خانقاه رحمانى روحانیت و تحریکات کا اک آئینہ!

 

 

تحریر: محمد زکریا

 

متعلم: سال دوم، بی یو ایم ایس، گورنمنٹ طبی کالج اینڈ ہاسپٹل پٹنہ

 

یوں تو ہماری پوری زندگی سفر ہی پر محیط اور مشتمل ہے جس کے تعلق سے کہا گیا ”كن في الدنيا كانك غريب او عابر سبيل“ یہ الگ بات ہے کہ ہم اسی حیات مستعار پر کچھ یوں فدا ہو تے ہیں کہ لگتا ہے یہی زندگی سدا اور ہمیشہ ہمیش رہے گی اور گویا کہ ہم دار بقا کے مکیں ہیں، لیکن قانون فطرت کا جو ہماری طبیعت سے معاہدہ "اجل مسمی” ہوا ہے اس پر بغیر کسی کم و کاست کے وہ عمل پیرا ہے اور ایک دن آئے گا کہ ہم اس دار فنا ء سے ملک بقاء کو کو چ کر جائیں گے، جہاں حسن عمل کے ساتھ ساتھ حسن نیت پر بھی مرتب ہونے والے اجر و ثواب کام آئیں گے۔

 

اسی حسن نیت اور حصول اجر و ثواب کے داعیہ سے، مجھ حقیر کا 24/10/2024 کو خانقاہ رحمانی مونگیر کا ایک یادگار اور روحانی سفر ہوا جس سے ایک دیرینہ آرزو کی تکمیل ہوئی فللہ الحمد و المنہ! دل اس سفر کی فرحت و مسرت اور سرور و انبساط کے خوش گوار کیفیات سے اب تک معمور ہے کہ لوٹنے کے کئی روز گزر جانے کے بعد بھی ذہن و دماغ پر اس کا خمار چھایا ہوا ہے اور قلب و نظر کی ایک پیاس ہے جس کی شدت بڑھتی ہی جارہی اور بانگِ دروں کو دل کے کان کچھ یوں محسوس کررہے ہیں کہ:

 

ایک دو بوند سے رندوں کا بھلا کیا ہوگا۔

 

اور تارنفس کیلم عاجز علیہ الرحمہ کے انداز میں کچھ یوں نغمہ سراہے:

 

جی نہ چاہے تھا اسے چھوڑ کے جانے کو

ہم نے معشوق بنا رکھا تھا میخانہ کو

 

نیز تشنہ لبی کے احساس کو فزوں سے فزوں تر کر رہی ہے، اور کار ہائے روزگار سے سراپا عرض ہے کہ بہر خدا کوئی ایسی سبیل پیدا کرو کہ پھر سے کوچہء جاناں کی زیارت کا ساماں ہوئے جائے، آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلب و جگر کی راحت میسر ہو جائے ،اور آج کے اس مادی ریل پیل، منافقانہ مسکراہٹ، مصنوعی خوشی اور بے سکوں زمانے میں، سکون واطمینان کے حقیقی معانی کے ساتھ زندگی کے کچھ لمحات اس بقعۂ نور میں بسر کی جائے جس کی پرنو فضائیں ایک عرصہ دراز سے ذکر الہٰی کی قندیل سے روشن، اس کا ہر گوشہ ذکر نبی سے عطر بیز، مشک میں نہایا ہوا اور کیف آگیں ہیں، جہاں شاہ و گدا جبیں سائی کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں جس جگہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں،جس کے کیمیا اثر ماحول میں بے شمار بندگان خدا کے قلوب اس کثافت اور زنگ سے پاک و صاف ہوتے اور جِلا پاتے چلے آرہے ہیں جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے: "كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون” اسی طرح ماہانہ مجلس درود سے محبین رسول کے دلوں کے عشق کی انگیٹھیوں کو گرم رکھنے اور آتش عشق کی تپش کو بڑھانے کا نظم ایک صدی سے زائد عرصے سے جاری وساری ہے، مختصر یہ کہ خانقاہ رحمانی ملک کے لاکھوں بندگانِ خدا اور بالخصوص اہلیان بہار کے لئے ایک روحانی اوکسیجن پلانٹ ہے جس کی شروعات قادیانیت کے تعاقب میں ہوئی تھی، اور اسی کے ساتھ ایمان و عقائد کی حفاظت، سنت واحادیث کی اشاعت اور تزکیہ نفوس کے باب میں اہلیان خانقاہ اور اس سجادہ نشینوں نے وہ خدمات انجام دی ہیں جن کے تذکرے تاریخ کے سینے میں جلی حروف سے مرقوم و محفوظ ہیں۔ اس خانقاہ کی ایک اہم خصوصیت یہ رہی کہ اس کے سجادہ نشین گوشہ نشیں نہیں رہے اور نہ اس کو کبھی ترجیح دی بلکہ ”ھم بالیل رھبان و بالنھار فرسان“ پر عمل پیرا ہو کر ملک و ملت کے کاز اور مسائل سے ہمیشہ باخبر رہے اور فرنٹ پر رہ کر بھرپور قیادت کی؛ خواہ ملک کی آزادی کے لئے جیل کی کال کوٹھری کو آباد کرنا ہو یا مسلم پرسنل لاء کے پلیٹ فارم سے نس بندی کے معاملے کو لیکر ملک کے طول و عرض میں اس کے خلاف تحریک چلا کر سڑکوں اور چوراہوں پر احتجاجاً ڈیرہ جمانے کی بات ہو، یا پھر طلاق ثلاثہ کے وقت حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی رہبری کا موقع ہو، یاپھر اسی طرح موجودہ وقف ترمیمی بل 2024ء کے خلاف تحریک چلا کر ملک کے مسلمانو میں بیداری پیدا کرنے اور اس میٹھے زہر بلکہ سنہرے زہر کی زہرناکی اور اس کی بدصورتی، اور آنے والے خطرات سے عوام وخواص کو آگاہ کرنے کا مرحلہ ہو، ہر محاذ پر خانقاہ رحمانی کے بوریہ نشیں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

 

مشہور جو ایک قافلہ اہل جنوں ہے

اس قافلے کے قافلہ سالار ہمیں ہیں

 

ابھی گزشتہ کئی ہفتوں سے خانقاہ رحمانیہ کے سجادہ نشین، امیرِ شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم العالیہ تفہیم وقف ترمیمی بل 2024ء کو لیکر جامعہ رحمانی کے روح پرور ماحول میں ورکشاپ کر رہے ہیں جس میں قاضی حضرات اور دیگر میدانوں سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے احباب کو ٹرینڈ کر رہے ہیں اور سمجھا رہےہیں، چونکہ موجودہ وقف ترمیمی بل کے خوب صورت نام نے Highly qualified لوگوں تک کو چقمہ دے دیا ہے اور پٹی پڑھا رکھی، اسی لئے انہیں باخبر کررہے ہیں اور انہیں اپنی زمہ داری کے تئیں بیدار کررہے ہیں کہ آپ ہوشیار رہیں اور عوام کو بھی بتائیں کہ اس بل کے پیچھے کون کون سے نقصانات چھپے ہوئے ہیں اور کس شاطرانہ چال سے بل کو پیش کیا گیا ہے تاکہ وقت آنے پر متحدہ اور جمہوری طریقہ سے پرزور انداز میں اس کی مخالفت کی جائے اور اوقاف کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔

 

سوشلستان کا ایک فرد ہونے کے ناطے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جس توجہ اور باریکی کے ساتھ موصوف محترم نے اس ترمیمی بل کے خد و خال کو سمجھا ہےاور پٹنہ تحفظ اوقاف کانفرنس، بنگلور کرناٹک اور رانچی جھارکھنڈ وغیرہ کے پروگراموں میں دیگر لوگوں کو سمجھا یا ہے اور تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ،پورے ہندوستان میں شاید کہیں سے بھی اس نوعیت کے تفہیمی پروگرام اور وقف ترمیمی بل 2024ء کا تجزیاتی مطالعہ نہیں ہوا ہے، اور نہ اس کالے قانون کے دفعات کے ایک ایک جزؤ پر اس طرح سے روشنی ڈالی گئی ہو کہ خواص تو خواص عوام کے لئے بھی بل قابل فہم ہو جائے اور وہ علی وجہ البصیرت اس کے کالے قانون خلاف ذہنی طور پر از خود تیار رہے، البتہ وقف ترمیمی بل کے تناظر میں تقریروں کا ایک لا متناہی سلسلہ ضرور ہے جو کہ جارہی ہے۔

 

جوش وجذبے کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت سے انکار کی بھلا مجال کس کو ہے اور کرنی بھی نہیں چاہیے مگر اسی کے ساتھ ہم لوگوں کو یہ بات بہت واضح طور پر سمجھنے اور مکمل سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں اگر ہم اپنی قوم و ملت کی بھلائی چاہتے ہیں تو قانونی لڑائی لڑنے اور قانون کے توسط سے اپنے حقوق کے تحفظ اور ان کے حصول کا راستہ اختیار کرنا ہوگا تبھی جاکے حقوق کا حصول ممکن ہو گا، مکمل حصول تو عدالتی نظام کے رویے کو دیکھتے ہوئے مشکل ضرور معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر قانونی راستے پر چلنے سے ہم بھی گریزاں رہے تو یاد رکھیں اس نامکمل حصول سے بھی محروم ہو جائیں گے، جس کی واضح دلیل یہ وقف ترمیمی بل ہے جس میں Cadastral survey کو بنیاد بناکر مزروعہ عام زمینوں کو سرکار پبلک پراپرٹی مان کر ہزاروں قبرستانوں، عید گاہوں اور خانقاہوں کو چشم زدن میں مسلمانوں سے چھین لے گی اور اوقاف کے زمرے سے باہر نکال دے گی۔ اسی لئے اس جمہوری ملک میں اس قانونی زاویے نظر سے ہم کو آگاہ رہنے اور نسل درنسل اس کی تاکید کرتے رہنے کی ضرورت ہے تبھی مسلمان یہاں پر اپنے تشخص اور دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کے ساتھ زندہ رہ پائے گا، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ اپنے شعائر، اسلامی شناخت کو ایک ایک کر فراموش کردے گا اور انجام کار لاقدر اللہ ایمان سے بھی محروم ہو جائے گا۔

 

یہ ایک خوش آئند قدم ہے کہ امیرِ شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم العالیہ نے اس جانب توجہ مرکوز کی ہیں، خدا کرے دیگر مسلم ادارے اور تنظیمیں بھی اس پہلو کو اپنے مشن کا ایک حصہ بنائیں اور لونگ ٹرم کے لئے اس پر کام کریں کہ ایک خاطر خواہ تعداد اس قابل ہوں جائیں کہ وہ قانونی راستہ پر چل کر دستور میں دی گئی ملکی اور مذہبی آزادی کے حقوق کے حصول کو مسلمانوں کے لئے ممکن بنا سکیں۔

 

راقم الحروف کے لئے یہ سعادت کی بات رہے کہ جامعہ رحمانی کے مؤقر استاد مفتی معین قاسمی صاحب نے بحکم امیرِ شریعت دامت برکاتہم العالیہ ، مجھے اس موقع پر یاد فرمایا کہ آؤ میکدہ کھلا ہے ہر چند کہ اذن عام نہیں ہے مگر آپ کی آمد کی خواہش کی اطلاع منتظمین کو دی تھی اجازت مل گئی ہے۔ بہرحال میں کشاں کشاں در یار تک پہنچ گیا، وقت تقریباً رات ساڑھے گیارہ بجے کا تھا اورامیر شریعت اپنی مشاورتی اور منتظمہ کمیٹی سے محو گفتگو تھے، میں سلام و مصافحہ کے بعد آرام گاہ تک پہنچ گیا، وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر کھانا تناول کیا اور چار پائی پر دراز ہو گیا، بعد نماز فجر علی الصباح میزبان طلبہ نے چائے بسکٹ سے ضیافت کی اور کچھ دیر بعد خانقاہ کے دسترخوان پر وارد ہوا اور من پسند ناشتہ کھچڑی اور جلیبی سے محظوظ ہوا اور پھر ورک شاپ میں شامل ہوا جس کو منظم طریقے سے پیش کرنے کے لیے ایک منجھی ہوئی ٹیم اپنے خدمات پیش کررہی تھی اور ہر شخص اپنی ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھا رہا تھا۔

جس میں مرکزی کردار امیرِ شریعت محاضر دامت برکاتہ العالیہ کی تھی وہ قانون کی باریکیوں کو اس انداز سے اجاگر کر رہے تھے کہ لگ رہا تھا کہ ہم کسی ماہر وکیل کے رو برو ہیں، اور کلاس کی پوری توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے والے ایک کامیاب مدرس ہم سے مخاطب ہیں، طریقۂ تفہیم بہت ہی سہل اور آسان، توجہات کو منعطف کرنے اور سامعین کے دھیان کو متعلقہ موضوع سے لگائے رکھنے کا ہنر، قانون کے پر پیچ مواد کو سہل سے سہل ترین بنا کر پیش کرنے کا خداد ملکہ، اور سیکھنے سکھانے کا جذبہ حتی اپنے چھوٹوں سے معلومات کو قبول کرنے کا بے باکانہ اور فراخ دلانہ جذبہ خدا نے وافر مقدار میں ودیعت کر رکھی ہے، اس کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ ورکشاپ کے آخری دن معمول کے مطابق جب سامعین سے آپ گزشتہ روز کے دفعات کے تعلق سے پوچھ رہے تھے، تو باری مجھ تک آن پہنچی اور میں نے Alteration of islamic treminology کا ترجمہ لفظِ تبدیلی کے بجائے اسلامی تعریفات میں تحریفات سے کیا تو حضرت نے علم دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی ٹیم کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھئے یہ ایک اچھا لفظ آیا ہے اس کو نوٹ کریں، اسی طرح اور کئی احباب کی طرف سے کچھ قابل ذکر چیزیں آئیں جن کی حضرت نے تحسین فرمائی اور بطور تعلیم، سامعین سے فرما یا کہ ہم ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں، اور بر سبیل تذکرہ کہوں یا بطور ذرہ نوازی کہ میری تعبیر کا حوالہ بھی دیا۔

ہر چند کہ ان کے آس پاس ذی استعداد لوگوں کی ایک ریسرچ ٹیم موجود ہوتی ہے ،سامعین سے ورکشاپ کو بہتر سے بہتر بنانے پر کھل کر اظہار رائے کرنے کی بار بار اپیل کرتے رہے جو ایک علم دوست آدمی ہی کرسکتا ہے ورنہ تو سوشل میڈیا پر مریدان باوفا اپنے پیران کنج آدا کے اقوال زریں کی تاویل در تاویل میں بلاگ کے بلاگ بھر دیتے ہیں، اور صرف ہم چوں دیگرے نیست کے نشۂ مست میں مدہوش ہو کر سامنے والوں کی دستار و قبا کا وہ حشر کرتے ہیں کہ الامان و الحفیظ!

اس کے علاؤہ بھی بہت سے اعلی اخلاق و اقدار اور بزرگوں کی روایات جو یقیناً انہیں ورثہ میں ملی ہیں وہ دیکھنے اور برتنے سے ہی تعلق رکھتی ہیں، البتہ یہاں پر دعوتِ طعام اور ضیافت مہمانان کا ذکر ضروری ہے، اس کا اختصار یہ ہے میں نے اپنے ایک ساتھی جو کہ جامعہ رحمانی کے مؤقر استاد ہیں مفتی جاوید اقبال صاحب قاسمی سے برجستہ کہہ دیا کہ آپ کوئی زحمت نہ اٹھائیں میں یہاں شاہی دسترخوان کا مہمان ہوں، یقین جانئے اچھے خاصے ریسٹورنٹ میں پُرتکلف عشائیہ و غدائیہ کی دعوتیں اڑا رکھیں ہیں مگر خانقاہ کے پچھمی برآمدے کے فرش پر بیٹھ کر میزبان کی موجودگی میں، طلبہ واساتذہ کی محبت اور اپنائیت کے چھاؤ میں لذت کام و دہن اور رحمانی دسترخوان کی زلہ ربائی کے وہ ناقابل فراموش لمحات کچھ اور ہی تھے، جن کے تعلق سے دیگر واردانِ جامعہ رحمانی کی طرح میرے خیالات کے اسکرین پر بے ساختہ یہ جملہ ابھر نے لگتا ہے کہ "ان کے خوان کرم کا کیا کہنا”

بہر حال، ورکشاپ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر خانقاہ سے میرا پشتینی اور دیرینہ تعلق میرے سفر کے لئے مہمیز ثابت ہوا اور ایک تیر دو شکار کی آفاقیت پر ایک بار پھر سے تجدید یقین ہوا۔

 

پشتینی تعلق کا سلسلہ کچھ یوں ہے کہ امیرِ شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی رحمہ اللہ ہمارے نانا جان حضرت مولانا سلطان علیہ الرحمہ والرضوان کے دار العلوم دیوبند میں ہمعصر ہوا کرتے تھے، جب مولانا منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ معمول کے مطابق سفر تبلیغ پر نکلے اور حضرت کی بیل گاڑی نانا جان دروازے سے گذرنے لگی تو سلام و دعا کے بعد، یارانہ انداز میں: منت اللہ تم نے بھی یہ پیر مریدی کا سلسلہ شروع کردیا اور یہ بے تکلفی بھی کیوں نہ ہوتی؛ کیوں کہ آفاقی بے تکلفی کی سند بیوی کے بعد آدمی کے ساتھیوں کے پاس ہی ہوتی ہے اور اس بے تکلفی میں جو مزہ ہے وہ الگ ہی لیو اور سطح کا ہوتا ہے، اور نانا جان خود شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کے شاگرد تھے، تفقہ فی الدین اور زبان وادب میں مہارت کے ساتھ علم اور اہل علم سے لگاؤ بھی رکھتے تھے، جس کے صدقے میں خدا نے یوں نوازا کہ ان کے پوتے اور نواسوں کی کل تعداد جو تقریباً چوبیس/ پچیس ہے ان میں سے سبھی کو بفضل اللہ وکرمہ حفظ قرآن کی سعادت حاصل ہے، اور فضلاء کی اکثریت دارالعلوم دیوبند سے تعلیم یافتہ ہے، اور کچھ نے امارت شرعیہ پٹنہ سے قضاء کی تعلیم بھی حاصل کی ہیں، یقیناً یہ نانا جان کے حق میں بہت بڑا صدقہ جاریہ ہے جو ان کی آہ نیم شبی دعائے سحر گاہی کا ثمرہ ہے۔

 

اسی طرح مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ کا بھی سفر بیعت و تبلیغ ہوا کرتا تھا ہمارے علاقے میں اور سن شعور میں غالباً آپ پہلے زندہ بزرگ تھے جن کے دیدار سے میں مشرف ہوا اور مصافحہ کی سعادت حاصل کی اس سے قبل تو والدہ مرحومہ بزرگوں کے واقعات اور ان کے کرامات کا تذکرہ کیا کرتی تھیں جس سے طبعی طور پر دیدار کی خواہش تو تھی ہی اور حضرت علیہ الرحمہ کی آمد پر اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کا وقت ہو چلا تھا جس کے لئے ہماری بچہ پارٹی اپنے گاؤں سے قریبی گاؤں پہنچ گئی، رات کو مجلس وعظ و نصیحت میں ہم لوگ بیٹھے اور حضرت کا دیدار ہوا پھر صبح کو دوسری بستی کا سفر تھا اور درمیان میں ہماری بستی پڑتی تھی اور رات کی باتوں کی انجانی کشش انجانی اس لئے کہ نہ تو میری مادری زبان اردو ہے اور نہ ہی اس وقت گھر میں اس کا چلن تھا کہ حضرت علیہ الرحمہ کی ادرو سمجھ میں آتی، اور میں اپنی عمر کے تقریباً آٹھویں یا نویں بہار سے گزر رہا تھا، بہرحال رات کی باتوں کی کشش، اور چونکہ میرے ہی گاؤں سے حضرت علیہ الرحمہ کی گاڑی کو گزرنی تھی جس کی بناءپر والدہ کی اجازت مل گئی اور اس طرح سے ایک بار پھر ہماری بچہ پارٹی استقبال کے لئے گاؤں سے دور ندی کے کنارے راستے پر صف بستہ کھڑی ہو گئی اور حضرت کی آمد پر سلام در سلام ہی سے استقبال کرتی رہی اور پارٹی کا ہر ممبر صرف اس تاک میں تھا کہ مصافحہ کی سعادت حاصل ہو جائے جس کی فکر میں گاڑی کے پیچھے دیوانہ وار بھاگنے لگے اور قدرت نے ہمارا انتظام بھی کر رکھا تھا کہ آگے ایک کھائی تھی جس کے پاس سے کئی کئی لوگ مل کر اپنی گاڑیوں کو سہارا دیکر نکالتے تھے جس کے لئے حضرت کو گاڑی سے نیچے اتر نا پڑا اور ہماری سعادت کا حصول بھی ممکن ہوا۔ اور اس موقع سے ایک منظر کا تذکرہ جو ہمارے لوگوں کے درمیان کافی دنوں چرچہ میں رہا وہ یہ تھا کہ جہاں سے کئی کئی لوگ سہارا دیکر گاڑی نکالتے تھے وہاں حضرت نے ڈرائیور سے کہا گاڑی سنبھالوں اور وہ خود سہارا دیکر گاڑی کو نکال لے گئے جس سے لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی، اور ہوتی بھی کیوں نہ کہ ہم دیہات والے ” من كان لله كان الله له” کے اسرار و رموز سے واقف تو تھے نہیں۔

 

اور اس سے بھی بڑا سانحہ جو مجھ غریب کے ساتھ پیش آیا تھا وہ یہ ہے کہ جب اکابرین سے مصافحہ کی روداد والدہ کو لہک لہک کر فاتحانہ انداز میں سناہی رہا تھا کہ "سر مونڈتے ہی اولے پڑگئے” یعنی ان کے ہاتھ میں آلۂ تنظیف تھا وہ دو تین مرتبہ ہمارے جسم نحیف پر برس گیا امید تو حوصلہ افزائی کی تھی اور یہاں "لینے کے دینے پڑ گئے” اور ان دو تین تبرکات کی تعلیل کچھ یوں بیان ہوئی کہ اس ہاف بنیان اور نصف پائجامہ میں بزرگوں سے ملاقات، ان کے خیال سے غلط تھا اور خلاف ادب بھی، اب ظاہر سی بات ہے جس مقام کی نسبت سے زندگی کا اتنا بڑا سانحہ منسوب ہو، یا ممکن ہو تو طریقہ تربیت کہہ لیں جڑا ہوا ہو اس کے دیدار کو تو نین ترسین گے ہی نا۔

 

یہ والہانہ تعلق اور اس کا اظہار یقینا الحب في اللہ کے نقطہء نظر سے نہ کہ

"Success has many fathers, but failure is an orphan”

یعنی :

جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے

ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے

 

کے زاویہ نگاہ سے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ انتخاب امیر کے وقت ہمارے گھرانے کے دیگر افراد کی طرح میرے بھی ذاتی تحفظات اور خدشات تھے اور امارت کے ایک فرد ہونے کے ناطے دیگر افراد کی طرح میرا بھی یہ شخصی اور ذاتی حق ہے کہ اس کی ترقی اور کامیابی کے متعلق اپنی رائے قائم کروں اور اپنے زاویۂ نگاہ سے اس کی بھلائی کی فکر کروں، اور ویسے بھی اختلاف رائے سے کسی بھی کامیاب نظام کی خوبصورتی سامنے آتی ہے، اور زندہ قوموں کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے، اختلاف رائے ایک فن سے جو مع دلیل ہوتا اور مہذب پیرائے میں کیا جاتا ہے جس کے لئے علم کی روشنی کی ضرورت پڑتی ہے، باقی رہی بات مخالفت کی تو پھر اس کے لئے جہالت ہی کافی ہوتی ہے کیونکہ اس میں تو "مرغے کی ایک ٹانگ” ہی کی رٹ لگا نی رہتی ہے اور بس۔

اور اختلاف مع دلیل اس لئے بہتر ہے کہ اسکے ذریعہ معاملہ کا بہتر سے بہتر اور خوبصورت پہلو سامنے نکھرکر آتا ہے کہ

 

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن

اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

 

لیکن اختلاف کی ایسی تشریح جس میں "حب علی رض کا مطلب امیر معاویہ رض کو گالی دنیا ہو ” اس کے کبھی بھی روادار نہیں ہوا جاسکتا، خدا ہم سب کو اس مصیبت سے دور رکھے!

بہر حال بہت سے لوگوں کی طرح میرا بھی خیال تھا کہ ایک شخص جو امارت کے امور سے ظاہراً میلوں دور سات سمندر پار بیٹھا ہے کس طرح سے اس کی گتھیاں ان کے ہاتھوں سلجھے گی اور اکابرین نے جس ملی و قومی تنظیم کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے کس طرح سے اس کی بہتر آب یاری ہو پائے گی وغیرہ۔

 

لیکن تکمیل انتخاب کے بعد سماعا وطاعہ کی راہ اپناتے ہوئے امیر کے لئے دعائے خیر کے ساتھ خاموشی سے میں بھی دیگر افراد کی طرح observe کرتا رہا، بفضل اللہ، امیر شریعت سید احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہ العالیہ کا بڑوں کے ساتھ عاجزانہ ومتواضعانہ برتاؤ، چھوٹوں سے شفقت، علم دوستی، صلاحیت کی قدردانی، اور قوم و ملت کے لئے کچھ کر گزر جانے کا عزم، خلوصِ نیت ( ویسے تو دلوں کے بھیدوں اور راز ہائے سر بستہ سے صرف خدا ہی کی ذات واقف اور باخبر ہے ” إن الله عليم بذا ت الصدور” لیکن ظاہری احوال ہی باطنی احوال کی غمازی کرتے ہیں اور ہم محدود علم والے حضرت انسان اسی ظاہری احوال کے مکلف بھی ہیں، ہوا یوں کہ اخیر دن پروگرام کے اختتام پر دعا کے بعد کسی صاحب نے درخواست کی کہ حضرت کوئی مختصر نصیحت فرمادیں اپ نے مائک ہاتھ میں لیا اور اللہ کے نبی کے اوصاف ”الصادق الامين“ پڑھ کر خاموش ہو گئے اور پھر بھرائی ہوئی آواز اور نم دیدہ ہو کر فرمایا کہ ہم لوگ ان اوصاف سے خالی ہوگئے، اللہ سب پہلے مجھے اور آپ سبھی کو ان اوصاف کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے کیوں اس کے بغیر کچھ نہیں ہوتا اور نہ اس کا اعتبار ہوتا ہے اور نصیحت مکمل ہوگئی اور حضرت کے ساتھ ساتھ بہت سے سامعین کی آنکھیں بھی بھر آئیں)،خصوصاً تعلیمی میدان میں ان کی دلچسپی (آخری دن جب روایتی دال روٹی کی دعوت سے ہم لوگ محظوظ ہورہے تھے اسی دوران حضرت نے تعلیمی مقابلہ جات اور نسل نو کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے گراں قدر انعامات وغیرہ، اور پھر محنتی طلبہ کے لئے ملک و بیرون ملک مختلف مشہور یونیورسٹیوں میں ان کا داخلہ وغیرہ پر تبادلہ خیال فرما رہے تھے، خدا کرے اس پروجیکٹ پر عمل درآمد کرنے کے اسباب مہیا ہو جائیں، اور امیر شریعت دامت برکاتہم العالیہ کو ان کار خیر کو بہتر سے بہتر طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے)، اس کے علاؤہ دیگر ملی کاموں کو بھی وہ جس منظم طریقے سے انجام دیے رہےہیں اور خصوصاً وقف ترمیمی بل کو لیکر جس بیدار مغزی ثبوت دیا ہے اور قیادت کی ذمہ داری کو نبھایا ہے اور جے پی سی کے ممبران کے سامنے جس مضبوط قانونی زاویے سے وہ پورے مسلمانوں کی نمائندگی میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں، وہ قابل رشک ہے، خدا ان کے سایہ عاطفت کو تادیر قائم و دائم رکھے ان کی ذات کو ملت اسلامیہ کے لئے مفید بنائے، اخلاص کے ساتھ عمل کر نے کرنے توفیق عطا فرمائے اور راہِ حق پر قائم رکھے! آمین یارب العالمین۔

 

یہ کچھ میرے دل کے بے ربط وارداتھے جو تاثرات کے راستے صفحہ قرطاس یہ اتر آئے ہیں کوئی لغزش نظر آئے تو چشم درگزر سے کام لیں، ممکن ہو تو تصحیح فرما کر ممنون و مشکور ہوں۔

 

Comments are closed.