جمعہ نامہ: لگے گی آگ تو آئیں گے گھر سبھی زد میں

 

ڈاکٹر سلیم خان

قرآن مجیدمیں حضرت آدم ؑ کے بیٹوں ہابیل و قابیل کا قصہ بیان کرنے بعد ارشادِ ربانی ہے :’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں‘‘۔ کتابِ الٰہی کایہ قول فیصل شاہد ہے کہ فی زمانہ چہار جانب قتل و غارتگری کا بول بالا ہے۔ دین اسلام میں ایک قتلِ ناحق کو سارے انسانوں کی ہلاکت سے تعبیر کیا گیا ۔ اس لیے سماج کے اندر برپا اس ظلم و استبداد کے خلاف سینہ سپر ہونے والوں یعنی اس کی روک تھام کرنے والوں کو عالم انسانیت کا نجات دہندہ قرار دیا گیاہے۔

فرمانِ قرآنی ہے :’’اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام قرار دیا ہے سوائے اس کے کہ (اس کا قتل کرنا شریعت کی رُو سے) حق ہو، اور جو شخص ظلماً قتل کردیا گیا تو بیشک ہم نے اس کے وارث کے لئے (قصاص کا) حق مقرر کر دیا ہے سو وہ بھی (قصاص کے طور پر بدلہ کے) قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، بیشک وہ (اﷲ کی طرف سے) مدد یافتہ ہے (سو اس کی مدد و حمایت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی)‘‘۔ مذکورہ بالا ممانعت کے باوجود اگر قتل ہوجائے تو مقتول کے وارثین کو قصاص ، دیت یا معاف کرنے کا اختیار ہے لیکن دنیا کی کوئی طاقت اسے مجبور نہیں کرسکتی ۔ عدالت کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ شواہد کی روشنی میں بلا کم و کاست قاتل کو قرار واقعی سزا دے اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ اسے ایمانداری کے ساتھ نافذ کرے۔ مہاراشٹر کے بدلا پور انکاونٹر کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مہاراشٹر کےبدلاپور میں اسکولی طالبات کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے ملزم اکشے شندے کو پولیس کی گاڑی میں ہلاک کردیا گیا۔ یہ معاملہ عدالت میں پہنچا تو بامبے ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ پستول چلانے کے لیے طاقت (وقت اور تربیت) درکار ہوتی ہے اس لیے جس شخص نے کبھی پستول نہیں چلائی وہ اسے ان لاک کرکے کیسے لوڈ کرسکتا ہے ؟ عدالت نے پوچھا اگر ملزم نے پہلے گولی چلائی تب بھی وین میں موجود دیگر پولیس والے اس پر قابو پا سکتے تھے کیونکہ وہ جسمانی طور پر اتنا مضبوط نہیں تھا ۔ یہ سوال بھی ہوا کہ سرکے بجائے جسم کے کسی اور حصے میں گولی ماری جاسکتی تھی نیزگولی اگر آر پار ہوئی تو خالی کارتوس کہاں گئے؟ عدالت نے سفارش کی کہ اس معاملے کی تفتیش کسی آزاد ایجنسی سے کرائی جانی چاہیے۔ حزب اختلاف نے پولیس کے بیان میں خامیوں کےبنیاد پر الزام لگایا کہ حکومت ِ وقت اسکول انتظامیہ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اکشے شندے کے انکاونٹر نے 23 دسمبر 2002 کو ہونے والے خواجہ یونس کے انکاونٹر کی یاد تازہ کردی ۔2؍ دسمبر 2002 کو گھاٹکوپر بم دھماکہ کے الزام میں اس بے قصور کو گرفتارکیا گیا تھا ۔ آگے چل کر پولیس افسر سچن وازے نے دعویٰ کیا کہ تفتیش کے لیے اورنگ آبا دلے جا تے وقت خواجہ یونس پولس تحویل سے فرار ہوگیا ۔ ریاستی پولیس کی سی آئی ڈٖی نے تفتیش کے بعد اس دعوے کو مسترد کرکے پولس والوں کے خلاف قتل کا مقدمہ قائم کیا تھا جو ہنوز زیر سماعت ہے۔  2004 میں ممبئی ہائی کورٹ نے اے سی پی سچن وازے، کانسٹبل راجندر تیواری، راجا رام نکم اور سنیل دیسائی کو معطل کرنے کے ساتھ ان کے خلاف انکوائری کا بھی حکم دیا مگر پھر سارے احکامات داستاں پارینہ بن گئے حالانکہ سی آئی ڈی کی چارج شیٹ کے بعد فاسٹ ٹریک عدالت میں مقدمہ کا آغاز تو ہوا مگر 20؍ برسوں میں صرف ایک شاہد کی گواہی عمل میں آئی ۔ یہ عدالتی سست روی مجرمین کو سزا سے بچانے کے لیے تھی مگر بات یہیں نہیں رکی بلکہ 2020میں ممبئی ہائی کورٹ سے اجازت لینے کی زحمت کیے بغیر پولیس کمشنر نے چاروں ملزمین کو بحال کرکے عدالت کی توہین کردی اور کوئی کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکا۔

سرکار کی اس دیدہ دلیری کے ایک سال بعد مکیش امبانی کی عالمی شہرت یافتہ رہائش گاہ کے قریب ایک اسکارپیو میں ایک دھمکی آمیز خط کے ساتھ دھماکہ خیز مادہ ملا۔ اس سنگین معاملے کی جانچ کرائم انٹیلی جنس یونٹ کے اعلیٰ افسر سچن وازے کو سونپی گئی ۔ وہی سچن وازے جو خواجہ یونس کے انکاونٹر میں ماخوذ ہے۔ اس کے بعد اچانک اسکارپیو کا مالک من سنگھ ہیرین نے خود کشی کرلی۔ اس پرشکوک شبہات کا اظہار ہوا تو اس کے تفتیش کی ذمہ داری مہاراشٹر اے ٹی ایس کو سونپی گئی مگر مرکز سے این آئی اے نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے کر سچن وازے کو گرفتار کرلیا۔اس پر الزام لگا کہ پردیپ شرما کے ساتھ مل کر وازے نے مبینہ طور پر ہیرن کو قتل کرنے کی سازش رچی کیونکہ وہ مکیش امبانی کو دھمکی دینے کی پوری سازش میں ایک ’کمزور کڑی‘تھا۔

سوال یہ ہے کہ اگر وہ حکومت جس کی ذمہ داری قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے اگر اپنے پولیس افسران سے ناحق قتل کروائے، ان کو تحفظ فراہم کرے اور بڑھ چڑھ کر نوازے تو یہ سلسلہ کیسے رکےگا؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھا ہوگا کہ:” یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے“ خواجہ یونس کے معاملے میں اگر خاطی پولیس افسران کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو نہ اکشے شندے مارا جاتا اور نہ اس دوران بے شمار بے قصور لوگوں کا انکاونٹر ہوتا ۔ آج عدالت بے چین ہے کیونکہ مقتول کا نام خواجہ یونس کے بجائے اکشے شندے ہے لیکن اگراسے راحت اندوری کا یہ شعر یاد ہوتا تو یہ نوبت نہیں آتی ؎

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

Comments are closed.