شادیوں کی پیچیدگی کا ایک مخفی پہلو

 

نوراللہ نور

موجودہ زمانے میں شادیوں کے پیچیدہ اور مشکل امر ہونے کے بابت اولا جو خیال ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہیکہ اس کے اصل مجرم لڑکے کے اہل خانہ ہیں مگر مشاہدہ بتاتا ہے کہ فریقین قصور وار ہیں، اگر آج بیشتر شادیاں معلق ہیں اور بچے بچیاں گھروں میں ہنوز منتظر ہیں تو اس میں لڑکی کے اہل خانہ بھی برابر کے قصوروار ہیں کیونکہ

شادیوں کے ملتوی ہونے اور رشتوں کے مسترد ہونے کی وجہ بسا اوقات لڑکی کے اہل خانہ کے غیر موزوں اور نہایت ہی غیر معقول مطالبات بھی ہوتے ہیں ، ہم اکثر لڑکے والوں کی طرف سے بدظن ہوتے ہیں کہ ان کے ہی ناجائز مطالبات نے معاشرے میں شادی کو مشکل بنایا ہوا ہے اور ان کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں کہ ان کو لڑکی والوں کے اہل خانہ کی ذرا بھی پرواہ نہیں لیکن آسان شادی کی راہ میں حائل صاحب ثروت لڑکی کے خاندان والوں کی طرف ذہن نہیں جاتا اور ہم ان کی نامناسب مطالبات پر گرفت نہیں کرتے.

جس طرح جہیز کا مطالبہ ایک غریب باپ پر برق بن کر گرتا ہے اسی طرح کسی متوسط طبقے کے لڑکے کی شادی کو لڑکی کے اہل خانہ کے ساتھ رہنے سے مشروط کرنا بھی لڑکے والد اور اہل خانہ بجلی بن کر گرتی ہے ، متعدد ایسے واقعات مشاہدہ میں ہیں کہ لڑکی کے خاندان والوں نے لڑکے کے کم حیثیت ہونے کے بنا پر اس کا استحصال کیا اور اس کے سامنے شرائط کی وہ دیوار کھڑی کردی جس کے اوپر سے جست لگانا اور شرط پر کھڑا اترنا اس کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اگر جہیز و تلک کی رسم بچیوں کی شادیوں کی راہ کا روڑا ہیں تو لڑکی والوں کے حشم و خدم ، سیم و زر کے ناجائز گھمنڈ نے کتنے نوجوانوں کی خوبصورت خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا.

قابلیت و استعداد کے بنا پر جہیز مانگنے والے ہی گنہگار نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ وہ لوگ بھی خطاوار ہیں جو لڑکوں کے سامنے ” شادی کے بعد میری بیٹی کے ہمراہ ہمارے یہاں ہی رہنا ہوگا” ہم تمہارے لئے گھر کا نظم کردیں گے مگر تمہیں رہنا ہمارے ساتھ ہی ہوگا” ہم تمہاری نوکری کا بھی بند و بست کردیں گے لیکن تمہیں اہل خانہ سے قطع تعلق کرنا ہوگا” جیسے سطحی اور ناقابل قبول شرائط رکھتے ہیں!

میرے ایک شناسا کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی مگر لڑکی کے میکے میں رہنے اور لڑکے کو بھائیوں سے قطع تعلق کے اصرار و ضد نے بسے بسائے گھر کو تباہ کردیا ، اسی طرح ایک دوست کے رشتے کی بات ہو رہی تھی شرعی وضع قطع میں دیکھ کر لڑکی والوں انتہائی نازیبا شرط رکھی کہ ” ہم آپ کی رہائش کا نظم کردیں اور ایک فلیٹ کا نظم کردیں گے مگر ہماری بیٹی ہمارے ساتھ ہی رہے گی” جو نو فارغ، عملی زندگی میں پہلے پہل قدم رکھنے والے نوجوان دوست کے لئے کسی انسلٹ سے کم نہیں تھا! اور اس طرح کے الفاظ امیدوں کے شکشتہ کرنے کے کافی ہیں

"تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے” اس لئے اگر نکاح کو آسان بنانا ہے تو فریقین کو مال و دولت کے زعم اور بے سرو پا مطالبے سے باہر آنا ہوگا ، اگر لڑکی کے اہل خانہ رعایت کے حقدار ہیں تو لڑکے کے اہل کو بھی مراعات حاصل ہونی چاہیے تاکہ نکاح کو آسان بنایا جاسکے ورنہ جہاں بہت سارے عوارض آسان نکاح میں حائل ہیں یہ بھی بہت بڑا درد سر ہوگا. اس لئے ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اس مخفی اور ضروری امر کی طرف من حیث القوم و بحیثیت صالح معاشرہ توجہ دیں!

Comments are closed.