حیدرآباد اے فگارگل بداماں السلام

مسعودمحبوب خان (ممبئی)
09422724040
✦ سقوطِ حیدرآباد: اُمّتِ مسلمہ کی فکری، علمی، اور ثقافتی تنزلی کا تجزیہ
✦ سلطنتِ آصف جاہی کا شاندار عہد
✦ سقوطِ حیدرآباد کے مُحَرّکات
✦ سقوطِ حیدرآباد: ایک تاریخی پس منظر
✦ قاسم رضوی کا کردار: سقوطِ حیدرآباد اور قیادت کی ناکامی
✦ سقوطِ حیدرآباد کے اسباب، وجوہات اور اثرات
✦ برطانوی وفاداری کی قیمت: سلطنت کا زوال
✦ سندر لال رپورٹ کی ناکامی: حیدرآباد میں مظالم اور سردار پٹیل کی پالیسی
✦ اِنْضِمام، اِلْحاق یا آزادی، حقیقت کیا؟
✦ برصغیر میں مسلم ثقافت کا زوال
✦ حیدرآباد کی حالتِ زار اور زخم خوردہ جمال
پھر جب وہ ہنگامۂ عظیم برپا ہوگا، جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا، اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی، تو جس نے سرکشی کی تھی، اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی، دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔ (سورۃ النازعات: 34 تا 39)
سقوطِ حیدرآباد میں جو ظلم و ستم مسلمانوں پر کیا گیا، یہ آیات اس ظلم کا انجام اور اس کی سنگینی کو اجاگر کرتی ہیں۔ ظلم کرنے والے لوگوں کے لیے دوزخ کی وعید ایک اشارہ ہے کہ قیامت کے دن ان کا حساب بے حساب ہوگا۔ سورۃ النازعات کی آیات سقوطِ حیدرآباد کے ظلم کے پس منظر میں اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ قیامت کے دن ہر عمل کا حساب ہوگا اور ظلم کرنے والوں کو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ آیات قیامت کے دن کی ہولناکی اور ظلم کے انجام کو بیان کرتی ہیں۔
✦ سقوطِ حیدرآباد: اُمّتِ مسلمہ کی فکری، علمی، اور ثقافتی تَنَزُّلی کا تجزیہ
میں نے درد مند انداز میں اُمّتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اور سقوطِ حیدرآباد کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت اُمّتِ مسلمہ کی فکری، علمی، معاشی اور تہذیبی تَنَزُّلی واقعی ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا ادراک اور احساس ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ احساس ہمیں اپنے ماضی کے تجربات سے سیکھنے اور مستقبل کے لیے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرنے کی راہ دکھا سکتا ہے۔
سقوطِ حیدرآباد، جو ایک عظیم تہذیب اور زبان کے زوال کی شکل میں سامنے آیا، ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کس طرح سیاسی اور مذہبی تبدیلیاں ایک معاشرتی دھارے کو بدل سکتی ہیں۔ ریاست حیدرآباد کا سقوط صرف ایک جغرافیائی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اس نے ایک پوری ثقافت، زبان اور تہذیب کو متاثر کیا۔ اس واقعے کو یاد رکھنا اور اس سے سبق سیکھنا ہمارے لیے ناگزیر ہے تاکہ ہم اپنے موجودہ حالات کا صحیح ادراک کر سکیں اور مستقبل میں ایسی ہی صورتحال سے بچ سکیں۔
اس موقع پر، ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنی تاریخی غلطیوں سے سیکھیں، اور اُمّت کی بیداری کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اجتماعی شعور کو بیدار کرنا اور اُمّت کو ایک متحد قوت میں تبدیل کرنا ہماری اوّلین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ آج اُمّتِ مسلمہ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ اُمّت کے بجائے ایک منتشر ہجوم نظر آتی ہے، ہر کوئی اپنے اپنے بہلانے والے کھلونوں میں مست نظر آرہا ہے۔ شاید اُمّتِ مسلمہ کی فکری، علمی، معاشی، تہذیبی و ثقافتی تَنَزُّلی کی کسے بھی پرواہ نہیں؟ گذشتہ ایام میں بحثیت اُمّت ہم نے کیا کھویا کیا پایا اس کا جائزہ لینے کی حس و حرکت بہت حد تک ماؤف نظر آتی ہے۔ ہمیں اپنے درد و الم کو زندہ رکھنا ہوگا، انہیں میں سے ہمیں ایک نیا لائحہ عمل طئے کرنے کی راہیں ہموار ہونگی۔
انہیں پر آشوب اور کربناک ادوار میں سے ایک دور مسلمانانِ دکن پر گذرا ہے، جسے "زوالِ حیدرآباد” کی شکل میں دنیا یاد رکھے گی۔ ہندوستان اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد خطے کی تین بڑی ریاستوں کشمیر، ریاست حیدر آباد اور ریاست جونا گڑھ کا مستقبل غیر واضح تھا۔ ان تینوں ریاستوں نے استصواب رائے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا تھا مگر ہندوستان اور پاکستان ان کو اپنے ساتھ ملانے کی خواہش رکھتے تھے۔ سقوطِ حیدرآباد عملاً ایک مذہبی، سیاسی و سماجی تہذیب اور زبان کا زوال بنا ہے۔ حیدرآباد ایک اہم مسلم ریاست تھی جو برطانوی ہندوستان کے تحت ایک خود مختار ریاست کے طور پر موجود تھی۔ اس کا حکمران نظام تھا، جو ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا۔ آصف جاہی سلطنت کے ساتویں فرمانروا میر عثمان علی نے 37؍ سال ریاست حیدرآباد پر حکومت کی اور وہ اپنے وقت میں دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے تھے۔
✦ سلطنتِ آصف جاہی کا شاندار عہد
1923ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اگرچیکہ اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب’ افغانستان و ایران وغیرہ پر مشتمل تھیں۔ لیکن خوشحالی و شان و شوکت کے لحاظ سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقامی مقام تھا اس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں موجود ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔
مَکَّہ مُعَظّمَہ اور مَدِینَہ مُنَوَّرَہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی ریاستِ حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ حرمین و شرفین میں روشنی کا انتظام آصف سابع نے اپنے محل سے پہلے کیا تھا۔ اس عظیم مقصد کے لیے "مَدِینَہ بلڈنگ” کے نام سے شان دار عمارتیں جو آج بھی باقی ہیں مَکَّہ مُعَظّمَہ اور مَدِینَہ مُنَوَّرَہ کے لیے وقف تھیں، جن کے کرایے مَکَّہ مُعَظّمَہ اور مَدِینَہ مُنَوَّرَہ کو بھیجے جاتے تھے۔ اس کے علاؤہ حاجیوں کو رہنے کے لیے رباط کے نام سے نظام نے مَکَّہ مُعَظّمَہ اور مَدِینَہ مُنَوَّرَہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوا دی تھیں۔ آج سے تقریباً سو سال قبل نظام حیدرآباد عثمان علی خاں مرحوم نے جزیرہ نما عرب کے ابتر حالات سن کر سینکڑوں عربوں کو حیدرآباد میں بس جانے کیلئے مدعو کیا تھا۔ حجاز ریلوے انھی کی مالی اعانت سے تعمیر کی گئی۔ وہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آخری خلیفہ عبدالحمید کو تاحیات وظیفہ دیتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ 1931ء میں انھوں نے اپنے ولی عہد شہزادہ اعظم جاہ کی شادی خلیفہ عبدالحمید کی صاحبزادی عثمانی شہزادی درِ شہوار سے کروائی۔
1965ء میں انڈیا کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے حیدرآباد کا دورہ کیا تو انھوں نے پڑوسی ممالک سے امکانی خطرات سے نمٹنے کے لئے قومی دفاع کے فنڈ میں میر عثمان علی خان سے دل کھول کر عطیہ دینے کی گزارش کی۔ اس فنڈ میں میر عثمان علی خان نے 5؍ ہزار کلو سونا عطیہ کیا جو آج کے اعتبار سے 24؍ ارب، 51؍ کروڑ 50؍ لاکھ روپے ہوتا ہے۔ اردو روزنامہ سیاست کے کالم نگار 10؍ ستمبر 2014ء کے شمارے میں لکھتے ہیں، 17؍ ستمبر کو یوم آزادی منانے کی باتیں کرنے والے فرقہ پرست یہ نہیں بتا سکتے کہ کبھی ان کے کسی لیڈر نے ہندوستان کے لیے ایسا گرا نقدر عطیہ دیا ہے ۔
اس ترقی یافتہ ریاست (حیدرآباد) کے ابھرے ہوئے فلاحی و رفاہی خدمات میں 1856ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام تھا، جس کی وجہ سے اس دور میں حیدرآباد میں تعلیم یافتہ متوسط طبقے کو فروغ حاصل ہوا۔ عثمان علی خاں کے دور میں 1911ء میں تعمیر ہونے والا سب سے بڑا عثمانیہ جنرل ہسپتال جو جدید طبی مرکز ہونے کے ساتھ فنِ تعمیر کا بھی نمونہ تھا۔ مواصلاتی نظام جیسے کئی ایک ادارے وجود میں لائے گئے۔ سماجی اصلاحات اور ذمّہ دارانہ حکومت کے لیے متعدد کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔
نظام کو تعلیم سے خاص دلچسپی تھی۔ وہ اپنے بجٹ کا 11؍ فیصد تعلیم پر خرچ کیا کرتے تھے۔ ریاست نے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام سے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ اس کے علاؤہ ندوۃ العلما اور پشاور کے اسلامیہ کالج جیسے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔
حیدرآباد کی اپنی کرنسی، یونانی دواخانہ، چارمینار، ٹیلی گراف، فون، ڈاک کا نظام، الکٹریسٹی، ہوائی اڈے، ریلوے لائنیں، تعلیمی ادارے، اسٹیٹ سنٹرل لائبریری، جوبلی ہال، نظام ساگر، ناگرجنا ساگر ڈیم، علی ساگر، اسمبلی کی موجودہ عمارت، نئی دہلی میں حیدرآباد ہاؤس کی تعمیر، نظام شوگر فیکٹری اور ہسپتال تھے۔ یتیموں اور یسیروں کی مدد کے لئے وکٹوریہ میموریل ہوم کا قیام عمل لایا گیا۔ موجودہ دور میں بھی اس وقت کے تعمیری کاموں سے لوگ آج بھی استفادہ کر رہے ہیں۔
آبائی باشندگان مختلف زبانوں کا استعمال کرتے تھے، ایک بڑا علاقہ تیلگو زبان کا حامل تھا تو دوسرا کنڑ بولتا تھا جب کہ ایک علاقے میں مراٹھی بولنے والے تھے اور ان سب کو اردو زبان جوڑتی تھی جسے 19؍ ویں صدی کے آواخر میں ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔
حیدرآباد دکن کوئی چھوٹی موٹی ریاست نہیں تھی۔ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی ایک کروڑ 60؍ لاکھ سے زائد اور اس کا رقبہ دو لاکھ 14؍ ہزار مربع کلومیٹر تھا، یعنی آبادی اور رقبے دونوں لحاظ سے برطانیہ، ترکی یا اٹلی سے بڑی۔ ریاست کی آمدن اس وقت کے نو کروڑ روپے تھی جو اقوامِ متحدہ کے 20؍ سے زائد ملکوں سے زیادہ تھی۔
ریاستِ حیدرآباد جس کی تاریخ 13؍ ویں صدی کے آخر میں علاؤالدین خلجی کی آمد سے شروع ہو کر بہمنی’ شاہی اور آصف جاہی دور تک بیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہے۔ حیدرآباد دکن پر مسلمانوں کی حکومت کا آغاز دہلی کے سلطان علاؤالدین خلجی کے دور میں ہوا تھا۔ کچھ عرصے تو یہاں کے مقامی صوبے دار دہلی کے ماتحت رہے لیکن 1347ء میں انھوں نے بغاوت کرکے بہمنی سلطنت کی داغ بیل ڈال دی۔
دکن کے آخری حکمران میر عثمان کا تعلق آصف جاہی خانوادے سے تھا جس کی داغ بیل دکن کے صوبے دار آصف جاہ نے 1724ء میں اس وقت ڈالی تھی جب 1707ء میں اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد مغل بادشاہوں کی گرفت ملک کے مختلف صوبوں پر ڈھیلی پڑ گئی تھی۔
اردو کی اہم ترین لغات میں سے ایک "فرہنگِ آصفیہ” سلطنت حیدرآباد کی سرپرستی سے لکھی گئی۔ ریاست نے جن علماء کی سرپرستی کی ان میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، قرآن کے مشہور مترجم مارماڈیوک پکتھال اور محمد حمیداللّٰہ جیسے علما شامل ہیں۔ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ اور پہلے نثر نگار ملا وجہی پیدا ہوئے، دکن کے سب سے مشہور اردو شاعر ولی دکنی، میر تقی میر، مرزا سودا، میر درد، میر حسن، مصحفی، شاہ حاتم، مرزا مظہر، سراج اورنگ آبادی، داغ دہلوی، امیر مینائی اور قائم چاندپوری جیسے درجنوں شعراء کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔
قمر الدین علی خان دکن کے صوبہ دار کی حیثیت سے دکن میں آصف جاہی خاندانِ نظام کی بنیاد رکھی جس وقت 1748ء میں ان کا انتقال ہوا اس وقت ریاستِ حیدرآباد نربدا سے ترچنا پلی تک اور کوکن سے مدراس تک پھیلی ہوئی تھی۔ دکن میں مسلمانوں نے قریب سات سو سال شان و شوکت اور جاہ و جلال سے حکومت کی۔ سیاسی، تعلیمی، تجارتی، صنعتی، زرعی، فلاحی، اعلیٰ عدالتی غرض ہر شعبے میں وہ ترقی ہوئی کہ حیدرآباد ہندوستان کی مثال اور ترقی یافتہ مملکت بنی۔ ایسی مضبوط ریاست کا صرف پانچ دن کی فوجی کارروائی میں خاتمہ ہونا حیرت ناک ہی نہیں عبرتناک بھی ہے۔
✦ سقوطِ حیدرآباد کے مُحَرّکات
سقوطِ حیدرآباد پر قلم کو حرکت میں لانے کی ایک اہم وجہ ہمارے آبا و اجداد سے سنے ہوئے کربناک ظلم و جبر کی داستان ہے۔ ایک سیاسی معاملہ کو بہانا بناکر کیسے لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور اس پر زخم چھڑکنے کے لئے مختلف ناموں سے ایام و دیوس منا کر مذہبی منافرت کو آج بھی ہوا دی جارہی ہے۔ بے گناہ و مظلوم مسلمانوں کے قتل عام پر خوشی منانے والوں ہمیں سلطنت آصف جاہی اور قاسم رضوی سے کوئی سروکار نہیں، کیونکہ ان کے لئے یہ معاملہ اقتدار و سیاست اور تعصب کی جنگ کا ہوگا۔ ہمارے لئے یہ معاملہ مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کا ہے۔ سلطنتِ آصف جاہی کے زوال کے بعد جس ظلم و جبر کے پہاڑ کو رواں رکھا گیا، اس کے اثرات آج بھی باقی ہیں۔
ایک طویل عرصہ کی غفلت، ناعاقبت اندیشی اور بے شعوری کے نتیجے میں 17؍ ستمبر 1948ء کو آصف جاہی سلطنت کا اختتام ہوا اور پھر حیدرآباد دکن کا "آپریشن پولو” کے ذریعے انڈین یونین میں اِنْضِمام عمل میں لایا گیا۔ یہی 17؍ ستمبر اپنی خوفناک یادوں کے ساتھ ایک بار پھر آ رہا ہے۔ اس تاریخ کو کئی سال گزر گئے ہیں، مسلمانوں نے شاید اس کرب و بلا کو محسوس کرنا چھوڑ دیا ہے مگر کچھ شرپسندوں نے مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے سے پریشان کرنے کا شیوہ جاری رکھا ہے۔ "آپریشن پولو” کا نام بھی نظام کے خاندان کی تذلیل و رسوائی کے لیے طئے کیا گیا تھا۔ آصف جاہی اُمرأ و شاہزادے پولو کھیل کے شوقین و ماہر تھے۔ اس کھیل کے لئے بڑی بڑی رقمیں وہ شرطوں و جوؤں پر لگاتے تھے۔
اس روز حیدرآباد (دکن) کی ریاست، جس پر اس کے آخری نظام میر عثمان علی خان کا اقتدار تھا، 13؍ ستمبر کو 4.30 بجے حیدرآباد کی 22؍ سمتوں سے انڈین یونین کی فوج "آپریشن پولو” کے نام سے داخل ہوئی۔ انڈین یونین نے جنوبی کمان کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ای این گوڈارڈ کی سربراہی میں حیدرآباد کے خلاف مختلف اطراف سے محاذ کھول دیے۔ جب کہ شولا پور، وجے واڑہ اور ناگپور کی جانب سے سخت ترین حملے کئے گئے۔ حالانکہ ان حملوں کو عالمی سطح کی رسوائی سے بچنے کے لئے پولس ایکشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں بمبئی کے ایک صحافی ڈی ایف کاراکا نے 1955ء میں لکھا تھا کہ ‘یہ کیسی پولیس کارروائی تھی جس میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، تین میجر جنرل اور ایک مکمل آرمرڈ ڈویژن ملوث تھے؟
فوجی ایکشن جس کا مقصد آصف جاہی سلطنت کو ختم کرکے ریاست حیدرآباد کو "انڈین یونین” میں شامل کرنا تھا۔ ریاستہائے حیدرآباد 1948ء میں 16؍ اضلاع پر مشتمل تھی (8؍ آندھرا پردیش و تلنگانہ میں، 5؍ مہاراشٹر میں اور 3؍ کرناٹک میں)۔ یہ برطانوی ہندوستان کی سب سے بڑی شاہی ریاست تھی جس کی آبادی تقریباً 16؍ ملین تھی۔ حیدرآباد کی حکومت کا فوجی کارروائی کے ذریعے انڈین یونین سے اِلْحاق کر لیا گیا تھا۔
"آپریشن پولو” اور اس کے بعد پیش آئے واقعات کے دوران حیدرآباد میں کشت و خون کا بازار گرم ہوا، واضح رہے کہ پانچ روزہ فوجی کارروائی میں لاکھوں مسلمانوں کو اپنی جانیں پیش کرنا پڑی۔ دیہی علاقوں میں دیر تک فسادات کا بازار گرم رہا، جس کی مکمل تفصیلات آج بھی صیغۂ راز میں ہیں۔
✦ سقوطِ حیدرآباد: ایک تاریخی پس منظر
17؍ اور 18؍ ستمبر 1948ء کی شب شرپسندوں کی عید کی رات تھی، دہشت کی ایک خوفناک لہر شروع ہوئی۔ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی، جہاں کوئی مسلمان نظر آتا ختم کر دیا جاتا۔ شرپسندوں و مذہبی منافرت پیدا کرنے والے نظامِ باطل کے کارندوں نے فوجیوں کو ایک ایک مسلمانوں کے گھر اور مال کی نشان دہی کروائی۔ مسلمانوں کو جی بھر کر لوٹا گیا۔ مسلمان عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی۔ لاکھوں بچّوں کو یتیم کیا گیا۔ منشی پریم چند نے سقوطِ حیدرآباد کے دوران خونریزی اور عوام کی مشکلات کو اپنے درد بھرے انداز میں بیان کیا ہے۔
خون کی ندیاں بہیں، اور ہم نے صرف تماشا دیکھا
حیدرآباد کا ہر محلہ اس دکھ سے دوچار رہا
آج بھی حیدرآباد کے لوگ اس مہینہ کو ظلم کے حوالے سے ستمبر کو "ستم کا مہینہ” کہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ موسیٰ ندی میں اتنی لاشیں پھینکیں گئیں کہ اس کا پانی سرخ ہو گیا۔ کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا جس کی تفصیل سروجنی نائیڈو اور مہاتما گاندھی کے نواسے جیسے ایماندار کانگریسیوں نے بیان کی ہے، ان کی حقیقت پر مبنی رپورٹیں آج بھی منوں بھر فائلوں کے نیچے پڑی ہونگی۔ قتلِ عام، عورتوں کی عصمت ریزیاں، زمینوں پر ناجائز قبضے، خانہ تلاشی کے نام پر لوٹ مار، آتشزنی، غارت گری کا بازار 17؍ ستمبر کے بعد بھی گرم رکھا گیا۔ ان پر آشوب دور کا ذکر کرتے ہوئے والد محترم کے ماموں جان (ہمارے دادا) نے مجھے بتایا کہ اس وقت شاید ہی کوئی ایسا درخت بچا ہوگا جس پر مسلمانوں کی لاش کو لٹکایا نہ گیا ہوگا، بڑی تعداد میں کنوؤں کو مسلمانوں کی لاشوں سے بھر دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سقوطِ حیدرآباد کے بعد صوبۂ دکن کے مسلمانوں کا ذہنی و فکری انتشار آج بھی کہیں نہ کہیں انہیں بے بس کر دیتا ہے۔
مسلمانوں پر ناقابلِ بیان ظلم و استہزاء کے پہاڑ توڑے گئے، وہ علاقے جہاں مسلمان آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں تھے، وہاں مسلمانوں کو سوچی سمجھی سازش، منصوبے اور عملی اقدامات کے تحت جان و مال کا نقصان پہنچایا گیا۔ خصوصاً عثمان آباد، گلبرگہ، بیدر، پربھنی، ناندیڑ، بیڑ، اورنگ آباد اور جالنہ جیسے اضلاع میں مسلم آبادی کو مٹانے کے دانستہ اقدامات کیے گئے۔
ہندوستانی جریدہ ’’انڈیاٹوڈے‘‘ نے اعتراف کیا کہ یہ ظلم زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ جریدہ لکھتا ہے کہ بھارتی حکومت نے اس دوران اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ محقق پانڈو رنگا ریڈی کے مطابق زیادہ تر لوٹ مار مسلمان تاجروں کی ہوئی، بعد ازاں انھیں قتل کر دیا گیا۔
✦ قاسم رضوی کا کردار: سقوطِ حیدرآباد اور قیادت کی ناکامی
ملیٹری ایکشن کے پیچھے ایک بڑی وجہ سیاسی تنظیم مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ قاسم رضوی جس کی جذباتی و سحر آمیز تقاریر کے لوگ اسیر تھے، ان کی تقاریر نے نہ صرف عوام کو متحرک کیا بلکہ ایک خاص ملیشیا فورس، "رضاکار”، بھی تشکیل دی، جس نے نظام حکومت کی حمایت اور کمیونسٹ بغاوت کو روکنے کے لیے کام کیا، اور نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سیّد احمد العیدروس کو بھی سمجھا جاتا ہے۔
6؍ اپریل 1948ء کو ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر نے معاملے کو مزید بھڑکا دیا، جس میں قاسم رضوی پر لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کا عزم کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اتحاد المسلمین نے تردید کی کہ اس قسم کی تقریر سرے سے ہوئی ہی نہیں لیکن تیر نکل چکا تھا جو اپنا کام کر گیا اور جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل کو پولیس ایکشن کا جواز مل گیا۔ 24؍ اپریل کو انہوں نے آل انڈیا کانگریس اجلاس میں انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ حیدرآباد ہندوستان کے سینے پر ایک ناسور ہے اور الٹی میٹم دیا کہ اِلْحاق یا جنگ دونوں میں سے کسی ایک کے لیے حیدرآباد تیار ہو جائے۔ سردار پٹیل نے اتحاد المسلمین کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا اور ایک آزاد اسمبلی کے قیام کے لیے بھی سفارش کی۔
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے سقوطِ حیدرآباد سے 9؍ ماہ قبل قاسم رضوی کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ "نظام کی حکومت ریت کی ایک دیوار ہے جس کا ڈھ جانا یقینی ہے۔ رئیس اپنی جان و املاک بچا لے جائیگا اور عوام پس جائنگے۔ ان حالات سے قبل ہر قسم کے تصادم کو روکا جائے اور ہر قیمت ہندوستان سے پر امن سمجھوتہ کر لیا جائے”۔ (حوالہ ‘زوالِ حیدرآباد کی ان کہی داستان’ از مشتاق احمد خان لاہور)۔ لیکن افسوس کہ یہ خط قاسم رضوی نے جوش میں پھاڑ دیا جو اس وقت کی مسلمان قیادت کی سوچ، فکر و دانش کا رخ کے تعین میں ایک اہم ثبوت تھا۔ مولانا مودودیؒ ایک دانشمندانہ مشورہ تھا جسے رضوی نے نظر انداز کیا۔ مولانا مودودیؒ نے حیدرآباد کے حکمران طبقے کو خبردار کیا کہ اگر تصادم کو روکا نہ گیا تو ریاست کی حکومت گر جائے گی اور عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ لیکن قاسم رضوی نے اس مشورے کو جوش میں ردّ کر دیا، جس کا نتیجہ سقوط حیدرآباد کی صورت میں نکلا۔ مولانا مودودیؒ کی یہ پیشنگوئی درست ثابت ہوئی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے” (صحیح بخاری)۔ اس حدیث میں قیادت کو ذمّہ داری کا درس دیا گیا ہے۔ حیدرآباد کے نظام اور اس کے مشیروں کو رعایا کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا تھا، اور کسی بھی ایسے فیصلے سے گریز کرنا چاہیے تھا جو رعایا کے لیے نقصان دہ ہو۔
✦ سقوطِ حیدرآباد کے اسباب، وجوہات اور اثرات
سقوطِ حیدرآباد (Hyderabad’s annexation by India in 1948) ایک ایسا واقعہ تھا جو برصغیر کی تقسیم اور آزادی کے فوراً بعد رونما ہوا اور جس نے جنوبی ہندوستان میں سیاسی، سماجی اور مذہبی منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا۔ حیدرآباد ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کا حکمران نظام تھا، جب کہ ریاست کی اکثریتی آبادی غیر مسلم تھی۔ سقوطِ حیدرآباد کے اسباب، وجوہات اور اس کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس واقعے کی تاریخ، سیاسی حالات اور اس کے بعد ہونے والے واقعات پر گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
نظام میر عثمان علی خان ہندوستان کی سب سے بڑی مسلم ریاست کے حکمران تھے، اور وہ اپنی ریاست کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے تھے، جو نہ تو ہندوستان کا حصّہ ہو اور نہ ہی پاکستان کا۔ نظام نے حیدرآباد کی آزادی کا خواب دیکھا تھا اور اس کی بنیاد پر وہ ہندوستانی یونین میں شامل ہونے سے گریز کر رہے تھے۔
مجلس اتحاد المسلمین (MIM) کے سربراہ قاسم رضوی اور ان کے رضاکار حیدرآباد کو ایک خود مختار مسلم ریاست بنانے کی بھرپور حمایت کر رہے تھے۔ ان کی جذباتی اور شدت پسند تقاریر نے ریاست کے اندر کشیدگی کو بڑھایا، جس کے نتیجے میں ہندوستانی حکومت کو حیدرآباد میں فوجی مداخلت کا بہانہ مل گیا۔ رضاکاروں کی ملیشیا نے نہ صرف مسلمانوں کو متحرک کیا بلکہ وہ غیر مسلم آبادی کے لیے بھی خوف و ہراس کا باعث بنی۔
حیدرآباد ہندوستان کے وسط میں ایک بڑی ریاست تھی، جو ہندوستانی یونین کے لیے جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے اہم تھی۔ ہندوستان کی حکومت، خاص طور پر جواہر لعل نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل، اس بات پر زور دے رہے تھے کہ حیدرآباد ہندوستانی یونین میں شامل ہو تاکہ ہندوستان کی سالمیت برقرار رہے۔ ان کے نزدیک ایک آزاد مسلم ریاست کا وجود ہندوستان کی سلامتی کے لیے خطرہ تھا۔ حیدرآباد میں کمیونسٹ تحریک نے بھی سیاسی عدم استحکام کو ہوا دی۔ کمیونسٹوں نے نظام کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی، جس سے ریاست میں مزید بدامنی پھیلی۔ اس بغاوت نے ہندوستانی حکومت کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ نظام اپنی ریاست میں امن و امان قائم رکھنے میں ناکام ہو چکا ہے۔
نظام کی حکومت اندرونی طور پر کمزور ہو چکی تھی۔ وہ ہندوستانی یونین میں شامل ہونے سے انکار کر رہے تھے، لیکن ان کے پاس کوئی مضبوط فوج یا بین الاقوامی حمایت نہیں تھی جو انہیں بچا سکے۔ اس کے علاؤہ، حیدرآباد کی غیر مسلم اکثریت بھی نظام کی حکومت سے خوش نہیں تھی۔ سردار پٹیل کے زیر قیادت ہندوستانی حکومت نے حیدرآباد کے معاملے میں صبر کا مظاہرہ کیا، لیکن جب قاسم رضوی کی قیادت میں رضاکاروں نے مسلح کارروائیاں شروع کیں اور ریاست میں بغاوت کی کیفیت پیدا ہوئی تو ہندوستانی حکومت نے 13؍ ستمبر 1948ء کو "پولیس ایکشن” کے نام پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا، جسے "آپریشن پولو” کہا جاتا ہے۔
حیدرآباد کی ریاست کو بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑی حمایت حاصل نہیں تھی۔ نظام نے اقوام متحدہ اور دنیا کے دوسرے ممالک سے مدد کی درخواست کی، لیکن انہیں کسی بڑے ملک کی عملی مدد نہیں ملی۔ برطانیہ اور امریکہ جیسے بڑے ممالک نے بھی اس معاملے میں غیر جانبداری اختیار کی۔
سقوطِ حیدرآباد کے بعد، ریاست کا باقاعدہ طور پر ہندوستانی یونین میں الحاق ہو گیا۔ نظام کو اپنی خود مختاری چھوڑنی پڑی، اور انہیں ایک آئینی حکمران کی حیثیت میں تسلیم کیا گیا۔ حیدرآباد ایک صوبے کی حیثیت سے ہندوستان کا حصّہ بن گیا۔
حیدرآباد کے مسلمانوں کو سقوط کے بعد بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاست میں فوجی کارروائی کے دوران اور اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہنگامے اور تشدد کے واقعات پیش آئے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ملک چھوڑ کر پاکستان یا دوسرے ممالک کا رخ کیا، جب کہ بہت سے لوگ حیدرآباد ہی میں رہ گئے۔ حیدرآباد کے الحاق نے ہندوستانی حکومت کو دوسری نوابی ریاستوں کو بھی ہندوستانی یونین میں شامل کرنے کے لیے حوصلہ دیا۔ اس واقعے کے بعد سردار پٹیل نے ہندوستانی اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے مزید ریاستوں کا الحاق کیا۔
سقوطِ حیدرآباد کے بعد ریاست میں سیاسی و سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ نظام کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ہندوستانی قوانین اور آئین کو حیدرآباد میں نافذ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں زمینی اصلاحات، جمہوری انتخابات اور دیگر آئینی تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ سقوطِ حیدرآباد کے بعد ہندو مسلم تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ ریاست میں ہونے والے فسادات اور تشدّد نے دونوں برادریوں کے درمیان خلیج کو گہرا کر دیا، جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
سقوطِ حیدرآباد ایک تاریخی واقعہ ہے جس کے اسباب میں نظام کی خود مختاری کی خواہش، قاسم رضوی کی شدت پسندی، ہندوستان کی فوجی کارروائی، اور بین الاقوامی حمایت کی کمی شامل ہیں۔ اس کے اثرات میں ریاست حیدرآباد کا الحاق، مسلم آبادی کے لیے مشکلات، اور ہندوستان کے اتحاد کو مضبوط کرنے جیسے اہم واقعات شامل ہیں۔ یہ واقعہ برصغیر کی تقسیم کے بعد کے سیاسی اور سماجی منظرنامے میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
✦ برطانوی وفاداری کی قیمت: سلطنت کا زوال
● آصف جاہی سلطنت کے زوال کے کئی اہم اسباب ہیں۔ ان کا ذکر ضروری ہے تاکہ آئندہ نسلیں یہ سمجھ سکیں کہ سلطنت نے کہاں کہاں غلطیاں کیں اور ان سے کیا نقصان پہنچا۔ سب سے بڑی غلطی جو آصف جاہی حکمرانوں نے کی، وہ یہ تھی کہ انہوں نے شیرِ میسور، سلطان ٹیپو کا ساتھ دینے کی بجائے لارڈ ولزلی کی ذلت آمیز شرائط کو قبول کر لیا اور برطانوی ماتحتی میں حکمرانی کو ترجیح دی۔ انگریزوں کو اپنا محسن و محافظ مان لیا گیا، مگر بدقسمتی سے برطانوی حکومت نے کبھی اس وفاداری کا حق ادا نہ کیا۔ حتیٰ کہ جب برٹش وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے گورنر جنرل ہوتے ہوئے حیدرآباد پر الحاق کے لیے دباؤ ڈالا، تو برطانوی حکومت نے اپنے "یار وفادار” آصف جاہی حکمرانوں کو یکسر فراموش کر دیا۔ یوں انگریز پرستی آصف جاہی سلطنت کے زوال کا ایک اہم محرک ثابت ہوئی۔
● حیدرآباد کی تباہی کی ایک اور بڑی وجہ ساحلی علاقوں اور بندرگاہوں کو انگریزوں کے حوالے کرنا تھا۔ اس سے سلطنت کی معاشی اور دفاعی حیثیت بری طرح کمزور ہو گئی۔
● سقوطِ حیدرآباد کا ایک اور اہم سبب فوجی کمزوری تھی۔ حیدرآباد کی فوج کے کمانڈر اِن چیف سیّد احمد العیدروس تھے، جن کی فوجی صلاحیتیں انتہائی مشکوک تھیں اور وہ اپنی نااہلی و ناقابلیت کے لیے بدنام تھے۔ العیدروس نے حکمرانوں کو یقین دلایا کہ اگر جنگ چھڑ جائے تو حیدرآبادی افواج تین سے چار ماہ تک مقابلہ کر سکتی ہیں، اور اس دوران عالمی طاقتیں اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل جنگ بندی کے لیے مداخلت کر دے گی۔ یہ ایک فریب تھا، جس کا نتیجہ حیدرآباد کی فوجی شکست اور سقوط کی صورت میں نکلا۔
سقوط حیدرآباد کے ضمن میں جس سازش کا ذکر کیا جاتا ہے، جس کی تفصیلات اور اہم کردار ہنوز راز میں ہیں، اس سازش کا بلاشبہ ایک اہم کردار العیدروس بھی تھا۔ العیدروس کی زیرِ قیادت نیم مسلح اور نیم تربیت یافتہ حیدرآبادی افواج کے ساتھ جنگ لڑی گئی۔ 18؍ ستمبر 1948ء کو العیدروس نے باقاعدہ ہتھیار ڈال دیے، جس سے سقوطِ حیدرآباد کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔
حیدرآباد کے صدرِ اعظم میر لائق علی نے اپنی کتاب ‘ٹریجڈی آف حیدرآباد’ (Tragedy of Hyderabad) میں العیدروس کی جنگی حکمتِ عملی کی ناکامی کو واضح کیا ہے۔ ان کے مطابق، انڈین یونین کی فوج کے حملے کے دوران فوجی کمانڈر کے پاس کوئی مربوط پلاننگ نہ تھی، جس کی وجہ سے ہر شعبہ میں بدنظمی پھیلی ہوئی تھی۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں بدنظمی نہ ہو اور فوجی کمانڈر مجھ سے اور سویلین انتظامیہ سے رہبری کا خواہاں تھا۔ دورانِ جنگ، حیدرآبادی فوج کے افسران ایک دوسرے کو جو وائر لیس پیغامات بھیجتے تھے، وہ اتنے پرانے کوڈز پر مبنی تھے کہ انڈین یونین کی فوج آسانی سے انہیں سن لیتی تھی اور لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے باخبر رہتی تھی۔
● علمائے کرام اور دانشورانِ ملت کے دور اندیشانہ مشوروں اور تجاویز کو نظر انداز کرنا بھی زوال کے اسباب میں شامل تھا۔
● سیاسی بصیرت، دور اندیشی سے محرومی، مدبّرانہ قیادت کی کمی، عسکری طاقت کی کمی، اپنوں کی غداری اور انڈین یونین کے انضمام کے لیے بھرپور کوششیں سب مل کر سقوطِ حیدرآباد کے اسباب بنے۔
سقوطِ حیدرآباد کے بھیانک اثرات مرتب ہوئے۔ مسلمانوں کی معاشی اور سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ ان کی زمینیں اور اراضی ضبط کی گئیں، جس کے نتیجے میں جاگیرداروں اور ان سے منسلک افراد بے روزگاری اور فاقہ کشی کا شکار ہو گئے۔ غالب کے اشعار میں شہر حیدرآباد کی عظمت اور اس کے زوال کی حالت کا موازنہ کیا گیا ہے۔
حیدرآباد کی دھرتی کو بھی دیکھا
جب اس نے اپنے پیارے شہر کو گرا دیا
اپریل 1951ء میں حیدرآباد کی افواج باقاعدہ اور نظم جمعیت یا افواج بے قاعدہ دونوں تحلیل کر دی گئیں۔ چند ایک فوجی افسروں کے سوا، باقی سب فوجی جو ہزاروں کی تعداد میں تھے، بے کار ہوگئے۔ جو کہ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (سورہ آل عمران: 103)
قرآن مجید مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور تفرقہ میں نہ پڑیں۔ سقوطِ حیدرآباد میں دیکھا گیا کہ داخلی اختلافات، بیرونی دباؤ، اور آپس میں اتحاد کی کمی نے حیدرآباد کے مسلمانوں کو کمزور کیا۔ مسلمانوں کی صفوں میں اختلافات اور اندرونی مسائل نے اس تاریخی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔
✦ سندر لال رپورٹ کی ناکامی: حیدرآباد میں مظالم اور سردار پٹیل کی پالیسی
سقوطِ حیدرآباد کی حقائق پر مبنی دستاویزات میں سندر لال کمیٹی کی رپورٹ آج بھی ایک ٹ اہم دستاویز ہے۔ اس حکومتی کمیٹی کے سربراہ پنڈت سندر لال اور قاضی عبد الغفار تھے۔ کمیٹی کی تشکیل پنڈت جواہر لال نہرو کی ہدایت پر کی گئی تھی تاکہ ان اضلاع میں ہونے والے مظالم کا جائزہ لیا جا سکے جہاں فرقہ وارانہ تشدّد عروج پر تھا، جیسے عثمان آباد، بیدر، گلبرگہ وغیرہ۔ اس رپورٹ کے مطابق فرقہ وارانہ تشدّد میں 27؍ ہزار سے 40؍ ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ 2013ء میں اس رپورٹ کے بعض حصّے منظر عام پر آئے۔ بعض عالمانہ تخمینوں کے مطابق تقریباً 2؍ لاکھ مسلمان شہری اس قتل عام میں ہلاک ہوئے، جب کہ غیر سرکاری طور پر یہ تعداد 5؍ لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔
اس وقت راجہ ڈھونڈری راج بہادر کو وزیر آبادکاری مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے 5؍ اگست 1949ء کو حکومت کے نام ایک نوٹ میں واضح طور پر لکھا کہ فوجی حکومت نے حیدرآباد سے ساڑھے سات لاکھ مسلمانوں کو شمالی ہندوستان کی جانب روانہ کیا۔
سقوطِ حیدرآباد کے دوران ہونے والے قتلِ عام اور مظالم کے حوالے سے پنڈت سندر لال، قاضی عبدالغفار اور یونس سلیم جیسے معتبر شخصیات کی تیار کردہ حقائق پر مبنی رپورٹ کو پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کی ایماء پر مرتب کیا گیا تھا، تاہم اس رپورٹ کو سردار ولبھ بھائی پٹیل نے دیکھے بغیر داخل دفتر کر دیا۔ اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ سقوطِ حیدرآباد اور اس کے بعد ہونے والے مظالم کی سب سے زیادہ ذمّہ داری سردار پٹیل پر ہی عائد ہوتی ہے، کیونکہ انہیں آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلم اقتدار کی آخری نشانی حیدرآباد سے شدید نفرت تھی۔
حیدرآباد کے معاملات سردار پٹیل کے مکمل کنٹرول میں تھے۔ محمد علی جناح کے انتقال کے فوراً بعد، حیدرآباد پر فوجی حملہ، نظام اور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک، عفت مآب خواتین کی اجتماعی عصمت دری، نظام حکومت کے انتظامیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، ریاست میں مسلمانوں کے وسیع پیمانے پر قتلِ عام، اور پنڈت سندر لال کی رپورٹ کو مسترد کرنا، یہ سب فیصلے اور عملی اقدامات سردار پٹیل کی مرضی سے ہی ہوئے تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اور دیگر بڑے رہنما ان فیصلوں میں زیادہ مؤثر نہ ہو سکے۔
ہندوستانی اخبار "دی پائنیر” نے حیدرآباد کے قتلِ عام کی ذمّہ داری سردار پٹیل پر عائد کرتے ہوئے لکھا کہ نہرو اس مسئلے کا حل اقوامِ متحدہ کے ذریعے چاہتے تھے، اور انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں سردار پٹیل کو اس سلسلے میں سرزنش کی تھی، انہیں ایک متعصب ہندو قرار دیا تھا۔ نہرو نے سردار پٹیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، "میں آپ کی تجاویز کا حصّہ نہیں بنوں گا۔”
✦ اِنْضِمام، اِلْحاق یا آزادی، حقیقت کیا؟
ہندوستانی وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے نظام سے درخواست کی کہ وہ انڈین یونین کے ساتھ اِلْحاق کی دستاویزات پر دستخط کردیں تاہم نظام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ بلکہ 15؍ اگست 1947ء کو اپنی خودمختاری کا اعلان کردیا اور مکہ مسجد میں نمازِ شکرانہ کا اہتمام کیا۔
اِلْحاق وہ باضابطہ عمل جس سے کوئی ملک کسی نئے حاصل کردہ کمزور علاقہ پر اپنا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرواتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق اِلْحاق کو تسلیم کرانے کے لیے دیگر ایسی سب طاقتوں کی رضامندی حاصل کر لینا ضروری ہے جن کے مفادات اس عمل سے متاثر ہونے کا امکان ہو۔ جب کہ یہ بحث جاری ہے کہ اسے یوم آزادی کہا جائے یا اِلْحاق یا انضمام، اس سب کا نکتہ یہ ہے کہ اس اہم پانچ روزہ آپریشن کے دوران خصوصاً لاکھوں مسلمانوں کو اپنی روزی، املاک اور جانوں کے نذرانے پیش کرنا پڑے۔ مسلمانوں کے ساتھ جنسی اور جسمانی تشدد کے دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے۔ کئی مقامات پر اجتماعی زنا بالجبر کا شکار ہونے والی درجنوں مسلم خواتین نے کنویں میں کُود کر خودکشی کرلی۔ کئی واقعات نہرو حکومت کی طرف سے ’گوڈول مشن‘ پر حیدرآباد میں بھیجی گئی کمیٹی کی رپورٹ کا حصّہ بنے ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ نوابی و دیگر ریاستیں برٹش ایمپائر کی سلطنتیں و رعایا نہیں تھیں، بلکہ وہ انگریزوں کی جانب سے تحفظ کردہ سلطنتیں تھی، لیکن جب انگریزوں کی بالادستی کا خاتمہ ہوا اور نوابی ریاستیں 15؍ اگست 1947ء کو انگریزوں کے شکنجے سے مکمل طور پر آزاد ہوگئیں، تب ان ریاستوں کے عوام کو انگریزوں کی جانب سے تحفظ کا جو اسٹیٹس حاصل تھا، وہ ختم ہوگیا، تاہم "انڈین یونین” نے جب حملہ کیا تب حیدرآباد کے عوام خود بخود "انڈین یونین” کے شہری نہیں بنے اور جب 1955ء میں اس تعلق سے ایک قانون مرتب کیا گیا، تب نوابی یا دیسی ریاستوں کے عوام کو بھارت کا شہری قرار دیا گیا۔
ایک اور دائمی ثبوت ہائی کورٹ آف جسٹس آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے عزت مآب مسٹر جسٹس مارکونسی اسمتھ کی جانب سے 2؍ اکتوبر 2019ء کو دیا گیا فیصلہ ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ لندن کی نیشنل ویسٹ منسٹر بینک میں حیدرآباد کے فنڈ سے متعلق مقدمے میں دیا تھا۔ انہوں نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا "میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ 15؍ اگست 1947ء کے دن سے آپریشن پولو کے خاتمے تک‘ برطانوی حکومت اور ملکۂ برطانیہ کی نظر میں حیدرآباد ایک بیرونی مملکت تھی اور نظام ہشتم ریاست حیدرآباد دکن کے حکمران تھے۔
جسٹس صاحب کا کہنا تھا‘ میرے فیصلہ میں یہ بھی حقیقت ہے کہ حیدرآباد کا انڈیا کے ساتھ الحاق عمل میں آیا۔ آیا پولیس ایکشن کی یادوں کا تعاقب کیا جائے یا نہیں‘ ملکۂ برطانیہ کے تحت حیدرآباد کے موقف کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر حکومت نے بھی اپنا موقف واضح کردیا تھا۔ مذکورہ جج نے اپنے فیصلہ میں واضح طور پر یہ بھی کہا تھا کہ ملکۂ برطانیہ کی حکومت نے جو بیان دیا تھا وہ یہی تھا کہ "آپریشن پولو” (پولیس ایکشن) سے حیدرآباد کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کم از کم ایک انگریز عدالت کے مقاصد کے لیے۔ (یہ فیصلہ دراصل لندن ہائی کورٹ نے معین نواز جنگ کی جانب سے برطانیا کی ایک بینک میں جمع کروائی گئی رقم سے متعلق سنایا۔ صفحہ- 68، پیراگراف 193)۔
سلطنت حیدرآباد کے خانوادے نواب نجف علی خان کا کہنا ہے کہ 17؍ ستمبر 1948ء کے حملے کا زخم بہت گہرا ہے اور ابھی تک تازہ ہے۔ وہ یوم آزادی نہیں بلکہ قتلِ عام کا دن تھا جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
نواب نجف علی خان کا کہنا ہے کہ حیدرآباد پر حملے کی سچائی کے لیے سندر لال کمیٹی کو منظر عام پر لانا ضروری ہے۔ انھوں نے انڈین حکومت سے سوال کیا کہ کوئی ریاست اپنے بادشاہ سے آزادی کیوں چاہے گی جب اس نے اپنی رعایا کے خلاف کوئی جرم نہیں کیا ہو۔
حیدرآباد کے اسکالر سیّد علی ہاشمی کے مطابق اس حملے سے بچا جا سکتا تھا اور اس سے گریز ممکن تھا۔ اپنی کتاب ‘اینیویٹیبل انویژن: 1948ء حیدرآباد’ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں ‘برسر اقتدار گروپ یعنی ہندوستان کے حکمراں ایک ترقی یافتہ ریاست (حیدرآباد) کو ہر حال میں ہندوستان میں ضم کرنا چاہتے تھے’۔ حیدر آباد اور انڈین یونین کے درمیان جو سٹنیڈ سٹل ایگریمنٹ (معاہدہ امتناع) طے پایا اس کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔
✦ برصغیر میں مسلم ثقافت کا زوال
حیدر آباد کے زوال کا سبب جذبات کو عقل پر غالب کرکے بودے نعروں کے سحر میں مبتلا ہو جانے والوں اور دولت کے انبار اکٹھے کرنے اور ریاستوں کے دفاع سے غافل رہنے والے حکمرانوں کے لئے کہ حیدرآباد دکن کے انجام سے نشانۂ عبرت ہے۔ ملی و قومی معاملات میں صرف جذبات اور دولت ہی کی نہیں فہم و فراست، حکمت اور منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے ورنہ قومیں غلام بن جایا کرتی ہیں۔
دلّی کے زوال کے بعد حیدرآباد برصغیر میں مسلم ثقافت اور ادب کا سب سے بڑا گہوارہ و مرکز بن کر ابھرا تھا۔ سقوطِ حیدرآباد، ایک مذہبی تہذیب و ثقافت جس کی ابتداء دلّی سے سفر کرتی ہوئی دکن میں ایک نئی آب و تاب اور شاندار و خوشحال مستقبل کے ساتھ جلوہ گر ہوئی تھی، آج وہ دردناک تاریخ کا ایک حصّہ بن گئی ہے۔ حیدرآباد نہ صرف ایک سلطنت کا اختتام تھا بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک تمدّن، ایک نسل، ایک مذہبی اقدار اور ایک زبان و ادب کی پامالی کی بنیاد بن کر عالم اسلام کے لئے نشان عبرت بن گیا ہے۔
✦ حیدرآباد کی حالتِ زار اور زخم خوردہ جمال
جوش ملیح آبادی ایک معروف شاعر اور ادیب تھے جن کی شاعری میں سیاسی اور سماجی مسائل کا گہرا تاثر ہوتا تھا۔ سقوطِ حیدرآباد کے بعد، جوش نے اس واقعے کو ایک دلخراش سانحہ اور حیدرآباد کے شاندار ماضی کی یادگار کے طور پر پیش کیا۔
حیدرآباد اے فِگارِ گل بَدَاْمَاْں اَلسَّلام
اَلسَّلام اے قصۂ ماضی کے عنواں اَلسَّلام
(جوش ملیح آبادی)
جوش نے حیدرآباد کی خوبصورتی اور اس کے زوال کو ایک جملے میں سمو دیا ہے، جو سقوط کے بعد کی حالتِ زار کو بیان کرتا ہے۔ یہاں "فِگار” کا مطلب ہے زخمی یا مجروح، اور "گل بداماں” کا مطلب ہے پھول جیسا یا خوبصورت، یعنی جوش حیدرآباد کو ایک زخمی پھول کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس کی خوبصورتی کو جبر اور ظلم نے زخمی کر دیا ہے۔ جوش یہاں حیدرآباد کو قصۂ ماضی کا ایک حصّہ قرار دیتے ہیں۔ "قصۂ ماضی” سے مراد یہ ہے کہ حیدرآباد کا شاندار ماضی اب ایک کہانی بن چکا ہے اور اس کا دورِ عظمت اب ختم ہو چکا ہے۔ یہ شعر سقوطِ حیدرآباد کے دکھ اور اس کے شاندار ماضی کی یاد کو زندہ رکھتا ہے۔
جوش ملیح آبادی کا یہ شعر "حیدرآباد اے فِگارِ گل بَدَاْمَاْں اَلسَّلام” ایک گہرے جذبات اور افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ جوش ملیح آبادی کا یہ کلام سقوطِ حیدرآباد کے پس منظر میں ہے، جہاں وہ حیدرآباد کو ایک زخم خوردہ پھول سے تشبیہ دیتے ہیں، یعنی ایک ایسی ریاست جو اپنے جلال اور خوبصورتی کے باوجود زمانے کے جبر کا شکار ہوئی۔
(12.09.2022)
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
[email protected]
Comments are closed.