اقلیتوں کے حقوق پر اثر انداز ہونے کی مثالیں موجود ہیں۔ 2009ء میں سوئٹزرلینڈ میں ایک ریفرینڈم کے ذریعے مسلمانوں کے لیے نئی مساجد کے منارے تعمیر کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس ریفرینڈم میں اکثریتی رائے نے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کو محدود کیا، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ریفرینڈم کے ذریعے اقلیتی مسائل کا مناسب حل نہیں نکالا جا سکتا۔ فرانس میں حجاب اور برقعے پر پابندیوں کا فیصلہ بھی عوامی رائے کے دباؤ کے تحت لیا گیا، جس میں مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کو محدود کیا گیا۔ برطانیہ (2016ء) میں بریگزٹ کے دوران تارکین وطن اور اقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا، جس کا اثر ریفرینڈم کے نتائج پر واضح تھا۔ اس دوران مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو شدید نفرت انگیز مہمات کا سامنا کرنا پڑا۔

ریفرینڈم کے ذریعے فیصلے کرتے وقت اقلیتوں کے حقوق کا تحفّظ نہیں ہو پاتا، کیونکہ اکثریتی آبادی کی رائے غالب ہوتی ہے جو اکثر اقلیتوں کے مسائل کو نظر انداز کرتی ہے۔ اقلیتی حقوق کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں آئینی اور قانونی تحفّظات فراہم کیے جائیں تاکہ اکثریتی دباؤ یا تعصبات کی وجہ سے ان کے حقوق پامال نہ ہوں۔ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ریفرینڈم کے بجائے زیادہ مناسب طریقے آئینی اصلاحات، قانونی تحفّظات اور سماجی انصاف پر مبنی پالیسی سازی ہیں۔

ریفرینڈم کا منصفانہ انعقاد

بہت سے معاملات میں ریفرینڈم کا منصفانہ اور آزادانہ انعقاد بھی ایک چیلنج ہوتا ہے، خاص طور پر جب معاشرے میں تعصب یا جانبداری موجود ہو۔ اگر کسی معاشرے میں تعصب یا اقلیتوں کے خلاف جذبات پہلے سے موجود ہوں، تو یہ ریفرینڈم کے نتائج پر گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ خاص طور پر جب کوئی اکثریتی طبقہ کسی اقلیتی گروہ کے مسائل یا حقوق کے بارے میں رائے دہی کرتا ہے، تو تعصب کی بنیاد پر نتائج اکثر غیر منصفانہ ہوتے ہیں۔ اکثریت اکثر اپنی ترجیحات اور مفادات کی حفاظت کرتی ہے، اور اقلیتوں کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہے۔ یہ معاشرتی تعصب کا نتیجہ ہوتا ہے، جہاں اکثریتی طبقہ اقلیتی گروہ کے خلاف یا ان کے مسائل کو غیر اہم سمجھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ اگر کسی ملک میں نسلی، مذہبی یا ثقافتی تقسیم واضح ہو تو ریفرینڈم کے ذریعے کیے جانے والے فیصلے زیادہ تر اکثریتی رائے پر مبنی ہوں گے، جو کہ اکثر اقلیتوں کے خلاف ہوتی ہے۔

ریفرینڈم کے دوران عوامی رائے سازی کی مہمات بہت اہم ہوتی ہیں۔ لیکن بعض صورتوں میں تعصب یا جانبداری پر مبنی مہمات ریفرینڈم کے نتائج کو متاثر کرتی ہیں۔ ریفرینڈم کی مہمات کے دوران میڈیا، سوشل میڈیا، اور دیگر ذرائع کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اقلیتی مسائل یا حقوق کے خلاف رائے عامہ کو موڑنے کی کوشش کی جاسکے۔ ایسی صورت میں ریفرینڈم کا منصفانہ انعقاد مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ عوام کو غیر حقیقی یا جانبدارانہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ سیاست دان یا مذہبی رہنما بھی عوامی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں، خصوصاً جب وہ عوامی جذبات کو بھڑکاتے ہیں اور اقلیتوں کے مسائل کو غیر ضروری یا متنازعہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

منصفانہ ریفرینڈم کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام افراد اپنی رائے آزادانہ طور پر دے سکیں، لیکن جب معاشرے میں اقلیتی گروہوں پر اکثریتی دباؤ موجود ہو تو آزادانہ رائے دہی ممکن نہیں رہتی۔ اقلیتی رائے دہندگان اکثر اکثریتی دباؤ کے تحت اپنے حقوق کے لیے رائے دینے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ ان کی رائے ان کے خلاف استعمال کی جاسکتی ہے یا ان کی کمیونٹی کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اقلیتوں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر ان کی رائے اکثریت کے خلاف جاتی ہے تو ان کے حقوق اور حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں، اس لیے وہ اکثر اپنا ووٹ اکثریتی سوچ کے ساتھ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ریفرینڈم کے دوران قانونی اور انتظامی چیلنجز بھی منصفانہ انعقاد میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اگر ریفرینڈم کی نگرانی کرنے والے ادارے غیر جانبدار نہ ہوں یا ان پر اکثریتی یا حکومتی دباؤ ہو، تو اس سے ریفرینڈم کے نتائج غیر منصفانہ ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں ریفرینڈم کا پورا عمل شفافیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر انتخابی عمل منظم نہ ہو یا ووٹنگ کی صحیح نگرانی نہ کی جائے، تو ریفرینڈم کے دوران دھاندلی، ووٹوں کی گنتی میں غلطیاں، یا رائے دہی میں رکاوٹیں ڈالنے جیسے مسائل سامنے آتے ہیں، جو اقلیتوں کے لیے غیر منصفانہ نتائج پیدا کرتے ہیں۔

سیاسی اہداف اور حکمت عملی

ریفرینڈم کو اکثر سیاسی مقاصد کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، اور اس سے مسائل کی حقیقی نوعیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی بجائے انہیں سیاسی چالوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ ریفرینڈم کو سیاسی مقاصد کے تحت استعمال کرنا ایک عام عمل ہے، اور اس کے ذریعے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی بجائے اکثر عوامی توجہ کو کسی دوسرے مسئلے کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ خاص طور پر اقلیتوں، جیسے مسلمانوں، کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی بجائے انہیں سیاسی چالوں کا شکار بنایا جاتا ہے۔

سیاست دان اکثر ریفرینڈم کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عوامی رائے دہی کے اس عمل کو اکثر ایسے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو سیاسی پارٹیوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، بجائے اس کے کہ عوام یا اقلیتوں کے حقیقی مسائل حل ہوں۔ بہت سے مواقع پر، سیاسی رہنما ریفرینڈم کا انعقاد صرف اپنے سیاسی فائدے کے لیے کرتے ہیں تاکہ وہ عوام کی حمایت حاصل کر سکیں یا اپنی پارٹی کی ساکھ کو مضبوط بنا سکیں۔ اس دوران، اقلیتوں کے اہم مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ریفرینڈم میں اکثر سوالات کو اس طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ عوام کو کسی خاص سمت میں سوچنے پر مجبور کیا جائے۔ اس سے مسائل کی اصل نوعیت کو چھپایا جاتا ہے، اور اقلیتوں کے حقیقی مسائل پر بات نہیں ہوتی۔

جب ریفرینڈم کو سیاسی مقاصد کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، تو اقلیتوں کے مسائل کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے یا ان کی اہمیت کو کم کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد صرف اکثریت کو مطمئن کرنا اور اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل، جیسے معاشی محرومی، تعلیمی پسماندگی، اور سماجی تفریق، اکثر سیاسی ایجنڈے میں شامل نہیں ہوتے۔ ریفرینڈم کے ذریعے یہ مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں، کیونکہ ان کا ذکر یا تو کیا ہی نہیں جاتا یا پھر ان کے حل کی جانب کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ اکثر ریفرینڈم ایسے موضوعات پر کروایا جاتا ہے جو اکثریتی عوام کے جذبات سے وابستہ ہوں، مثلاً قومی سلامتی یا ملک کی سالمیت، جب کہ اقلیتوں کے سماجی یا اقتصادی مسائل کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

ریفرینڈم کے دوران سیاست دان اقلیتوں کے مسائل کو سیاسی چالوں کے ذریعے کشیدہ بنا دیتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ دوسری طرف منتقل ہو جائے۔ اس سے اقلیتوں کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ ان کے مسائل پر براہِ راست توجہ نہیں دی جاتی۔ مسلمانوں کے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ان کے حقوق یا مسائل کو ریفرینڈم کے ذریعے سیاست کا شکار بنایا جاتا ہے۔ ان کے مسائل کا کوئی حل نکالنے کی بجائے، انہیں سیاست دانوں کے ایجنڈے کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے، اور ان کے حقیقی مسائل دب جاتے ہیں۔ بعض اوقات ریفرینڈم کو صرف انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دوران اقلیتوں کے مسائل کو انتخابی ایجنڈے میں شامل کیا جاتا ہے، لیکن ان مسائل کا کوئی عملی حل پیش نہیں کیا جاتا، اور انہیں صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ریفرینڈم کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال معاشرے میں پولرائزیشن اور تقسیم کو بڑھاتا ہے۔ اقلیتوں کے مسائل کو ایسے مسائل کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے جو عوام کو جذباتی بنا دیں اور انہیں آپس میں تقسیم کر دیں۔ ریفرینڈم کے دوران بعض سیاست دان مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اکثریتی طبقہ ان کے حق میں ووٹ دے۔ اس سے مسلمانوں کے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں اور ان کے خلاف نفرت انگیزی کو فروغ ملتا ہے۔ جب ریفرینڈم کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تو معاشرہ تقسیم ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں جیسے اقلیتی گروہ اس تقسیم کا شکار بنتے ہیں اور ان کے مسائل مزید نظر انداز کیے جاتے ہیں۔

تاریخ میں کئی ریفرینڈم ایسے ہوئے ہیں جہاں سیاسی مقاصد کے تحت اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ترکی میں 2017ء میں ہونے والا ریفرینڈم صدر رجب طیب اردگان کی سیاسی طاقت کو بڑھانے کے لیے تھا۔ اس دوران کرد اقلیت کے مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور ریفرینڈم کا استعمال صرف سیاسی مقاصد کے لیے کیا گیا۔ الجزائر (1961ء) میں فرانس کے خلاف آزادی کے ریفرینڈم کے دوران مسلمانوں کے حقوق اور ان کی سیاسی خودمختاری کے سوالات کو نظر انداز کیا گیا، اور اس کا استعمال صرف فرانسیسی حکومت کے سیاسی مفادات کے تحت کیا گیا۔

ریفرینڈم کو اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی بجائے انہیں سیاسی چالوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ سیاسی رہنما عوامی رائے کو اپنے حق میں کرنے کے لیے ریفرینڈم کا انعقاد کرتے ہیں، لیکن اس عمل میں اقلیتوں کے مسائل یا تو نظر انداز ہو جاتے ہیں یا پھر ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ریفرینڈم کے بجائے منظم، غیر جانبدارانہ اور آئینی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

قانونی اور آئینی مسائل

بعض مسائل، جیسے مذہبی آزادی، تعلیمی مواقع، اور سماجی انصاف، آئینی تحفّظات کے دائرے میں آتے ہیں جنہیں ریفرینڈم کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ قانونی اور آئینی معاملات جیسے مذہبی آزادی، تعلیمی مواقع، اور سماجی انصاف کی حیثیت ایک ملک کے بنیادی آئینی اصولوں اور قوانین میں طے کی جاتی ہے۔ یہ مسائل انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے متعلق ہوتے ہیں، جنہیں ریفرینڈم جیسے عوامی ووٹ کے ذریعے حل کرنا مناسب نہیں ہوتا، کیونکہ ان معاملات کا حل آئینی تحفّظات اور قانونی دائرے میں ہوتا ہے۔

آئینی حقوق ایک ریاست کے بنیادی قوانین کا حصّہ ہوتے ہیں، جن کا مقصد تمام شہریوں کو بلا تفریق مذہب، نسل، یا زبان کے، برابر کے حقوق فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ریفرینڈم کے ذریعے اکثریتی عوام کی رائے کو اقلیتوں پر مسلّط کرنا ان حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ آئین عام طور پر شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر ریفرینڈم کے ذریعے اکثریتی رائے کو بنیاد بنا کر اقلیتوں کے مذہبی حقوق کو محدود کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہو گی۔ مثلاً، کسی مذہبی علامت یا عبادت پر پابندی کے لیے ریفرینڈم کرانے سے آئین کی فراہم کردہ مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ اقلیتوں کو آئین میں فراہم کردہ تعلیمی حقوق، جیسے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے یا اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق، ریفرینڈم کے ذریعے متاثر ہوتا ہے۔ آئین ان حقوق کا تحفّظ کرتا ہے، اور انہیں کسی عوامی ووٹ کے ذریعے ختم یا محدود نہیں کیا جاتا۔

آئینی اور قانونی مسائل عام عوام کی رائے سے زیادہ ماہرین کی گہرائی سے تجزیہ اور قانونی تشریح کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ مسائل عمومی طور پر کٹھن ہوتے ہیں اور ان کا فیصلہ عدالتوں یا پارلیمنٹ جیسے قانونی اداروں میں کیا جاتا ہے، نہ کہ ریفرینڈم کے ذریعے۔ بہت سے آئینی مسائل جیسے سماجی انصاف، حقِ ملکیت، یا مذہبی قوانین کی تشریح انتہائی کٹھن ہوتی ہے اور ان میں قانونی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریفرینڈم میں عوامی رائے اکثر جذباتی ہوتی ہے اور قانونی نکات کو مدّنظر نہیں رکھتی، جس کی وجہ سے آئینی حقوق کا تحفّظ متاثر ہوتا ہے۔

آئین خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے تاکہ اکثریتی طاقت کے ناجائز استعمال سے بچا جا سکے۔ ریفرینڈم میں اکثریتی رائے عام طور پر غالب ہوتی ہے، جو اقلیتوں کے حقوق کو محدود کر سکتی ہے۔ اقلیتوں کو سماجی انصاف کی فراہمی ایک آئینی ذمّہ داری ہوتی ہے۔ اگر ریفرینڈم کے ذریعے سماجی اصلاحات یا انصاف کے قوانین میں تبدیلی کی جاتی ہے، تو اس کا اثر اقلیتوں پر منفی ہو سکتا ہے۔ مثلاً، کوئی ریفرینڈم اگر تعلیمی کوٹہ یا ملازمتوں میں ریزرویشن کے خلاف ہوتا ہے تو یہ اقلیتوں کے سماجی انصاف کے حق کو متاثر کر سکتا ہے۔ آئین میں اقلیتوں کو اپنی مذہبی تعلیم و تربیت اور رسم و رواج پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ اگر اکثریتی عوام کی رائے کسی ریفرینڈم میں اس آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کرے تو یہ آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، کیونکہ آئین میں مذہبی آزادی کو خصوصی تحفّظ حاصل ہوتا ہے۔

آئینی مسائل کا حل ریفرینڈم کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، کیونکہ یہ مسائل عدالتوں، پارلیمنٹ، یا آئین ساز اداروں کے دائرہ اختیار میں ہوتے ہیں۔ ریفرینڈم عوامی رائے جاننے کا ایک طریقہ ہے، لیکن اسے آئینی یا قانونی فیصلوں کے لیے حتمی ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔ آئینی اور قانونی مسائل، جیسے مذہبی آزادی، تعلیمی مواقع، اور سماجی انصاف، کو ریفرینڈم کے ذریعے حل کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ معاملات آئینی تحفّظات کے تحت آتے ہیں۔ آئین اقلیتوں کے حقوق کا تحفّظ کرتا ہے اور انہیں اکثریتی رائے کی بنیاد پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے آئین، عدالتوں اور پارلیمنٹ جیسے اداروں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، جو قانونی ماہرین کی مدد سے ان مسائل کا مستقل اور منصفانہ حل تلاش کرتے ہیں۔

مسلمانوں کے مسائل دشوار گزار اور مختلف النوع ہیں، جن کا حل محض ریفرینڈم یا عوامی ووٹنگ کے ذریعے ممکن نہیں۔ ریفرینڈم جیسے جمہوری طریقہ کار اکثر اکثریتی رائے کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے اقلیتوں کے حقوق اور مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے آئینی اصلاحات، منصفانہ نمائندگی، اور قانون کی پاسداری پر مبنی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ یہ مسائل زیادہ گہرائی اور جامع حکمت عملی کے متقاضی ہیں، جن میں تعلیمی ترقی، سماجی شعور کی بیداری، اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اقلیتی حقوق کا تحفّظ اور ان کے مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہوگا جب ریاستی اور معاشرتی سطح پر انصاف اور برابری کے اصولوں کو اپنایا جائے گا۔

ریفرینڈم کے علاؤہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے کئی مؤثر طریقے ہوسکتے ہیں، مثلاً:
مسلمانوں کے حقوق کو آئینی سطح پر تحفّظ دیا جائے، تاکہ ان کے مذہبی، سماجی، اور سیاسی حقوق محفوظ رہیں۔ قانون سازی میں اقلیتوں کی ضروریات کو مدِنظر رکھا جائے اور ان کے ساتھ ہونے والی کسی بھی تفریق کا مؤثر سدّباب ہو۔ مسلمانوں کو سیاسی میدان میں مناسب نمائندگی دی جائے، تاکہ ان کے مسائل قانون ساز اداروں تک پہنچ سکیں اور پالیسی سازی میں ان کی آواز شامل ہو۔ معاشرتی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک اور تعصب کے خلاف مہم چلائی جائے۔ بین المذاہب مکالمہ اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے پروگرامز تشکیل دیے جائیں تاکہ مختلف طبقات کے درمیان فرق کو کم کیا جا سکے۔

اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے مستقل قانونی ادارے، کمیشن یا کمیٹیاں بنائی جائیں، جو مسلمانوں کے مسائل کو مانیٹر کریں اور فوری کارروائی کریں۔ مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے انہیں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں، کاروباری سہولیات اور چھوٹے کاروباروں کے لیے قرضہ جات دیے جائیں، تاکہ ان کی معاشی حالت بہتر ہو سکے۔ بین المذاہب مکالمے کے ذریعے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان سمجھ بوجھ اور اعتماد کو فروغ دیا جائے، تاکہ سماجی ہم آہنگی پیدا ہو اور تعصبات کم ہوں۔ میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کیا جائے اور ان کے حقوق کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے، تاکہ معاشرتی سطح پر تبدیلی آئے اور مسلمانوں کے خلاف تعصبات کا خاتمہ ہو۔

ان تمام اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کے مسائل کا پائیدار حل ممکن ہے، جو ریفرینڈم جیسے عوامی فیصلوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور دیرپا ثابت ہو سکتے ہیں۔ ریفرینڈم کے علاؤہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے چند مؤثر اور زیادہ جارحانہ طریقے درج ذیل ہیں۔

جب مسلمانوں کے حقوق پامال ہوں یا انہیں آئینی تحفّظات کے باوجود امتیازی سلوک کا سامنا ہو، تو مؤثر طریقہ یہ ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات دائر کیے جائیں تاکہ مسلمانوں کے آئینی حقوق کا تحفّظ یقینی بنایا جا سکے۔ حالانکہ کئی معاملات میں اس کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ مگر کم از کم ایک تحریری طور پر دستاویزات ضرور تیار ہو جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ناانصافی اور تعصب کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع کی جا سکتی ہیں۔ منظم اور پُرامن احتجاج، دھرنے، اور ریلیاں عوامی اور حکومتی سطح پر توجہ مبذول کرانے کا ایک جارحانہ طریقہ ہو سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے حکام پر دباؤ ڈالا جاسکتا کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لیے فوری کارروائی کریں۔

اگر کسی ملک میں مسلمانوں کے حقوق مسلسل پامال ہو رہے ہوں، تو بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ، او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن)، اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے بین الاقوامی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے تاکہ اس ملک کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روکنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اگر کوئی حکومت یا ادارہ مسلمانوں کے ساتھ منظم طور پر امتیاز برت رہا ہو، تو اس کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ کا طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، مسلمانوں سے وابستہ کاروبار اور تجارتوں کو بائیکاٹ کرنا یا اپنے وسائل کو استعمال نہ ہونے دینا ایک جارحانہ قدم ہوسکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر جارحانہ مہمات چلائی جاسکتی ہیں، جن میں تعصب اور ظلم کے خلاف آگاہی دی جائے اور عوامی رائے کو حکومت کے خلاف منظم کیا جائے۔ ٹرینڈنگ ہیش ٹیگز، ویڈیوز اور پوسٹس کے ذریعے عالمی سطح پر معاملے کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔ مسلمان اپنی طاقت کو منظم اور مضبوط کریں اور اپنی ترجیحات کو عوامی سطح پر پیش کریں۔ اتحاد بنا کر سیاسی جماعتوں پر زیادہ دباؤ ڈالا جا سکتا ہے تاکہ ان کے مسائل کو ایوانوں میں مؤثر طریقے سے پیش کیا جا سکے۔ یہ جارحانہ طریقے وقتی حالات اور ضروریات کے مطابق استعمال کیے جا سکتے ہیں، تاکہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفّظ اور ان کے مسائل کے حل میں تیزی لائی جا سکے۔

Comments are closed.