ہندوستان جمہوریت سے تانا شاہی تک

محمد ولی اللہ قاسمی
جمعیۃ اسٹڈی سینٹر جمعیۃ علماء ہند
ہندوستان ایک آزاد و جمہوری ملک ہے، یہاں کے ہر باشندے کو پیدائشی طور پرآزادی اور جمہوری حق حاصل ہے اور اس حق کے تحت ہر ہندوستانی شہری کو اپنے اس گلشن میں سر اٹھا کر زندگی گزارنے کا حق ملا ہوا ہے۔ اور اس جمہوریہ ہند میں 2014 سے قبل ہر سیاست داں خود کو آزاد اور جمہوریت کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کرتےتھے اور جمہوریت کی حفاظت کےلیے حلف نامہ داخل کرتے تھے؛ ظاہری طور پر ہی سہی لیکن اس کی حفاظت کی فکر کی جاتی تھی اس فکر میں موجودہ وزیر اعظم بھی پیش پیش رہے ہیں اگر حکومت کی طرف سے کوئی ایسا بل لایا جاتا جو کسی بھی ہندوستانی شہری کے عائلی قوانین میں دخل اندازی کے مترادف ہو تو پھر ہندوستانی شہری اپنا احتجاج درج کرا کر اس قانون کو واپس لینے پر حکومت کو مجبور کرتے تھے۔ لیکن 2014 کے بعد ہندوستان کی شناخت ایک جمہوری ملک کے ساتھ ساتھ متشدد اور ہندوتوا کے نام سے ہونے لگی کیونکہ موجودہ وزیر اعظم نے گذشتہ دس سالوں میں ہندو مسلم کی سیاست کر کے اپنی پہچان ایک متشدد ہندو توا کے طور پر کرائی ہے اگر کوئی احتجاج کرتا ہے تو اسے جسمانی و ذہنی تشدد کا شکار بنا کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ جب کہ 2014 سے قبل ہندو مسلم کے نام پر فرقہ وارانہ فساد ہوا کرتے تھے اور اس پر حکومت تماشائی بن کر ہی سہی مظلوموں کی داد رسی کیا کرتھی اور اہل سیاست ایک دوسرے پر انگشت نمائی کرتے تھے لیکن اب فرقہ وارانہ فساد کی ذمہ دراری مسلم قوم پر ڈال دی جاتی ہے اور پھر بے قصور مسلمانوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جاتا ہے ، دہلی و میوات کے فسادات اس پر شاہد ہیں ۔
حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آئین ہند کی روشنی میں ہندوستان کے ہر شہری کو مکمل تحفظ فراہم کرے اور ملک میں عدل و انصاف کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرے لیکن افسوس کہ موجودہ حکومت میں جانور کے تحفظ کے لیے تو قانون بنایا جاتا ہے لیکن ایک ہندوستانی شہری کو حفاظت کے لیے کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ مجرم کو تحفظ فراہم کراکر جرم کو بڑھاوا دیا جاتا ہے اور ان کا سیاست داں کی طرف سے پھولوں سے استقبال کیا جاتا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 2016 تا 2020 تک 3400 فرقہ وارانہ فساد ہوئے۔
2022 میں سابق وزیر امور داخلہ "نتیا نند رائے” سے پارلیمینٹ کے اندر فرقہ وارانہ فساد کے تعلق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2020 میں857 ، 2019 میں 438، 2018 میں 512، 2017 میں723 اور 2016 میں 869 فرقہ وارانہ یا مذہبی فساد کے واقعات درج ہیں۔
انہوں نے تحریری جواب میں کہا کہ اس کے علاوہ
2020 میں 51،606 فسادات
2019میں 45،985 فسادات
2018 میں57،828 فسادات
2017 میں 5،880 فسادات
2016 میں 61،974 فسادات کے مقدمات درج ہوئے، این سی آر بی نے مزید کہا کہ ماب لنچنگ پر کوئی علیحدہ ڈیٹا برقرار نہیں رکھا گیا ہے۔
2014 کے بعدفرقہ وارانہ فساد اور دہشت گردی نے 5 شکل کی اختیار کی ہے۔
1۔ گئو رکشا کے نام پر فساد کی ایک نئی شکل ایجاد ہوئی: گئو رکشا کے محافظ مسلم شناخت دیکھ کسی کو بھی سر راہ و بر سر عام قتل کر دیتے ہیں، بھگوائی جھنڈا لہرا کر میدان میں کود پڑتے ہیں، مجرم بھگوا کپڑا پہن کر فساد بر پا کر دیتے ہیں لیکن حکومت وقت اور صوبائی حکومت تماشائی بن کر دیکھتی رہتی ہیں گویا کہ بھگوا کلر ہندوستان اور ہندوستانی قوم کا محافظ ہے۔
2۔ دلت پر ظلم و تشدد کی شکل اختیار کی ہے۔: آج تک نیوز پورٹل کے2022 کے ریکارڈ کے مطابق پچھری ذاتی کے لوگوں کے ساتھ ظلم و تشدد کے واقعات بہت تیزی سے بڑھے ہیں جس میں گجرات کا معاملہ زیر نظر ہے کہ ایک دلت سمودائے کے شخص کو چوری کے الزام میں پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا اسی طرح 2021 میں سہارنپور کے فساد بھی ذات پر مبنی تھا جس میں بہت سارے لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔
3۔ بھیڑ کا غیر قانونی عمل و انصاف: ملک میں ایک فضا چل پڑی ہے ، عدم قانون، عدم پولیس، عدم گرفتاری، پولیس کے پہنچنے سے قبل ہی بھیڑ اپنا انصاف سنا دیتی ہے ، حکومت اور عدلیہ تماشائی بنی رہتی ہیں۔
4۔ مذہبی رنگ( ہندو مسلم): موجودہ وقت میں ہر غیر قانونی کام کو ہندو مسلم کا رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے حتی کہ اہل سیاست بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہیں، موجودہ وزیر اعظم نے تو برسر عام گذشتہ دس سالوں میں ہندو مسلم کے نام پر ووٹ دینے کی اپیل بھی کی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پوری ریاست ہی ہندو مسلم کے بیچ میں الجھی ہوئی ہے۔ملک گیرسطح پر سی اے اے اور این آر سی کے احتجاج کو بھی ہندو مسلم کا رنگ دے کر دہلی فساد کی چنگاری جلائی گئی۔
5۔ سوشل میڈیا ۔ انٹرنیٹ نے جہاں کرہ ارض کو ایک پیالہ میں سمو دیا ہے وہیں سوشل میڈیا کے ذریعہ مذہبی منافرت پر مبنی پیغام اور کذب بیانی پر مبنی اشتعال انگیز مواد کے ذریعہ فرقہ وارانہ فساد میں اہم کردار ادا کیا ہے حتی کہ باعزت شہری کے کردار کشی میں سوشل میڈیا سر فہرست ہے جس کی وجہ سے کئی بڑی شخصیات نے سوشل میڈیا کو الوداع کہہ دیا ہے۔
2014 کے بعد موجودہ حکومت میں مسلمانوں کوتین طریقہ سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔
1۔ قانون۔ گذشتہ چھ سالوں کے دواران مسلمانوں کے خلاف حکومت ہند کی طرف سے کئی قانون لائے گئے اور پاس کئے گئے خواہ طلاقہ ثلاثہ ہو یا پھر آرٹیکل 370 کا معاملہ اورسی اےاے اسی طرح حال ہی میں وقف ایکٹ کی ترمیم پر بھی بل لایا گیا۔
2۔ذہنی و جسمانی۔ گذشتہ دس سالوں میں مسلم شناخت رکھنے والوں کے ساتھ ماب لنچنگ کی گئی اور کئی مقامات پردستاویز دکھانےکے نام پر ذہنی ہراساں کیا گیا اور جسمانی تکلیف دی گئی لیکن پولیس و انتظامیہ خاموش رہی۔
3۔معاشی بائکاٹ ہندوتوا کے علمبردار تنظمیوں اور ورکروں کے ذریعہ مسلمانوں کا معاشی بائکاٹ کرنے کی کوشش کی گئی اور کئی جگہوں پر مسلمانوں کے داخلہ پرپابندی بھی عائد کی گئی ہے۔
مذکورہ باتوں سے کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں
کیا حکومت ہند اور ریاستی حکومت ہندوتوا دہشت گردی کو فروغ دینا چاہتی ہے؟
کیا مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت ہندوتوا دہشت گردی پر قدغن لگانے سے قاصر ہے؟
کیا بلڈوزر کی کاروائی صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟ ( جب کہ یہ کسی بھی شہری کے لیے نہیں ہونا چاہئے)
کیا حکومت بھگوا ئی دہشت گردی کو ہندوستان کی پہچان بنانا چاہتی ہے؟
کیا ملک میں عدل و انصاف کے لیے عدالت کا کوئی معیار نہیں ہے؟
خدا اس ملک کی حفاظت کرے اور ملک میں امن و محبت کی فضا عام کرے۔ آمین
Comments are closed.