ڈاکٹر سید شاہ تقی الدین فردوسی ندوی علمی وروحانی روایات کے امین

مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

پٹنہ میں واقع قصبہ، منیر شریف روحانی قدروں کا امین اور زمانہ قدیم سے اسلامی مرکز رہا ہے،یہ قصبہ پٹنہ سے (25)پچیس کیلو میٹر مغرب میں نیشنل ہائے وے نمبر 30 پر واقع ہے، ریاست بہار میں اسے صوفیائے کرام کا اولین مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے، عہد قدیم میں بھی یہ علم و ادب کا مرکز رہا ہے،اسے شیخ المشائخ شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا وطن ہونے کا شرف حاصل ہے، ڈاکٹر تقی الدین منیری فردوسی ،جن کا گذشتہ دنوں انتقال ہوگیا۔منیر کی عظمت رفتہ کی یادگار تھے. شاہ تقی الدین منیری عصر حاضر میں ” خانوادہ منیر کی ایک نادر روزگار ہستی کا نام ہے، حضرت شاہ صاحب ایک دل آویز ، جاذب نظر، پرکشش، مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے ،آپ کی ولادت سنہ جولائی 1942 میں ہوئی ۔ آپ نے ہندوستان کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے 1961 میں فضیلت حاصل کی، یہ ڈاکٹر عبد العلی حسنی ندوی (شاگرد شیخ الہند) کی نظامت کا دور تھا، اس کے بعد 1962 میں آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (مدینہ یونیورسٹی) میں داخلہ لیا، مدینہ یونیورسٹی کے پہلے بیچ میں آپ کا نام بھی شامل ہے، اس کے علاوہ مصر کے جامعۃ الازھر، جامعۃ القاہرہ اور سعودیہ عربیہ کے جامعۃ عین شمس سے بھی کسب فیض کیا اور زندگی کا بڑا حصہ عرب ممالک میں گذارا.
آپ کے علم و فضل تقوی و طہارت اور صالحیت پر زمانے کے بڑے بڑے علماء واولیاء اللہ کو اعتماد تھا، جن میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ، حضرت مرشد ملت مولانا محمد رابع حسنی ندوی نوراللہ مرقدہ اور حضرت مولانا عبداللہ عباس ندوی رحمہ اللہ اور مولانا سعید الرحمن اعظمی مدظلہ خاص طور پہ قابل ذکر ہیں. اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ آپ اپنی مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے تا حیات رکن شوری بھی رہے. اور اس کی مجلسوں میں شرکت فرماتے رہے.
حضرت کا نام تو ایک زمانےسے مختلف علمی مجلسوں میں سنتا رہا تھا، ایک آدھ مرتبہ دور سے دید وشنید بھی ہوئی، لیکن باضابطہ ملاقات و تعارف بلکہ فیض صحبت سے مستفید ہونے کا شرف رحمانی فاؤنڈیشن مونگیر میں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی نوراللہ مرقدہ کی صدارت میں منعقد مولانا محمد علی مونگیری سیمنار کے موقع پر حاصل ہوا ، اس عاجز نے اس سیمنار کے لیے’’ مولانا محمد علی مونگیری کی فقاہت ‘‘کے موضوع پر مقالہ لکھا تھا اور سیمنار میں پیش کرنے سے قبل اس مقالہ کو روزنامہ ” پندار” پٹنہ نے مکمل کا مکمل جلی انداز میں شائع کردیا ، اور اس اخبار کا یہ خاص شمارہ بھی تمام شرکاء سیمینار کے مابین تقسیم کردیا گیا ، اس طرح میرا مضمون حضرت سید شاہ تقی الدین فردوسی تک بھی پہنچ گیا… بعد ازاں حضرت صدر مجلس کا حکم ہوا کہ یہ عاجز بھی شہ نشیں پر موجود بزرگوں کے درمیان بیٹھے، قبل اس کے کہ یہ عاجز معذرت کرتا حضرت مولانا سید ولی رحمانی کے حکم سے ،ناظم جلسہ مولانا ظفر عبد الرؤف نے مائیک سے بھی اس عاجز کے بارے میں اسٹیج پر پہنچنے کا اعلان کردیا، جس کے بعد اسٹیج پر جانا ہماری لیے لازمی ہوگیا، حسن اتفاق ہماری نششت سید شاہ تقی الدین ندوی سے بالکل متصل تھی،شاہ صاحب وہاں پہلے سے جلوہ افروز تھے، حضرت نے بشاشت اور گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ و معانقہ کیا. اکرام کے ساتھ اپنے بغل میں بٹھایا اور ہمدست اخبار کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ دیکھیے اس میں آپ کا مضمون ہے، میں نے اس کا مکمل مطالعہ کیا ہے، بڑا اچھا لکھا آپ نے، مزید لکھتے رہیے. خاص طور پر اکابر و اسلاف کی خدمات کی مختلف جہات کو آشکارا کیجیے. اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا..دیگر کئی امور کا بھی تذکرہ رہا .اسی دن بعد عصر حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی خانقاہ میں بھی مجلس ہوئی، اس میں بھی حضرت فردوسی نے اپنے جلوے بکھیرے…. اس طور پر حضرت کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے، ان کے اعلیٰ اخلاق اور تواضع وانکساری اور خرد نوازی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا….. حضرت سے آخری ملاقات پٹنہ میں ہوئی، موقع تھا حضرت مولانا عبد اللہ عباس ندوی قومی سیمینار کا، یہ سیمینار رابطہ ادب اسلامی کے بینر تلے المعہد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں منعقد ہوا، اس کے لیے برادرم مولانا طلحہ نعمت ندوی زید مجدہم نے باصرار مدعو کیا، اس عاجز نے "ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی اور علم منطق و فلسفہ سے آپ کا تعلق ” کے زیر عنوان اپنا مقالہ پیش کیا، حضرت فردوسی شہ نشیں پر تشریف فرماتھے، اس موقع پر بھی حضرت فردوسی سے اچھی خاصی ملاقات رہی اور حضرت کی زندگی کی کئی جہات روشن ہوئیں، حضرت تقی الدین فردوسی اعلی ادبی؛ذوق کے حامل تھے، اردو اور فارسی ادبیات اور شعر و سخن سے ہمیشہ آپ کا لگاؤ رہا ہے، آپ کا” بہار نامہ” موسوم بہ بہار ہند کی تاریخ کا سنہرا نام اکاون اشعار پر مشتمل ہے جن میں بہار کی علمی، ادبی ، سیاسی و تاریخی نشیب و فراز کی جھلکیاںدکھائی گئی ہیں۔
شاہ صاحب فارسی کے علاوہ عربی واردو دونوں زبانوں میں لکھنے پر قدرت رکھتے تھے ،عربی کا خالص ذوق دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مدینہ منورہ سے سے کسب فیض کا ثمرہ تھا.
ان کی مطبوعہ عربی کتابیں درج ہیں: (1) اللغہ العربيہ من اللغات الحيہ (۲) عبقريۃ السید سلیمان الندوی (۳) کیف تکتب البحث او الرسالۃ الجامعيۃ ، آپ کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ” القضايا المعاصرہ فی فتاوی علماء مسلمي الشرق الا وسط” کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ ان کی اردو کتابوں میں : ملت اسلامیہ کے مسائل وقضایا، علامہ شبلی اور ان کے معاصر شعرا کے کلام میں، زیور طبع سے آراستہ ہے۔ شاہ صاحب کی تازہ ترین تصنیف ” حیاتی (میری زندگی) جو ان کی Biography ہے. ۴۷۲ صفحات پر مشتمل ہے؛ یہ کتاب پٹنہ سے چھپ گئی ہے ۔
حضرت مولانا سید شاہ تقی الدین ندوی فردوسی موجودہ عہد کے ان صاحب نسبت بزرگوں میں سے تھے جن کے دیدار سےہی دل کو سکون میسر ہو تا تھا، حضرت ذی علم اور کتابوں کے گرویدہ ہونے کے ساتھ ساتھ علمی اور تحقیقی کاموں سے بڑی انسیت رکھتے تھے ، نوجوان نسل کے علمی تربیت سے بھی انھیں خاص شغف تھا. گفتگو کرتے تھے تو ایسا لگتا کہ وہ موتیاں رول رہے ہیں سامع گرویدہ و اسیر ہو جاتا ۔
شاہ تقی الدین کی فکر و خیال میں بڑی وسعت اور ہمہ گیریت تھی، خانقاہی رنگ ، ندوی آہنگ اور عربی ترنگ تینوں کو اگر یکجا کیا جائے اور اسے مجسم شکل دی جائے تو اس پر جلی حروف میں لکھ سکتے ہیں ’’شاہ تقی الدین ندوی فردوسی، مدنی‘‘اللہ تعالیٰ شاہ تقی الدین ندوی فردوسی کی مغفرت فرمائے اور فردوس بریں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔

Comments are closed.