ظریفانہ: آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ

 

ڈاکٹر سلیم خان

للن جونپوری نے کلن  سورتی سے کہا یار یہ اپنے شاہ جی  نے مودی جی کی سالگرہ کے رنگ میں بھنگ کیوں ڈال دیا؟

کلن نے چونک کر کہاارے اس کی کیا مجال کہ ایسی جرأت کرے ؟ یہ ناممکن ہے۔   پردھان جی اسے  پھر سے   تڑی پار کردیں گے۔

اچھا  !ایسا ہے تو  بتاو کہ انہیں سالگرہ    کے دن یہ کہنے کی کیا  ضرورت تھی کہ وہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کرائیں گے ؟ موڈ خراب ہوگیاقسم سے۔

یار للن سمجھتے کیوں نہیں ۔ وہ اگر ایسا نہ کہتے تو کیا کہتے ؟

وہی کہہ دیتے جو ستمبر2021 میں عدالتِ عظمیٰ کے اندر کہا تھا کہ پسماندہ ذاتوں کی مردم شماری اس قدر پیچیدہ ہے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔

بھیا تم سمجھتے کیوں نہیں ؟ اس وقت ہم اپنے بل پر حکومت کررہے تھے ۔ اب یہ سرکار بیساکھیوں پر ہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ۰۰۰۰

للن نے کلن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور بولا کم ازکم آج کے دن تو اشبھ نہ بولو۔ ہماری سرکار کبھی نہیں گرے گی ۔ ہم قیامت تک حکومت کریں گے

پیچھے سے جمن بھونیشوری کی آواز آئی ’ہم انتظار کریں گے تیرا قیامت تک ، خدا کرے کہ قیامت ہو اور یہ گرے ‘۔

کلن بولا یار جمن تمہاری حاضر جوابی کا جواب نہیں ۔ کیا موضوع نغمہ  یاد کیا ۔ مزہ آگیا قسم سے ۔

للن لال پیلا ہوکر بولا تم دونوں پاگل ہوگئے ہو کیا ؟ آج پردھان جی سالگرہ ہے اور تم ان کی سرکار گرانے کی دہائی دے رہے ہو؟

جمن بولا ارے بھیا ہم کون ہوتے ہیں سرکار گرانے والے وہ تو خود اپنے وزن سے ٹوٹ  رہی ہے ۔

کلن بولا یہ تم کیا کہہ رہے ہو جمن سرکار کی ٹوٹ پھوٹ کے بارے میں تمہیں کس نے بتایا ؟

جمن نے کہا اچھا تم نے رام مندر سے پانی رستے نہیں دیکھا اور پھر پارلیمانی عمارت  میں سیلاب ۔ ویسے سڑکوں اور پلوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ۔

للن بولا یار تم سرکار کو چھوڑ کر مندر اور ایوان پارلیمان کی عمارت میں گھس گئے ۔ یہ بہت بری بات ہے ۔ ان کے درمیان کون سا پل ہے ؟

جمن نے کہا یہ سرکار بھی تو مندر سے نکل کر ایوانِ پارلیمان میں جاگھسی  لیکن اب وہ پُل ٹوٹ رہا ہے۔

للن نے کہا اچھا اب سمجھ میں آیا کہ پردھان جی الیکشن مہم کے بعد ایودھیا کیوں نہیں آئے؟ کم ازکم اپنی سالگرہ منانے ہی آجاتے ؟

کلن بولا کیوں آتے؟ تم لوگوں نے وہاں اودھیش پرشاد پاسی کو کامیاب کردیا ۔ اب وہ ایودھیا آئیں گے تو  کیمرا پاسی کی طرف مڑ جائے گا ۔

للن بولا ہاں یار غضب ہوگیا ہم نے رام  کا پران پرتشٹھان    کیا اور اس  کے بعد سائیکل پر اودھیش پرشادپرکٹ(نمودار) ہوگئے۔ قسم سے۰۰

جمن بولا تو اب تم سمجھے کہ پردھان جی ایودھیا سالگرہ منانے کیوں نہیں آئے۔

کلن نے کہا یار ایودھیا والے ایسے ہی ہیں ۔ ۷ بار تو انہوں نے وہاں سے کانگریس کو کامیاب کردیا اور صرف ۵بار ہم کمل والے  جیتے۔

للن نے پوچھا اور  باقی ۶بار کیا ہوا؟

کلن نے کہا اس میں بھی ہمارے مخالف کامیاب ہوتے رہے ۔

للن بولا خیر جو بھی ہو یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اگر ایودھیا میں رام مندر کا تنازع نہ ہوتا تو اٹل اور مودی وزیر اعظم نہیں بن پاتے۔

جمن بولا جی ہاں وہ تو ہے مگر یہ بھی سچائی ہے کہ ایودھیا والے نہ پہلے ہمارے تھے اور نہ اب ہیں ۔ درمیان میں بھٹک گئے تھے پھر سے لوٹ گئے۔

جمن بولا ہاں بھیا ہمیشہ فریب کا شکار نہیں رہا جاسکتا ۔ نفرت کا نشہ جب اترا تو عقل ٹھکانے آگئی ۔   

للن نے سوال کیا اچھا تم ہمیں نصیحت کررہے ہو مگر تم لوگوں کو کیا ہوگیا جو اکیس میں سے بیس امیدوار کا میاب کردئیے ۔

کلن  بیچ میں بول پڑا اچھا تو اب پتہ چلا کہ پردھان جی سالگرہ منانے اترپردیش آنے کے بجائے اڑ کر اڑیشہ کیوں پہنچ گئے ؟

للن نے کہاں ہاں یار جب سے انتخابی نتائج ہیں انہوں نے ایک بار بھی جئے شری رام نہیں کہا ، اب تو دن رات جئے جگناتھ کا ورد کیا جارہاہے ۔

جمن نے کہا لیکن کیا فائدہ ؟ انہوں نے جس طرح ایودھیا والوں کا کوئی بھلا نہیں کیا ویسا ہی ہمارے لوگوں کے ساتھ کریں گے ۔

للن  بگڑ کربولا احسان فراموش! پردھان جی نے وہاں ایک کروڈ خواتین کو ہر ماہ دس ہزار روپیہ دینے کی شروعات کردی ، اور کیا چاہیے؟

کلن نے کہا کمال ہے یار پردھان جی تو پہلے روپیہ بانٹنے کو ریوڑی کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ اس طرح ملک کنگال ہوجائے گا ۔

جمن نے کہا بھیا اب زمانہ بدل گیا ہے ۔ پہلے پردھان جی  کی نقل کی جاتی تھی اب وہ خود راہل کے نقشِ قدم پر چلنے لگے ۔ برا وقت آگیا ہے قسم سے۔

کلن بولا ہاں یار ’آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ ، وہ وادیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ‘۔

للن نے سوال کیا یہ کیا راگ چھیڑ دیا ۔ اب بھی ہماری سرکار ہے پردھان جی وزیر اعظم ہیں ۔ کیا مشکل ہے ؟

یار تمہیں یاد ہے 2019 میں الیکشن کے بعد ہم نے تین طلاق کا قانون منظور کرکے اور کشمیر کی دفع  370 ختم کرکے مسلمانوں کو ٹھیک کردیا تھا ۔

جمن نے کہا لیکن مسلمانوں نے بھی  اوقاف  میں ترمیم کو جے پی سی بھجوا کر انتقام لے لیا  ۔ تین طلاق کا تو حساب برابر ہوگیا ۔

للن نے کہا لیکن کشمیر کا سبق وہ کبھی نہیں بھولیں گے ۔

کلن بولا بس بھی کرو یار ۔ اس بار انتخاب میں ہمیں وادی میں ایک  بھی امیدوار نہیں ملا ۔  

جمن نے کہا ارے بھیاا س بڑی بے عزتی تو  شیخ رشید  کی کامیابی ہے ہم نے اسے جیل میں ڈالا عوام نے منتخب کر ایوان میں بھیجا کیا یہ   بدلہ نہیں ہے؟

کلن نے کہا بھیا سیاست سے قطع نظر مجھے تو اس پر تشویش ہے کہ  پہلے 100دنوں میں جموں کشمیر کے اندر فوج پر    26 بڑے حملے ہوئے۔

جمن نے کہا ہاں اور ان  حملوں میں 21 جوانوں کی موت ہوگئی، 30 فوجی زخمی ہوئے، 15 شہری بھی مارے گئے تو کیا فائدہ 370 ختم کرنے کا؟

کلن نے کہا یار پچھلے 100دنوں کی رسوائیوں نے پچھلے دس سال کے رعب داب پر پانی پھیر دیا ۔

للن نے پوچھا یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟

کلن بولا ارے بھائی وقف ترمیمی بل کے بعد براڈکاسٹنگ کے قانون کا مسودہ بھی واپس لینا پڑا ۔  اسی لیے تو کہتا ہوں’ آتا ہے یاد مجھ کوگزرا ہوا زمانہ ‘ جمن  نے کہا اچھا تو  لیٹرل انٹری کے اشتہار تم بھول گئے جسے ناک رگڑ کر واپس لینا پڑا۔ بجٹ میں بھی  موروثی جائیداد کے ٹیکس پر ناک کٹ گئی ۔

للن نے موضوع بدلتے ہوئے کہا اچھا یار یہ بتاو کہ پردھان کی سالگرہ اور سرکار کے سو دن ایک ساتھ کیسے آگئے؟

کلن بولا یہ کون سا راکٹ سائنس ہے؟ جنم دن جگ ظاہر  ہے  اور حلف برداری کی تاریخ طے کرنے کاا ختیار ہم کو تھا اس لیے دونوں کو جوڑ دیا گیا۔  

جمن بولا لیکن  مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اگر  ہم لوگ اسے نہیں مناتے تو اچھا تھا ؟

للن بولا کیا بکواس کرتے ہو؟  پتہ نہیں آگے اس کا موقع ملے نہ ملے اس لیے پردھان جی اسے کیونکر گنوا سکتے ہیں ۔

کلن نے سوال کیا کیوں کھڑگے سے لے کر مایا وتی تک سبھی نے ان کو درازیٔ عمر کی دعا دی ہے تو وہ اگلے سال بھی اپنا جنم دن منائیں گے ۔

جمن  بولا تم نہیں سمجھے ۔  لوگوں کو یاد دہانی ہوگئی کہ وہ اپنے 75؍ویں سال میں داخل ہوگئے ہیں اس لیےاز خود جائیں گے یا زبردستی بھیجنا پڑے گا؟

للن بولا پردھان جی نان بائیولوجیکل ہیں ۔ ان کو کون بھیج سکتا ہے؟

جمن نے کہا  سنگھ اور کون ؟ نیز اگر وہ نان بایو لوجیکل  ہیں تو ان پر جاکر حکمرانی کریں ۔ انسانوں پر کیوں مسلط ہیں؟

للن نےسوال  کیا یار جمن تم تو حزب اختلاف کی زبان بول رہے ہو۔ آج تم کو کیا ہوگیا ہے؟

کلن بولا جی نہیں حزب اختلاف تو آج ’بیروزگاری کا دن‘ منا رہا ہے ۔

للن نے کہا وہ پاگل ہوگیا ہے ۔ پردھان جی نے بتایا ملک میں بیروزگاری صرف ۲؍ فیصد ہے ۔

کلن بولا یار پردھان جی کو اس عمر میں سوچ سمجھ کر جھوٹ بولنا چاہیے۔  گاوں میں تو کوئی ایمپلائمنٹ ایکسچیج جاتا نہیں اور شہر میں یہ17 فیصد ہے ۔

للن نے پوچھا یہ تم سے کس نے کہہ دیا۔

یہ اقوام متحدہ کا جائزہ ہےنیز شہروں میں پچاسی فیصد نوجوان تعلیمی لیاقت کے مطابق ملازمت نہیں ملنے کے سبب  زوماٹو جیسی نوکری کررہے ہیں۔

للن نے سوال کیا یار ان 100 دنوں کی کم ازکم  ایک  حصولیابی تو  بتا دو جس کا بہت چرچا ہوا ہو؟ میرا تو موڈ خراب ہوگیا قسم سے ۔

جمن ہنس کر بولا بھیا اس بیچ کولکاتہ کی عصمت دری کے واقعہ کی خوب دھوم رہی ۔

للن بولا وہ  تو ممتا کو بدنام کرنے کے لیے   خود ہم ہی لوگوں  اچھالا تھا۔

کلن نے کہا جی ہاں مگر ساری دنیا ممتا کو ہندوستان کا حصہ سمجھتی ہے اس لیے ان کو بدنام کرکے ہم لوگوں نے ملک کا نام روشن نہیں کیا۔

جمن بولا بھیا ان 100 دونوں میں خواتین پر مظالم کے  105 مقدمات درج ہوئے کیا یہی ہے بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو نعرے کی حقیقت ؟

کلن نے کہا بھیا یہ نیا زمانہ ہے اب ہمارا نعرہ ہے  سرکار بچاو اپوزیشن ہٹاو ۔ اس لیےاب پرانے نعرے بھول جاو ۔

جمن بولا یار ایسے میں  مجھے تو جاں  نثار اختر کا شعر ترمیم کے ساتھ یاد آتا ہے؎

آنکھوں میں بسا لوگے تو کانٹوں سے چبھیں گے                              نعرے  فقط ہونٹوں پہ سجانے کے لیے ہیں

 

Comments are closed.