شکوہ ہند” پر بک ٹاک: مانو میں مسلمانوں کے سیاسی مستقبل پر گفتگو

 

حیدرآباد: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) کے شعبہ سماجیات کی جانب سے منعقدہ ایک بک ٹاک میں پروفیسر مجیب الرحمن نے اپنی کتاب شکوہ ہند پر گفتگو کی۔ یہ پروگرام ریسرچ اسکالرز کولیکیوم کے تحت منعقد کیا گیا تھا، جس میں بھارت میں مسلمانوں کو درپیش سیاسی اور سماجی چیلنجز کے تناظر میں انکے سیاسی مستقبل پر روشنی ڈالی گئی۔

پروفیسر مجیب الرحمن، جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سنٹر فار سوشل انکلوژن سے وابستہ ہیں، نے کہا کہ جو کمیونٹیز ٹیکس ادا کرتی ہیں، انہیں سیاسی نمائندگی کا حق حاصل ہے، اور اس حق کی نفی نوآبادیاتی رویے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو سیاسی نظام سے باہر رکھنے کا عمل ایک وسیع "غیر اسلامیانے یعنی ڈ ی اسلميزیشن کے عمل کا حصہ ہے۔ یہ عمل نہ صرف مسلمانوں کو سیاسی طور پر الگ تھلگ کر رہا ہے بلکہ ان کی شناخت پر بھی سوالیہ نشان لگا رہا ہے، جس سے وہ اپنے مذہبی اور ثقافتی وجود سے خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہندو اکثریتی نظریات کے بڑھتے ہوئے اثرات اور سیکولر سیاسی جماعتوں کی مسلمانوں سے دوری نے کمیونٹی کو مزید سیاسی تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پروفیسر مجیب الرحمن نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرز عمل نے بھارت کے جمہوری اور کثرت پسندانہ فریم ورک کو کمزور کیا ہے۔

تاریخی تناظر پیش کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ 1920 کی دہائی میں ہندو قوم پرستی کے نظریات نے بھارتی سیاست کو متاثر کرنا شروع کیا، جن کا مقصد مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنا اور بھارت کو ایک ہندو ریاست کے طور پر پیش کرنا تھا۔ آج کے وقت میں یہ نظریات سیاست اور سماج پر اس حد تک اثر انداز ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی ثقافتی اور مذہبی زندگی مسلسل جانچ پڑتال کی زد میں ہے۔

پروفیسر مجیب الرحمن نے گاندھیائی اصولوں پر زور دیا کہ تعاون اور مزاحمت دونوں ضروری ہیں تاکہ ایک حقیقی جمہوری اور شمولیاتی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ انہوں نے تعلیمی پلیٹ فارمز کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی جہاں ایسے مسائل پر کھل کر بات ہو سکے۔

اس پروگرام کی نظامت شعبہ سماجیات کے صدر ڈاکٹر کے ایم ضیاءالدین نے کی، جس میں مختلف شعبوں کے اساتذہ، محققین اور طلباء نے شرکت کی۔ اختتام پر ڈاکٹر ہلال احمد نے شکریہ ادا کیا۔

Comments are closed.