کیا ہم جوابدہ نہیں ہونگے؟

حافظ مجاہد عظیم آبادی
مؤسس و بانی، ڈائریکٹر، سی ای او اور ایڈیٹر: روح حیات سینٹر
8210779650 م

انسان کی فطرت میں کمزوری پائی جاتی ہے، اور یہی کمزوری اُسے اکثر ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہے جن کے نتائج نہ صرف اُس کی دنیاوی زندگی بلکہ آخرت پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بارہا انسان کو اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ کان، آنکھ، دل، اور زبان سب وہ ذرائع ہیں جن سے ہم دنیا میں اپنے اعمال انجام دیتے ہیں، اور قیامت کے دن یہی ہمارے حساب کا ذریعہ بنیں گے۔ زبان ایک ایسا ہتھیار ہے جسے احتیاط کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو یہ انسان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا سکتی ہے۔
آج کے دور میں، جہاں سوشل میڈیا کا راج ہے، ہماری ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ لکھے ہوئے الفاظ زیادہ دیر تک موجود رہتے ہیں اور ان کے اثرات بھی زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ سوچنا چاہیے کہ جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں، کیا ہم اس کا جواب اللہ کے سامنے دے سکیں گے؟ ”ہل أعددت لہا جوابًا عند اللہ!”—یہ وہ جملہ ہے جو ہر سوشل میڈیا پوسٹ، ہر ٹویٹ، اور ہر تبصرے کے سامنے ہونا چاہیے۔
اکثر لوگ جذبات میں آ کر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں یا لکھ دیتے ہیں جو ان کے دل کی اصل نیت کو ظاہر نہیں کرتیں۔ لیکن یاد رکھیں، اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جانتا ہے، اور زبان یا کیبورڈ سے نکلنے والے الفاظ اُس کے سامنے پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ہمیں اپنے الفاظ کی قیمت کو سمجھنا چاہیے اور ہر بار کچھ کہنے یا لکھنے سے پہلے رک کر سوچنا چاہیے کہ کیا یہ الفاظ اللہ کے سامنے قابلِ وضاحت ہوں گے؟
سوشل میڈیا کے اس دور میں، جہاں ہر شخص کو اپنی رائے دینے کی آزادی حاصل ہے، یہ آزادی ایک نعمت سے زیادہ ایک آزمائش بن چکی ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے، اور اکثر اوقات یہ رائے بغیر کسی تحقیق کے ہوتی ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان الفاظ کا اثر کیا ہو گا، لوگ اپنے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ مگر کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہمارے ہر الفاظ کا حساب لیا جائے گا؟ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں، وہ ہمارے اعمال میں درج ہو رہا ہے؟ قیامت کے دن ہر لفظ، ہر جملہ، اور ہر پوسٹ اللہ کے سامنے پیش کی جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ بن چکا ہے جہاں لوگ دوسروں پر بے جا تنقید کرتے ہیں، الزام لگاتے ہیں، اور اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ اختلافات دنیا کے سامنے ہمیں کیا بنا رہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ جو الفاظ ہم دوسروں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، ان کا جواب ہمیں اللہ کے سامنے دینا ہو گا؟ کیا ہم اتنے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہماری زبان اور قلم دونوں اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں؟
ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ اختلافات کو حکمت کے ساتھ حل کیا جائے، نہ کہ نفرت اور غصے کے ساتھ۔ لیکن سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر، لوگ اس حکمت کو بھول چکے ہیں۔ وہ نفرت اور غصے کو اپنے الفاظ کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں”۔ یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارے الفاظ دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بننے چاہئیں۔
آج کی دنیا میں، جہاں الفاظ کی جنگ لڑی جا رہی ہے، ہمیں خود کو ایک مختلف راہ پر چلانا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہر وہ بات جو ہم کہتے ہیں یا لکھتے ہیں، اس کا اثر صرف آج پر نہیں بلکہ کل اور آنے والے وقتوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ جب ہم مر جائیں گے، تو یہ پوسٹس ہمارے نشانات ہوں گی۔ یہ الفاظ ہماری یادگار بنیں گے، اور ان کا اثر ہمیشہ کے لیے رہے گا۔
ایک دن ہر شخص کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اُس دن ہر وہ شخص جس نے کسی پر تنقید کی، جھوٹ بولا، یا فتنہ پھیلایا، اپنے اعمال کا حساب دے گا۔ کیا ہم اس دن کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زبان یا قلم سے نکلنے والے الفاظ کوئی معمولی چیز ہیں؟ ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا ہو گا اور اپنے اعمال کو ٹھیک کرنا ہو گا۔
یہ سوچ کہ ”مجھے کسی بات کا جواب نہیں دینا”، ایک خطرناک فریب ہے۔ ہر شخص کو اپنی بات کا جواب دینا ہو گا۔ اور یہ جواب آسان نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ ہم جتنی بھی کوشش کریں کہ اپنے الفاظ کو چھپائیں، وہ سب کچھ اللہ کے سامنے واضح ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: ”ہر چھوٹی اور بڑی بات درج ہو چکی ہے”۔ اس لیے ہمیں اپنی زبان اور قلم کو بے احتیاطی سے استعمال کرنے سے بچنا ہو گا۔
ہمیں سیکھنا ہو گا کہ خاموشی بھی ایک نعمت ہے۔ ہر معاملے میں بولنا ضروری نہیں ہے۔ بعض اوقات خاموشی سب سے بہترین جواب ہوتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے”۔ یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارے الفاظ کا وزن ہوتا ہے اور ہمیں سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔
آخرکار، ہم سب کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا کہ ہماری زندگی مختصر ہے اور یہ دنیا ایک فانی جگہ ہے۔ جو کچھ ہم یہاں کریں گے، وہی ہمارے ساتھ آخرت میں جائے گا۔ ہمیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا، اور ہمارے الفاظ بھی ان اعمال کا حصہ ہیں۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زبان اور قلم کو اس طریقے سے استعمال کریں جو اس کے دین کے مطابق ہو۔ اللہ ہمیں ہر فتنہ سے محفوظ رکھے اور ہماری نیتوں کو خالص کرے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی پر تنقید کرنا آسان ہے، لیکن خود کو درست رکھنا مشکل ہے۔ ہمیں دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہم خود بہتر ہوں گے، تو ہم دوسروں کو بہتر بنا سکیں گے۔ لیکن اگر ہم خود اندر سے کھوکھلے ہیں، تو ہماری تنقید بے معنی ہو گی۔
اللہ ہمیں اپنی زندگی کو اس طرح گزارنے کی توفیق دے کہ ہمارے الفاظ اور اعمال دونوں اللہ کی رضا کے مطابق ہوں۔ ہمیں اپنی زبان اور قلم کی طاقت کا ادراک ہو، اور ہم انہیں صرف خیر کے لیے استعمال کریں۔ اللہ ہمیں ان تمام باتوں سے محفوظ رکھے جو ہمارے لیے دنیا اور آخرت میں نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ آمین!۔

Comments are closed.