’’ون نیشن ون الیکشن‘‘ ایک آگ کا دریا ہے اور۔۔۔۔

عارف شجر
حیدرآباد(تلنگانہ)8790193834
۔۔۔۔۔
سیاسی گلیاروں میں چرچہ یہ ہے کہ پی ایم مودی کو رات میں جو بھی خواب آتے ہیں اسی خواب کو صبح صبح اپنے گودی میڈیا کو بتا دیتے ہیں اور پھر گودی میڈیا انکے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے اپنے کام میں لگ جاتی ہے۔ پی ایم مودی کے محض خواب کو لے کر ڈیبٹ اور اسپیشل پروگراموں میںچیخ چیخ کر گودی میڈیا اپوزیشن قائدین پر حملہ کرکے انہیں بھی پی ایم مودی کے خواب کو قبول کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہتی ہے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی کے تخریبی خواب اپنے قبل کے دس سالوں کی حکومت میں پورے ہوتے تھے کیوں کہ اس وقت بی جے پی تنہا اقتدار میں مضبوطی کے ساتھ حکومت چلا رہی تھی ۔پی ایم مودی جو بھی کہیں جو بھی کریں جو بھی سوچیں جو بھی خواب دیکھیں اس پر کوئی پابندی نہیں تھی اور نہ ہی عمل کرنے اور اعلانات کرنے پر کسی طرح کا دبائو تھالیکن شاید پی ایم مودی ابھی تک یہ قبول نہیں کر پا رہے ہیں کہ انکی حکوت بیساکھیوں میں ٹکی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ انکے خواب کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے حالانکہ جب سے بی جے پی کی بیساکھیوں کی حکومت بنی ہے تب سے پی ایم مودی کے ’یو ٹرن ‘لینے کا سلسلہ قائم ہے پی ایم مودی نے بیشتر اپنے اعلانات میں یو ٹرن لے لیا ہے ۔ بتایا جارہا ہے کہ جلد ہی وقف ترمیمی بل پر بھی یو ٹرن لے سکتے ہیں کیوں کہ انکی دو مضبوط اتحاد جماعتیں پی ایم مودی کے اس فیصلے سے پوری طرح خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں انہیں یہ لگ رہا ہے کہ اگر وقف املاک پر پی ایم مودی کے فیصلے پر مہر لگائی یا پھر ذرا سی بھی زبان کھولی تو اقلیتوں کا ایک بڑا حصہ ان سے کھسک جائے گا اور پھر آئندہ ہونے والے انتخابات میں انہیں بھر پور نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے اپنی خاموشی میں ہی وہ اپنی بھلائی سمجھ رہے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انکی خاموشی بی جے پی کی حمایت تو نہیں ہے کیا وہ اس بہانے پی ایم مودی کو اندر ہی اندر انکے حوصلے کومضبوط تو نہیں کر رہے ہیں۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ پی ایم مودی کو’ ون نیشن ون الیکشن‘ کرانے کی تجویز خواب میں ہی آئی تھی یہی وجہ ہے کہ پی ایم مودی اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے پوری طرح سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی کا یہ خواب جتنا دلکش ہے اتنا ہی مشکل ہے۔ انکا یہ خواب حقیقت سے کوسوں دور ہے دور اس معنی میں کہ ایک تو انکی حکومت بیساکھیوں کے سہارے ہے دوسرے یہ ہے کہ اپوزیشن پی ایم مودی کو اس خواب کو چکنا چور کرنے میں پوری تیاری کے ساتھ لگا ہوا ہے ہو سکتا ہے کہ پی ایم مودی اپنے خواب کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے میں قاصر رہے ہیں پھر جو پہلے انہوں نے اپنے فیصلے پر کیا یعنی ’’ یو ٹرن‘‘ لیا کہیں اس فیصلے پر بھی انہیں یو ٹرن نہ لینا پڑے کیوں کہ اس بات سے انکا نہیں کیا جاسکتا کہ ون نیشن ون الیکشن جتنا سننے اور کہنے میں آسان معلوم ہوتا ہے اصل میں اتنا آسان ہے نہیں۔ اس کی تھوڑی سی تفصیلات میں بتا دوں کہ اصل میںکووند کمیٹی کی سفارشات کے مطابق "ون نیشن ون الیکشن” کے انقلابی مقصد کو دو مرحلوں میں نافذ کیا جانا ہے جس میں پہلے مرحلے میں لوک سبھا اور اسمبلی کے بیک وقت انتخابات اور دوسرے مرحلے میں 100 کے اندر بلدیاتی انتخابات۔ عام انتخابات کے دنوں میں اس میں انتخابات (پنچایت اور میونسپلٹی) کا انعقاد شامل ہے۔ سفارشات کے مطابق تمام انتخابات کے لیے یکساں ووٹر لسٹ تیار کی جائے گی اور ملک گیر بحث کے بعد عمل درآمد گروپ تشکیل دیا جائے گا۔ہندوستان کا آئین قومی اور ریاستی سطحوں پر بیک وقت انتخابات کا بندوبست نہیں کرتا ہے۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور آئین میں ترمیم کے لیے ایک طویل عمل درکار ہوگا۔ ریاستی قانون ساز اسمبلیوں اور لوک سبھا کے لیے طے شدہ شرائط ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ان شرائط پر مصالحت کے لیے دونوں سطحوں پر آئینی ترامیم اور قانونی تبدیلیاں درکار ہوں گی۔ آئینی ماہرین کے مطابق اس کے لیے آئین کے کم از کم 5 آرٹیکلز میں ترمیم کرنا ہو گی۔ اس کے لیے اہم آئینی ترامیم کے ساتھ ساتھ قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور اس خیال کو حزب اختلاف اور کم از کم حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس سے حمایت حاصل ہونے کے امکان کو پارٹی صدر ملکارجن کھڑکے نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اس وقت پارٹی اور اپوزیشن جانے پہچانے دشمنوں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔اگر کووند پینل کی سفارشات کو مان لیا جاتا ہے تو ‘ون نیشن ون الیکشن’ کے لیے کم از کم 18 آئینی ترامیم کی ضرورت ہوگی۔ ان میں سے زیادہ تر آئینی ترامیم کو ریاستی مقننہ کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن اس کے لیے کچھ آئینی ترمیمی بلوں کی ضرورت ہوگی جنہیں پارلیمنٹ سے منظور کرنا ہوگا۔او این او ای کے دو الگ الگ مراحل کے لیے دو آئینی ترمیمی بلوں کو منظور کرنا ہو گا۔ ان کے تحت کل 15 ترامیم کی جائیں گی جن میں نئی دفعات اور دیگر میں ترامیم شامل ہیں۔کووند پینل کی سفارش کے مطابق پہلا بل آئین میں ایک نیا آرٹیکل – 82A – داخل کرے گا۔ آرٹیکل 82A اس عمل کو قائم کرے گا جس کے ذریعے ملک بیک وقت انتخابات کی طرف بڑھے گا۔دوسرا بل آئین میں آرٹیکل 324 اے کو متعارف کرائے گا۔ یہ مرکزی حکومت کو لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے ساتھ بلدیات اور پنچایتوں کے متوازی انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے قانون بنانے کا اختیار دے گا۔دو آئینی ترمیمی بلوں کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ آرٹیکل 368 کے تحت ترمیمی طریقہ کار پر عمل کرے گی۔ چونکہ لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلی سے متعلق انتخابی قوانین بنانے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے، اس لیے پہلے ترمیمی بل کو ریاستوں کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن بلدیاتی اداروں کے انتخابات سے متعلق معاملات ریاست کے تابع ہیں اور اس کے لیے دوسرے ترمیمی بل کو ملک کی کم از کم نصف ریاستوں سے منظوری درکار ہوگی۔دوسرا آئینی ترمیمی بل ریاستوں کی طرف سے منظور ہونے کے بعد اور دونوں ایوانوں میں مقررہ اکثریت سے منظور ہونے کے بعد، بل صدر کی منظوری کے لیے جائے گا۔ ایک بار جب وہ بلوں پر دستخط کر دے گی تو وہ قانون بن جائیں گے۔ اس کے بعد عمل درآمد گروپ ان ایکٹ کی دفعات کی بنیاد پر ان تبدیلیوں کو انجام دے گا۔واحد ووٹر لسٹ اور ووٹر شناختی کارڈ کے حوالے سے کچھ مجوزہ تبدیلیوں کے لیے کم از کم نصف ریاستوں سے منظوری درکار ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل 325 میں ایک نئی ذیلی شق تجویز کرے گی کہ کسی حلقے میں تمام ووٹنگ کے لیے ایک ہی انتخابی فہرست ہونی چاہیے۔اس کا مطلب ہے کہ 2024 اور 2028 کے درمیان بننے والی ریاستی حکومتوں کی مدت صرف 2029 کے لوک سبھا انتخابات تک ہوگی۔ اس کے بعد لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات خود بخود ایک ساتھ ہوں گے۔
بہر حال ! بلدیاتی اداروں سے لے کر پارلیمنٹ تک انتخابات کے عمل کو بیک وقت کرنے کے لئے اس پوری آئینی اور سیاسی مشق کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی سرکار کا یہ انتہائی مہتو کانکشی خواب کیسے پورا ہوتا ہے کیوں کہ ون نیشن ون الیکشن کا نعرہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا لگتا ہے۔ لوک سبھا میں کسی بھی آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی دو تہائی ارکان کی حمایت اور ووٹنگ ضروری ہے۔ اگر تمام 543 ممبران پارلیمنٹ موجود ہیں تو 362 ممبران پارلیمنٹ کی حمایت درکار ہے۔ اس وقت اپوزیشن اتحاد ‘انڈیا’ کے 234 اراکین پارلیمنٹ ہیں۔ آئینی ترمیم کے لیے سادہ اکثریت کے ساتھ خصوصی اکثریت بھی ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترمیم کو منظور کرنے کے لیے حکمران جماعت کو اپوزیشن کی حمایت کی بھی ضرورت ہوگی۔ دوسری طرف راجیہ سبھا میں این ڈی اے کے 113 ممبران پارلیمنٹ ہیں اور 6 نامزد ممبران ان کی حمایت کرتے ہیں۔ ‘انڈیا’ اتحاد کے 85 ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ اگر تمام اراکین اسمبلی ووٹ ڈالنے کے لیے آتے ہیں تو دو تہائی اکثریت کے لیے 164 ووٹ درکار ہوں گے۔ کچھ آئینی تبدیلیوں کے لیے بھی ریاستی مقننہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ اگر تمام ممبران راجیہ سبھا میں موجود ہوں تو کل تعداد 164 ہو جائے گی۔ فی الحال پورے ملک میں بیک وقت انتخابات کرانا آسان نہیں۔ لوک سبھا کے انتخابات اس سال مئی-جون میں ہوئے تھے جب کہ اوڈیشہ، آندھرا پردیش، سکم اور اروناچل پردیش جیسی ریاستوں میں پارلیمانی انتخابات کے ساتھ اسمبلی انتخابات بھی ہوئے۔ جموں و کشمیر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کا عمل جاری ہے جبکہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں بھی اس سال کے آخر میں انتخابات ہونے ہیں۔ دہلی اور بہار ان ریاستوں میں شامل ہیں جہاں 2025 میں انتخابات ہونے ہیں۔ آسام، کیرالہ، تمل ناڈو، مغربی بنگال اور پڈوچیری میں موجودہ اسمبلیوں کی میعاد 2026 میں ختم ہو جائے گی۔ جبکہ گوا، گجرات، منی پور، پنجاب، اتر پردیش اور اتراکھنڈ اسمبلیوں کی میعاد 2027 میں ختم ہوگی۔ ہماچل پردیش، میگھالیہ، ناگالینڈ، تریپورہ اور تلنگانہ میں ریاستی اسمبلیوں کی میعاد 2028 میں ختم ہوگی۔ اس سال ہونے والے موجودہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کی میعاد 2029 میں ختم ہو جائے گی۔ اب اس بات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ـ ــ’ ون نیشن ون الیکشن‘ ہندوستان میں نافذ ہونا کتنا ممکن ہے۔پی ایم مو دی کے خواب کے سلسلے میں جگر مراد آبادی کا ایک شعر صادق آتا ہے کہ
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

Comments are closed.