مجلسی سیاست اور اس کے متعلق میرے افکار و خیالات

 

مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی
9/4/2024

مجلس اتحاد المسلمین کی سیاست اور اس کے قائد جناب اسد الدین اویسی صاحب کے متعلق ہندوستانی مسلمان متضاد خیالات رکھتے ہیں درست موقف کو جاننے کے لیے میرے یہ تین مضامین پڑھیں
یہ مضامین یہ ہیں
1)مجلس اتحاد المسلمین کے متعلق درست موقف
(2)مجلس اتحاد المسلمین اور ہندوستانی عوام مورچہ اتحاد
(3)مجلس اتحاد المسلمین تلنگانہ میں بھی مسلم اکثریتی حلقوں میں ہی کامیاب ہوپاتی ہے

(1)مجلس اتحاد المسلمین کے متعلق درست موقف

مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی
13/9/2021

( سوا دو سال قبل لکھی گئ احقر کی اس تحریر کو دوبارہ پڑھیں اور اتر پردیش اور بہار میں مجلس اتحاد المسلمین کی غیر سنجیدہ سیاست پر غور کریں )
سوال :
مجلس کے تعلق سے مختصرا اپنا نظریہ بتا کر ممنون فرمائیں
ہمارے یہاں کے کچھ اچھے نوجوان علماء مجلس کا بڑا شدید رد کر رہے ہیں،
لیکن مجھے مجلس کو لیکر افراط و تفریط والے نظریہ کے حامل دونوں ہی افراد صحیح نہیں لگتے،

محسن ندوی فیروز آباد ، اتر پردیش

جواب :
چند باتیں ہیں
1- یوپی میں پہلے سے تین مشہور مسلم پارٹیاں ہیں ،
افضال انصاری برادران کی قومی ایکتا دل ، مختار انصاری پر لگائے گئے الزامات ، یا ان کے غلط اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے قومی ایکتا دل کو مضبوط کرنا چاہیے ، اس خاندان نے بڑی قربانیاں دی ہیں ، مختار انصاری کے دادا ڈاکٹر مختار احمد مرحوم ، مشہور طبیب ، اور مجاہد آزادی ، تھے ، وہ کچھ وقتوں کے لیے مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی رہ چکے تھے ، مختار انصاری کے نانا بریگیڈیئر عثمان نے 1948 کی ہند و پاک جنگ میں بڑی قربانیاں دی تھیں اور شہید ہوگئے تھے ،
بلیا ، مئو ،اعظم گڑھ اور غازی پور وغیرہ میں انصاری برادران کو غریبوں کا مسیحا سمجھا جاتا ہے ،

2- یوپی میں مسلم اکثریتی اضلاع صرف مرادآباد اور رامپور ہیں ، مرادآباد میں انسٹھ فیصد اور رامپور میں پونے اکیاون فیصد مسلمان ہیں ، مرادباد
میں چھ اور رام پور میں پانچ نشستیں ہیں ،
رام پور میں مجلس اتحاد المسلمین کے لڑنے کا مطلب ہے ، اعظم خاں کی سیاست کو کمزور کرنا ،
اعظم خاں جیسے دبنگ مسلم لیڈر ہر سیکولر پارٹی میں ضروری ہیں ، اعظم خان کو کمزور کرنا دانشمندی نہیں ہے ،
3- ڈاکٹر محمد ایوب کی پیس پارٹی ، بستی ، گونڈہ وغیرہ میں مضبوط ہے ، دو ہزار بارہ میں اس کو چار نشستیں حاصل ہوئی تھیں ،
مگر کئی وجوہات کی بنا پر خود ڈاکٹر ایوب بھی دو ہزار سترہ میں الیکشن ہار گئے ، اور ان کے ہارنے کی سب سے بڑی وجہ مجلس اتحاد المسلمین کا ان کے خلاف امیدوار کھڑا کرنا ہے ،
4- اعظم گڑھ اور جونپور وغیرہ اضلاع میں راشٹریہ علماء کونسل بھی ایک مسلم سیاسی طاقت ہے ،
میرا خیال یہ ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر اسدالدین اویسی صاحب پارلیمینٹ میں اچھا بولتے ہیں اور تلنگانہ میں وہ دانشمندانہ سیاست کرتے ہیں ، مگر تلنگانہ سے باہر وہ غیر دانشمندانہ سیاست کرتے ہیں ،
انہوں نے دو ہزار سترہ میں اتر پردیش میں اڑتیس نشستوں پر الیکشن لڑا تھا اور ایک پر بھی کامیاب نہیں ہوئے تھے ،
انہوں نے اس بار چھوٹی چھوٹی غیر مشہور اور غیر مقبول دلت سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے سو نشستوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ،
میرا اندازہ ہے کہ وہ ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائیں گے ، ( اور یہ اندازہ سو فیصد صحیح ہوا، بلکہ مجلس کئی جگہوں پر سماج وادی پارٹی وغیرہ کے مسلم امیدواروں کی ہار کا سبب بن گئی، عماد قاسمی,8/4/2024)
اگر مختار انصاری اور عتیق احمد جیسے مشہور لوگ مجلس اتحاد المسلمین میں شامل ہوجائیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ جیت جائیں ، ( ان دونوں کے مجلس میں شامل ہونے کی خبریں گردش میں تھیں عماد قاسمی,8/4/2024) )
بھارتیہ جنتا پارٹی مجلس اور اسدالدین اویسی کے نام پر ہندوؤں کو ایک کرنے کی کوشش کرے گی ، طالبان کے افغانستان پر قضیے کے بعد مسلم لیڈران کو طالبانی کہ کر بدنام کرنا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں فضا بنانا آسان ہوگیا ہے ،

مجلس اتحاد المسلمین کو یوپی کے صرف ان سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہیے جہاں مسلمان ساٹھ ستر فیصد ہوں ،
تلنگانہ میں مجلس اتحاد المسلمین نے بہت سارا سماجی کام کیا ہے ، اسکول ، کالج اور ہاسپیٹل بنائے ہیں ، وہاں بھی مجلس اتحاد المسلمین صرف حیدرآباد شہر کی کل سولہ میں سے صرف آٹھ سیٹوں پر انتخاب لڑتی ہے اور سات پر کامیاب ہوتی ہے ،
مگر یوپی اور بہار وغیرہ میں اپنی طاقت سے زیادہ نشسستوں پر انتخاب لڑ کر بالواسطہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہونچاتی ہے ،
بہار میں مجلس کو اکتوبر دو ہزار بیس کے اسمبلی الیکشن میں جن پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے ، وہاں تین باتوں کو نظر انداز کردینا سیاسی شعور میں کمی کی علامت ہے،
1- ان حلقوں میں ستر فیصد یا اس سے زائد مسلمان ہیں،
2- علاقے کے تمام سیٹنگ ممبران اسمبلی سے لوگ مایوس ہوگئے تھے ،
3- مجلس کے ٹکٹ پر منتخب چار ممبران اسمبلی پہلے بھی ممبران اسمبلی رہ چکے ہیں ،
صرف ایک انظار نعیمی کبھی کامیاب نہیں ہوئے تھے ، مگر وہ اسمبلی الیکشن لڑتے رہے ہیں ، وہ جمعیت علماء ہند کے ضلعی ذمے دار بھی ہیں ، اور ایک پنچایت کے مکھیا بھی تھے ،
مجلس نے بہار میں بھی اکتوبر دو ہزار بیس کے اسمبلی الیکشن کے وقت تین غلطیاں کی ہیں
1- دو سو تینتالیس رکنی بہار اسمبلی کے لیے چالیس ، پچاس نشستوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ، اور پھر بیس نشستوں پر الیکشن لڑا ،
2- پندرہ تا تیس فیصد مسلم آبادی والی اسمبلی حلقوں میں بھی الیکشن سے قبل علی الاعلان ممبر سازی مہم چلائی گئی ، جس کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مذہب کے نام پر ہندوؤں کو ایک کرنے کا موقع ملا ، اور اس کی وجہ سے شمالی بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کافی مضبوط ہوئی ،

3- راشٹریہ لوک سمتا پارٹی ، اور بہوجن سماج پارٹی جیسی پارٹیوں سے اتحاد کیا ، ان پارٹیوں کے امیدواروں کے لیے مجلس کے میر مجلس اسد الدین اویسی صاحب نے جلسے کیے اور تقریریں کیں ، راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کے لیڈر اوپیندر کشواہا کو اپنے اتحاد کی طرف سے وزیر اعلی کا چہرہ بنایا ، راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی بہار میں غیر مقبول پارٹیاں ہیں ، اور ماضی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت کر چکی ہیں ،
اگر مجلس صرف کشن گنج ، ارریہ اور پورنیہ کے ایک درجن نشستوں پر الیکشن لڑتی تو بھی وہ پانچ نشستیں اسے حاصل ہوتیں جو اسے حاصل ہوئی ہیں ،
جس طرح تلنگانہ میں مجلس تمام ایک سو انیس نشستوں پر امیدوار اتار دے تب بھی اسے حیدر آباد کی وہی نشستیں حاصل ہوں گی جو نشستیں اسے حاصل ہوتی رہی ہیں ،
مجلس جس طرح تلنگانہ میں حیدرآباد کے آٹھ نشستوں میں محصور ہے اسی طرح بہار میں سیمانچل کے آٹھ دس نشسستوں میں محصور ہوتی تو اسے چند نشستیں بھی حاصل ہو جاتی ، اور بہار میں مہاگٹھ بندھن کی حکومت ہوتی ،
اتر پردیش میں مجلس کو چاہیے کہ وہ صرف ان دس بارہ نشستوں پر الیکشن لڑے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ،
بقیہ نشستوں پر سماج وادی پارٹی یا انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت کرے ، یا خاموش رہے ، کسی بھی سیکولر پارٹی خاص طور سے سماج وادی پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے خلاف سخت زبان استعمال نہ کرے ، اور کسی پارٹی سے اتحاد نہ کرے ، جیسا کہ وہ تلنگانہ میں کرتی ہے ، کسی پارٹی سے اتحاد نہیں کرتی ، آٹھ اسمبلی نشستوں پر انتخاب لڑتی ہے اور سات پر کامیاب ہوتی ہے ،

مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی
13/9/2021
______________________________________

(2)*مجلس اتحاد المسلمین*
*اور ہندوستانی عوام مورچہ اتحاد*

مظاہر حسین عماد قاسمی
8/8/2020
خبریں آرہی ہیں کہ مجلسِ اتحاد المسلمین بہار کے صدر جناب اختر الایمان صاحب اور ہندوستانی عوام مورچہ کے صدر جناب جیتن رام مانجھی کے درمیان ملاقات ہوئی ہے ،
اور یہ دونوں مل کر آئندہ اکتوبر دو ہزار بیس میں ہونے والے بہار اسمبلی کے الیکشن میں بہار کی تمام 243 اسمبلی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنا چاہتے ہیں

*اس خبر پر مظاہر حسین عماد عاقب کا تبصرہ پڑھیے*

مانجھی صاحب سے اتحاد کر کے کوئی فائدہ نہیں ہے ،
مانجھی صاحب کے پاس نہ ووٹ ہے اور نہ ہی مانجھی صاحب اصول پرست آدمی ہیں ، گذشتہ پانچ سات سالوں میں ہی مانجھی صاحب نے پتہ نہیں کتنے رنگ بدلے ہیں ،
اختر الایمان صاحب کو چاہیے کہ وہ شور کی راجنیتی کے بجائے خاموشی سے کام کریں اور جس طرح مجلس تلنگانہ میں کچھ مخصوص سیٹوں پر ہی اپنے امیدوار کھڑے کرتی ہے ،ایسے ہی بہار میں بھی مسلم اکثریت والی دس بارہ اسمبلیوں پر ہی اپنے امیدوار کھڑے کریں اور وہاں بھرپور محنت کرکے کامیاب ہوں پھر آئندہ الیکشن میں مزید دس بارہ پر کامیابی کی کوشش کریں ،
یہ یاد رکھیے غیر مسلم آپ کو ووٹ نہیں دیں گے اور آپ صرف اپنے ووٹوں سے وہیں سے جیت پائیں گے جہاں کم از آپ تیس فیصد ہوں گے ،اور وہ بھی اس وقت جب آپ کے اندر مکمل اتحاد ہوگا ،
حیدرآباد میں 1984 سے آپ کامیاب ہورہے ہیں مگر حیدرآباد سے بالکل متصل سکندر آباد میں ایک بار بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ،
__________________________________________________

(3)*مجلس اتحاد المسلمین تلنگانہ میں بھی مسلم اکثریتی حلقوں میں ہی کامیاب ہوپاتی ہے*

*مظاہرحسین عماد عاقب قاسمی*
28/9/2021

مجلس اتحاد المسلمین بارہ نومبر 1927 کو قائم ہوئی تھی ، اور انیس سو باسٹھ تک یہ ایک رفاہی تنظیم تھی ، انیس سو باسٹھ سے انیس سو نواسی تک اس تنظیم کے افراد بطور آزاد امیدوار حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات ، اسمبلی انتخابات اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیتے رہے ، اور وہ حیدرآباد کی ایک یا دو اسمبلی نشستوں پر کامیاب ہوتے رہے ، سلطان صلاح الدین اویسی صاحب انیس سو باسٹھ میں پتھر گٹی حلقے سے پہلی بار کامیاب ہوئے , وہ انیس سو سڑسٹھ میں یاقوت پورہ سے ، انیس سو بہتر میں پتھر گٹی حلقے سے ، اور انیس سو اٹہتر اور انیس سو تراسی میں چار مینار سے بھی کامیاب ہوئے ،

انیس سو چوراسی میں حیدرآباد کی لوک سبھا کا الیکشن بطور آزاد امیدوار لڑا اور کامیاب ہوئے ،
سلطان صلاح الدین اویسی صاحب نے انیس سو نواسی میں پہلی بار مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر حیدرآباد لوک سبھا حلقے سے انتخاب لڑا ، اور کامیاب ہوئے ، انیس سو اکیانوے ، انیس سو چھیانوے ، انیس سو انٹھانوے اور انیس سو ننانوے کے انتخابات بھی انہوں نے حیدرآباد لوک سبھا حلقے سے ہی لڑا ،اور تمام انتخابات میں کامیاب ہوئے ،
اور انیس سو چوراسی سے دوہزار چار تک مسلسل بیس سالوں تک حیدرآباد سے لوک سبھا کے رکن رہے ،
دو ہزار چار کا لوک سبھا الیکشن نہیں لڑا ،
انتیس ستمبر دوہزار آٹھ کو صلاح الدین اویسی صاحب کا انتقال ہوگیا ،
دوہزار چار سے حیدرآباد کے ممبرلوک سبھا اسدالدین اویسی صاحب ہیں جو سلطان صلاح الدین اویسی صاحب مرحوم کے بڑے صاحب زادے ہیں ،
مجلس اتحاد المسلمین کے ایک بڑے لیڈر امان اللہ خان صاحب مرحوم تھے ، وہ انیس سو ساٹھ سے انیس سو ترانوے تک مجلس اتحاد المسلمین میں تھے ، وہ مجلس اتحاد المسلمین کی طرف سے بطور آزاد امیدوار انیس سو اٹہتر ، اور انیس سو تراسی میں ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے ،
انیس سو نواسی میں مجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پرممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے ،
انیس سو ترانوے میں سلطان صلاح الدین اویسی صاحب سے ان کے اختلافات ہوئے اور انہوں نے مجلس بچاؤ تحریک نامی ایک پارٹی بنائی ، اور انیس سو چورانوے میں مجلس بچاؤ تحریک کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے ، دس نومبر دوہزار دو کو امان اللہ خان صاحب کا انتقال ہوگیا ، مجلس بچاؤ تحریک کو انیس سو چورانوے میں آندھرا پردیش اسمبلی کی دو سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ، اور مجلس اتحاد المسلمین کو صرف ایک ، انیس سو نواسی میں مجلس اتحاد المسلمین کو حیدرآباد کی چار اسمبلی نشستیں حاصل ہوئی تھیں،
مجلس بچاؤ تحریک کے امیدوار انیس سوچورانوے کے بعد کامیاب نہیں ہوسکے ،

*مجلس اتحاد المسلمین کی کاردگی*
مجلس اتحاد المسلمین اپنے نشان پر انیس سو نواسی سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے ، اس سے قبل وہ بطور آزاد امیدوار اپنے افراد کو انتخابات میں اتارتی تھی ، اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مجلس نے کب کتنے امیدوار اتارے اور کتنے کامیاب ہوئے ،

*پارلیمانی انتخابات*
1989- ایک امیدوار ،اور وہ کامیاب ہوا ،
1991 – ایک امیدوار ،اور وہ کامیاب ہوا،
1996- چار امیدوار ،اور ایک کامیاب ہوا،
1998- ایک امیدوار ،اور وہ کامیاب ہوا ،
1999- ایک امیدوار ،اور وہ کامیاب ہوا ،
2004- دو امیدوار ،اور ایک کامیاب ہوا ،
2009- دو امیدوار ،اور ایک کامیاب ہوا ،
2014- پانچ امیدوار ،اور ایک کامیاب ہوا ،
2019- تین امیدوار ،اور دو کامیاب ہوئے ،

دوہزار انیس کے پارلیمانی انتخابات میں مجلس اتحاد المسلمین نے تلنگانہ سے باہر قدم رکھا تھا ، اورنگ آباد مہاراشٹر سے ایڈوکیٹ عبد الجلیل صاحب اور کشن گنج سے اختر الایمان صاحب مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار تھے ، اختر الایمان صاحب کامیاب نہیں ہوسکے ،
اورنگ آباد سے عبد الجلیل صاحب اور حیدرآباد سے صدر مجلس اتحاد المسلمین بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کامیاب ہوئے ، حیدرآباد کی لوک سبھا سیٹ انیس سو چوراسی سے مجلس اتحاد المسلمین کے پاس ہے ،

*اسمبلی انتخابات*
آندھراپردیش اسمبلی
1989- پینتیس امیدوار ، چار کامیاب
1994- بیس امیدوار ، ایک کامیاب
1999- پانچ امیدوار ، چار کامیاب
2004- سات امیدوار ، چار کامیاب
2009- آٹھ امیدوار ، سات کامیاب
2014- پندرہ امیدوار ، مگر کوئی کامیاب نہیں ہوا ،
جون دوہزار چودہ میں آندھرا پردیش کو تقسیم کر کے نئی ریاست تلنگانہ تشکیل دی گئی ہے ، حیدرآباد تلنگانہ کی راجدھانی رہے گی ، دوہزار چوبیس تک آندھراپردیش کی راجدھانی حیدرآباد ہی رہے گی ، حیدرآباد شہر تلنگانہ کے درمیان میں واقع ہے ، صوبہ آندھراپردیش اسے مستقل طور پر اپنی راجدھانی نہیں بناسکتا ،
دوہزار بائیس کے اترپردیش اسمبلی الیکشن میں سو امیدوار اتارنے والی مجلس اتحاد المسلمین نے دوہزار انیس کے اندھرا پردیش اسمبلی الیکشن میں ایک امیدوار بھی نہیں اتارا تھا ، وہاں بی جے پی کا اثر بھی نہیں ہے ، اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور اس کے لیڈران پر برسنے والے اسد الدین اویسی صاحب آندھراپردیش کی حکمراں جماعت وائی ایس آر کانگریس کے لیے بہت نرم کیوں ہوجاتے ہیں ،
آندھراپردیش میں بھی وہاں کی کل ابادی کا چھ اعشاریہ سنتاون فیصد (6.57٪)مسلمان ہیں ، وہاں کی گیارہ یا بارہ نشستوں پر مسلم امیدوار کامیاب ہونے چاہییں ، وہاں مسلمانوں کو ان کو مکمل حق دلانے کے دوہزار انیس کے اسمبلی انتخابات میں کیوں دس بارہ امیدوار نہیں اتارے ،
کیا صرف مہاراشٹر ، بہار اور یوپی کے مسلمانوں کو ہی ان کا حق چاہیے ،
یوپی میں سو امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان شاید اسی لیے کیا ہے کہ یوپی میں مسلمان سوا انیس فیصد ہیں اور چارسو تین رکنی اسمبلی میں اسی سیٹوں پر مسلمانوں کا حق ہے ، مجلس کے یوپی کے ایک ذمے دار نے اعلان کیا ہے کہ” یہ ضروری نہیں کہ مجلس کا امیدوار مسلمان ہی ہو ”
میرا خیال یہ ہے کہ اگر مجلس سو سیٹوں پر امیدوار اتارتی ہے تو بیس پچیس سیٹوں پر اس کے غیر مسلم امیدوار ہوں گے ،
دوہزار بیس میں ہوئے بہار کے اسمبلی انتخابات کے وقت بھی مجلس نے ایک دل بدلو کی قیادت میں ایک فرنٹ بنایا تھا اور پچاس سیٹوں کا مطالبہ کیا تھا ، مگر انہیں صرف بیس سیٹیں ملی تھیں ، پندرہ مسلم امیدوار تھے ، اور پانچ غیر مسلم ، اور بعض ایسی جگہ سے مجلس کے مسلم یا غیر مسلم امیدوار تھے جہاں بیس فیصد بھی مسلمان نہیں ہیں ، نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم اکثریتی علاقے کشن گنج میں ہی مجلس کے پانچ امیدوار کامیاب ہوئے ، ان میں سے تین ایک یا دو تین ٹرم قبل ایک یادو تین بار کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے ممبر اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں ،
اور چوتھے شہنواز عالم صاحب دوہزار اٹھارہ میں ضمنی الیکشن میں جوکی ہاٹ سے منتخب ہوئے تھے ،
جوکی ہاٹ سے شہنواز عالم صاحب کے والد تسلیم الدین صاحب اور بڑے بھائی سرفراز عالم صاحب 1969 سے کامیاب ہو رہے ہیں ،
دوہزار چودہ میں تسلیم الدین صاحب ارریہ لوک سبھا حلقے سے منتخب ہوئے تھے اور ان کے بڑے بیٹے سرفراز عالم جوکی ہاٹ سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے ،
تسلیم الدین صاحب کے انتقال کے بعد ارریہ لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں راشٹریہ جنتا دل نے سرفراز عالم صاحب کو امیدوار بنایا اور وہ کامیاب ہوگئے ، اور انہیں اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا ، اس کے بعد راشٹریہ جنتا دل نے جوکی ہاٹ اسمبلی حلقے کے ضمنی انتخاب میں شہنواز عالم کو امیدوار بنایا اور وہ بھی کامیاب ہوگئے ،
بڑے بھائی ممبر لوک سبھا ، اور چھوٹے بھائی ممبر اسمبلی ،
دونوں بھائیوں میں دوری اس وقت شروع ہوئی جب دوہزار انیس کے لوک سبھا الیکشن میں سرفراز عالم ارریہ لوک سبھا حلقے سے کامیاب نہ ہوسکے ، اب ان کی نظر اسمبلی سیٹ پر تھی ، وہ جوکی ہاٹ سے لڑنا چاہتے تھے اور شہنواز کو صرف اپنا فرماں بردار اور بڑے بھائی کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے والا صرف ایک بھائی بناکر رہنا چاہتے تھے ،
جوکی ہاٹ کی سیٹ کی امیدواری کے لیے دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی کوششیں کیں ، راشٹریہ جنتا دل نے چھوٹے بھائی شہنواز عالم کو ٹکٹ نہیں دیا اور بڑے بھائی سرفراز عالم کو ٹکٹ دے دیا ،
سرفراز عالم کئی بار اس حلقے سے کامیاب ہوچکے ہیں ،
دکھی شہنواز عالم الیکشن کی کاروائیاں شروع ہونے سے چند دن قبل مجلس اتحاد المسلمین میں شامل ہوگئے اور مجلس اتحاد المسلمین نے اپنے ایک پرانے کارکن کا ٹکٹ کاٹ کر شہنواز عالم کو جوکی ہاٹ سے ٹکٹ دے دیا ،
دونوں بھائی آمنے سامنے تھے ، دونوں کو کامیابی کی امید تھی ،
مگر جب نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ دونوں کو پچاس ہزار سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور چھوٹے نے بڑے کو پانچ ہزار سے زیادہ ووٹوں سے پچھاڑ دیا ہے ،
—————-
*تلنگانہ اسمبلی*
2014- بیس امیدوار ، سات کامیاب
2018- آٹھ امیدوار ، سات کامیاب
دو جون دوہزار چودہ کو ریاست تلنگانہ کی تشکیل ہوئی ، اور اس سے چند ہفتے قبل بیس اپریل اور سات مئی کو متحدہ آندھراپردیش اسمبلی کے انتخابات دوہزار چودہ کے لوک سبھا انتخابات کے ساتھ کرائے گئے تھے ،
دوہزار اٹھارہ کے تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں مجلس نے صرف آٹھ امیدوار اتارے ، جن میں سات کامیاب ہوئے ،ان میں سے سات امیدوار حیدرآباد شہر کی اسمبلی حلقوں سے ہی تھے ، ایک امیدوار حیدرآباد سے متصل ضلع رنگا ریڈی ضلع کے راجیندر نگر حلقے سے تھا ، یہ امیدوار تیسرے نمبر پر رہا ، تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کا امیدوار اٹھاون ہزار سے زیادہ ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوا ، دوسرے نمبر پر تلگودیشم کا امیدوار تھا ،
*تلنگانہ میں مسلمان بارہ اعشاریہ اڑسٹھ فیصد* (12.69٪)ہیں ،اور یہاں مجلس گذشتہ اکسٹھ سالوں سے سیاست میں سرگرم عمل ہے ، مگر وہ یہاں بھی مسلمانوں کو ان کا سیاسی حق نہیں دلاسکی ، تلنگانہ میں پندرہ ارکان اسمبلی مسلمان ہونے چاہییں ، مگر موجودہ اسمبلی میں صرف آٹھ ایم ایل اے مسلمان ہیں ، سات مجلس کے ہیں اور ایک حکمراں جماعت تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کا ہے ،
متحدہ آندھراپردیش میں تین بار مجلس اتحاد المسلمین ، پینتیس ، بیس ،اور پینتیس امیدوار اتار کر تجربہ کر چکی ہے ، اور اسے یہ تجربہ ہوگیا ہے کہ وہ صرف حیدرآباد شہر کی سات مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں سے کامیاب ہوسکتی ہے ، اس لیے اس نے دوہزار اٹھارہ کے اسمبلی انتخابات میں صرف حیدرآباد شہر سے سات امیدوار اتارے، اور وہ ساتوں کامیاب ہوئے ، اس کا آٹھواں امیدوار جو حیدرآباد سے متصل رنگاریڈی ضلع کے راجیندر نگر سے تھا وہ کامیاب نہیں ہو ا اور تیسرے نمبر پر رہا ،
حیدرآباد سے باہر تلنگانہ یا آندھرا کے کسی بھی حلقے سے بھی اسمبلی یا لوک سبھا کے لیے مجلس کا امیدوار منتخب نہیں ہوا ہے ،

Comments are closed.