یہ حالات بھی بدل جائیں گے

سراج الدین ندوی
چیرمین ملت اکیڈمی بجنور
9897334419
ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا جملہ لکھ کر دو جسے پڑھ کر میں آسودگی اور اطمینان حاصل کرسکوں ۔وزیر نے حکم کی تعمیل کی اور بادشاہ کو جملہ لکھ کر دیا ۔’’ یہ حالات بھی بدل جائیں گے ۔‘‘ آدمی اگر غم ،تکلیف، پریشانی ،حادثہ ،بیماری اوردکھ کے عالم میں اگر یہ جملہ پڑھے گا تو آدمی کو بہت حوصلہ ملے گا ۔اس لیے کہ رنج اور غم ایسی کیفیات ہیں جو ہمیشہ باقی نہیں رہتیں۔تکلیف ،پریشانی،تنگ حالی ہر وقت آدمی کے ساتھ نہیں لگی رہتیں ،بلکہ حالات بدلتے رہتے ہیں ۔غم کے ان حالات میںاس جملے سے آدمی کی ڈھارس بندھتی ہے ۔اگر وہ اس جملہ کو خوش حالی اور مسرت کے مواقع پر پڑھے گا تو اس کے اندر غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوگا۔وہ یہ سمجھے گا کہ خوشی کے دن بھی جاسکتے ہیں اورمیں غم سے دوچار ہوسکتا ہوں ۔میری یہ خوش حالی تنگ حالی سے بھی بدل سکتی ہے ۔اس جملہ کو سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔اس نے وزیر کو بہت سا انعام دیا۔لیکن اس سے بہتر وہ بات ہے جو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمائی ہے ۔آپ ؐ نے فرمایا:۔’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ جب کہ ایسا مومن کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں ہے۔ اگر اسے آسودہ حالی ملتی ہے اور اس پر وہ شکر کرتا ہے، تو یہ شکر کرنا اس کے لیے باعث خیر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تنگی لاحق ہوتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے، تو یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے باعث خیر ہے۔۔‘‘(مسلم )
انسان کی زندگی میں دو ہی حالات پیش آتے ہیں ۔یا تو اسے رنج و غم اور فکر و پریشانی لاحق ہوتی ہے یا اسے کوئی خوشی اور نعمت ملتی ہے ۔دونوں حالتوں سے انسان بار بار گزرتا ہے ۔چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا :۔’’ اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ-وَ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآئَ-وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(آل عمران۔140) ( اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں اوریہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرادے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطافرمادے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔)یعنی زمانہ اور ایام بدلتے رہتے ہیں۔جس طرح پانی کا ڈول کبھی بھرجاتا ہے اور کبھی خالی ہوجاتا ہے،اسی طرح انسان کبھی خوشی پاتا ہے اور کبھی غم سے دوچار ہوتا ہے ،عربی زبان میں اس کیفیت کو ’’تداول‘‘کہتے ہیں ۔چنانچہ دونوں حالتوں کو قرآن و حدیث میں مختلف اسالیب میں بیان کیا گیا ہے ۔
پہلی حالت جس میں انسان کو کوئی گزند اور تکلیف پہنچتی ہے ،اسے کوئی نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو اس کو یہ کہہ کر حوصلہ دیا گیا ہے :۔ان اللہ مع الصابرین۔(البقرہ) یعنی جو لوگ مصائب پر صبر کرتے ہیں اوروہ گھبرا کر اللہ کا در اور دامن نہیں چھوڑتے ،اس سے ناامید و مایوس نہیں ہوتے ،اپنی محرومیوں کا گلہ شکوہ نہیں کرتے ،اللہ ان کے ساتھ ہے ۔مصیبت زدہ انسان اگر اپنے پورے شعور کے ساتھ یہ یقین کرے اور اس پر ایمان رکھے کہ اس کے ساتھ اللہ ہے تو اسے کس قدر سکون و طمانیت حاصل ہوگی اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔انسان ذرا سوچے وہ اللہ جو ہر چیز پر قادر ہے ۔وہ اللہ جو تمام خزانوں کا مالک ہے ۔وہ اللہ جو اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے ۔وہی اللہ آج اسے حسب استطاعت تکلیف دے کر آزمارہا ہے تو کیا ہوا ؟اس نے میرے اوپر بے پناہ عنایات بھی کی تھیں اور پھر وہی ان تکالیف کو دور کرنے والا ہے ،اگر میں ثابت قدم رہا تو وہ اس تکلیف کو برداشت کرنے کا بھی مجھے اجر عطا فرمائے گا ۔ یہ ایمان و یقین اس کو چٹان جیسا حوصلہ عطا کرے گا ،اسی بات کو مولانا عامر عثمانی ؒ نے اس طرح کہا ہے :
آزمائشیں اے دل سخت ہی سہی لیکن
یہ نصیب کیا کم ہے کوئی آزماتا ہے
صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ،بلکہ اس نے صبر کرنے والوں کو بشارت و خوش خبری سنائی ہے ۔:’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ۔اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: ”ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے”انہیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔‘‘(البقرہ 155تا 157)
قرآن میں متعدد مقامات پر صبر کی تلقین کی گئی ہے۔اور یہ بتایا گیا ہے کہ حالات کتنے ہی خراب اور کربناک ہوں ،اگر تم صبر کروگے تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی ۔چنانچہ فرمایا گیا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پا مردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘(آل عمران ۔200)اس آیت میں نہ صرف صبر کرنے کی بات کہی گئی ہے بلکہ ایک دوسرے کو بھی صبر کی تلقین کا حکم دیا گیا ہے ۔کبھی کوئی اجتماعی مصیبت آجاتی ہے ،جس میں پوری انسانی آبادی مبتلا ہوجاتی ہے ،کبھی پورا خاندان متاثر ہوتا ہے ،ایسی صورت حال میں ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کرنا چاہئے اورخود بھی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔صبر کرنے والوں کو دنیا میں بھی کامیابی ملتی ہے اور آخرت میں ان کو بڑے اجر سے نوازا جائے گا۔
صبر کی اعلیٰ ترین مثالیں ہمیں سیرت نبوی ﷺ اور سیرت اصحاب رسول میں ملتی ہیں ۔ان پاک نفوس نے اپنے مشن کی راہ میں آنے والی مشکلات کو انگیز کیا ،اپنے سفر کو جاری رکھا ،ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے غافل نہیں ہوئے ،کسی طوفان سے نہیں ڈرے ،کسی لشکر سے خوف نہیں کھایا ۔کبھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ حق کے راستے میں سب کچھ برداشت کرتے ہوئے جمے رہے ۔اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بھی بشارت دی کہ اگر تم تقویٰ کی روش پر قائم رہے اور تم نے صبر کیا تواللہ تمہارا اجر ضائع نہیں کرے گا اور اللہ تمہارے لیے راہیں نکال دے گا ۔چنانچہ فرمایا گیا:۔’’اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(یوسف۔90)بیشک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔اور دوسری جگہ فرمایا گیا۔وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا،وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ-وَ مَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ-اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ-قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًاجو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گااور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے(سورہ طلاق۔3،4)
اللہ کے رسول ﷺ نے مکی دور میں جب کلید بردار کعبہ طلیحہ سے چابی مانگی تو اس نے دینے سے انکار کردیا ۔لیکن آپؐ نے صبر کیا اور طلیحہ سے کہا :’’ اے طلیحہ ایک دن وہ آئے گا جب یہ چابی ہمارے ہاتھ میں ہوگی اور ہم جسے چاہیں گے دیں دے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔مکہ فتح ہوا ،چابی آپ کے سپر کردی گئی ،آپ ؐ نے طلیحہ کو وہ دن یاد دلایا اور کہا آج ہم جسے چاہیں یہ چابی دے سکتے ہیں ،لیکن آپ ؐ نے وہ چابی ان ہی کو واپس کردی اورکہا کہ اب قیامت تک یہ چابی تمہارے پاس رہے گی ۔‘‘آج بھی وہ چابی حضرت طلیحہ ؓکے خاندان کے پاس ہے ۔
انسان جب پریشانیوں اور مصیبتوں میں صبر کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کو کامیابی عطا کرتا ہے ۔آج مسلمان جن پر آشوب دور سے گزررہے ہیں اگر وہ صبر کا مظاہرہ کریں گے تو یہ حالات بدل جائیں گے ۔صبر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان خوف زدہ و دہشت زدہ ہوکر گھر میں بیٹھ جائے ۔بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ خراب حالات میں بھی اپنے سفر کو جاری رکھا جائے ،اصلاح و دعوت کا کام کرنے والے کام کرتے رہیں ،سماج سے غربت و جہالت کو مٹانے والے اپنے کام پر لگے رہیں ،معاشرہ میں خیر و فلاح کے داعی لوگوں کو پکارتے رہیں ۔چاہے اس کے عوض انھیں پابند سلاسل کیا جائے ،خواہ ان کے کاروبار کو نقصان پہنچایا جائے ،ان کے مکانوں کو بلڈوز کیا جائے ۔اگر وہ ہمت نہیں ہاریں گے اور پامردی کے ساتھ کھڑے رہیں گے تو آزمائشوں کے یہ طوفان ان کے صبر سے ٹکرا کر اپنا راستہ بدلنے پر ضرور مجبور ہوں گے ۔
دوسری بات جو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمائی کہ اگر تمہیں خوش حالی مل جائے ،تمہارے حالات ساز گار ہوجائیں ،تمہیں قوت و اقتدار نصیب ہوجائے تو غرور و تکبر کے بجائے اپنے رب کا شکر بجالائو ۔اس کی تسبیح بیان کرو ،اس کے احسان مند رہو چنانچہ اللہ تعالیٰ جہاں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے وہیںشکر نے کرنے والوں کو مزید نعمتوں سے نوازتا ہے،لیکن کفران نعمت پر سخت عذاب میں بھی مبتلا کردیتا ہے ۔ارشاد باری ہے۔:’’ لَینْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَینْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ‘‘(ابراہیم۔7)اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
Comments are closed.