جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی
روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ ہم مولانا حمید الدین فراہی ؒ کےحوالے سے ’’پھریہا‘‘سے واقفیت رکھتے تھے۔میرے درسی ساتھی شمیم فراہی جنہیں جناتوں سے خاص انسیت تھی وہ کمرے کے بھی ساتھی تھے اس لئے ’’پھریہا‘‘کے کھیت کھلیان بھی دیکھے بھالے تھے۔کہا جاتا ہے کہ فراہی کالاحقہ افغانستان کے صوبے فراہ کی وجہ سے لگایاجاتا تھاجہاں کی مشہور برادری’’ ملا برادری‘‘ کہلاتی تھی ۔چونکہ فراہ سے ایک قافلہ اعظم گڑھ آ کر آباد ہوگیا تھا جس نے اپنے موضع کا نام فراہ رکھا تھا جوبعد میں فریہہ کہلانے لگااورپھر یہ نام اس قدر بگڑا کہ پھریہا ہو گیا ۔ کہتے ہیں کہ عمر فراہی کا خاندانی پس منظر بھی وہی ’’ملا برادری‘‘ ہے جس کے بیشتر لوگ اب دوسری جگہوں پر نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن اب بھی ان کے باقیات موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ’’ ملا برادری‘‘ یہاں آباد تھی ۔دراصل پھریہا میں واقع قبرستان کی ایک جگہ’’ ملا صدی ‘‘سے موسوم ہے جو دراصل’’ ملا صدیق ‘‘کا بگڑا ہوا نام ہے ۔یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ ’’ملا صدیق‘‘ ملا خاندان کی ہی ایک بزرگ شخصیت تھی جنہوں نے مذکورہ جگہ وقف کی تھی۔تاریخی اعتبار سے اس میں کتنی صداقت ہےمجھے اس کا تو علم نہیں لیکن جب میںممبئی آیا تو جناب عمر فراہی سے وہ ملاقات یاد ہے جب پہلی بار انہوں نے’’ ماہنامہ رہنمائے والدین‘‘ کے لئے اپنا دست تعاون دراز کیا تھا۔ میں ان دنوں بھنڈی بازار مغل مسجد(مسجد ایرانیان) سےمتصل خیر امت ٹرسٹ کی آفس میں قیام پذیر تھااور ’’ماہنامہ رہنمائے والدین ‘‘کی ادارت سنبھالے ہوئے تھا ۔ایک روز عمر فراہی آئے اور مجھے پاس کے ہوٹل ’’کیفے کوثر‘‘لےگئے۔رہنمائے والدین کے دس شماروں کی ذمہ داری قبول کی اور اپنے حلقہ اثر میں اسے تقسیم کرنے لگے۔ـرہنمائے والدین جب پانچ ہزار سے زائد گھروں کی زینت بننے لگا تو مالکان نے مجھ سےنظریں پھیر لیں اور پھر ’’صحیفہ والدین‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے ایک رکن عمر فراہی بھی تھے۔ ’’صحیفہ والدین ‘‘پر بھی عمر فراہی کے ہزاروں روپئے قربان ہوگئے ـ۔لیکن کم از کم یہ فائدہ ہوا کہ انہوں نےصحافت کے شہیدوں میں اپنانام ضروررقم کروالیا۔
شریف الطبع،شریف المزاج،سادگی پسند عمر فراہی اب ممبئی میں اپنی علحدہ شناخت رکھتے ہیں اور ایک خاص حلقہ انہیں اپنا فکری رہنما تسلیم کرتا ہے۔ـممبئی کے اندھیری میں موٹرپارٹس کاکارخانہ چلانے والے میکنیکل انجینئر کو آخر صحافت کی لت کیسے پڑی اس ضمن میں وہ کہتے ہیں کہ ’’اعظم گڈھ جائے پیدائش ہے جو علم و فکرکا گہوارہ کہلاتا ہے 1967میں جب میں نے آنکھیں کھولیں تو نانا جان منیر احمد جو علامہ حمید الدین فراہی ؒ کے دور میں مدرسۃ الاصلاح میں طالب علم تھے، علم و فکر سےمجھے آراستہ کرنے لگے ،بالآخر بیناپارہ انٹر کالج(اعظم گڈھ)سے 1984میںہائی اسکول مکمل کیا اور ممبئی کے مہاراشٹر کالج میں داخل ہوگیا۔بچپن میں ہی افسانہ اور شعر گوئی کا ذوق تھا جو ممبئی آکر مزید پروان چڑھا لیکن جب والد محترم نے یہ کہہ کر کہ میں تمہیں انجینئر بنانا چاہتا ہوں اور یہ ’’دیوانوں کا شوق‘‘ چھوڑو تو میں نے اپنی16 یا 17غزلیں پھاڑ دیں اور تعلیم کے لئے یکسو ہوگیا۔مہاراشٹر کالج سے انٹرمیڈیٹ کرنےکے بعد میں نے انجمن کالج بھٹکل ،کرناٹک سے میکنیکل انجینئرنگ مکمل کی اور پھر ممبئی میں اپنا کسٹمائزڈ پارٹس بنانے کا کارخانہ کھول کر بیٹھ گیا۔ شب و روز بسر ہوتے لیکن دل میں کچھ لکھنے پڑھنے کی کسک رہتی، آخر جب دوست احباب کی محفل منعقد ہونے لگی تو کبھی کبھی میں نے بھی اپنا کلام سناناشروع کیا۔ دوستوں کو حیرت اس بات پر تھی کہ ایک انجینئر آخر شاعر کیسے بن گیا ؟لہذا ایک روز انہوں نے مجھے آزمانے کے لئے بشیر بدر کا طرحی مصرعہ دیا کہ ’’وہ اشک بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے‘‘۔ میں نے جب غزل مکمل کی تو اسے شوکت علیگ کے’’ زاد سفر‘‘کے حوالے کردیاجہاں بڑے اہتمام سے اسے شائع کیا گیا ۔میرے ایک دوست جو ’’زاد سفر‘‘سے وابستہ تھے انہوں نے بڑی پذیرائی کی اور ’’زاد سفر‘‘کے لئے مسلسل لکھنے کی فرمائش کی۔وہ تشنگی جو سوہان روح بنتی جارہی تھی اسے سیرابی کی صورت میسر آگئی تھی کہ اسی اثنا محترم عالم نقوی نے فون کیا اور زاد سفر کے حوالے سے میرے مضامین کی تعریف کی اورپھر اردو ٹائمز تخت مشق قرار پایا۔‘‘
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عمر فراہی اب میکنیکل انجینئر سے زیادہ شاعر و صحافی ہیں۔چونکہ شعر و صحافت وجہ روزگار نہیں اس لئے ’’اردو خور‘‘انہیں لائق خاطر نہیں سمجھتے، گوکہ’’ اردو خوروں‘‘ کے حلقے میں بھی عمر فراہی موضوع بحث رہتے ہیں لیکن اپنے فکر و خیالات کی وجہ سےاس لئے نہیں بلائے جاتے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ کہہ جائیں جو لوگوں کی سماعت پر گراں گذرے۔ ویسے وہ بھی اس مزاج کو خوب سمجھتے ہیں اسی لیے کہتے ہیں
لطف پینے میں رہا اورنہ میخانے میں
اب وہ تاثیر نشے میں ہے نہ پیمانے میں
خوبصورت جسے اک موڑ دیا تھا میںنے
میرا ہی ذکر نہیں اب اسی افسانےمیں
عمر فراہی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ نئی نسل کی بہترآبیاری چاہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ذاتی طور پر بھی نوجوانوں کی پذیرائی کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو مہمیز دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو انہیں پڑھتی ہے اور پڑھنا چاہتی ہے۔ بحیثیت انسان وہ بھی جب کسی کے نشانے پر آتے ہیں تو پھر ان کی زبان بھی شکوہ کناں ہوتی ہے اور وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ
میں اک غزل کوئی ایسی ضرور لکھوں گا
ہر ایک مصرعے میں تیرا قصور لکھوں گا
فریب ، مکر ، تصنع ، دغا ، ریاکاری
میں گن کے سارے تمہارے فتور لکھوں گا
فنی اعتبار سے شعر و صحافت میں عمر فراہی کا کیا مقام ہے وہ تو آنے والا وقت طے کرے گا لیکن سماجی اعتبار سے عمر فراہی نہ صرف علم دوست ہیں بلکہ درد مند دل بھی رکھتے ہیں۔ان کے خیالات پہلے اردو ٹائمز،ممبئی اردو نیوز وغیرہ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے لیکن اب سوشل میڈیا کے ذریعہ وہ قارئین تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیںجس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اب ملک و بیرون ملک کے اخبارات بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا سے ان کے مضامین لے کر اپنے اخبارات میں شائع کرتے ہیں۔
Comments are closed.