مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 وقف اراضیات کی حفاظت کرنے کے بجائے انہیں برباد کر دے گا

آل انڈیا ملی کونسل بہار کے نمائندوں نے جے پی سی کے سامنے اپنا موقف رکھتے ہوئے بل کو پوری طرح مسترد کیا
پٹنہ :
مورخہ 18 جنوری کو وقف ترمیمی بل 2024 پر بنی جوائنٹ پارلیامنٹ کمیٹی نے کمیٹی کے چیئر مین جگدمبیکا پال کی قیادت میں بہار کے اسٹیک ہولڈرس سے ہوٹل تاج پٹنہ میں ملاقات کر کے ان کی باتیں سنیں ۔ بہار کی تقریباً سبھی معروف ملی ،سماجی تنظیموں ، اداروں ، خانقاہوں اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ سوشل ورکرز ، سیاسٹی پارٹیوں کے نمائندوں اور میڈیا کے لوگوں نے جے پی سی کے سامنے کھل کر اپنا موقف رکھا۔ آل انڈیا ملی کونسل بہار کی طرف سے مولانا مفتی محمد نافع عارفی جنرل سکریٹری ملی کونسل بہار، مولانا محمد ابو الکلام شمسی جوائنٹ جنرل سکریٹری ملی کونسل بہار، مولانا مفتی جمال الدین قاسمی اور مولانا محمد عادل فریدی پر مشتمل وفد نے اس میٹنگ میں شرکت کی اور ملی کونسل کا موقف کمیٹی کے سامنے رکھا ۔ ساتھ ہی وقف ایکٹ 1995 اور وقف ترمیمی بل 2024 کا تقابل کرتے ہوئے نئے بل سےوقف اراضیات پر پڑنے والے منفی اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے ایک تفصیلی میمورنڈم بھی چیئر مین جے پی سی کے حوالہ کیا۔ملی کونسل کے وفد نے اس بات پر زورد یا کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 وقف اراضیات کی حفاظت کرنے کے بجائے انہیں برباد کر دے گا، وفد کے مطابق پیش کردہ وقف ترمیمی بل 2024 میں وقف ایکٹ 1995 میں ایسی ترامیم تجویز کی گئی ہیں جو اس بل کو وقف جائیدادوں کی حفاظت کے بجائے ان پر قبضہ جمانے والوں کے لیے راستہ کھول دیں گی۔ ملی کونسل کےمیمورنڈم میں خاص طور پر مندرجہ ذیل نکات اٹھائے گئے
• وقف نہ صرف دینی کاموں کے لیے بلکہ عام لوگوں کی خدمت کے لیے بھی ہوتا ہے۔ یہ ایک اسلامی اور مذہبی روایت ہے جس میں کوئی شخص اپنی جائیداد کو دینی یا سماجی کاموں کے لیے وقف کرتا ہے۔ وقف کا مقصد صرف دینی کاموں کے لیے نہیں ہے بلکہ عام لوگوں کی خدمت اور فلاح کے لیے بھی ہے۔ تاہم اسے اسلام میں عبادت کا درجہ دیا گیا ہے اور زیادہ تر دینی کام اس سے متعلق ہیں جیسے مسجد، قبرستان، مدرسہ، خانقاہ، امامبارہ وغیرہ۔ اس لیے وقف کے بارے میں کوئی بھی ضابطہ بناتے وقت شریعت اسلامی کے ضابطوں اور اصولوں کو سامنے رکھنا ہو گا۔ وقف کے قانون میں شریعت سے معارض کوئی بھی امر مسلمانوں کے لیے قطعی طور پر ناقابل قبول ہو گا۔
• نئے بل میں وقف کرنے والے کے لیے پانچ سال تک مسلمان ہونے کی شرط لگائی گئی ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ جب کوئی شخص اسلام میں داخل ہوتا ہے تو فوراً اس کے ذریعے کیے گئے تمام دینی اور فلاحی کام جائز موثر ہیں (اگر وہ بالغ ہو)۔ اس لیے وقف کرنے کے لیے پانچ سال کی قید لگانا نہ تو دینی طور پر صحیح ہے اور نہ ہی آئینی طور پر۔ اس لیے کہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کے لیے ایسا کوئی قاعدہ نہیں کہ کسی مخصوص دینی کام کے لیے پانچ سال تک اس مذہب کا پیروکار بننا ضروری ہو، تو مسلمانوں کے لیے ایسی قید کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
• اسی طرح 1995 کے وقف ایکٹ اور 2013 کی ترمیم میں ٹریبونل کو وقف کے تنازعات کو حل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جس سے ملک بھر میں ہزاروں تنازعات حل ہوئے ہیں۔ وقف بورڈ اور ٹریبونل کے اختیارات کو کم کر کے کلکٹر کو دینے سے تنازعات کے حل ہونے کے بجائے مزید تنازعات پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ کیونکہ کلکٹر خود حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں کسی بھی جائیداد کے تنازعہ میں وہ بھی ایک فریق بن جائے گا، ایسی حالت میں وہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟ یہ دنیا کا طے شدہ قانون ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے مقدمے کا خود جج نہیں بن سکتا، لہٰذا یہ بل اس اصول کے خلاف ہے۔
• نئے تجویز کردہ بل میں غیر مسلم افراد کو مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں شامل کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ امتیازی ہے کیونکہ ہندو مذہبی ٹرسٹ کے لیے جو قانون ہے جو کہ کیرالہ، کرناٹک، تریپورہ، یوپی وغیرہ میں نافذ ہے، اس میں صرف ہندو سناتنی ہی ممبر بن سکتے ہیں۔ اس لیے مسلم اداروں میں ہندو ممبر کی شرط غیر قانونی اور امتیازی ہے، اس لیے اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ حکومت دو مذاہب کے لوگوں کے لیے دو مختلف قوانین کیسے بنا سکتی ہے؟
• وقف بورڈ کو جو اختیارات 1995 کے وقف ایکٹ میں دیے گئے ہیں، انہیں جوں کا توں برقرار رکھا جانا چاہیے۔ بورڈ کے اختیارات میں کمی یا اسے ختم کرنے سے وقف جائیدادوں کے انتظام میں مسائل پیدا ہوں گے اور اس سے وقف کی جائیدادوں کا نقصان ہوگا۔
اس کے علاوہ آئینی دفعات سے کہاں کہاں تعارض ہو رہا ہے ، اور کن بنیادی حقوق کو سلب کیا جا رہا ہے ، ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، جے پی سی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو حکومت کے سامنے رکھیں اور حکومت کو اس بل کے نفاذسے روکیں اور انہیں مشورہ دیں کہ وہ ایسا غیر دانشمندانہ فیصلہ کر کے نئے تنازعات کو جنم نہ دے۔
Comments are closed.